ماحولیاتی آلودگی گلوبل وارمنگ و حیاتیاتی تنوع
کائنات کی لا محدود وسعتوں، اربوں کہکشاؤں کے ہجوم میں کہیں نظام شمسی کا بھی وجود ہے،
کائنات کی لا محدود وسعتوں، اربوں کہکشاؤں کے ہجوم میں کہیں نظام شمسی کا بھی وجود ہے، جس میں ہماری زمین محو گردش ہے، جو بلاشبہ ایک ایسا حسین اور پراسرار سیارہ ہے جس پر کروڑوں انواع و اقسام کی حیاتیات موجود ہیں، ان میں سے نصف سے بھی کم کے بارے میںہم جان سکے ہیں مزید جاننے کی خواہش اور تحقیق جاری ہے۔
اس حسین کرۂ ارض کے قدرتی ماحول میں تبدیلیوں کا عمل تب سے جاری ہے، جب سے اس زمین کا وجود عمل میں آیا تھا، قدرتی تبدیلیاں برسوں یا عشروں میں نمایاں نہیں ہوتی ہیں بلکہ صدیوں میں واضح ہوتی ہیں اور یہ ایک قدرتی عمل ہے، مگر گزشتہ چند سالوں میں جدید صنعتی ترقی کا ایک سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا تو اس نے قدرتی ماحول سمیت تمام حیاتیات کو مختلف خدشات اور خطرات سے دوچار کر دیا۔ درحقیقت ترقی یافتہ صنعتی ممالک اور کچھ ترقی پذیر ممالک عالمی منڈیوں پر اپنی اپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ جانے کی دوڑ میں اس کرۂ ارض پر بہت کچھ روندتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ماہرین، سائنسدانوں اور عالمی (ورلڈ) بینک کی جانب سے گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں کرۂ ارض پر پیدا ہونیوالے بگاڑ کی نشاندہیوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ، ورلڈ بینک کی جانب سے 10 کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے اور نووا کی جانب سے آب و ہوا میں تبدیلی سے 14 غیر معمولی واقعات کی نشاندہی اس بات کا ثبوت ہے کہ کرۂ ارض تیزی سے تباہی کے دہانے پر بڑھ رہا ہے۔
بڑھتی ہوئی انڈسٹریز، فیکٹریاں اور اسلحہ و بارود کا بے جا استعمال مل کر دنیا کے درجہ حرارت کو بڑھا رہے ہیں اور ہر آنے والا سال گرمی کی شدت لے کر آتا ہے اور اب سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اسی لیے رواں سال عالمی درجہ حرارت میں ایک ڈگری سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے جو ایک صدی بعد کسی بھی سال میں ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ رواں سال جنوری سے ستمبر کے درمیان 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے جب کہ اس سے قبل ایسا صنعتی انقلاب سے قبل 1850ء اور 1900ء میں ہوا تھا اور اگر اندازوں کے مطابق درجہ حرارت میں یہ تبدیلی اسی طرح جاری رہی تو 2015ء ایک صدی میں یہ پہلا سال ہو گا جس میں درجہ حرارت میں اتنا زیادہ اضافہ ہوا ہے جب کہ سال کے اختتام تک درجہ حرارت میں 2 ڈگری تک کا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے، جو انتہائی خطرے کی علامت ہے۔
1880ء سے لے کر 2012ء تک درجہ حرارت میں 0.85 ڈگری کا اضافہ ہوا جب کہ زمین اور سمندروں کا درجہ حرارت نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے، 2015ء کی طرح 2016ء بھی ایک گرم ترین سال ہو گا جس میں درجہ حرارت میں ایک ڈگری سے زائد کے اضافے کا امکان ہے۔
اسی طرح عالمی بینک (ورلڈ بینک) کی حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو نہ پایا گیا تو 2030ء تک دنیا بھر میں مزید 10 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے 40 فیصد افراد کی آمدنی میں مزید 8 فیصد سے زائد کی کمی ہو سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے اناج کی پیداوار میں کمی اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث بیشتر ممالک میں غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان، سری لنکا، گوئٹے مالا، تاجکستان اور یمن سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
