فرانس کی غلطی اب رنگ لائی
اگر آپ ایک ایسے مکان میں رہائش پذیر ہیں، جس کا رقبہ ایک ہزار مربع گز ہے بس وسط میں 300 مربع گز کا گھر ہے
اگر آپ ایک ایسے مکان میں رہائش پذیر ہیں، جس کا رقبہ ایک ہزار مربع گز ہے بس وسط میں 300 مربع گز کا گھر ہے اور چاروں جانب درختوں کی باڑ ہے تو اگر خدانخواستہ دائیں اور بائیں جانب سے گھر میں آتشزدگی ہوتی ہے تو آپ محفوظ رہیں گے۔ مگر اگر آپ کسی فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں تو غلطی کسی کی ہو آپ کو بھگتنا پڑے گی۔
یہ دنیا بھی رفتہ رفتہ فلیٹ کے مانند ہو چکی ہے، کہیں بھی قتل و غارت گری یا آتش زنی ہو اس کی آنچ آپ تک ضرور پہنچے گی۔ مگر فرانس نے یہ محسوس نہ کیا اور لیبیا پر اس کے طیارے پہنچے اور لیبیا جیسے ایک خودمختار ملک کے لیے انھوں نے بھی امریکی دانہ چگ لیا، رجیم چینج (Regime Change)۔ انھوں نے ایک سیکولر قوم پرست ملک پر شدید بمباری کی اور آخرکار داعش نما باغیوں کو اس ملک کے مقدر سے کھیلنے کی اجازت دے ڈالی۔ یہ تھی امریکی اور نیٹو ممالک کی جمہوریت جہاں لاکھوں لوگوں کے قتل کا بازار سجایا گیا اور اب یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہاں کس کی حکومت قائم ہے۔
ان کی خارجہ پالیسی کیا ہے۔ یہ کشتیوں میں سوار موت کے منہ سے بچتے اور ڈوبتے ہوئے لوگ صرف شام سے نہیں آئے ہیں بلکہ یہ طرابلس اور دوسرے شہروں کے بھی بے گناہ لوگ ہیں، جو امن و آشتی سے زندگی گزارتے تھے۔ زیادہ عرصے کی بات نہیں پاکستان سے ہزاروں لوگ لیبیا جا کر نوکری کرتے تھے اور گھر کے لوگوں کو زر کثیر بھیجتے تھے۔
یہ معمر قذافی تھے جنھوں نے پاکستان کی ایٹمی پالیسی میں دست کشائی کی مگر ان کے قتل پر ملک میں اف تک نہ ہوئی کیونکہ ہم نیٹو ممالک کے طرفدار ہیں۔ یہ معمر قذافی تھے جنھوں نے ماؤزے تنگ کی سرخ کتاب کے جواب میں ایک سبز کتاب لکھی تھی جس میں اسلام کے معاشی نظام کی عکاسی کی گئی تھی، مگر مسلم دنیا سے کوئی آواز بلند نہ ہوئی اور نہ پیپلز پارٹی کی جانب سے، یہ معمر قذافی تھے جنھوں نے جنرل ضیا سے ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور پیپلزپارٹی کا جھنڈا لیبیا کے فوجی جھنڈے کے رنگوں کا عکس ہے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کے قذافی گہرے رفیق تھے، اگر بے نظیر بقید حیات ہوتیں تو یقینا وہ مذمت کرتیں کہ فرانس یہ قدم نہ اٹھائے کہ وہ انتہا پسندوں کی حمایت میں لیبیا کی حکومت پر سیکڑوں ہوائی حملے کرتے۔
دوسرے ملکوں پر حملے کرنا ان کی حکومت کو لخت کرنا کیا یہ جمہوری اساس ہے، اس کا احساس فرانس کو اس وقت ہوا جب ایک روز میں انتہا پسندوں کے حملے میں 130 افراد ہلاک ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ فرانس کے لوگوں نے زبردست شعور کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کے خلاف آواز نہ اٹھائی اور بہ آواز بلند یہ کہا کہ اس حملے سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں بلکہ کینیڈا میں جہاں کچھ نہ ہوا وہاں نسل پرستوں نے 5 مساجد کو نذرآتش کر دیا۔
