’’بخشش‘‘
سیاستدانوں کا میدان حشر قریب ہے اور وہ اس یوم حساب کے لیے تیاری کر رہے ہیں
بعض معزز کالم نگار ساتھی سیاستدانوں کے اقوال زریں سے تنگ آ کر اب غیر سیاسی موضوعات پر لکھنے لگے ہیں۔
اس کے لیے مسلمانوں کی اسلامی تعلیمات کا ذخیرہ اس قدر وافر ہے کہ کروڑوں صفحات لکھے جانے کے باوجود ان ابدی تعلیمات کا ذخیرہ اور اس کی تشریحات ختم نہیں ہوتیں۔ ان کے مزید ذکر کے لیے چند مشہور اور مستند کتابوں کی ضرورت ہے جن کے حوالے دے کر بات بڑھائی جا سکے لیکن ہمارے ماڈرن قارئین نئی اور تازہ باتوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہ داتا دربار پر حاضری کو تو سعادت سمجھتے ہیں لیکن داتا صاحب کی تصوف پر کتاب کو نہیں سننا چاہتے۔ حضرت داتا کی کتاب کشف المحجوب کو تصوف کے بارے میں تصنیفات کا سردار تسلیم کیا گیا ہے۔
کیا داتا کے دیوانے لاہوریوں نے کبھی غور کیا ہے کہ ان کے شہر میں کتنا بڑا صوفی محو خواب ہے اور جس کی کتاب کو دنیائے تصوف میں بلند ترین بلکہ استاد کا مقام حاصل ہے۔ ان صوفیائے کرام کے علاوہ اگر ہم اپنی تاریخ کے حوالے دینا شروع کر دیں تو وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتے لیکن ہمارے سیاستدانوں کے اقوال زریں جاری رہیں گے کیونکہ الیکشن آنے والا ہے یوں کہیں کہ سیاستدانوں کا میدان حشر قریب ہے اور وہ اس یوم حساب کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ یہ تیاری وہ ایک دوسرے کے عیب تلاش کر کے مکمل کر رہے ہیں اور ماشاء اللہ ہر سیاسی جماعت کے پاس اس کے مخالف کے اتنے عیب جمع ہو گئے ہیں اور ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کا ذخیرہ کرنے کی جگہ کم پڑ گئی ہے۔
سیاستدانوں کی خوش قسمتی کہ ان دنوں عین اس نازک موقع پر سپریم کورٹ نے ائر مارشل صاحب اصغر خان کا ایک برسوں پرانا مقدمہ خاک جھاڑ کر اپنے ذخیرے سے نکالا اور اس پر سیاسی فیصلہ سنا دیا یعنی سیاستدان کے بارے میں ایک ایسا فیصلہ دیا کہ اب وہ الیکشن کی مہم اسی مقدمے کے ذکر میں گزار دیں گے۔ میں نے ائر مارشل اصغر خان کو سپریم کورٹ کی راہداریوں میں آتے جاتے دیکھا۔ ایک بوڑھا شخص جس کا عزم جواں تھا۔ اس کے مقدمے کو سپریم کورٹ کی فیصلہ طلب مقدموں کی فائلوں کے ڈھیر میں پڑے پڑے اتنا وقت گزر گیا کہ اس کا مدعی بوڑھا ہو گیا یعنی کوئی سولہ برس سے زیادہ مدت چنانچہ ہمارے جیسے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس نہایت ہی اہم اور دور رس نتائج والے مقدمے میں اس تاخیر کا ایک مقصد شاید یہ تھا کہ اس کا دو نوکریوں سے ریٹائر شخص ریٹائر ہی ہو جائے
