کبھی اپنے گریبان میں جھانک لو
کبھی کبھی یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کتے ایک دوسرے پر ہڈی کے لیے بھونک رہے ہیں
کبھی کبھی یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کتے ایک دوسرے پر ہڈی کے لیے بھونک رہے ہیں یا پھر بیچاری ہڈی ان کے جھگڑے کے درمیان آگئی ہے ۔ دونوں صورتوں میں شامت بیچاری ہڈی پر آتی ہے ۔ ایسے میں سارے سیانے کوشش یہ کرتے ہیں کہ انھیں آپس میں لڑنے دیا جائے ۔کہی ایسا نا ہو کہ یہ دونوں ہڈی کو چھوڑ کر آپ کے پیچھے لگ جائیں ۔
سرد جنگ کے گرم دن تھے ۔ اور ایران کے محاذ پر امریکا کو منہ کی کھانی پڑی تھی ۔ ایک طرف کوریا کا محاذ کھولا ہوا تھا دوسری طرف لاطینی امریکا میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچی جارہی تھی تو مشرق وسطی میں دونوں ایک دوسرے کے کاندھے پر تھپکیاں دے رہے تھے ۔ جب ایران ہاتھ سے نکل گیا تو پھر دوسرے کے ہاتھ میں افغانستان کیوں رہتا ۔ ہم بیچارے یہ سمجھتے رہے کہ مسلمان ملک کی مدد کی جارہی ہے۔ لیکن دونوں پہلوانوں کے درمیان پہلے افغانستان ذبح ہوا اور اُس کے بعد پاکستان کی باری لگ گئی ۔ یہ 1740 کے بعد کی بات ہے ۔
فرانس کے سرمایہ دار دنیا بھر کی منڈیوں کو فتح کر رہے تھے تو دوسری طرف آنکھیں بچا کر ایسٹ انڈیا جیسی کمپنیاں ہر جگہ اپنا اثر بنا رہی تھی ۔ ان مفادات کا ٹکراؤ جب یورپ میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان ہوا تو اس کی آگ ہر جگہ پھیلنے لگی ۔ دونوں نے اپنے اپنے مفاد کے لیے دوسروں کی جگہوں پر اپنے قبضے مضبوط کرنا شروع کر دیے ۔ ہندوستان کے اندر ایسٹ انڈیا کمپنی آچکی تھی ۔ یہ الگ بحث ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیسے بنی اور ملکہ کا خاص سایہ کیوں اُن کے سر پر تھا ۔ لیکن اس کا مقصد یہ ہی تھا کہ انڈیا کے ساتھ تجارت کی جائے ۔ لیکن صرف انگریز ہی تو نہیں تھے ۔
فرانس اور پرتگالیوں نے بھی کام پہلے سے ہی شروع کیا ہوا تھا ۔ اور ہماری زمین پر ان کی پہلی لڑائی اسی نومبر کے مہینے میں 1612 میں ہوئی تھی ۔ اور جگہ تھی مودی کا گجرات ۔جہاں پرتگالیوں کا کافی اثر و رسوخ تھا ۔ یہ جنگ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جیت لی ۔ مگر ان کے ذہن میں ایک اور منصوبہ تھا ۔ کمپنی بہادر کا ایک وفد بادشاہ سلامت جناب نور الدین سلیم جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوا ۔ ہمارے یہاں تو لوگ اب جہانگیر کو بھی صرف انارکلی کی وجہ سے ہی یاد کرتے ہیں ۔
یہ لوگ اچھے خاصے تحفے لے کر بادشاہ جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوئے اور ساری خوشامد کرنے کے بعد یہ درخواست کی کہ انھیں گجرات میں ایک ایسی جگہ بنانے دی جائے جہاں سے وہ اپنے سامان کی حفاظت بھی کر سکیں اور پورے ہندوستان میں اس کی ترسیل بھی ہو سکے ۔ بادشاہ تو بادشا ہ ہوتا ہے ۔ اُس نے ایک تاریخی خط جاری کیا ۔
جس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔ جس میں لکھا گیا کہ کمپنی جہاں چاہے اس کی زمین پر اپنا تجارتی مرکز قائم کر سکتی ہے اور اس کے عوض عدل جہانگیری نے ہمیں صدیوں پر محیط غلامی کا انمول تحفہ دیا۔ خیر نہ پہلے ہماری کوئی سنتا تھا نہ اب کسی کے پاس وقت ہے۔ ہم جیسے دیوانے تو اُس وقت بھی کہتے تھے کہ اپنی زمین کسی کو مت دو۔ یہ بات تو ہم نے سرد افغان جنگ میں بھی کہی تو ہمیں غدار کہا گیا ۔ اور یہ ہی عرض ہم نے 9/11 کے بعد کی تو ہمیں رجعت پسند کہہ دیا گیا۔ جس جس نے جہاں جہاں اور جب جب جگہ دی اُس نے اس کا خمیازہ بھگتا ہے ۔ لیکن بات تو ہم کر رہے تھے ایسٹ انڈیا کمپنی کی .......!
