بچے ہمارے عہد کے
کچھ ہی روز پہلے میں ایک پارک میں جاگنگ کرنے کے بعدکینٹین ایریا میں جاکر بیٹھی
BASSETERRE, SAINT KITTS AND NEVIS:
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضدکریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
(پروین شاکر)
کچھ ہی روز پہلے میں ایک پارک میں جاگنگ کرنے کے بعدکینٹین ایریا میں جاکر بیٹھی،کچھ ہی فاصلے پر بچوں کے جھولے اور سلائیڈنگ پر بچوں کوکھیلتے دیکھ رہی تھی کہ غیر ارادی طور پر میری نظر ان دو بچوں پر پڑی جو آپس میں جھولے پر بیٹھنے کے لیے لڑرہے تھے۔ایک بچہ جو جھولا جھول رہا تھا اس کی عمرمشکل سے سات سال کی ہوگی اور دوسرا تقریباً دس سال کا تھا۔سات سال والا بضد تھا کہ وہ جھولے سے نہیں اترے گا لیکن اس کا بھائی جوکہ دس سال کا تھا اس نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور اسے کھیلنے کودیا، جس پر بچے نے جھولا چھوڑا اور موبائل لے کر ایک جگہ بیٹھ کرکھیلنے لگا۔
اس دوران میں نے ایک فریش جوس بنواکر پیا،کچھ ہی دیر میں میری نظروں نے ان کا تعاقب کیا، کیا دیکھتی ہوں کہ مغرب ہونے کو تھی، بچے کی نظریں موبائل سے نہ ہٹیں، حتیٰ کہ وہ جس سمت اس وقت بیٹھا تھا اتنی دیر تک بغیر ہلے جلے یا ٹیک لگائے وہ موبائل کے ساتھ ہی لگا رہا۔اس سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ اس بچے کو جھولے میں وہ لطف نہیں آیا جتنا مزہ موبائل کو استعمال کرتے ہوئے آرہا تھا۔
یہ تو تھا آنکھوں دیکھا حال جس کو بذاتِ خود میں نے دیکھ کر یہ ضرور محسوس کرلیا کہ ہم ارد گرد اور اپنے ہی گھرکے بچوں پر نظر دوڑائیں تو واقعی ہمارے بچے اپنے لیے کس کس طرح کی انٹرٹینمنٹ ڈھونڈ رہے ہیں۔
در اصل ہم انھیں وہ تفریحات نہیں دے پا رہے ہیں جو ان کو چاہیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو ٹیبلیٹ، ٹچ اسکرین موبائل،کمپیوٹر دے کر سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ دے کر اپنا فرض نبھارہے ہیں یا یہیں فرائض پورے ہوجاتے ہیں اگر ایسا سوچیں تو ہم غلط ہیں،اپنی آیندہ نسل کو مفلوج اور برباد کررہے ہیں۔اب بڑوں کوکون سمجھائے اوراس بات کا احساس دلائے کہ ان کے بچے بچپن سے موبائل اورٹیبلیٹ استعمال توکررہے ہیں، اس مسلسل استعمال سے ان کی بینائی پر بھی کتنا اثر بلکہ بڑا اثر ہونے والا ہے یہی نہیں بلکہ چھوٹی عمر اورکچے معصوم ذہن جب موبائل اور ٹیبلیٹ میں ناقابل قبول مواد دیکھ لیتے ہیں تو ان کے کچے ذہنوں میں سوالات جنم لیتے ہیں اور وہ اپنے ماں باپ یا بڑے بھائی بہن سے معصومانہ اور بے دھڑک سوالات کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح ہی برے فعل جنم لیتے ہیں، غلاظتیں پھیلتی ہیں۔
