خانہ بدوش روح کا سفر
ایک لمحہ جس نے اپنی قوت اور اثر سے ایک علم کے دریا کا رخ تبدیل کردیا۔
ایک لمحہ جس نے اپنی قوت اور اثر سے ایک علم کے دریا کا رخ تبدیل کردیا۔
ایک ملاقات جو پھیل کر، دنیا کو نیا ذکر اور نئی منزلیں دکھانے لگی۔
علم اور عشق کا ٹکراؤ ہوا تو زلزلہ علم کے دریا میں برپا ہوا اور شور سارے عالم نے سنا۔
بھرے مجمعے میں عشق نے علم کا راستہ روکا۔
اور پوچھا کہ۔
مجاہدہ اور ریاضت کا مقصد کیا ہے؟
علم نے جواب دیا۔
اتباع شریعت۔
عشق نے کہا یہ تو سب جانتے ہیں، لیکن اصل میں، علم کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ تمہیں منزل تک پہنچائے۔''
''جو علم تجھے تجھ سے نہ لے لے اس علم سے جہل بہت بہتر ہے۔''
وہ مجذوب شمس تبریزی جسے اپنے گمشدہ حصے کی تلاش تھی اور جلال الدین جو کہ علم کا سورج مشہور تھا۔ شمس کو پا کر تکمیل کی طرف گامزن ہوا۔
شمس سے ملاقات نے جلال الدین کی شناخت بدل دی۔ وہ جو خطیب تھا، عالم تھا، تفسیر اور احادیث کے علم پر سند رکھتا تھا۔ شام کے مشہور شہروں حلب اور دمشق سے تعلیم مکمل کر کے آیا تھا۔ ہزاروں لوگ دم سادھے اس کے خطبے سنا کرتے تھے۔ طالب علموں کا ہجوم اس کے اردگرد رہا کرتا تھا۔ اس کی سواری شہر میں نکلتی تو لوگ تعظیم میں کھڑے ہو جاتے۔ ملاقات کے متمنی مہینوں انتظار کرتے تھے۔ وہ جب بولتے تھے تو علم کا دریا جیسے ابل پڑتا تھا۔
یکایک عشق کی نظر انتخاب اس پر پڑی اور وہ خود سے بیگانہ ہوتا گیا۔ مولانا جلال الدین کا علم اک دیوانے مجذوب کے سوالوں کے جواب دینے سے قاصر تھا۔
علم کی تشریح اور وصف تو بیان کی جا سکتی ہے لیکن عشق الٰہی اپنی وضاحت آپ ہوتا ہے۔
علم بغیر عشق کے مکمل نہیں۔ علم کی دلیل، عقلیت پسندی، محدود دائرے ہوتے ہیں جب کہ عشق ایک وسیع اور لامحدود جذبہ ہے جو کہ جب کسی پہ وارد ہوتا ہے تو وجود کو حدود اور قیود سے آزاد کر دیتا ہے۔ عشق کی راہ کی کوئی حد نہیں۔ تصوف کے راستے وہاں سے شروع ہوتے ہیں، جہاں علم کی حد ختم ہوتی ہے۔
آگ کا کام جلانا ہے خاکستر کرنا ہے۔ مولانا کے کتب خانے کو آگ لگی تو وہ گھبرا اٹھے کہ ان کی برسوں کی محنت جل کر ختم ہو گئی، لیکن آگ سے زیادہ گرم آگ شمس کی نگاہ میں تھی جس نے آگ سے کتابیں صحیح سالم واپس نکال لیں۔ مولانا جلال الدین کی دنیا بدل گئی۔
جلال الدین کی زندگی میں شمس کی آمد نے ایک عالم کی شناخت ہی بدل دی۔
عشق نام ہے وجود کی نفی کا، عشق الٰہی پہچان آپ بناتا ہے عشق کا ساز، رنگ مستی ہر رنگ پر حاوی ہو کر عاشق اور معشوق میں دوئی کو مٹاتا ہے۔
شمس نے کئی بار مولانا کو لاجواب کر دیا تھا، قونیہ کے عالم شیخ یاسین جب مخالفت پر اتر آئے تو شمس نے ان کے مدرسے جا کر ان کے طالب علموں سے کچھ سوال کیے اور ان کو بھی لاجواب کر دیا۔
صوفی جو عشق کے راستے پہ قدم رکھتے ہیں وہ اپنے وجود میں سفر کرتے ہیں، ان کا کام اپنے وجود اپنی ہستی سے خباثت کو نکالنا ہوتا ہے۔
عشق کی سرمستی اجازت ہی نہیں دیتی کہ دوسرے لوگوں کے اعمال پر نظر رکھی جائے۔ جلال الدین پر عشق وارد ہوا، اس کی عالم اور خطیب کی شناخت چھین کر اسے شاعر کی شناخت دی۔
