وزیربلدیات سندھ کوکیوں ہٹایا گیا ناراضی تھی یا کچھ اور
رات2 بجے کے بعد احکام وصول ہوئے جبکہ اقدام صبح کوبھی کیاجاسکتا تھا
MIRPUR:
صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ سے آدھی رات کو بلدیات کی وزارت واپس لینے کے اقدام کے بارے میں حکومت سندھ کے ذرائع کے کہنا ہے کہ یہ قدم پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی ناصر حسین شاہ پر کسی ناراضی کے باعث عمل میں آیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کو منگل اور بدھ کی شب2 بجے کے بعد اس سلسلے میں احکام وصول ہوئے جس کے بعد محکمہ سروسزاینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کے کیبنیٹ ڈویژن کی جانب سیایمرجنسی میں ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کرادیا گیا ۔جس میں واضح طور پر لکھا گیا کہ محکمے کی جانب سے ناصر حسین شاہ کو بلدیات کا قلمدان دینے سے متعلق 23 جولائی 2015 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن منسوخ کیا گیا ہے اور یہ حکم فوری طور پر نافذالعمل ہوگا، ذرائع کے مطابق محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی کیبنیٹ سیکشن کی جانب سے اگرچہ نوٹیفکیشن رات2 بجے کے بعد یعنی18نومبر کو جاری کیا گیا لیکن اس پر تاریخ17 نومبر کی ہی درج کی گئی۔ خود ناصر شاہ اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کی جانب سے انھیں بار بار فون کرکے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا تاہم پیپلز پارٹی کے حلقوں میں عام تاثر یہ ہے کہ ناصر حسین شاہ کی وزارت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کی سفارش پرختم کی گئی ہے جنھوں نے2 دن قبل وزیراعلیٰ ہاؤس میں وزیر اعلیٰ سندھ سے ملاقات کی تھی۔
ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ناصر شاہ پیپلزپارٹی میں گھوٹکی کے مہر گروپ سے زیادہ قریب ہے جبکہ وہ روہڑی کے سابق ناظم محمد علی شیخ کے بھائی اسلم شیخ کوسکھر سٹی کا میئر بنوانا چاہتے تھے جبکہ خورشید شاہ پہلے ہی یہ عہدہ اپنے بیٹے کو دلوانے کیلیے کوشاں ہیں۔ تاہم وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ذرائع اس قسم کے تاثرسے انکارکررہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے حلقے ہوں یا وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ذرائع دونوں کچھ بتانے سے گریزاں ہیں کہ آخر وزارت واپس لینے میں اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا کہ آدھی رات کو نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑا جبکہ ایسا نوٹیفکیشن دوسرے دن صبح کو بھی جاری کیا جاسکتا تھا دوسرے یہ قدم بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ہونے والی پولنگ سے تقریباً20 گھنٹے پہلے اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ سے آدھی رات کو بلدیات کی وزارت واپس لینے کے اقدام کے بارے میں حکومت سندھ کے ذرائع کے کہنا ہے کہ یہ قدم پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی ناصر حسین شاہ پر کسی ناراضی کے باعث عمل میں آیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کو منگل اور بدھ کی شب2 بجے کے بعد اس سلسلے میں احکام وصول ہوئے جس کے بعد محکمہ سروسزاینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کے کیبنیٹ ڈویژن کی جانب سیایمرجنسی میں ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کرادیا گیا ۔جس میں واضح طور پر لکھا گیا کہ محکمے کی جانب سے ناصر حسین شاہ کو بلدیات کا قلمدان دینے سے متعلق 23 جولائی 2015 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن منسوخ کیا گیا ہے اور یہ حکم فوری طور پر نافذالعمل ہوگا، ذرائع کے مطابق محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کی کیبنیٹ سیکشن کی جانب سے اگرچہ نوٹیفکیشن رات2 بجے کے بعد یعنی18نومبر کو جاری کیا گیا لیکن اس پر تاریخ17 نومبر کی ہی درج کی گئی۔ خود ناصر شاہ اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کی جانب سے انھیں بار بار فون کرکے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا تاہم پیپلز پارٹی کے حلقوں میں عام تاثر یہ ہے کہ ناصر حسین شاہ کی وزارت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کی سفارش پرختم کی گئی ہے جنھوں نے2 دن قبل وزیراعلیٰ ہاؤس میں وزیر اعلیٰ سندھ سے ملاقات کی تھی۔
ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ناصر شاہ پیپلزپارٹی میں گھوٹکی کے مہر گروپ سے زیادہ قریب ہے جبکہ وہ روہڑی کے سابق ناظم محمد علی شیخ کے بھائی اسلم شیخ کوسکھر سٹی کا میئر بنوانا چاہتے تھے جبکہ خورشید شاہ پہلے ہی یہ عہدہ اپنے بیٹے کو دلوانے کیلیے کوشاں ہیں۔ تاہم وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ذرائع اس قسم کے تاثرسے انکارکررہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے حلقے ہوں یا وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ذرائع دونوں کچھ بتانے سے گریزاں ہیں کہ آخر وزارت واپس لینے میں اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا کہ آدھی رات کو نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑا جبکہ ایسا نوٹیفکیشن دوسرے دن صبح کو بھی جاری کیا جاسکتا تھا دوسرے یہ قدم بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ہونے والی پولنگ سے تقریباً20 گھنٹے پہلے اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