اب اگر یہی رجحان رہا تو ''ہم'' اس صورتحال میں کہاں کھڑے ہیں۔ ''ہم''کا مطلب پاکستان، اگلے آیندہ پچیس سال بعد یہی نسل کیا کردار ادا کرے گی، اگر ہم مستقبل میں نظر دوڑائیں تو خوفناک شکل سامنے نظرآجاتی ہے۔ پھر اس بات کا مطلب یہ بھی نہ لیا جائے کہ یہ سب ختم کیا جائے یا موبائل اور ٹیبلیٹ کا استعمال مکمل طور پر ترک کیا جائے، مقصد یہ ہے کہ یہ استعمال کس طرح سے کرنا ہے۔یہ بات بھی والدین کو سمجھ لینی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد پر نظر رکھیں اور روکیں۔
ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انھیں کے بچوں سے کوئی غلط حرکت ہوجائے تو یہی ماں باپ سینہ پیٹتے رہ جائیںگے۔بات یہاں تک محدود نہیں، والدین تو یہ بھی بھول گئے ہیں کہ انھیں اپنے بچوں کی ذہنی نشوونما کیسے کرنی ہے وہ صرف مقابلہ بازی میں لگے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کوکم عمری میں اسکول میں داخل کروا لیتے ہیں تاکہ ہمارا بچہ جلد پڑھنا شروع کرے، اس جلدی کا کیا فائدہ جو آپ کا بچہ آپ سے دور ہوتا جائے جو تربیت ماں اپنے بچے کو دیتی ہے وہ ٹیچرکہاں دے پائے گی؟
حضور پاک ﷺ کے فرمان کے مطابق ''ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو 7 سال تک اپنے گلے سے لگاکر رکھے، دور نہ کرے'' جب ہمارے دین اسلام میں ہی بچے کے لیے اتنی سختی نہیں تو والدین کیا سوچ کر اپنے بچوں پر بوجھ ڈالتے ہیں، فقط اتنا فائدہ ضرور ہے کہ بچہ رٹے لگا لگاکر "A" گریڈ تو ضرور لے آئے گا لیکن اس بچے کی ذہنی نشوونما اور قوتِ ارادی میں کتنا قابل ہوگا ممکن ہے والدین تک کو علم نہیں ہوگا۔ وہ صرف اسکول کی تعلیمی قابلیت پر بچوں کے حوالے سے مطمئن نظر آتے ہیں اور ٹیچرز پر منحصر ہوتے ہیں، ایسا ہرگز ممکن نہیں، ٹیچر صرف اس موجودہ سال کے اندر اندرکورس کو ختم کرواتا ہے، یا کرواتی ہے، تربیت کی کبھی ذمے داری ٹیچر نے نہیں دی ہوتی۔
ویسے عموماً دیکھا تو یہی گیا ہے کہ بچہ اسکول سے واپس گھرآتا ہے، کھانا کھاکر پھر ٹیوشن کے لیے بھیجا جاتا ہے مغرب کے وقت تک ٹیوشن سے آتا ہے اس کے بعد بچے میں وہ کہاں طاقت یا ہمت کہ وہ کھیل کود سکے، یا ذہنی سکون ملے، رات کو جلدی سونا یہ کہہ کر ''بیٹا کل صبح اسکول کے لیے جلدی اٹھنا ہے۔'' اس بھاگ دوڑ میں والدین کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ بچے پر پڑھائی کا دباؤ ڈال کر اس کا معصوم بچپنا جو وہ اپنی عمر میں آزادی کے ساتھ کچھ لمحات گزارنا چاہتا ہے اس پر اپنی مرضی مسلط کردی جاتی ہے۔
