محمد ہاشم میمن تجھ جیسا کہاں سے لائیں آخری حصہ

آغاز میں 1200 کرپٹ لوگوں کی فہرست بنائی گئی تھی

آغاز میں 1200 کرپٹ لوگوں کی فہرست بنائی گئی تھی مگر بعد میں 100 مزید افسران کی لسٹ سندھ سے شامل کی گئی، جسے اس وقت پیپلز پارٹی کی ایک بڑی شخصیت نے تیار کیا تھا جو ذاتی پسند و ناپسند پر مشتمل تھی کیونکہ زمیندار اور سردار جب اقتدار میں آتے ہیں تو وہ اپنا بدلہ اسی طرح سے چکاتے ہیں۔ جب اس بات کا پتہ بھٹو صاحب کو چلا کہ محمد ہاشم میمن تو ایک ایماندار اور فرض شناس افسر ہے تو پھر ان کو 17 مہینے کے بعد بحال کیا گیا۔

جب وہ ڈی سی حیدرآباد تھے تو انھوں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ایک کمپیوٹر سینٹر قائم کروایا۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ایک لڑکا ایسا ہے جو بوٹ پالش کرتا ہے اور تعلیم بھی حاصل کرتا ہے تو اسے بلوا کر کہا کہ وہ اب بوٹ پالش کرنا بند کر دے کیونکہ اس کی تعلیم کا ذمہ اب وہ اٹھا رہے ہیں۔

اس کے نتیجے میں وہ طالب علم اس وقت بہت بڑا آدمی بن چکا ہے اور وہ ہاشم صاحب کو دعائیں دیتا ہے اور ان کی تقلید کرتے ہوئے دوسروں کو پڑھنے میں مالی مدد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جہاں بھی سروس کرتے تھے وہاں پر کسی بھی فصل پر کچھ fees لگاتے تھے جو 5 یا پھر دس پیسے فی من کے حساب سے ہوتی تھی اور اس رقم سے وہ غریب بچوں کے لیے کتابیں، غریب مریضوں کے لیے مہنگی ادویات خرید کر مہیا کرتے تھے۔ گاؤں میں فری آئی اور میڈیکل کیمپس لگواتے اور ضلع انتظامیہ کی طرف سے گاڑیاں بھی دیتے تھے۔ جب وہ میرپورخاص میں تھے تو انھوں نے آزادی سے پہلے جو ریونیو ریکارڈ تھا، جس میں سندھ کے نقشے اور دوسری اہم دستاویزات تھے انھیں سندھیالوجی ڈپارٹمنٹ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں محفوظ کروایا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ سرکاری اہم دستاویزات کئی ریونیو افسران نے ردی میں بیچ ڈالنی ہیں۔

کہتے ہیں کہ کبھی کبھی اچھائی انسان کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ جب وہ کمشنر سکھر بنے تو اپنی عادت کے مطابق اپنے دفتر کے دروازے ہر ایک کے لیے کھول دیے۔ ایک دن وہ اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے ان پر فائر کر دیا مگر پکڑا گیا، ہاشم صاحب کو سکھر کے ایک اسپتال میں لے جایا گیا جہاں ان کا آپریشن کر کے گولی نکال دی گئی اور وہ بچ گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ گولی مارنے والا شخص ان ڈاکوؤں میں سے ایک تھا، جنھوں نے ہاشم میمن کے بھائی کو اغوا کیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ اگر وہ اسے مار دیں گے تو پھر مغوی کے پیچھے سفارش آنا بند ہو جائے گی۔


جو افسر کرپٹ تھے اور عوام کو فائدہ نہیں دینا چاہتے تھے وہ ان کے دشمن بن جاتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں ہاشم کی ایمانداری کی وجہ سے انھیں ذلیل ہونا پڑتا ہے اور وہ ہمیشہ یہ سازش کرتے رہے کہ وہ کوئی بھی اعزاز یا تمغہ حاصل نہ کر سکیں۔ چلیں وہ سرکاری اعزازات تو حاصل نہیں کر سکے مگر عوام کی بڑی محبت اور عزت ان کے حصے میں آئی جو بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ جب وہ کوٹری بیراج میں تھے تو انھوں نے غریب ہاریوں میں بلاامتیاز ساڑھے تین لاکھ ایکڑ زمین تقسیم کروائی جو ایک بڑا ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ لاڑکانہ ڈسٹرکٹ ہسٹاریکل (Historical) سوسائٹی کا قیام بھی ایک بڑا کارنامہ ہے جس پلیٹ فارم سے کئی کتابیں شایع ہو چکی ہیں اور کئی سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کروائی گئی ہیں۔

وہ کئی سیاستدانوں کے غصے اور بیوروکریٹس کے حسد کا نشانہ بنتے رہے جس کی وجہ سے ان کو ایمانداری، انصاف اور فرض شناسی کو نبھانے کے لیے دلیری اور جرأت سے کام لینا پڑا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو دو سال کے کنٹریکٹ پر رکھا گیا۔ اس کے بعد انھیں 5 سال کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن میں ممبر کے طور پر خاص طور پر وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق کی سفارش پر رکھا گیا مگر جیسے ہی پی پی پی کی حکومت آئی تو آصف زرداری نے کہا کہ جو لوگ بھی جام صادق کی سفارش پر تعینات ہوئے ہیں انھیں فوری ہٹایا جائے اور ان کو فارغ کر دیا گیا۔

وہ جب ڈائریکٹر فوڈ تھے تو ان کو 1300 کرپٹ لوگوں کی لسٹ میں غلطی اور ایمانداری کی وجہ سے Dismiss کیا گیا اور اپیل کرنے کے حق کو بھی کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ وہ ریلیف کمشنر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ انھوں نے 3-12-1987 میں SAZDA کے ڈائریکٹر کی پوسٹ سے ریٹائر کیا گیا۔ وہ OSD ٹو سی ایم بھی رہے۔

محمد ہاشم میمن گوٹھ فتح پور ضلع نواب شاہ میں 4-12-1927 کو پیدا ہوئے اور 21-10-1998 میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انھوں نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی، میٹرک ڈی سی ہائی اسکول نواب شاہ، بمبئی بورڈ سے پاس کیا۔ اس کے بعد بی اے کی ڈگری سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی سے حاصل کی اور ایل ایل بی ایس ایم کالج کراچی سے پاس کیا۔ وہ 1954ء میں ریونیو محکمے میں مختار کار کے عہدے پر فائز ہوئے اور وہاں سے ترقی کرتے کرتے 20ویں گریڈ میں پہنچے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی میں صرف عزت، ایمانداری، انصاف، فرض شناسی کے اعزازات عوام سے حاصل کیے اور کئی خاندانوں اور طلبا کو منزل مقصود تک پہنچانے میں کردار ادا کیا۔

اس وقت سندھ میں جو کرپشن کی صورتحال ہے اسے دیکھ کر ہم اگر چراغ لے کر ڈھونڈیں گے تو ہمیں محمد ہاشم میمن جیسا آدمی اور ایماندار آفیسر نہیں ملے گا، نئے آنے والے افسران ذہن میں پیسہ بنانے اور عوام کو ذلیل کرنے کا خیال لے کر آتے ہیں جن کی پشت پناہی ہمارے کچھ کرپٹ سیاستدان کر رہے ہیں جن کا حشر بہت برا ہونے والا ہے۔ میں ہاشم صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور ان کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں۔
Load Next Story