وہ زبان جو عقل و دلیل علم کی بنیاد پر لوگوں کو مسحور کر دیتی تھی۔ اب وہ زبان غزل کہنے لگی۔ غزل اور لے کی دھن پر مست ہو کر جلال الدین صرف ''رومی'' بن گیا، رومی جو شمس کا دوست تھا۔ اب وہ دوست کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے اور پرکھنے لگا۔
صوفی اپنے اندر کے دشمن سے مقابلہ کرتا ہے۔ رومی نے اپنی شناخت چھوڑ دی۔ اندر کے زور، تکبر کو توڑا۔ وجود سے بے گانہ ہوکر عشق کے راستے پہ چل نکلا۔ شمس ہی اس کا دوست شمس ہی اس کی آنکھیں کان اور دل بن گیا۔ عشق پرندہ ہے، وہ اپنی مرضی کے درخت پر آتا ہے بیٹھتا ہے کبھی چند پل بیٹھ کر اڑ جاتا ہے۔ کبھی گھونسلا بناتا ہے اور پھر موسم تبدیل ہونے پر اڑ جاتا ہے۔
رومی نے کہا:
ہے کہیں شیطان' کہیں پر حور ہے
ہے کہیں شعلہ کہیں پر نور ہے
ہے کہیں دولت کہیں پر مار ہے
ہے کہیں غنچہ کہیں پر خار ہے
جو تبدیل نہ کرے وہ عشق نہیں۔ عشق روح کو مٹا کر عاشق اور معشوق ایک وجود بنا دیتا ہے۔ رومی وحدت الوجود کے فلسفے کا قائل تھا۔ شمس تبریزی نے رومی کے فلسفے کو نکھار دیا جو کچھ رومی کے اندر میں چھپا تھا، ایک ماہر سنگ تراش کی طرح، عشق کے شیشے سے اس کی واضح صورت زمانے کو دکھلا دی۔
شمس کیا تھا؟ کون تھا؟ یہ رومی سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ رومی کیا ہے یہ شمس سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا۔ عشق کا وہ مقام جہاں طالب اور مطلوب ایک ہو جائیں، عاشق اور معشوق ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک دوسرے کی پہچان بن جائیں۔ یہ لامکاں کی لامحدود حد ہے۔ جس کے پار کچھ بھی نہیں فنا اور بقا کا ملاپ ہے۔ فنا فی الوجود کا کوئی بھی نام نہیں ہوتا۔ وجود آپس میں مل کر ایک دوسرے کی شناخت بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے نام کے استعارے بن جاتے ہیں۔ بانسری اور دھن الگ نہیں ہو سکتے۔ سُر اور ساز ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ وجد، مستی ایک مرحلہ ہے۔ بقائے فنا تک کا سفر اکیلے طے نہیں ہوتا۔ طالب کے لیے مطلوب اہم ہے۔ عاشق کے لیے معشوق لازمی ہے۔ یہ ایک ہی وجود کے دو حصے ہوتے ہیں جو کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر ایک دوسرے کو تلاش کر لیتے ہیں۔ مل جاتے ہیں۔ نہ مل سکیں تو ادھورے ہی غم میں غرق ہوتے جاتے ہیں۔ رومی کی تکمیل کا سفر شمس سے ملاقات پر شروع ہوا اور شمس کی جدائی سے عروج پر پہنچا۔ تصوف اور عشق کے اسرار کھلتے چلے گئے دوریاں مٹتی گئیں فاصلے کم ہوتے گئے۔ ایک دوسرے کی جستجو اور تلاش نے پیاس کا روپ دھار لیا۔ رومی کی پیاس نے اسے امر کر دیا۔ شاعری میں نکھار آتا گیا۔
رومی اور شمس کا نام ایک ساتھ ہی لیا جاتا ہے۔ رومی کے وجود میں شمس نے گھر کر لیا، شمس تبریزی اس کی نظروں سے الوپ ہوا لیکن اس کے اندر سے بولنے لگا۔ رومی کی زبان شمس، آنکھیں شمس، سوچ شمس بن گئی۔ حواس شمس کو محسوس کرنے لگے۔ رومی کی غزلوں میں تخلص شمس ہے اور اس کا عشق روز روشن کی طرح عیاں ہوتا چلا گیا۔