ایک ہفتے میں اسکولوں کی دو دن چھٹی ہوتی ہے، ہفتہ اور اتوار اور کئی ایسے اسکول بھی ہیں جن کی صرف اتوار کو چھٹی ہوتی ہے جس میں بچے تھوڑی بہت تفریح کے لیے گھر سے باہر اپنے والدین کے ساتھ چلے جاتے ہیں اور پھر والدین بھی آمدنی دیکھ کر بچوں کو ایسی جگہ لے جاتے ہیں جہاں زیادہ خرچہ نہ ہو اب یہاں پر بھی دیکھا جائے تو بچوں کی تفریح پر خنجر اور اگرگھر میں وقت گزارتے ہیں تو ماسوائے ٹی وی کے اورکوئی چارہ نہیں لیکن ٹی وی پر بھی قتل وغارت، دہشت ناک خبریں اور انٹرٹینمنٹ سائیڈ پر بڑوں کے ڈرامے بچوں کو دیکھنے کے لیے ملتے ہیں، ٹی وی چینلز نے بھی تو ریٹنگز کے چکر میں ڈرامے بڑوں کے لیے ہی بنائے بچوں کے لیے ابھی تک کوئی سیریز یا مستقل ڈرامے شروع نہیں کیے۔
اسی لیے آج ہمارے بچے ڈرامے اپنے بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں کیوں نہ دیکھیںگے، انھیں کچھ اچھا اپنے مطلب اپنی عمرکے حساب سے سوائے کارٹون کے علاوہ دیکھنے کو جو نہیں مل رہا۔مان لیا کہ پریوں، بھوتوں اور چڑے چڑی کی کہانیاں سننے اور سنانے والا دور چلا گیا جب ماں اپنے بچوں کو سلاتے وقت کھٹی میٹھی کہانیاں سناکرسلادیتی تھیں لیکن آج کہانی کچھ یوں ہے کہ جس بچے کو پیدا ہوتے ہی کان میں اذان دی جاتی ہے جب وہ بچہ بڑا ہونے لگتا ہے تو ماں بڑے فخر سے کہتی ہے کہ میرا بچہ فلاں گانا موبائل پر سنتے سنتے سوتا ہے۔آیہیں والدین اپنے بچوں کی وہ خواہشات جو بے جا چیزوں سے متعلق ہیں کے بجائے ان کو آسائش دے کر ان کی ذہنی نشوونما، سوچنے کی صلاحیت، سستی کا شکار اورکاہل کردیں اور یہی بچے جب بارہ سال کے ہوجاتے ہیں تو روڈ، گلیوں میں تیزی سے چلانے والی موٹر سائیکل پر دھواں دھار رفتار کے ساتھ نظر آتے ہیں جس میں بچوں کی جان کے خطرے بھی لاحق ہوتے ہیں۔
آیاد رہے کہ ہم بچوں کو تعلیم تو دے رہے ہیں تربیت نہیں دے رہے، جو تربیت کا لمحہ یا دورانیہ ہوتا ہے۔ اس میں بچوں کو خوبصورت اسکول کی بلڈنگ کے حوالے کردیا جاتا ہے ماں کا رویہ کہ بچہ اسکول اور ٹیوشن جائے تاکہ وہ اپنے لیے وقت نکالے اور سکون میں رہے میں نے ایسی بہت سی ماؤں کو دیکھا ہے جو بچوں سے جان چھڑانے کے ڈبل اسٹینڈرڈ بہانے ڈھونڈتی ہیں اور پھر ایسا بھی وقت آتا ہے کہ یہی بچے اپنی دنیا بنالیتے ہیں، کبھی چھپ کر دوستوں کے ساتھ سگریٹ کے کش، تو کبھی بڑوں کے ساتھ زبان درازی۔کبھی نازیبا حرکتیں۔
والدین سے التجا ہے کہ اب بھی وقت ہے اپنے بچوں کو اپنے لیے منظم سہارا بنائیں کیوں کہ ان ہی کے بچپن میں ان کے والدین نے جو تربیت دی اور وقت دیا آج وہ ملک کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں یا نہیں؟ اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد آپ کا اور ملک کا مستقبل بنے تو بے شک چڑے چڑی پریوں اور بھوت والی کہانیوں والا زمانہ تو نہیں آئے گا لیکن جب آپ بزرگ ہوجائیںگے تو کم از کم سرہانے اولاد تو بیٹھے گی، تیمارداری اور خیال رکھ پائے گی۔