یہ تھی جہاں تنگ نظری اور بے شعوری اور نسل پرستی کا ردعمل فرانس کے صدر ہالینڈ نے اس المناک واقعے کا ردعمل کے نتیجے میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا اور قانون میں ترمیم کا عندیہ دے دیا تا کہ ملک میں دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ ایک عجیب بات ہے دہشت گردوں نے جس تھیٹر کو نشانہ بنایا تھا اس میں ڈیڑھ ہزار لوگ موجود تھے اور دہشت گردوں کے پاس بھاری اسلحہ آتش گیر مادہ، اے کے 47 رائفل موجود تھی، دراصل ان لوگوں کو یرغمال بنا کر سودے بازی کرنا چاہیے تھی مگر تماش بینوں نے جب موت کو اس قدر قریب سے دیکھا تو انھوں نے نہتے ہونے کے باوجود کرسیوں اور دیگر چیزوں سے حملہ کر دیا، اس طرح صرف 86 افراد جاں بحق اور کچھ زخمی ہوئے ورنہ یہ دہشت گرد سیکڑوں لوگوں کو مارتے جاتے۔
یہ کہلاتی ہے اتحاد اور یقین کی قوت اور باقی لوگ قومی ترانے کا ورد کرتے رہے۔ مگر پیرس میں ردعمل کے طور پر کسی مسلمان کو گزند نہ پہنچائی گئی بلکہ پیرس کے لوگوں نے یہ کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی دین نہیں ہوتا۔ یہ سبق ان کو جمہوریت اور سیکولرازم نے سکھایا ہے کیونکہ سیکولرازم جمہوریت کا جزو لاینفک ہے، اگر جمہوریت سے سیکولرازم کو باہر کر دیا جائے تو وہ فرقہ واریت پر مبنی طرز حکمرانی ہوتا ہے جب ریاست خود کسی مذہب کی پیروکار ہو جاتی ہے تو پھر اس بات کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے خلاف فیصلے صادر کرے۔
اگر ریاست سیکولر ہو اور عمل نہ ہو تو وہ ریاست مکر کا ایک پوٹلا بن جاتی ہے جیسا کہ مودی حکومت جس نے بھارت کو عالم میں رسوا کیا۔ حکومت سیکولر لیکن اس کو پریکٹس نہ کرنا بلکہ انتہا پسند ہندومت کے اقدامات سب پر لاگو کرنا اور اگر ان اقدامات پر کوئی ناگواری کا ثبوت دے تو اس کو تہہ تیغ کرنا۔ انسان کی ناقدری اور گائے کا تقدس۔ گائے یقینا جانوروں میں افضل ہو سکتی ہے، اسماعیل میرٹھی نے گائے پر جو نظم لکھی ہے اس سے اس کا معیار سامنے آتا ہے، بقول ان کے ''رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی'' جس کی وجہ سے آنے والی نسل کو دودھ ملتا ہے اور خاص طور سے پرانے زمانے میں بچوں کی پرورش کا یہ واحد ذریعہ تھا۔ گائے کی ناقدری پر کوئی خوش نہیں مگر گائے کے نام پر انسان کو قتل کرنا کون سے دھرم کی تیاری ہے۔
مذہب کا زبردستی استعمال انسانیت کی توہین ہے اور یہی داعش کر رہا ہے، اس تنظیم کے قلابے صیہونی اسرائیلی گروپ سے ملتے ہیں جس کا نیتن یاہو کئی بار عندیہ دے چکے ہیں کیونکہ اچانک راتوں رات اس تنظیم کا کھڑا ہونا، لاریاں، فوجی ساز و سامان پوری کی پوری فوج سب اسرائیل کی ٹریننگ میں رہی ہے، ذرا غور کیجیے تمام دنیا میں کہرام مچاتی خاص طور سے مسلم دنیا کو تہس نہس کرتی ہوئی بے رحم جماعت اسرائیل کے خلاف ایک گولی بھی نہیں چلاتی۔ یہ بھی طالبان کے طرز کی تنظیم ہے جو اپنے بنانے والے کے خلاف ہی کھڑی ہو گئی اور آخر کار ضرب عضب شروع ہوئی۔