قونیہ سے باہر بھی رومی اور شمس تبریزی کا نام گردش کرنے لگا۔ رقص درویشاں کا وجد سارے عالم پہ طاری ہوتا گیا۔ عشق مستی، رقص، سر اور ساز کی زبان میں بات کرتا ہے۔ اس لیے رومی کی شاعری فارسی زبان کی قیود سے نکل کر دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہونے لگی۔ تصوف کے رموز نہ سمجھنے والے بھی رقص اور ساز کے زیر اثر مست ہونے لگے۔
عشق صید بھی ہے صیاد بھی ہے۔ عشق کے قصے پرانے نہیں ہوتے۔ 1207ء سے 1273ء کا زمانہ گزرے صدیاں بیت گئیں لیکن رومی کی شاعری کی شگفتگی اور گہرائی برقرار ہے۔ عشق کے قصے زندہ ہیں۔
تب ہی حیدرآباد کے مشہور خانہ بدوش رائٹرز کیفے میں بیٹھے بعنوان ''ریڈنگ'' ایک پروگرام ''رومی'' کی شاعری پر منعقد کیا گیا تو نوجوان نسل کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ قدیم شاعری کو نوجوانوں نے پڑھا تو اس کے مختلف پہلو سامنے آنے لگے۔ آج کل کے ٹیکنیکل دور کے متاثر طالب علم بھی زندگی کے اسرار و رموز کو فلسفے اور تصوف کی نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی سعی کرتے نظر آئے۔
ذہنی تازگی اور روح کی زندگی کے لیے شاعری اور ساز کی ہم آہنگی کا ساتھ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا۔
عشق ایک لمحہ ہے جو پھیل کر کائنات بنتا ہے پھر سکڑ کر ایک وجود میں تحلیل ہوتا ہے، ایک روح کی گردش ہے جو کہ خانہ بدوش کی طرح ٹھکانے بدلتا ہے۔ اپنا اثر چھوڑتا ہے اور مسافر کی طرح بے منزل راہ پر بڑھ جاتا ہے۔ عشق کی مسافت کی کوئی انتہا ہے نہ کوئی مکاں ہے وہ لامحدود ہے۔ ہر وقت اور مکاں کی قید سے آزاد ہے۔
یہ عشق کی اعلیٰ تمثیل ہے کہ شمس اور رومی کا نام اس کے مخالفین بھی الگ نہیں کر سکتے۔ وہ ایک دوسرے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی شناخت بن چکے ہیں۔
ایک ملاقات جو پھیل کر، دنیا کو نیا ذکر اور نئی منزلیں دکھانے لگی۔
علم اور عشق کا ٹکراؤ ہوا تو زلزلہ علم کے دریا میں برپا ہوا اور شور سارے عالم نے سنا۔
بھرے مجمعے میں عشق نے علم کا راستہ روکا۔
اور پوچھا کہ۔
مجاہدہ اور ریاضت کا مقصد کیا ہے؟
علم نے جواب دیا۔
اتباع شریعت۔
عشق نے کہا یہ تو سب جانتے ہیں، لیکن اصل میں، علم کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ تمہیں منزل تک پہنچائے۔''
''جو علم تجھے تجھ سے نہ لے لے اس علم سے جہل بہت بہتر ہے۔''
وہ مجذوب شمس تبریزی جسے اپنے گمشدہ حصے کی تلاش تھی اور جلال الدین جو کہ علم کا سورج مشہور تھا۔ شمس کو پا کر تکمیل کی طرف گامزن ہوا۔
شمس سے ملاقات نے جلال الدین کی شناخت بدل دی۔ وہ جو خطیب تھا، عالم تھا، تفسیر اور احادیث کے علم پر سند رکھتا تھا۔ شام کے مشہور شہروں حلب اور دمشق سے تعلیم مکمل کر کے آیا تھا۔ ہزاروں لوگ دم سادھے اس کے خطبے سنا کرتے تھے۔ طالب علموں کا ہجوم اس کے اردگرد رہا کرتا تھا۔ اس کی سواری شہر میں نکلتی تو لوگ تعظیم میں کھڑے ہو جاتے۔ ملاقات کے متمنی مہینوں انتظار کرتے تھے۔ وہ جب بولتے تھے تو علم کا دریا جیسے ابل پڑتا تھا۔
یکایک عشق کی نظر انتخاب اس پر پڑی اور وہ خود سے بیگانہ ہوتا گیا۔ مولانا جلال الدین کا علم اک دیوانے مجذوب کے سوالوں کے جواب دینے سے قاصر تھا۔
علم کی تشریح اور وصف تو بیان کی جا سکتی ہے لیکن عشق الٰہی اپنی وضاحت آپ ہوتا ہے۔