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضدکریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
(پروین شاکر)
کچھ ہی روز پہلے میں ایک پارک میں جاگنگ کرنے کے بعدکینٹین ایریا میں جاکر بیٹھی،کچھ ہی فاصلے پر بچوں کے جھولے اور سلائیڈنگ پر بچوں کوکھیلتے دیکھ رہی تھی کہ غیر ارادی طور پر میری نظر ان دو بچوں پر پڑی جو آپس میں جھولے پر بیٹھنے کے لیے لڑرہے تھے۔ایک بچہ جو جھولا جھول رہا تھا اس کی عمرمشکل سے سات سال کی ہوگی اور دوسرا تقریباً دس سال کا تھا۔سات سال والا بضد تھا کہ وہ جھولے سے نہیں اترے گا لیکن اس کا بھائی جوکہ دس سال کا تھا اس نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور اسے کھیلنے کودیا، جس پر بچے نے جھولا چھوڑا اور موبائل لے کر ایک جگہ بیٹھ کرکھیلنے لگا۔
اس دوران میں نے ایک فریش جوس بنواکر پیا،کچھ ہی دیر میں میری نظروں نے ان کا تعاقب کیا، کیا دیکھتی ہوں کہ مغرب ہونے کو تھی، بچے کی نظریں موبائل سے نہ ہٹیں، حتیٰ کہ وہ جس سمت اس وقت بیٹھا تھا اتنی دیر تک بغیر ہلے جلے یا ٹیک لگائے وہ موبائل کے ساتھ ہی لگا رہا۔اس سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ اس بچے کو جھولے میں وہ لطف نہیں آیا جتنا مزہ موبائل کو استعمال کرتے ہوئے آرہا تھا۔
یہ تو تھا آنکھوں دیکھا حال جس کو بذاتِ خود میں نے دیکھ کر یہ ضرور محسوس کرلیا کہ ہم ارد گرد اور اپنے ہی گھرکے بچوں پر نظر دوڑائیں تو واقعی ہمارے بچے اپنے لیے کس کس طرح کی انٹرٹینمنٹ ڈھونڈ رہے ہیں۔
در اصل ہم انھیں وہ تفریحات نہیں دے پا رہے ہیں جو ان کو چاہیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو ٹیبلیٹ، ٹچ اسکرین موبائل،کمپیوٹر دے کر سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ دے کر اپنا فرض نبھارہے ہیں یا یہیں فرائض پورے ہوجاتے ہیں اگر ایسا سوچیں تو ہم غلط ہیں،اپنی آیندہ نسل کو مفلوج اور برباد کررہے ہیں۔اب بڑوں کوکون سمجھائے اوراس بات کا احساس دلائے کہ ان کے بچے بچپن سے موبائل اورٹیبلیٹ استعمال توکررہے ہیں، اس مسلسل استعمال سے ان کی بینائی پر بھی کتنا اثر بلکہ بڑا اثر ہونے والا ہے یہی نہیں بلکہ چھوٹی عمر اورکچے معصوم ذہن جب موبائل اور ٹیبلیٹ میں ناقابل قبول مواد دیکھ لیتے ہیں تو ان کے کچے ذہنوں میں سوالات جنم لیتے ہیں اور وہ اپنے ماں باپ یا بڑے بھائی بہن سے معصومانہ اور بے دھڑک سوالات کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح ہی برے فعل جنم لیتے ہیں، غلاظتیں پھیلتی ہیں۔