جب انھوں نے بادشاہ کی مرضی سے پرتگالیوں کو ہٹادیا تو ساتھ ساتھ گوا، ممبئی اور چٹا گانگ میں بھی اپنے پاؤں جما لیے ۔ اور چند سالوں میں ہی انھوں نے یہاں 23 فیکٹریاں اور تین قلعے بنا لیے ۔دوسری طرف پرتگالیوں سے نمٹنے کے لیے فرانسیسیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ۔ مغل سرکار چند تحفے لے کر اتنی خوش تھی کے کچھ سالوں بعد انھوں نے انگریزوں کی تجارت پر سے ہر طرح کا ٹیکس ختم کر دیا ۔
اُس وقت ویسے کسی نے کرپشن کا نعرہ لگایا تھا یا نہیں۔ خیر اس دوران جہاں انگریزوں نے اپنا اثر بنا لیا ۔ یہ بات ہندوستان میں بیٹھے ہوئے فرانسیسی سرمایہ کاروں کو پسند نہیں آرہی تھی ۔ کچھ عرصے پہلے جو لوگ ایک ساتھ مل کر ہندوستانیوں کو غلام اور پرتگالیوں کی پٹائی کر رہے تھے وہ سب ایک دوسرے کے دست و گریبان ہو گئے ۔
جیسے ہی 1740 میں یورپ کی زمین پر فرانس اور برطانیہ کے درمیان جنگ کی گونج بڑھی ویسے ہی اس کے اثرات امریکا اور ہندوستان میں بھی آنے لگے ۔ ایک طرف انگریز یہ سوچ رہے تھے کہ اس کا فائدہ اٹھا کر فرانسسی کو بھی نکالا جائے تو دوسری طرف پانڈے چری میں موجود فرانسیسی گورنر ڈوپلے یہ سوچ رہا تھا کہ انگریزوں کا دانا پانی کیسے بند کیا جائے۔
ڈوپلے کے پاس چار ہزار ہندوستانی فوجی تھے جن کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے انھوں نے مدراس میں انگریزوں کے قلعے سینٹ ڈیوڈ پر حملہ کر دیا وہ مدراس پر پہلے ہی قبضہ کر چکا تھا۔ لیکن 1748 میں انگریزوں کی فرانسیسی گورنر سے صلح ہو گئی لیکن اُس وقت تک اس خطے میں یہ مشہور ہو چکا تھا کہ فرانسیسی بہت طاقت ور ہیں ۔ مغل تو دور سو رہے تھے اور اس جگہ پر دو طاقتیں اٹھ گئی تھیں ۔ جن کا تعلق اس خطے سے نہیں تھا ۔
اسی دوران حیدرآباد سے ایک خبر آتی ہے کہ نظام الملک انتقال کر گئے ۔ اور اُس کی جگہ ان کا بیٹا ناصر جنگ منصب پر بیٹھا ۔ مگر اس کا بھتیجا مظفر جنگ بھی یہ عہدہ چاہتا تھا ۔ ایسے میں اُسے معلوم تھا کہ اس وقت علاقے کا چوہدری فرانسیسی ڈوپلے ہے۔ تو وہ فورا بھاگا بھاگا اُس کی خدمت میں گیا ۔ ڈوپلے نے اُسے اپنا مہمان بنایا اور اپنے جاسوس دوڑائے ۔ بات فورا پھیل گئی اور وہاں کا ایک اور سردار چندا صاحب خدمت میں حاضر ہو گئے جو کرناٹک کے انوار الدین کو ہٹانا چاہتے تھے ۔
بس ڈوپلے کو کیا چاہیے تھا ۔ اُسے ماحول مل گیا تھا۔ یعنی اسی علاقے کے دو اہم سردار جو کمزور تھے مگر اقتدار میں آنا چاہتے تھے ۔ آپ یوں سمجھیے جیسے ایک طرف شام کے حزب اختلاف کے لوگ ہوں جو اقتدار چاہتے ہوں اور کمزور ہیں ۔ لیکن وہ امریکا کے پاس چلے جائیں ۔ یا پھر یوں سمجھیں کہ جیسے روس بشار الاسد کے لیے دوڑا دوڑا آجائے۔ ڈوپلے کو کیا چاہیے تھا ۔ اُس نے فورا ہندوستانی سپاہیوں کی فوج بھیجی ۔اب تینوں کی فوج یعنی مظفر جنگ ، چندا صاحب اور ڈوپلے کی فوج نے چڑھائی شروع کی۔ اُس وقت کے اتحادی لشکر نے محاذ کھول دیا۔ انوار الدین کو شکست ہوئی ۔ اور ناصر جنگ کا بھی خاتمہ ہوا ۔ سب نے ڈوپلے کی واہ واہ کی ۔ڈوپلے کرناٹک کا گورنر بن گیا ۔