امریکا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی اینڈ ایٹما سفیئرک ایڈمنسٹریشن (نووا) اور دیگر اداروں کے درجنوں سائنسدانوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ گزشتہ برس گلوبل وارمنگ اور آب و ہوا میں تیزی سے آنے والی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کے نتیجے میں پوری دنیا میں 14 غیر معمولی واقعات رونما ہوئے۔
ہوائی میں سمندری طوفان اور ارجنٹینا، یورپ، جنوبی کوریا، چین اور آسٹریلیا میں گرمی کی شدید لہر، نیپال میں برف کا طوفان، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں سیلاب، افریقا اور مشرق وسطیٰ میں خشک سالی شامل ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہو گا اور ان کی شدت بھی بڑھے گی۔
یہ بات مسلسل دہرائی جا رہی ہے کہ دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کرۂ ارض پر موجود ہر قسم کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرے میں ڈال دے گا۔ بڑھتی ہوئی حدت براہ راست گلیشئرز پر اثر انداز ہو گی، جس سے سیلاب اور طغیانی کے خطرات بڑھیں گے اور پھر پانی کی کمی، خشک سالی کو دعوت دے گی۔ یہ 2 مظاہر دنیا کو ہلا کر رکھ دیں گے۔
زمین پر موجود ہر قسم کی حیات خطرے میں پڑ جائے گی، وہ انسان ہو یا کوئی اور جاندار۔ ماہرین ماحولیات، ارضیات اور موسمیات کا متفقہ فیصلہ ہے کہ گلوبل وارمنگ ایک حقیقت ہے، جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جس کے اہم محرکات آبادی میں مسلسل اضافے کی رفتار، گرین ہاؤس گیسز کا پھیلاؤ، کوئلے، گیس اور تیل کا بڑھتا ہوا استعمال اور اس کے مضر اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صنعتی اداروں، گھریلو صنعتوں اور زرعی کیمیائی ادویات کے استعمال سے خارج ہونے والے فاضل مادے زمینی، فضائی اور آبی آلودگی میں بے تحاشا اضافہ کر رہے ہیں، اس کے علاوہ مشینوں، پُرہجوم ٹریفک کا شور، تابکاری اور دیگر عوامل نے اس کرہ ٔ ارض کے قدرتی ماحول کو آلودگی اور خطرات میں جکڑ لیا ہے۔
غریب ممالک کے عوام کے لیے ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ یا حیاتیاتی تنوع کا تحفظ جیسی اصطلاحوں اور خبروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے غربت زدہ پسماندہ معاشروں میں صرف دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے حیران اور پریشان ہیں، جو اپنے اطراف سے بلکہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہیں۔ کچھ ایسا ہی منظرنامہ پاکستان کا ہے۔ عالمی ماحولیاتی مسائل اور گلوبل وارمنگ کے ساتھ ساتھ بہت سے گھمبیر اور پیچیدہ مسائل پاکستان کے ساتھ دامن گیر ہیں۔ ان میں سب میں بڑا مسئلہ ملک کی آبادی میں اضافہ ہے، آبادی میں اضافے سے حالات بگر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ماحولیات کے ادارے سمیت دیگر آزاد ذرایع عالمی ماحولیات کو مسلسل آلودہ کرنے اور قدرتی ماحول کو بتدریج پامال کرنے کی ذمے داری خاص طور پر امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان، روس، فرانس اور دیگر یورپی ممالک سمیت ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل نئے صنعتی ممالک چین، برازیل، بھارت، جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ پر عائد کرتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کرنے پر زور دیا جا رہا ہے مگر گلوبل وارمنگ کو روکنے کے ضمن میں کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکی ہے تاہم ایک کینیڈین کمپنی کے شروع کردہ منصوبے نے گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کی نئی راہ سجھائی ہے۔
مذکورہ کمپنی نے ہوا میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پکڑ کر اس سے ایندھن بنانے کا پلانٹ قائم کیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا دنیا بھر میں پہلا منصوبہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر اس آزمائشی پلانٹ کے قیام کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو پھر گلوبل وارمنگ کے مسئلے سے نجات مل سکتی ہے۔