لیبیا میں فرانس نے قذافی کے خلاف جنگ میں جس زور و شور سے حصہ لیا، اس کی مثال مشکل ہے۔ اور آخر کار امریکی سفارت خانے نے کس قدر ہزیمت اٹھائی اور لیبیا میں لاکھوں انسان نذر اجل ہوئے۔ دنیا میں نیٹو نے اس تنظیم کو بڑھاوا دیا۔ بقول ولادی میرپوتن جس قدر بمباری کی اسی قدر داعش ترقی کرتی رہی، لہٰذا اس کو براہ راست آنا پڑا۔ یہ وہی مرحلہ تھا اچھے طالبان اور برے طالبان جن سے مذاکرات شروع کیے گئے تھے اگر صرف چند یوم ضرب عضب دیر سے شروع ہوتی تو طالبان پشاور پر قبضہ کر سکتے تھے اور دیگر شہروں میں اچانک حملہ آور ہوتے، مگر جنرل راحیل نے بھانپ لیا یہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا کنفیوژن تھا۔ بالکل ایسا ہی امریکا آج کل کر رہا ہے۔
انتخابی دوڑ میں ہیلری کلنٹن اور ٹرمپ شریک ہیں، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اچھے اور برے جنگجوؤں کے مسئلے پر شام کے لیے روس کے موقف کے مکمل حامی ہیں۔ اس لیے اس بات کا امکان نہیں کہ وہ آخری مرحلے میں صدارتی دوڑ میں شریک ہو سکیں گے کیونکہ وہ سی آئی اے کی تیار کردہ پالیسی پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ مغرب کے نام نہاد اچھے اور برے جنگجوؤں نے مشرق وسطیٰ کا بحران کھڑا کر رکھا ہے۔ یہ تمام انسانی قدروں کے قاتل مغرب کی پناہ میں ہیں۔
اور اب امریکا داعش کے خلاف بھرپور ایکشن کی بات کر رہا ہے۔ درحقیقت امریکی اسلام کو مسخ کرنے کی مہم پر کاربند ہیں۔ دنیا کی بدامنی نیٹو ممالک کا تحفہ ہے اس لیے جہاں جہاں بدامنی ہے وہاں کے لوگ ہجرت پر مجبور ہو کر ان ممالک کا رخ کر رہے ہیں اور انھی میں وہ لوگ بھی جو دہشت گردی کے لیے جمہوریت کے نام پر شام و عراق میں تیار کیے گئے۔ اب ان کے اقدامات کا اثر چین، فرانس تک آ گیا تو ان کو ہوش آیا کہ ان سے غلطی ہو گئی۔ اب فرانس کا روس کے ساتھ تعلقات کا نیا دور شروع ہونے کو ہے جس سے نیٹو اور خود فرانس کی پالیسی بدلنے کو ہے۔
یہ دنیا بھی رفتہ رفتہ فلیٹ کے مانند ہو چکی ہے، کہیں بھی قتل و غارت گری یا آتش زنی ہو اس کی آنچ آپ تک ضرور پہنچے گی۔ مگر فرانس نے یہ محسوس نہ کیا اور لیبیا پر اس کے طیارے پہنچے اور لیبیا جیسے ایک خودمختار ملک کے لیے انھوں نے بھی امریکی دانہ چگ لیا، رجیم چینج (Regime Change)۔ انھوں نے ایک سیکولر قوم پرست ملک پر شدید بمباری کی اور آخرکار داعش نما باغیوں کو اس ملک کے مقدر سے کھیلنے کی اجازت دے ڈالی۔ یہ تھی امریکی اور نیٹو ممالک کی جمہوریت جہاں لاکھوں لوگوں کے قتل کا بازار سجایا گیا اور اب یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہاں کس کی حکومت قائم ہے۔
ان کی خارجہ پالیسی کیا ہے۔ یہ کشتیوں میں سوار موت کے منہ سے بچتے اور ڈوبتے ہوئے لوگ صرف شام سے نہیں آئے ہیں بلکہ یہ طرابلس اور دوسرے شہروں کے بھی بے گناہ لوگ ہیں، جو امن و آشتی سے زندگی گزارتے تھے۔ زیادہ عرصے کی بات نہیں پاکستان سے ہزاروں لوگ لیبیا جا کر نوکری کرتے تھے اور گھر کے لوگوں کو زر کثیر بھیجتے تھے۔