اور چندا صاحب اس کی ماتحتی میں آتے ہوئے نواب بن گئے ۔اور تجارت کے لیے مشرقی ساحل عطا کر دیا گیا ۔ انوار الدین کے بیٹے کو محاصرے میں رکھا ہوا تھا ۔ بیٹے نے انگریز سرکار سے مدد مانگ لی ۔ اب انگریز سرکار یا کمپنی بہادر کو انوار الدین کے بیٹے سے کچھ نہیں لینا دینا تھا ۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ساحل پر فرانسیسی بیٹھ گئے تھے ۔
یوں سمجھیے کہ تیل پر داعش بیٹھ گئی تھی ۔ اور اُس کی مدد امریکا بھی کر رہا تھا ۔ایسے میں اگر روس بشار الاسد کی مدد کے لیے نہ آتا تو کیا ہوتا۔ ایسے ہی انگریزوں نے مسلمان انوارالدین کے بیٹے کو بچانے کی کوشش سچے دل سے کی یا پھر اپنی تجارت کے تحفظ کے لیے ۔ ہم تو یہ بات افغان جہاد سے سمجھ گئے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عراقی اور شامی کب تک اس حقیقت کو سمجھتے ہیں ۔اور اُس سے بڑھ کر فرانس خود اپنی چالوں کو یاد کر کے کب تاریخ سے سبق سیکھے گا؟
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
سرد جنگ کے گرم دن تھے ۔ اور ایران کے محاذ پر امریکا کو منہ کی کھانی پڑی تھی ۔ ایک طرف کوریا کا محاذ کھولا ہوا تھا دوسری طرف لاطینی امریکا میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچی جارہی تھی تو مشرق وسطی میں دونوں ایک دوسرے کے کاندھے پر تھپکیاں دے رہے تھے ۔ جب ایران ہاتھ سے نکل گیا تو پھر دوسرے کے ہاتھ میں افغانستان کیوں رہتا ۔ ہم بیچارے یہ سمجھتے رہے کہ مسلمان ملک کی مدد کی جارہی ہے۔ لیکن دونوں پہلوانوں کے درمیان پہلے افغانستان ذبح ہوا اور اُس کے بعد پاکستان کی باری لگ گئی ۔ یہ 1740 کے بعد کی بات ہے ۔
فرانس کے سرمایہ دار دنیا بھر کی منڈیوں کو فتح کر رہے تھے تو دوسری طرف آنکھیں بچا کر ایسٹ انڈیا جیسی کمپنیاں ہر جگہ اپنا اثر بنا رہی تھی ۔ ان مفادات کا ٹکراؤ جب یورپ میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان ہوا تو اس کی آگ ہر جگہ پھیلنے لگی ۔ دونوں نے اپنے اپنے مفاد کے لیے دوسروں کی جگہوں پر اپنے قبضے مضبوط کرنا شروع کر دیے ۔ ہندوستان کے اندر ایسٹ انڈیا کمپنی آچکی تھی ۔ یہ الگ بحث ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیسے بنی اور ملکہ کا خاص سایہ کیوں اُن کے سر پر تھا ۔ لیکن اس کا مقصد یہ ہی تھا کہ انڈیا کے ساتھ تجارت کی جائے ۔ لیکن صرف انگریز ہی تو نہیں تھے ۔
فرانس اور پرتگالیوں نے بھی کام پہلے سے ہی شروع کیا ہوا تھا ۔ اور ہماری زمین پر ان کی پہلی لڑائی اسی نومبر کے مہینے میں 1612 میں ہوئی تھی ۔ اور جگہ تھی مودی کا گجرات ۔جہاں پرتگالیوں کا کافی اثر و رسوخ تھا ۔ یہ جنگ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جیت لی ۔ مگر ان کے ذہن میں ایک اور منصوبہ تھا ۔ کمپنی بہادر کا ایک وفد بادشاہ سلامت جناب نور الدین سلیم جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوا ۔ ہمارے یہاں تو لوگ اب جہانگیر کو بھی صرف انارکلی کی وجہ سے ہی یاد کرتے ہیں ۔
