جنرل راحیل شریف کی امریکی حکام سے ملاقاتیں

جنرل راحیل شریف نے خطے میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل پر بھی زور دیا

جنرل راحیل شریف نے خطے میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل پر بھی زور دیا، فوٹو: آئی ایس پی آر

MIRPUR:
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے علاقائی تنازعات اور مسائل کے حل کے تناظر میں پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کرنے کے لیے بدھ کو واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری سمیت دیگر امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ جان کیری سے ملاقات میں افغانستان' بھارت سمیت خطے کی سیکیورٹی اور استحکام کی ضرورت اور اقدامات پر بات ہوئی۔

جنرل راحیل شریف نے خطے میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل پر بھی زور دیا اور جان کیری کو علاقائی سیکیورٹی پر اپنے موقف سے آگاہ کیا، دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ پاک بھارت کشیدہ تعلقات خطے کے مفاد میں نہیں۔ جان کیری نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کسی دوسرے ملک کے اثرات سے آزاد ہیں۔ آرمی چیف نے پینٹاگون میں چیئرمین جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل جوزف ڈینفورڈ، آرمی چیف جنرل مارک مائلے اور سینٹکام کے چیف جنرل جیمزآسٹن سے بھی ملاقاتیں کیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ان ملاقاتوں میں دفاعی تعاون، فوجی تعلقات میں مضبوطی، علاقائی سلامتی، روابط میں اضافے اور فوجی تربیتی پروگراموں کے تبادلے پر بات چیت ہوئی۔

جنرل راحیل شریف کا دورہ واشنگٹن افغانستان کی زیر قیادت مفاہمتی عمل اور خطے کو درپیش مسائل میں پاک امریکا کردار کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کو ایک جانب جہاں مشرقی سرحد پر بھارت کی جانب سے پیدا کردہ کشیدگی کا سامنا ہے وہاں دوسری جانب شمال مغربی سرحد پر افغانستان کی جانب سے سرحدوں پر فائرنگ، دہشت گردوں کی آمد اور سیکیورٹی کے دیگر مسائل نے الجھا رکھا ہے۔

پاکستان کی بھرپور کوشش ہے کہ اس کی دونوں سرحدوں پر امن قائم ہونے کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات پیدا ہوں تاکہ پاکستان اپنے ان ہمسایہ ممالک کی جانب سے پیدا کردہ داخلی اور خارجی مشکلات پر بخوبی قابو پا سکے۔ یہ بات منظرعام پر آ چکی ہے کہ یہ دونوں ہمسایہ ممالک دانستہ نہ صرف سرحدوں پر کشیدگی کو ہوا دے رہے بلکہ پاکستان کے اندر دہشت گرد گروہوں کو بھی تربیت اور مدد فراہم کر رہے ہیں۔


پاکستان سرحدوں پر صورت حال قابو میں رکھنے کے علاوہ داخلی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کر رہا ہے لیکن اسے بخوبی ادراک ہے کہ جب تک اس کے ہمسایہ ممالک مداخلت بند نہیں کرتے دہشت گردی کو تقویت ملتی رہے گی کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گردوں کا کوئی بھی گروہ داخلی اور خارجی امداد کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کے حوالے سے بھارتی اور افغان حکمرانوں کی سوچ اور رویے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا، دونوں شرپسندی اور ہرزہ سرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے' پاکستان اپنے ان ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے مگر ان کے معاندانہ رویے کے باعث یہ کوششیں بارآور نہیں ہو رہیں۔

جہاں تک افغانستان کے معاملات کا تعلق ہے تو وہ خود داخلی سطح پر انتہا پسند اور جنگجو گروپوں کے ساتھ برسر پیکار ہے، یہ گروہ موجودہ افغان حکومت کے وجود کے لیے خطرہ ہیں، افغان حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا پاکستان نے افغانستان کو عدم استحکام سے بچانے کے لیے مفاہمتی عمل کو کامیاب بنانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور معاملات ابھی تک جوں کے توں ہیں' پاکستان کئی بار اس عزم کا اعادہ کر چکا ہے کہ وہ افغان مفاہمتی عمل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے لیکن افغان حکومت کی جانب سے بعض ایسے امور منظرعام پر آئے ہیں جن کی بنا پر مفاہمتی عمل میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔

اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد پاکستان کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دیا جس سے یہ امید پیدا ہوئی کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی مشکلات جلد ختم ہو جائیں گی اور دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات فروغ پائیں گے مگر موجودہ صورت حال یہ ہے کہ افغان صدر وقفے وقفے سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں جس سے نت نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی پاکستان کی جانب سے دوستی کی پیشکش کے جواب میں مثبت رویہ اپنانے کے بجائے محاذ آرائی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

پاکستان مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے مگر بھارت اس طرف آنے کے لیے قطعی آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس صورت حال کے تناظر میں جنرل راحیل شریف کا امریکا سے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دینا بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ عالمی طاقت ہونے کے ناطے امریکا پاک بھارت تنازعات کے حل کے لیے ابھی تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اگر وہ اس خطے میں پائیدار امن چاہتا ہے تو اسے علاقائی تنازعات کے حل کے لیے متحرک کردار ادا کرنا ہو گا۔ افغان مسئلے کے حوالے سے بھی امریکا کو پاکستان کے مفادات اور سلامتی کا خیال رکھنا ہو گا۔
Load Next Story