آسیب زدہ ملک کے شہری

ہم وہ زندہ قوم ہیں جس کا ہر شخص ایک دوسرے سے الجھا ہوا ملے گا،

اب ہم سب ایک آسیب زدہ ملک کے شہر ی ہیں، جسے عدم برداشت، عدم رواداری، بداخلاقی، بدتہذیبی کے آسیبوں نے اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ اب ہم وہ آسیب زدہ ہیں جنہیں دیکھ کر ترقی یافتہ، مہذب، خوشحال کلچر ڈ، آزاد ممالک کے شہری اپنا راستہ بدل لیتے ہیں، مغربی ممالک کے بچے جب اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے ہیں تو ان کی مائیں انھیں یہ کہہ کر ڈراتی ہیں کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں پاکستا نی کو بلا لوں گی اور بچہ یہ سنتے ہی ایک د م ڈر کر اور سہم کر ماں کی گود میں پناہ لے لیتا ہے اور پھر بھی ہمیں یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی ہے کہ ہم زند ہ قوم ہیں۔

ہم وہ زندہ قوم ہیں جس کا ہر شخص ایک دوسرے سے الجھا ہوا ملے گا، چاہے وہ آفس ہوں یا بازار یا سٹرکیں ہوں یا پھرگلیاں اور محلے ہوں ہر شخص خوامخواہ دوسرے کے پیچھے پڑا ہوا ملے گا ہم سب ایک دوسرے سے ناخوش ہیں، ہمیں اپنے علاوہ کسی دوسرے میں کوئی بھی اچھائی نظر نہیں آتی ہے، غلطی سے یا نادانی سے اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی تعریف کر بیٹھے تو سننے والوں کے منہ سے اسی وقت غصے سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتی ہے، ہاتھ اور پاؤں میں لرزش اتنے زور سے ہونا شروع ہو جاتی ہے کہ تعریف کرنے والا ڈر کر اپنی چپلیں چھوڑ کر بھا گ کھڑا ہوتا ہے۔

ہر طرف جھنجھلاہٹ، غصہ، گھبراہٹ، طیش، ہٹ دھرمی اور دوسروں کو برا بھلا کہنے کا شور مچا ہوا ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی کا برا چاہ رہا ہے۔ ہنسنا چھوڑے ہوئے ہمیں سالوں بیت چکے ہیں۔ مذاق کرنے اور ہنسنے سے ہمیں نفرت ہو چکی ہے، خوشگوار موڈ ہمارے لیے گالی بن کر رہ گیا ہے، ہر وقت چہرے پر تیوری ڈالے رہنا ہمارا قومی نشان بن گیا ہے۔

ہم سب ایک دوسرے سے کترانے لگے ہیں اگر ہم باریکی کے ساتھ اس بات پر غور و خوص کریں کہ آخر ان آسیبوں نے ہمارے ہاں ہی کیو ں ڈیرے ڈال رکھے ہیں، آخر کیوں اتنی آسانی سے ہم سب کو دبوچ رکھا ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ دراصل ہم نے کافی عرصے پہلے بہت سے الفاظ کو خارج کر دیا ہے یاد رہے انسان کو روٹی سے زیادہ الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے ہم روٹی کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں الفاظ کے بغیر نہیں۔ جب سننے والا ہی نہ ہو گا تو کوئی گیت کیوں گائے گا، آپ کوئی شے کیوں ایجاد کریں گے کہ جب اس ایجاد کو استعمال کرنے والا ہی کوئی نہ ہو گا۔

یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جو آپ کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ الفاظ آپ سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور یہ ہی تعلقات اور رشتوں کو استوار کرتے ہیں آپ نے یہ تو سنا ہی ہو گا کہ جو کچھ دو گے وہی لو گے یا جیسا بوؤ گے ویسا کاٹو گے۔ Law of Attraction جو پوری کائنا ت کی توانائی کا محیط ہے کہ مطا بق ایٹم کی تخلیق سے لے کر سیاروں کی حرکت تک ہر شے اپنی جیسی دوسری شے کو کھینچ رہی ہے۔ آپ کی زندگی میں یہ قانون آپ کے خیالات اور احساسات پر کام کرتا ہے کیوں کہ یہ بھی توانائی ہیں۔


