کراچی میں امن وامان کی بحالی ناگزیر
شہر میں ٹارگٹ کلنگ رکنے کا نام نہیں لیتی
شہرکراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری بدامنی کے باعث ہر درد مند دل رکھنے والا پاکستانی پریشان ہے۔
کیونکہ منی پاکستان صنعت وتجارت اور رنگارنگ ثقافت کا مرکز ہے۔ معیشت میں اس کی اہمیت دل جیسی ہے جس کے ذریعے معاشی شریانوں میں لہو کی روانی جاری وساری رہتی ہے۔عروس البلاد تو غریب پرورشہر ہے اور اس میں ملک کے طول وعرض سے آ کرآباد ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔لیکن کراچی میںجاری قتل وغارت گری اور ہڑتال کلچر نے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں ۔
اسی ضمن میں منگل کو سپریم کورٹ کے5رکنی بنچ نے کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں امن و امان کے لیے حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی بغیر اسکواڈ شہر کے4چکر لگائیں اور ڈر لگتا ہے تو عہدہ چھوڑ دیں۔ یہ ریمارکس صورتحال کی انتہائی واضح نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ شہرقائد میں امن وامان کی بحالی کی اولین ذمے داری پولیس ودیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے، حقائق وشواہد اور تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق امن وامان کی خرابی اور اس پر قابو نہ پانے کی کوشش جیسے سنگین جرم کی مرتکب پولیس ہی ہے اور یہ امر پولیس کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔
پولیس میں سیاسی بنیادوں پر اہلکاروں کی تقرری اور فرائض سے غفلت کی علت نے یہ دن دکھائے ہیں کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ رکنے کا نام نہیں لیتی، متعدد سیاسی ومذہبی ولسانی تنظیموں کی جانب سے یوم احتجاج اور ہڑتال کے موقعے پر پولیس کراچی کی سڑکوں سے غائب ہوتی ہے اور جلائوگھیرائوکے واقعات کے لیے قطعاً کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے ۔شہرکراچی جرائم پیشہ افراد کے لیے جنت بنا ہوا ہے، اسٹریٹ کرائمز سے لے کر ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین جرائم کی روک تھام کرنے میں پولیس کی ناکامی نمایاں نظر آتی ہے ۔دوسری جانب شریف شہریوں کو بلاجواز روک کر تلاشی کے بہانے رشوت طلب کرنا اہلکاروں کا محبوب مشغلہ ہے ۔
مقام فکر ہے کہ غریب کی ماں کہلانے والے شہر کے باسی خوف و ہراس کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔گھریلو خواتین کی جان اس وقت تک سولی پر لٹکی رہتی ہے جب تک ان کے گھر کے افراد اپنے دفاتر اور اسکول وکالج سے بخیریت واپس لوٹ نہیں آتے ۔دوران سماعت جسٹس جمالی نے کہا کہ پہلے توکچھ علاقے نوگوایریاز تھے اب پورا شہرنوگو ایریا ہے۔بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ کراچی کے محلوں میں بھی سیاسی ولسانی جماعتوں نے سرحدیں بنا دی ہیں ۔چند گلیوں پر ایک گروپ کا قبضہ تو دوسرے پر مخالف والی صورتحال نے غریب سے زندگی کی ضمانت چھین لی ہے۔کیونکہ غلطی سے ایک عام شہری دوسرے علاقے میں چلاجائے تو بوری بند لاش واپس آتی ہے،اس اندوہناک صورتحال کی ذمے داری مکمل طور پر پولیس اور رینجرز پر عائد ہوتی ہے۔
شہر میں مختلف مافیازکا راج ہے اورشہری سسک کر جی رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یوم عشق رسولؐ پرشہر کے وسط میں بینک اورسینما جلادیئے گئے،اس سے پہلے گھنٹوں لوٹ مار ہوتی رہی، قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں تھے؟سچی بات تو یہ ہے کہ شہرکراچی کے حسن وجمال اور ثقافتی علامتوںکو برباد کرنے والوں کو مکمل چھوٹ تھی اوراس کے تمام مناظر اہل پاکستان نے نجی چینلز پر براہ راست دیکھے تھے ۔امن وامان قائم کرنے والے اداروںکے افسران اور اہلکاروں کا مائنڈ سیٹ بن چکا ہے کہ وہ خودکو قانون سے بالاترسمجھتے ہیں ۔آئین وقانون کی جس بے رحمی سے پامالی کی جاتی ہے اسی سنگین طرزعمل پر سپریم کورٹ کی برہمی درست ہے ۔
جب تک چیک اینڈ بیلنس کا نظام فعال نہیں ہوگا اورقانون نفاذکرنے والی ایجنسیوںکے اہلکار واعلیٰ افسران خودکر قانون کا پابند نہیں بنائیں گے اس وقت تک صورتحال میں بہتری کی امید عبث ہے ۔کیونکہ جب پولیس ودیگر محکمے مکمل طور پر فعال ہوکرکام نہیں کریں گے اور غیرجانبدارانہ طور پر جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے اس وقت تک شہر میں امن کی بحالی کا خواب ادھورا رہے گا۔لہٰذا حکومت سندھ پر یہ اولین ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پولیس کی تیار کردہ جعلی رپورٹس پر یقین کرنے کی بجائے عملاً شہر کراچی میں امن وامان کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ کے اقدامات کی روشنی میں عملی اقدامات فی الفور اٹھائے تاکہ شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے اور ملکی معیشت کا پہیہ ایک بار پھر رواں دواں ہوسکے۔