لیکن یہ سخت جان فوجی اپنی اس درخواست کا فیصلہ سننے کے لیے زندہ رہا چنانچہ سپریم کورٹ کو بھی شرم آ گئی کہ پاک فضائیہ کے اس خالق کو مزید تنگ نہ کیا جائے اور اسے انتظار کی کوفت بلکہ اذیت سے نجات دلائی جائے۔ عرب انتظار کی کیفیت کو موت سے بھی سخت قرار دیتے ہیں۔ بہر کیف ائر مارشل کا صبر کام آ گیا اور سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا اور ایسا فیصلہ جو بعض سیاستدانوں کے لیے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والا محاورہ زندہ ہو گیا۔ اب صرف سیاستدانوں نے ہی نہیں ان کی پوری جماعتوں نے مخالفوں کو سولی پر لٹکا رکھا ہے اور پورا ملک تماشہ دیکھ رہا ہے کہ ان کے قائدین اپنی اخلاقی زندگی میں کتنے پانی میں ہیں اور کتنے پانی سے باہر ہیں بلکہ سچ پوچھیں تو وہ پانی سے باہر ہی ہیں۔
ہمارے گائوں میں مصلیوں کے ایک گھر میں دو عورتیں ایسی تھیں جن کی جنگ جاری رہتی تھی زبانی کلامی جنگ چنانچہ جب ان کی یہ جنگ شروع ہوتی تو یہ ایک دوسرے کا سارا کچا چٹھا بیان کر دیتی تھیں اور پڑوسی مزے لیتے رہتے۔ جب ان میں کسی کو کوئی کام پڑ جاتا تو وہ اپنی جوتی الٹی کر کے دوسری کی طرف دیوار کے ساتھ رکھ دیتی اور اس جوتی کے سامنے اس کی مخالفت جاری رہتی تا آنکہ جوتی والی واپس آ کر جوابی حملہ شروع کر دیتی ہمارے سیاستدان بھی ایسے ہی لڑ رہے ہیں نہ جانے جوتی کس کی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کس کو کتنے پیسے ملے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس سوال کو چھیڑا نہیں گیا اور اسے کسی اور محکمے کے سپرد کر دیا ہے جس کو ایک فریق مانتا ہی نہیں۔ رقم لینے والوں کے نام ماضی میں چھپتے بھی رہے ہیں کیونکہ اس مقدمے کے ایک شریک نے اپنے حلفی بیان میں ان کا ذکر کر دیا تھا۔ بات کو آگے بڑھانے کے لیے اگر اس پرانے بیان کے مندرجات کو دہرا دیا جاتا تو یہ تاریخی سیاسی تنازعہ زیادہ بارونق ہو جاتا اب یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ کس نے کتنا لیا لیکن ایک پیسہ لیا یا ایک لاکھ، سیاست میں یہ ایک گھٹیا حرکت تھی۔
سیاستدان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی بہانے مال کما لیتے ہیں اور دنیا بھر سے ایسی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن تھوک کے حساب سے نقد رشوت کی مثال شاید ہمارے حصے میں آئی ہے یہی رشوت جو ایک مدت سے چل رہی ہے کہ موجودہ حکومت میں عروج کو پہنچی ہے یعنی جوان ہو گئی ہے اور اس کا ذکر سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں میں بھی آتا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے ملک کی اخلاقیات اور قانون قاعدے تباہ ہو گئے ہیں جب ذرا ذرا سی بات بھی قاعدے کے مطابق نہیں ہوتی تو بعض پاکستانی پوچھتے ہیں کہ ہمارا ملک کیسے چل رہا ہے لیکن بس چلے جا رہا ہے اور اس کی سپریم کورٹ سیاستدانوں کی بدعنوانی کی اپنے فیصلوں میں تصدیق کرتی ہے۔
چند روز ہوئے کہ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے اتنے میں ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ کو جلدی ہے تو میں آپ کو ڈاکٹر صاحب کے پاس پہلے اندر بھجوا دیتا ہوں اور یہ کہہ کر وہ منہ پر بخشش کے امیدوار والی شکل بنا کر کھڑا ہو گیا لیکن جس ملک کے ماضی حال یا مستقبل کے حکمران کھلے بندوں رشوت لیتے ہوں اور بخشش پاتے ہوں اس ملک کا عام آدمی موقع ملنے پر ایسا کیوں نہ کرے۔