کاربن انجینئرنگ نامی کمپنی نے یہ پلانٹ شہر وینکورو کے مضافات میں قائم کیا ہے۔ کمپنی کے اس منصوبے کو مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پلانٹ نے کام شروع کر دیا ہے اور اب تک یہ دس ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو قابو میں کر چکے ہیں۔
اس حسین کرۂ ارض کے قدرتی ماحول میں تبدیلیوں کا عمل تب سے جاری ہے، جب سے اس زمین کا وجود عمل میں آیا تھا، قدرتی تبدیلیاں برسوں یا عشروں میں نمایاں نہیں ہوتی ہیں بلکہ صدیوں میں واضح ہوتی ہیں اور یہ ایک قدرتی عمل ہے، مگر گزشتہ چند سالوں میں جدید صنعتی ترقی کا ایک سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا تو اس نے قدرتی ماحول سمیت تمام حیاتیات کو مختلف خدشات اور خطرات سے دوچار کر دیا۔ درحقیقت ترقی یافتہ صنعتی ممالک اور کچھ ترقی پذیر ممالک عالمی منڈیوں پر اپنی اپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ جانے کی دوڑ میں اس کرۂ ارض پر بہت کچھ روندتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ماہرین، سائنسدانوں اور عالمی (ورلڈ) بینک کی جانب سے گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں کرۂ ارض پر پیدا ہونیوالے بگاڑ کی نشاندہیوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ، ورلڈ بینک کی جانب سے 10 کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے اور نووا کی جانب سے آب و ہوا میں تبدیلی سے 14 غیر معمولی واقعات کی نشاندہی اس بات کا ثبوت ہے کہ کرۂ ارض تیزی سے تباہی کے دہانے پر بڑھ رہا ہے۔
بڑھتی ہوئی انڈسٹریز، فیکٹریاں اور اسلحہ و بارود کا بے جا استعمال مل کر دنیا کے درجہ حرارت کو بڑھا رہے ہیں اور ہر آنے والا سال گرمی کی شدت لے کر آتا ہے اور اب سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اسی لیے رواں سال عالمی درجہ حرارت میں ایک ڈگری سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے جو ایک صدی بعد کسی بھی سال میں ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ رواں سال جنوری سے ستمبر کے درمیان 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے جب کہ اس سے قبل ایسا صنعتی انقلاب سے قبل 1850ء اور 1900ء میں ہوا تھا اور اگر اندازوں کے مطابق درجہ حرارت میں یہ تبدیلی اسی طرح جاری رہی تو 2015ء ایک صدی میں یہ پہلا سال ہو گا جس میں درجہ حرارت میں اتنا زیادہ اضافہ ہوا ہے جب کہ سال کے اختتام تک درجہ حرارت میں 2 ڈگری تک کا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے، جو انتہائی خطرے کی علامت ہے۔
1880ء سے لے کر 2012ء تک درجہ حرارت میں 0.85 ڈگری کا اضافہ ہوا جب کہ زمین اور سمندروں کا درجہ حرارت نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے، 2015ء کی طرح 2016ء بھی ایک گرم ترین سال ہو گا جس میں درجہ حرارت میں ایک ڈگری سے زائد کے اضافے کا امکان ہے۔
اسی طرح عالمی بینک (ورلڈ بینک) کی حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو نہ پایا گیا تو 2030ء تک دنیا بھر میں مزید 10 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے 40 فیصد افراد کی آمدنی میں مزید 8 فیصد سے زائد کی کمی ہو سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے اناج کی پیداوار میں کمی اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث بیشتر ممالک میں غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان، سری لنکا، گوئٹے مالا، تاجکستان اور یمن سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
امریکا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی اینڈ ایٹما سفیئرک ایڈمنسٹریشن (نووا) اور دیگر اداروں کے درجنوں سائنسدانوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ گزشتہ برس گلوبل وارمنگ اور آب و ہوا میں تیزی سے آنے والی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کے نتیجے میں پوری دنیا میں 14 غیر معمولی واقعات رونما ہوئے۔