اب اگر یہی رجحان رہا تو ''ہم'' اس صورتحال میں کہاں کھڑے ہیں۔ ''ہم''کا مطلب پاکستان، اگلے آیندہ پچیس سال بعد یہی نسل کیا کردار ادا کرے گی، اگر ہم مستقبل میں نظر دوڑائیں تو خوفناک شکل سامنے نظرآجاتی ہے۔ پھر اس بات کا مطلب یہ بھی نہ لیا جائے کہ یہ سب ختم کیا جائے یا موبائل اور ٹیبلیٹ کا استعمال مکمل طور پر ترک کیا جائے، مقصد یہ ہے کہ یہ استعمال کس طرح سے کرنا ہے۔یہ بات بھی والدین کو سمجھ لینی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد پر نظر رکھیں اور روکیں۔
ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انھیں کے بچوں سے کوئی غلط حرکت ہوجائے تو یہی ماں باپ سینہ پیٹتے رہ جائیںگے۔بات یہاں تک محدود نہیں، والدین تو یہ بھی بھول گئے ہیں کہ انھیں اپنے بچوں کی ذہنی نشوونما کیسے کرنی ہے وہ صرف مقابلہ بازی میں لگے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کوکم عمری میں اسکول میں داخل کروا لیتے ہیں تاکہ ہمارا بچہ جلد پڑھنا شروع کرے، اس جلدی کا کیا فائدہ جو آپ کا بچہ آپ سے دور ہوتا جائے جو تربیت ماں اپنے بچے کو دیتی ہے وہ ٹیچرکہاں دے پائے گی؟
حضور پاک ﷺ کے فرمان کے مطابق ''ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو 7 سال تک اپنے گلے سے لگاکر رکھے، دور نہ کرے'' جب ہمارے دین اسلام میں ہی بچے کے لیے اتنی سختی نہیں تو والدین کیا سوچ کر اپنے بچوں پر بوجھ ڈالتے ہیں، فقط اتنا فائدہ ضرور ہے کہ بچہ رٹے لگا لگاکر "A" گریڈ تو ضرور لے آئے گا لیکن اس بچے کی ذہنی نشوونما اور قوتِ ارادی میں کتنا قابل ہوگا ممکن ہے والدین تک کو علم نہیں ہوگا۔ وہ صرف اسکول کی تعلیمی قابلیت پر بچوں کے حوالے سے مطمئن نظر آتے ہیں اور ٹیچرز پر منحصر ہوتے ہیں، ایسا ہرگز ممکن نہیں، ٹیچر صرف اس موجودہ سال کے اندر اندرکورس کو ختم کرواتا ہے، یا کرواتی ہے، تربیت کی کبھی ذمے داری ٹیچر نے نہیں دی ہوتی۔
ویسے عموماً دیکھا تو یہی گیا ہے کہ بچہ اسکول سے واپس گھرآتا ہے، کھانا کھاکر پھر ٹیوشن کے لیے بھیجا جاتا ہے مغرب کے وقت تک ٹیوشن سے آتا ہے اس کے بعد بچے میں وہ کہاں طاقت یا ہمت کہ وہ کھیل کود سکے، یا ذہنی سکون ملے، رات کو جلدی سونا یہ کہہ کر ''بیٹا کل صبح اسکول کے لیے جلدی اٹھنا ہے۔'' اس بھاگ دوڑ میں والدین کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ بچے پر پڑھائی کا دباؤ ڈال کر اس کا معصوم بچپنا جو وہ اپنی عمر میں آزادی کے ساتھ کچھ لمحات گزارنا چاہتا ہے اس پر اپنی مرضی مسلط کردی جاتی ہے۔