یہ معمر قذافی تھے جنھوں نے پاکستان کی ایٹمی پالیسی میں دست کشائی کی مگر ان کے قتل پر ملک میں اف تک نہ ہوئی کیونکہ ہم نیٹو ممالک کے طرفدار ہیں۔ یہ معمر قذافی تھے جنھوں نے ماؤزے تنگ کی سرخ کتاب کے جواب میں ایک سبز کتاب لکھی تھی جس میں اسلام کے معاشی نظام کی عکاسی کی گئی تھی، مگر مسلم دنیا سے کوئی آواز بلند نہ ہوئی اور نہ پیپلز پارٹی کی جانب سے، یہ معمر قذافی تھے جنھوں نے جنرل ضیا سے ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور پیپلزپارٹی کا جھنڈا لیبیا کے فوجی جھنڈے کے رنگوں کا عکس ہے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کے قذافی گہرے رفیق تھے، اگر بے نظیر بقید حیات ہوتیں تو یقینا وہ مذمت کرتیں کہ فرانس یہ قدم نہ اٹھائے کہ وہ انتہا پسندوں کی حمایت میں لیبیا کی حکومت پر سیکڑوں ہوائی حملے کرتے۔
دوسرے ملکوں پر حملے کرنا ان کی حکومت کو لخت کرنا کیا یہ جمہوری اساس ہے، اس کا احساس فرانس کو اس وقت ہوا جب ایک روز میں انتہا پسندوں کے حملے میں 130 افراد ہلاک ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ فرانس کے لوگوں نے زبردست شعور کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کے خلاف آواز نہ اٹھائی اور بہ آواز بلند یہ کہا کہ اس حملے سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں بلکہ کینیڈا میں جہاں کچھ نہ ہوا وہاں نسل پرستوں نے 5 مساجد کو نذرآتش کر دیا۔
یہ تھی جہاں تنگ نظری اور بے شعوری اور نسل پرستی کا ردعمل فرانس کے صدر ہالینڈ نے اس المناک واقعے کا ردعمل کے نتیجے میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا اور قانون میں ترمیم کا عندیہ دے دیا تا کہ ملک میں دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ ایک عجیب بات ہے دہشت گردوں نے جس تھیٹر کو نشانہ بنایا تھا اس میں ڈیڑھ ہزار لوگ موجود تھے اور دہشت گردوں کے پاس بھاری اسلحہ آتش گیر مادہ، اے کے 47 رائفل موجود تھی، دراصل ان لوگوں کو یرغمال بنا کر سودے بازی کرنا چاہیے تھی مگر تماش بینوں نے جب موت کو اس قدر قریب سے دیکھا تو انھوں نے نہتے ہونے کے باوجود کرسیوں اور دیگر چیزوں سے حملہ کر دیا، اس طرح صرف 86 افراد جاں بحق اور کچھ زخمی ہوئے ورنہ یہ دہشت گرد سیکڑوں لوگوں کو مارتے جاتے۔
یہ کہلاتی ہے اتحاد اور یقین کی قوت اور باقی لوگ قومی ترانے کا ورد کرتے رہے۔ مگر پیرس میں ردعمل کے طور پر کسی مسلمان کو گزند نہ پہنچائی گئی بلکہ پیرس کے لوگوں نے یہ کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی دین نہیں ہوتا۔ یہ سبق ان کو جمہوریت اور سیکولرازم نے سکھایا ہے کیونکہ سیکولرازم جمہوریت کا جزو لاینفک ہے، اگر جمہوریت سے سیکولرازم کو باہر کر دیا جائے تو وہ فرقہ واریت پر مبنی طرز حکمرانی ہوتا ہے جب ریاست خود کسی مذہب کی پیروکار ہو جاتی ہے تو پھر اس بات کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے خلاف فیصلے صادر کرے۔