عظیم سائنس دان نیوٹن اس کائناتی اصول کو اس طرح بیان کرتاہے کہ ''ہرعمل کا ایک مخالف اور اسی کے برابر ردعمل ہوتا ہے'' یعنی آپ جو کچھ وصول کرتے ہیں وہ اس مقدارکے برابر ہی ہوتا ہے جو آپ نے دیا ہوتا ہے تو پھر اب رونا کس بات پر چلانا کس لیے ہے، بے وجہ کی چیخ و پکار کیوں۔ یہ جو کچھ ہم بھگت رہے ہیں، اس کے خالق ہم خود ہی تو ہیں یہ عدم برداشت، عدم رواداری، بداخلاقی، بدتہذیبی، حسد، کینہ، بغض، لوٹ مار، کرپشن، غنڈہ گردی، بدمعاشی، دھوکا دہی، فراڈ، عدم اعتماد، یہ سب کچھ جو ہم وصول کر رہے ہیں اور جس مقدار میں وصول کر رہے ہیں یہ وہی تو ہیں جو ہم نے دیے تھے۔

ظاہر ہے کہ جب آپ برداشت، رواداری، تہذیب، عقل، فکر اور تشکر کو ملک بدر کر دیں گے تو پھر آپ کے پاس عدم برداشت، عدم رواداری، بدتہذیبی، جہالت ہی رہ جائے گی تو پھر انتہا پسندوں، رجعت و بنیاد پرستوں کی فوج تیار نہیں ہو گی توکیا لبرل، ترقی پسندوں کی فوج تیار ہو گی جب آپ دیانت، خلوص، اخلاق، محبت کو مار مار کر ان کا بھر کس نکال دیں گے تو پھر جب آپ کو ہر طرف کرپشن، لوٹ مار، حسد، کینہ، دشمنی، بغض نظر آتا ہے تو پھر روتے کیوں ہو، جب حیا، شر م کو ننگا کر دو گے اور پھر جب آپ کو ہر طرف بے حیائی، بے شرمی، ڈھٹائی ملتی ہے تو پھر منہ کیوں چھپائے پھرتے ہو یہ رونے، چلانے کے ڈرامے اب مزید نہیں چلیں گے، یہ شکایات کے افسانے اب مزید نہیں بکیں گے۔ یہ خود ترسی کی کہانیاں اب مزید نہیں بن سکتیں۔

ذہن میں رہے جب آپ شکایات کرنے کے عادی مجرم بن کے رہ جاتے ہیں اور خود ترسی کے لبادے اوڑھ لیتے ہیں اور ہر وقت روتے چلاتے رہتے ہیں تو قانون کشش کے مطابق آپ مزید ایسی ہی چیزیں اپنے لیے کشش کر دینا شروع کر دیتے ہیں جن سے مزید اور شکایات آپ کے لیے پیدا ہوں مزید اور مشکلات و پر یشانیوں کا جنم آپ کے لیے ہو جائے۔ اگر آپ اپنے ان حالات سے بالکل بیزار آ چکے ہیں اور ان آسیبوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر آئیں سب سے پہلے ان الفاظ کو جنہیں ہم ملک بدر کرچکے ہیں اور جو ہماری سرحدوں پر بیٹھے ہمارے اجازت ناموں کے منتظر ہیں۔

انھیں انتہائی عزت واحترام اور پیار و محبت کے ساتھ اپنے ملک اور اپنی زندگیوں میں واپس آنے کی اجازت دے دیں اور ان سے اپنے کیے گئے برے سلوک کی معافی بھی ضرور مانگیں اور جب آپ ایسا کر لیں تو ساتھ ہی ساتھ آپ ہر بات اور خدا کی ہر نعمت کے لیے اپنے اندر تشکر کا جذبہ پیدا کر لیں۔ کنگ ڈیوڈ نے کہا تھا کہ آسمانوں اور زمین کے درمیان جتنی چیزیں ہیں ان کا شکریہ ادا کرو۔ آسٹریلیا، افریقہ کے قبائل سے لے کر امریکا اور اسکیمو کے باسیوں تک میں تشکر ان کی روایات کی بنیاد ہے۔

اگر آپ ہزاروں سال پہلے کی تاریخ میں چلے جائیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ شکرا ن نعمت کا ریکارڈ قدیم انسانی تاریخ میں بھی موجود ہے تب یہ کام ایک مذہبی عمل یا مقد س رسم کے طور پرکیا جاتا تھا اور وہاں سے یہ صدیوں کے سفر کے بعد نسل در نسل ہوتا ہوا ایک خطے سے دوسرے خطے میں منتقل ہوا۔

ایک تہذیب سے اگلی تہذیب کو ملا یاد رہے آپ کا تشکر کا رویہ ایک مقناطیس ہے اور آپ کے پاس تشکر جتنا زیادہ ہو گا آپ اتنا ہی زیادہ فراوانی کوکھینچیں گے، ایک مقناطیس کی طرح اور یہ ہی توکائنات کا ایک قانون ہے۔ آؤ ایک بار پھر سے ہنسنا اور مسکرانا شروع کر دیں اور ایک دوسرے سے محبت کرنا شروع کر دیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا شروع کر دیں کہ ایک بار پھر جینا شروع کر دیں آئیں کہ ایک بار پھر ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرنا شروع کر دیں۔
Load Next Story