کیونکہ منی پاکستان صنعت وتجارت اور رنگارنگ ثقافت کا مرکز ہے۔ معیشت میں اس کی اہمیت دل جیسی ہے جس کے ذریعے معاشی شریانوں میں لہو کی روانی جاری وساری رہتی ہے۔عروس البلاد تو غریب پرورشہر ہے اور اس میں ملک کے طول وعرض سے آ کرآباد ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔لیکن کراچی میںجاری قتل وغارت گری اور ہڑتال کلچر نے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں ۔
اسی ضمن میں منگل کو سپریم کورٹ کے5رکنی بنچ نے کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں امن و امان کے لیے حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی بغیر اسکواڈ شہر کے4چکر لگائیں اور ڈر لگتا ہے تو عہدہ چھوڑ دیں۔ یہ ریمارکس صورتحال کی انتہائی واضح نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ شہرقائد میں امن وامان کی بحالی کی اولین ذمے داری پولیس ودیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے، حقائق وشواہد اور تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق امن وامان کی خرابی اور اس پر قابو نہ پانے کی کوشش جیسے سنگین جرم کی مرتکب پولیس ہی ہے اور یہ امر پولیس کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔
پولیس میں سیاسی بنیادوں پر اہلکاروں کی تقرری اور فرائض سے غفلت کی علت نے یہ دن دکھائے ہیں کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ رکنے کا نام نہیں لیتی، متعدد سیاسی ومذہبی ولسانی تنظیموں کی جانب سے یوم احتجاج اور ہڑتال کے موقعے پر پولیس کراچی کی سڑکوں سے غائب ہوتی ہے اور جلائوگھیرائوکے واقعات کے لیے قطعاً کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے ۔شہرکراچی جرائم پیشہ افراد کے لیے جنت بنا ہوا ہے، اسٹریٹ کرائمز سے لے کر ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین جرائم کی روک تھام کرنے میں پولیس کی ناکامی نمایاں نظر آتی ہے ۔دوسری جانب شریف شہریوں کو بلاجواز روک کر تلاشی کے بہانے رشوت طلب کرنا اہلکاروں کا محبوب مشغلہ ہے ۔
مقام فکر ہے کہ غریب کی ماں کہلانے والے شہر کے باسی خوف و ہراس کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔گھریلو خواتین کی جان اس وقت تک سولی پر لٹکی رہتی ہے جب تک ان کے گھر کے افراد اپنے دفاتر اور اسکول وکالج سے بخیریت واپس لوٹ نہیں آتے ۔دوران سماعت جسٹس جمالی نے کہا کہ پہلے توکچھ علاقے نوگوایریاز تھے اب پورا شہرنوگو ایریا ہے۔بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ کراچی کے محلوں میں بھی سیاسی ولسانی جماعتوں نے سرحدیں بنا دی ہیں ۔چند گلیوں پر ایک گروپ کا قبضہ تو دوسرے پر مخالف والی صورتحال نے غریب سے زندگی کی ضمانت چھین لی ہے۔کیونکہ غلطی سے ایک عام شہری دوسرے علاقے میں چلاجائے تو بوری بند لاش واپس آتی ہے،اس اندوہناک صورتحال کی ذمے داری مکمل طور پر پولیس اور رینجرز پر عائد ہوتی ہے۔
شہر میں مختلف مافیازکا راج ہے اورشہری سسک کر جی رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یوم عشق رسولؐ پرشہر کے وسط میں بینک اورسینما جلادیئے گئے،اس سے پہلے گھنٹوں لوٹ مار ہوتی رہی، قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں تھے؟سچی بات تو یہ ہے کہ شہرکراچی کے حسن وجمال اور ثقافتی علامتوںکو برباد کرنے والوں کو مکمل چھوٹ تھی اوراس کے تمام مناظر اہل پاکستان نے نجی چینلز پر براہ راست دیکھے تھے ۔امن وامان قائم کرنے والے اداروںکے افسران اور اہلکاروں کا مائنڈ سیٹ بن چکا ہے کہ وہ خودکو قانون سے بالاترسمجھتے ہیں ۔آئین وقانون کی جس بے رحمی سے پامالی کی جاتی ہے اسی سنگین طرزعمل پر سپریم کورٹ کی برہمی درست ہے ۔
جب تک چیک اینڈ بیلنس کا نظام فعال نہیں ہوگا اورقانون نفاذکرنے والی ایجنسیوںکے اہلکار واعلیٰ افسران خودکر قانون کا پابند نہیں بنائیں گے اس وقت تک صورتحال میں بہتری کی امید عبث ہے ۔کیونکہ جب پولیس ودیگر محکمے مکمل طور پر فعال ہوکرکام نہیں کریں گے اور غیرجانبدارانہ طور پر جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے اس وقت تک شہر میں امن کی بحالی کا خواب ادھورا رہے گا۔لہٰذا حکومت سندھ پر یہ اولین ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پولیس کی تیار کردہ جعلی رپورٹس پر یقین کرنے کی بجائے عملاً شہر کراچی میں امن وامان کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ کے اقدامات کی روشنی میں عملی اقدامات فی الفور اٹھائے تاکہ شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے اور ملکی معیشت کا پہیہ ایک بار پھر رواں دواں ہوسکے۔