ہوائی میں سمندری طوفان اور ارجنٹینا، یورپ، جنوبی کوریا، چین اور آسٹریلیا میں گرمی کی شدید لہر، نیپال میں برف کا طوفان، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں سیلاب، افریقا اور مشرق وسطیٰ میں خشک سالی شامل ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہو گا اور ان کی شدت بھی بڑھے گی۔
یہ بات مسلسل دہرائی جا رہی ہے کہ دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کرۂ ارض پر موجود ہر قسم کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرے میں ڈال دے گا۔ بڑھتی ہوئی حدت براہ راست گلیشئرز پر اثر انداز ہو گی، جس سے سیلاب اور طغیانی کے خطرات بڑھیں گے اور پھر پانی کی کمی، خشک سالی کو دعوت دے گی۔ یہ 2 مظاہر دنیا کو ہلا کر رکھ دیں گے۔
زمین پر موجود ہر قسم کی حیات خطرے میں پڑ جائے گی، وہ انسان ہو یا کوئی اور جاندار۔ ماہرین ماحولیات، ارضیات اور موسمیات کا متفقہ فیصلہ ہے کہ گلوبل وارمنگ ایک حقیقت ہے، جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جس کے اہم محرکات آبادی میں مسلسل اضافے کی رفتار، گرین ہاؤس گیسز کا پھیلاؤ، کوئلے، گیس اور تیل کا بڑھتا ہوا استعمال اور اس کے مضر اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صنعتی اداروں، گھریلو صنعتوں اور زرعی کیمیائی ادویات کے استعمال سے خارج ہونے والے فاضل مادے زمینی، فضائی اور آبی آلودگی میں بے تحاشا اضافہ کر رہے ہیں، اس کے علاوہ مشینوں، پُرہجوم ٹریفک کا شور، تابکاری اور دیگر عوامل نے اس کرہ ٔ ارض کے قدرتی ماحول کو آلودگی اور خطرات میں جکڑ لیا ہے۔
غریب ممالک کے عوام کے لیے ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ یا حیاتیاتی تنوع کا تحفظ جیسی اصطلاحوں اور خبروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے غربت زدہ پسماندہ معاشروں میں صرف دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے حیران اور پریشان ہیں، جو اپنے اطراف سے بلکہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہیں۔ کچھ ایسا ہی منظرنامہ پاکستان کا ہے۔ عالمی ماحولیاتی مسائل اور گلوبل وارمنگ کے ساتھ ساتھ بہت سے گھمبیر اور پیچیدہ مسائل پاکستان کے ساتھ دامن گیر ہیں۔ ان میں سب میں بڑا مسئلہ ملک کی آبادی میں اضافہ ہے، آبادی میں اضافے سے حالات بگر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ماحولیات کے ادارے سمیت دیگر آزاد ذرایع عالمی ماحولیات کو مسلسل آلودہ کرنے اور قدرتی ماحول کو بتدریج پامال کرنے کی ذمے داری خاص طور پر امریکا، برطانیہ، جرمنی، جاپان، روس، فرانس اور دیگر یورپی ممالک سمیت ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل نئے صنعتی ممالک چین، برازیل، بھارت، جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ پر عائد کرتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کرنے پر زور دیا جا رہا ہے مگر گلوبل وارمنگ کو روکنے کے ضمن میں کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکی ہے تاہم ایک کینیڈین کمپنی کے شروع کردہ منصوبے نے گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کی نئی راہ سجھائی ہے۔
مذکورہ کمپنی نے ہوا میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پکڑ کر اس سے ایندھن بنانے کا پلانٹ قائم کیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا دنیا بھر میں پہلا منصوبہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر اس آزمائشی پلانٹ کے قیام کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو پھر گلوبل وارمنگ کے مسئلے سے نجات مل سکتی ہے۔
کاربن انجینئرنگ نامی کمپنی نے یہ پلانٹ شہر وینکورو کے مضافات میں قائم کیا ہے۔ کمپنی کے اس منصوبے کو مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پلانٹ نے کام شروع کر دیا ہے اور اب تک یہ دس ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو قابو میں کر چکے ہیں۔