ایک ہفتے میں اسکولوں کی دو دن چھٹی ہوتی ہے، ہفتہ اور اتوار اور کئی ایسے اسکول بھی ہیں جن کی صرف اتوار کو چھٹی ہوتی ہے جس میں بچے تھوڑی بہت تفریح کے لیے گھر سے باہر اپنے والدین کے ساتھ چلے جاتے ہیں اور پھر والدین بھی آمدنی دیکھ کر بچوں کو ایسی جگہ لے جاتے ہیں جہاں زیادہ خرچہ نہ ہو اب یہاں پر بھی دیکھا جائے تو بچوں کی تفریح پر خنجر اور اگرگھر میں وقت گزارتے ہیں تو ماسوائے ٹی وی کے اورکوئی چارہ نہیں لیکن ٹی وی پر بھی قتل وغارت، دہشت ناک خبریں اور انٹرٹینمنٹ سائیڈ پر بڑوں کے ڈرامے بچوں کو دیکھنے کے لیے ملتے ہیں، ٹی وی چینلز نے بھی تو ریٹنگز کے چکر میں ڈرامے بڑوں کے لیے ہی بنائے بچوں کے لیے ابھی تک کوئی سیریز یا مستقل ڈرامے شروع نہیں کیے۔
اسی لیے آج ہمارے بچے ڈرامے اپنے بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں کیوں نہ دیکھیںگے، انھیں کچھ اچھا اپنے مطلب اپنی عمرکے حساب سے سوائے کارٹون کے علاوہ دیکھنے کو جو نہیں مل رہا۔مان لیا کہ پریوں، بھوتوں اور چڑے چڑی کی کہانیاں سننے اور سنانے والا دور چلا گیا جب ماں اپنے بچوں کو سلاتے وقت کھٹی میٹھی کہانیاں سناکرسلادیتی تھیں لیکن آج کہانی کچھ یوں ہے کہ جس بچے کو پیدا ہوتے ہی کان میں اذان دی جاتی ہے جب وہ بچہ بڑا ہونے لگتا ہے تو ماں بڑے فخر سے کہتی ہے کہ میرا بچہ فلاں گانا موبائل پر سنتے سنتے سوتا ہے۔آیہیں والدین اپنے بچوں کی وہ خواہشات جو بے جا چیزوں سے متعلق ہیں کے بجائے ان کو آسائش دے کر ان کی ذہنی نشوونما، سوچنے کی صلاحیت، سستی کا شکار اورکاہل کردیں اور یہی بچے جب بارہ سال کے ہوجاتے ہیں تو روڈ، گلیوں میں تیزی سے چلانے والی موٹر سائیکل پر دھواں دھار رفتار کے ساتھ نظر آتے ہیں جس میں بچوں کی جان کے خطرے بھی لاحق ہوتے ہیں۔
آیاد رہے کہ ہم بچوں کو تعلیم تو دے رہے ہیں تربیت نہیں دے رہے، جو تربیت کا لمحہ یا دورانیہ ہوتا ہے۔ اس میں بچوں کو خوبصورت اسکول کی بلڈنگ کے حوالے کردیا جاتا ہے ماں کا رویہ کہ بچہ اسکول اور ٹیوشن جائے تاکہ وہ اپنے لیے وقت نکالے اور سکون میں رہے میں نے ایسی بہت سی ماؤں کو دیکھا ہے جو بچوں سے جان چھڑانے کے ڈبل اسٹینڈرڈ بہانے ڈھونڈتی ہیں اور پھر ایسا بھی وقت آتا ہے کہ یہی بچے اپنی دنیا بنالیتے ہیں، کبھی چھپ کر دوستوں کے ساتھ سگریٹ کے کش، تو کبھی بڑوں کے ساتھ زبان درازی۔کبھی نازیبا حرکتیں۔
والدین سے التجا ہے کہ اب بھی وقت ہے اپنے بچوں کو اپنے لیے منظم سہارا بنائیں کیوں کہ ان ہی کے بچپن میں ان کے والدین نے جو تربیت دی اور وقت دیا آج وہ ملک کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں یا نہیں؟ اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد آپ کا اور ملک کا مستقبل بنے تو بے شک چڑے چڑی پریوں اور بھوت والی کہانیوں والا زمانہ تو نہیں آئے گا لیکن جب آپ بزرگ ہوجائیںگے تو کم از کم سرہانے اولاد تو بیٹھے گی، تیمارداری اور خیال رکھ پائے گی۔