اس کے لیے مسلمانوں کی اسلامی تعلیمات کا ذخیرہ اس قدر وافر ہے کہ کروڑوں صفحات لکھے جانے کے باوجود ان ابدی تعلیمات کا ذخیرہ اور اس کی تشریحات ختم نہیں ہوتیں۔ ان کے مزید ذکر کے لیے چند مشہور اور مستند کتابوں کی ضرورت ہے جن کے حوالے دے کر بات بڑھائی جا سکے لیکن ہمارے ماڈرن قارئین نئی اور تازہ باتوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہ داتا دربار پر حاضری کو تو سعادت سمجھتے ہیں لیکن داتا صاحب کی تصوف پر کتاب کو نہیں سننا چاہتے۔ حضرت داتا کی کتاب کشف المحجوب کو تصوف کے بارے میں تصنیفات کا سردار تسلیم کیا گیا ہے۔
کیا داتا کے دیوانے لاہوریوں نے کبھی غور کیا ہے کہ ان کے شہر میں کتنا بڑا صوفی محو خواب ہے اور جس کی کتاب کو دنیائے تصوف میں بلند ترین بلکہ استاد کا مقام حاصل ہے۔ ان صوفیائے کرام کے علاوہ اگر ہم اپنی تاریخ کے حوالے دینا شروع کر دیں تو وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتے لیکن ہمارے سیاستدانوں کے اقوال زریں جاری رہیں گے کیونکہ الیکشن آنے والا ہے یوں کہیں کہ سیاستدانوں کا میدان حشر قریب ہے اور وہ اس یوم حساب کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ یہ تیاری وہ ایک دوسرے کے عیب تلاش کر کے مکمل کر رہے ہیں اور ماشاء اللہ ہر سیاسی جماعت کے پاس اس کے مخالف کے اتنے عیب جمع ہو گئے ہیں اور ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کا ذخیرہ کرنے کی جگہ کم پڑ گئی ہے۔
سیاستدانوں کی خوش قسمتی کہ ان دنوں عین اس نازک موقع پر سپریم کورٹ نے ائر مارشل صاحب اصغر خان کا ایک برسوں پرانا مقدمہ خاک جھاڑ کر اپنے ذخیرے سے نکالا اور اس پر سیاسی فیصلہ سنا دیا یعنی سیاستدان کے بارے میں ایک ایسا فیصلہ دیا کہ اب وہ الیکشن کی مہم اسی مقدمے کے ذکر میں گزار دیں گے۔ میں نے ائر مارشل اصغر خان کو سپریم کورٹ کی راہداریوں میں آتے جاتے دیکھا۔ ایک بوڑھا شخص جس کا عزم جواں تھا۔ اس کے مقدمے کو سپریم کورٹ کی فیصلہ طلب مقدموں کی فائلوں کے ڈھیر میں پڑے پڑے اتنا وقت گزر گیا کہ اس کا مدعی بوڑھا ہو گیا یعنی کوئی سولہ برس سے زیادہ مدت چنانچہ ہمارے جیسے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس نہایت ہی اہم اور دور رس نتائج والے مقدمے میں اس تاخیر کا ایک مقصد شاید یہ تھا کہ اس کا دو نوکریوں سے ریٹائر شخص ریٹائر ہی ہو جائے
لیکن یہ سخت جان فوجی اپنی اس درخواست کا فیصلہ سننے کے لیے زندہ رہا چنانچہ سپریم کورٹ کو بھی شرم آ گئی کہ پاک فضائیہ کے اس خالق کو مزید تنگ نہ کیا جائے اور اسے انتظار کی کوفت بلکہ اذیت سے نجات دلائی جائے۔ عرب انتظار کی کیفیت کو موت سے بھی سخت قرار دیتے ہیں۔ بہر کیف ائر مارشل کا صبر کام آ گیا اور سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا اور ایسا فیصلہ جو بعض سیاستدانوں کے لیے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والا محاورہ زندہ ہو گیا۔ اب صرف سیاستدانوں نے ہی نہیں ان کی پوری جماعتوں نے مخالفوں کو سولی پر لٹکا رکھا ہے اور پورا ملک تماشہ دیکھ رہا ہے کہ ان کے قائدین اپنی اخلاقی زندگی میں کتنے پانی میں ہیں اور کتنے پانی سے باہر ہیں بلکہ سچ پوچھیں تو وہ پانی سے باہر ہی ہیں۔