اگر ریاست سیکولر ہو اور عمل نہ ہو تو وہ ریاست مکر کا ایک پوٹلا بن جاتی ہے جیسا کہ مودی حکومت جس نے بھارت کو عالم میں رسوا کیا۔ حکومت سیکولر لیکن اس کو پریکٹس نہ کرنا بلکہ انتہا پسند ہندومت کے اقدامات سب پر لاگو کرنا اور اگر ان اقدامات پر کوئی ناگواری کا ثبوت دے تو اس کو تہہ تیغ کرنا۔ انسان کی ناقدری اور گائے کا تقدس۔ گائے یقینا جانوروں میں افضل ہو سکتی ہے، اسماعیل میرٹھی نے گائے پر جو نظم لکھی ہے اس سے اس کا معیار سامنے آتا ہے، بقول ان کے ''رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی'' جس کی وجہ سے آنے والی نسل کو دودھ ملتا ہے اور خاص طور سے پرانے زمانے میں بچوں کی پرورش کا یہ واحد ذریعہ تھا۔ گائے کی ناقدری پر کوئی خوش نہیں مگر گائے کے نام پر انسان کو قتل کرنا کون سے دھرم کی تیاری ہے۔
مذہب کا زبردستی استعمال انسانیت کی توہین ہے اور یہی داعش کر رہا ہے، اس تنظیم کے قلابے صیہونی اسرائیلی گروپ سے ملتے ہیں جس کا نیتن یاہو کئی بار عندیہ دے چکے ہیں کیونکہ اچانک راتوں رات اس تنظیم کا کھڑا ہونا، لاریاں، فوجی ساز و سامان پوری کی پوری فوج سب اسرائیل کی ٹریننگ میں رہی ہے، ذرا غور کیجیے تمام دنیا میں کہرام مچاتی خاص طور سے مسلم دنیا کو تہس نہس کرتی ہوئی بے رحم جماعت اسرائیل کے خلاف ایک گولی بھی نہیں چلاتی۔ یہ بھی طالبان کے طرز کی تنظیم ہے جو اپنے بنانے والے کے خلاف ہی کھڑی ہو گئی اور آخر کار ضرب عضب شروع ہوئی۔
لیبیا میں فرانس نے قذافی کے خلاف جنگ میں جس زور و شور سے حصہ لیا، اس کی مثال مشکل ہے۔ اور آخر کار امریکی سفارت خانے نے کس قدر ہزیمت اٹھائی اور لیبیا میں لاکھوں انسان نذر اجل ہوئے۔ دنیا میں نیٹو نے اس تنظیم کو بڑھاوا دیا۔ بقول ولادی میرپوتن جس قدر بمباری کی اسی قدر داعش ترقی کرتی رہی، لہٰذا اس کو براہ راست آنا پڑا۔ یہ وہی مرحلہ تھا اچھے طالبان اور برے طالبان جن سے مذاکرات شروع کیے گئے تھے اگر صرف چند یوم ضرب عضب دیر سے شروع ہوتی تو طالبان پشاور پر قبضہ کر سکتے تھے اور دیگر شہروں میں اچانک حملہ آور ہوتے، مگر جنرل راحیل نے بھانپ لیا یہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا کنفیوژن تھا۔ بالکل ایسا ہی امریکا آج کل کر رہا ہے۔
انتخابی دوڑ میں ہیلری کلنٹن اور ٹرمپ شریک ہیں، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اچھے اور برے جنگجوؤں کے مسئلے پر شام کے لیے روس کے موقف کے مکمل حامی ہیں۔ اس لیے اس بات کا امکان نہیں کہ وہ آخری مرحلے میں صدارتی دوڑ میں شریک ہو سکیں گے کیونکہ وہ سی آئی اے کی تیار کردہ پالیسی پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ مغرب کے نام نہاد اچھے اور برے جنگجوؤں نے مشرق وسطیٰ کا بحران کھڑا کر رکھا ہے۔ یہ تمام انسانی قدروں کے قاتل مغرب کی پناہ میں ہیں۔
اور اب امریکا داعش کے خلاف بھرپور ایکشن کی بات کر رہا ہے۔ درحقیقت امریکی اسلام کو مسخ کرنے کی مہم پر کاربند ہیں۔ دنیا کی بدامنی نیٹو ممالک کا تحفہ ہے اس لیے جہاں جہاں بدامنی ہے وہاں کے لوگ ہجرت پر مجبور ہو کر ان ممالک کا رخ کر رہے ہیں اور انھی میں وہ لوگ بھی جو دہشت گردی کے لیے جمہوریت کے نام پر شام و عراق میں تیار کیے گئے۔ اب ان کے اقدامات کا اثر چین، فرانس تک آ گیا تو ان کو ہوش آیا کہ ان سے غلطی ہو گئی۔ اب فرانس کا روس کے ساتھ تعلقات کا نیا دور شروع ہونے کو ہے جس سے نیٹو اور خود فرانس کی پالیسی بدلنے کو ہے۔