علم بغیر عشق کے مکمل نہیں۔ علم کی دلیل، عقلیت پسندی، محدود دائرے ہوتے ہیں جب کہ عشق ایک وسیع اور لامحدود جذبہ ہے جو کہ جب کسی پہ وارد ہوتا ہے تو وجود کو حدود اور قیود سے آزاد کر دیتا ہے۔ عشق کی راہ کی کوئی حد نہیں۔ تصوف کے راستے وہاں سے شروع ہوتے ہیں، جہاں علم کی حد ختم ہوتی ہے۔
آگ کا کام جلانا ہے خاکستر کرنا ہے۔ مولانا کے کتب خانے کو آگ لگی تو وہ گھبرا اٹھے کہ ان کی برسوں کی محنت جل کر ختم ہو گئی، لیکن آگ سے زیادہ گرم آگ شمس کی نگاہ میں تھی جس نے آگ سے کتابیں صحیح سالم واپس نکال لیں۔ مولانا جلال الدین کی دنیا بدل گئی۔
جلال الدین کی زندگی میں شمس کی آمد نے ایک عالم کی شناخت ہی بدل دی۔
عشق نام ہے وجود کی نفی کا، عشق الٰہی پہچان آپ بناتا ہے عشق کا ساز، رنگ مستی ہر رنگ پر حاوی ہو کر عاشق اور معشوق میں دوئی کو مٹاتا ہے۔
شمس نے کئی بار مولانا کو لاجواب کر دیا تھا، قونیہ کے عالم شیخ یاسین جب مخالفت پر اتر آئے تو شمس نے ان کے مدرسے جا کر ان کے طالب علموں سے کچھ سوال کیے اور ان کو بھی لاجواب کر دیا۔
صوفی جو عشق کے راستے پہ قدم رکھتے ہیں وہ اپنے وجود میں سفر کرتے ہیں، ان کا کام اپنے وجود اپنی ہستی سے خباثت کو نکالنا ہوتا ہے۔
عشق کی سرمستی اجازت ہی نہیں دیتی کہ دوسرے لوگوں کے اعمال پر نظر رکھی جائے۔ جلال الدین پر عشق وارد ہوا، اس کی عالم اور خطیب کی شناخت چھین کر اسے شاعر کی شناخت دی۔
وہ زبان جو عقل و دلیل علم کی بنیاد پر لوگوں کو مسحور کر دیتی تھی۔ اب وہ زبان غزل کہنے لگی۔ غزل اور لے کی دھن پر مست ہو کر جلال الدین صرف ''رومی'' بن گیا، رومی جو شمس کا دوست تھا۔ اب وہ دوست کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے اور پرکھنے لگا۔
صوفی اپنے اندر کے دشمن سے مقابلہ کرتا ہے۔ رومی نے اپنی شناخت چھوڑ دی۔ اندر کے زور، تکبر کو توڑا۔ وجود سے بے گانہ ہوکر عشق کے راستے پہ چل نکلا۔ شمس ہی اس کا دوست شمس ہی اس کی آنکھیں کان اور دل بن گیا۔ عشق پرندہ ہے، وہ اپنی مرضی کے درخت پر آتا ہے بیٹھتا ہے کبھی چند پل بیٹھ کر اڑ جاتا ہے۔ کبھی گھونسلا بناتا ہے اور پھر موسم تبدیل ہونے پر اڑ جاتا ہے۔
رومی نے کہا:
ہے کہیں شیطان' کہیں پر حور ہے
ہے کہیں شعلہ کہیں پر نور ہے
ہے کہیں دولت کہیں پر مار ہے
ہے کہیں غنچہ کہیں پر خار ہے
جو تبدیل نہ کرے وہ عشق نہیں۔ عشق روح کو مٹا کر عاشق اور معشوق ایک وجود بنا دیتا ہے۔ رومی وحدت الوجود کے فلسفے کا قائل تھا۔ شمس تبریزی نے رومی کے فلسفے کو نکھار دیا جو کچھ رومی کے اندر میں چھپا تھا، ایک ماہر سنگ تراش کی طرح، عشق کے شیشے سے اس کی واضح صورت زمانے کو دکھلا دی۔
شمس کیا تھا؟ کون تھا؟ یہ رومی سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ رومی کیا ہے یہ شمس سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا۔ عشق کا وہ مقام جہاں طالب اور مطلوب ایک ہو جائیں، عاشق اور معشوق ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک دوسرے کی پہچان بن جائیں۔ یہ لامکاں کی لامحدود حد ہے۔ جس کے پار کچھ بھی نہیں فنا اور بقا کا ملاپ ہے۔ فنا فی الوجود کا کوئی بھی نام نہیں ہوتا۔ وجود آپس میں مل کر ایک دوسرے کی شناخت بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے نام کے استعارے بن جاتے ہیں۔ بانسری اور دھن الگ نہیں ہو سکتے۔ سُر اور ساز ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ وجد، مستی ایک مرحلہ ہے۔ بقائے فنا تک کا سفر اکیلے طے نہیں ہوتا۔ طالب کے لیے مطلوب اہم ہے۔ عاشق کے لیے معشوق لازمی ہے۔ یہ ایک ہی وجود کے دو حصے ہوتے ہیں جو کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر ایک دوسرے کو تلاش کر لیتے ہیں۔ مل جاتے ہیں۔ نہ مل سکیں تو ادھورے ہی غم میں غرق ہوتے جاتے ہیں۔ رومی کی تکمیل کا سفر شمس سے ملاقات پر شروع ہوا اور شمس کی جدائی سے عروج پر پہنچا۔ تصوف اور عشق کے اسرار کھلتے چلے گئے دوریاں مٹتی گئیں فاصلے کم ہوتے گئے۔ ایک دوسرے کی جستجو اور تلاش نے پیاس کا روپ دھار لیا۔ رومی کی پیاس نے اسے امر کر دیا۔ شاعری میں نکھار آتا گیا۔
رومی اور شمس کا نام ایک ساتھ ہی لیا جاتا ہے۔ رومی کے وجود میں شمس نے گھر کر لیا، شمس تبریزی اس کی نظروں سے الوپ ہوا لیکن اس کے اندر سے بولنے لگا۔ رومی کی زبان شمس، آنکھیں شمس، سوچ شمس بن گئی۔ حواس شمس کو محسوس کرنے لگے۔ رومی کی غزلوں میں تخلص شمس ہے اور اس کا عشق روز روشن کی طرح عیاں ہوتا چلا گیا۔
قونیہ سے باہر بھی رومی اور شمس تبریزی کا نام گردش کرنے لگا۔ رقص درویشاں کا وجد سارے عالم پہ طاری ہوتا گیا۔ عشق مستی، رقص، سر اور ساز کی زبان میں بات کرتا ہے۔ اس لیے رومی کی شاعری فارسی زبان کی قیود سے نکل کر دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہونے لگی۔ تصوف کے رموز نہ سمجھنے والے بھی رقص اور ساز کے زیر اثر مست ہونے لگے۔
عشق صید بھی ہے صیاد بھی ہے۔ عشق کے قصے پرانے نہیں ہوتے۔ 1207ء سے 1273ء کا زمانہ گزرے صدیاں بیت گئیں لیکن رومی کی شاعری کی شگفتگی اور گہرائی برقرار ہے۔ عشق کے قصے زندہ ہیں۔
تب ہی حیدرآباد کے مشہور خانہ بدوش رائٹرز کیفے میں بیٹھے بعنوان ''ریڈنگ'' ایک پروگرام ''رومی'' کی شاعری پر منعقد کیا گیا تو نوجوان نسل کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ قدیم شاعری کو نوجوانوں نے پڑھا تو اس کے مختلف پہلو سامنے آنے لگے۔ آج کل کے ٹیکنیکل دور کے متاثر طالب علم بھی زندگی کے اسرار و رموز کو فلسفے اور تصوف کی نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی سعی کرتے نظر آئے۔
ذہنی تازگی اور روح کی زندگی کے لیے شاعری اور ساز کی ہم آہنگی کا ساتھ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا۔
عشق ایک لمحہ ہے جو پھیل کر کائنات بنتا ہے پھر سکڑ کر ایک وجود میں تحلیل ہوتا ہے، ایک روح کی گردش ہے جو کہ خانہ بدوش کی طرح ٹھکانے بدلتا ہے۔ اپنا اثر چھوڑتا ہے اور مسافر کی طرح بے منزل راہ پر بڑھ جاتا ہے۔ عشق کی مسافت کی کوئی انتہا ہے نہ کوئی مکاں ہے وہ لامحدود ہے۔ ہر وقت اور مکاں کی قید سے آزاد ہے۔
یہ عشق کی اعلیٰ تمثیل ہے کہ شمس اور رومی کا نام اس کے مخالفین بھی الگ نہیں کر سکتے۔ وہ ایک دوسرے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی شناخت بن چکے ہیں۔