ہمارے گائوں میں مصلیوں کے ایک گھر میں دو عورتیں ایسی تھیں جن کی جنگ جاری رہتی تھی زبانی کلامی جنگ چنانچہ جب ان کی یہ جنگ شروع ہوتی تو یہ ایک دوسرے کا سارا کچا چٹھا بیان کر دیتی تھیں اور پڑوسی مزے لیتے رہتے۔ جب ان میں کسی کو کوئی کام پڑ جاتا تو وہ اپنی جوتی الٹی کر کے دوسری کی طرف دیوار کے ساتھ رکھ دیتی اور اس جوتی کے سامنے اس کی مخالفت جاری رہتی تا آنکہ جوتی والی واپس آ کر جوابی حملہ شروع کر دیتی ہمارے سیاستدان بھی ایسے ہی لڑ رہے ہیں نہ جانے جوتی کس کی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کس کو کتنے پیسے ملے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس سوال کو چھیڑا نہیں گیا اور اسے کسی اور محکمے کے سپرد کر دیا ہے جس کو ایک فریق مانتا ہی نہیں۔ رقم لینے والوں کے نام ماضی میں چھپتے بھی رہے ہیں کیونکہ اس مقدمے کے ایک شریک نے اپنے حلفی بیان میں ان کا ذکر کر دیا تھا۔ بات کو آگے بڑھانے کے لیے اگر اس پرانے بیان کے مندرجات کو دہرا دیا جاتا تو یہ تاریخی سیاسی تنازعہ زیادہ بارونق ہو جاتا اب یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ کس نے کتنا لیا لیکن ایک پیسہ لیا یا ایک لاکھ، سیاست میں یہ ایک گھٹیا حرکت تھی۔
سیاستدان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی بہانے مال کما لیتے ہیں اور دنیا بھر سے ایسی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن تھوک کے حساب سے نقد رشوت کی مثال شاید ہمارے حصے میں آئی ہے یہی رشوت جو ایک مدت سے چل رہی ہے کہ موجودہ حکومت میں عروج کو پہنچی ہے یعنی جوان ہو گئی ہے اور اس کا ذکر سپریم کورٹ کے بعض فیصلوں میں بھی آتا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے ملک کی اخلاقیات اور قانون قاعدے تباہ ہو گئے ہیں جب ذرا ذرا سی بات بھی قاعدے کے مطابق نہیں ہوتی تو بعض پاکستانی پوچھتے ہیں کہ ہمارا ملک کیسے چل رہا ہے لیکن بس چلے جا رہا ہے اور اس کی سپریم کورٹ سیاستدانوں کی بدعنوانی کی اپنے فیصلوں میں تصدیق کرتی ہے۔
چند روز ہوئے کہ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے اتنے میں ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ کو جلدی ہے تو میں آپ کو ڈاکٹر صاحب کے پاس پہلے اندر بھجوا دیتا ہوں اور یہ کہہ کر وہ منہ پر بخشش کے امیدوار والی شکل بنا کر کھڑا ہو گیا لیکن جس ملک کے ماضی حال یا مستقبل کے حکمران کھلے بندوں رشوت لیتے ہوں اور بخشش پاتے ہوں اس ملک کا عام آدمی موقع ملنے پر ایسا کیوں نہ کرے۔