یہ لوگ اچھے خاصے تحفے لے کر بادشاہ جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوئے اور ساری خوشامد کرنے کے بعد یہ درخواست کی کہ انھیں گجرات میں ایک ایسی جگہ بنانے دی جائے جہاں سے وہ اپنے سامان کی حفاظت بھی کر سکیں اور پورے ہندوستان میں اس کی ترسیل بھی ہو سکے ۔ بادشاہ تو بادشا ہ ہوتا ہے ۔ اُس نے ایک تاریخی خط جاری کیا ۔
جس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔ جس میں لکھا گیا کہ کمپنی جہاں چاہے اس کی زمین پر اپنا تجارتی مرکز قائم کر سکتی ہے اور اس کے عوض عدل جہانگیری نے ہمیں صدیوں پر محیط غلامی کا انمول تحفہ دیا۔ خیر نہ پہلے ہماری کوئی سنتا تھا نہ اب کسی کے پاس وقت ہے۔ ہم جیسے دیوانے تو اُس وقت بھی کہتے تھے کہ اپنی زمین کسی کو مت دو۔ یہ بات تو ہم نے سرد افغان جنگ میں بھی کہی تو ہمیں غدار کہا گیا ۔ اور یہ ہی عرض ہم نے 9/11 کے بعد کی تو ہمیں رجعت پسند کہہ دیا گیا۔ جس جس نے جہاں جہاں اور جب جب جگہ دی اُس نے اس کا خمیازہ بھگتا ہے ۔ لیکن بات تو ہم کر رہے تھے ایسٹ انڈیا کمپنی کی .......!
جب انھوں نے بادشاہ کی مرضی سے پرتگالیوں کو ہٹادیا تو ساتھ ساتھ گوا، ممبئی اور چٹا گانگ میں بھی اپنے پاؤں جما لیے ۔ اور چند سالوں میں ہی انھوں نے یہاں 23 فیکٹریاں اور تین قلعے بنا لیے ۔دوسری طرف پرتگالیوں سے نمٹنے کے لیے فرانسیسیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ۔ مغل سرکار چند تحفے لے کر اتنی خوش تھی کے کچھ سالوں بعد انھوں نے انگریزوں کی تجارت پر سے ہر طرح کا ٹیکس ختم کر دیا ۔
اُس وقت ویسے کسی نے کرپشن کا نعرہ لگایا تھا یا نہیں۔ خیر اس دوران جہاں انگریزوں نے اپنا اثر بنا لیا ۔ یہ بات ہندوستان میں بیٹھے ہوئے فرانسیسی سرمایہ کاروں کو پسند نہیں آرہی تھی ۔ کچھ عرصے پہلے جو لوگ ایک ساتھ مل کر ہندوستانیوں کو غلام اور پرتگالیوں کی پٹائی کر رہے تھے وہ سب ایک دوسرے کے دست و گریبان ہو گئے ۔
جیسے ہی 1740 میں یورپ کی زمین پر فرانس اور برطانیہ کے درمیان جنگ کی گونج بڑھی ویسے ہی اس کے اثرات امریکا اور ہندوستان میں بھی آنے لگے ۔ ایک طرف انگریز یہ سوچ رہے تھے کہ اس کا فائدہ اٹھا کر فرانسسی کو بھی نکالا جائے تو دوسری طرف پانڈے چری میں موجود فرانسیسی گورنر ڈوپلے یہ سوچ رہا تھا کہ انگریزوں کا دانا پانی کیسے بند کیا جائے۔
ڈوپلے کے پاس چار ہزار ہندوستانی فوجی تھے جن کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے انھوں نے مدراس میں انگریزوں کے قلعے سینٹ ڈیوڈ پر حملہ کر دیا وہ مدراس پر پہلے ہی قبضہ کر چکا تھا۔ لیکن 1748 میں انگریزوں کی فرانسیسی گورنر سے صلح ہو گئی لیکن اُس وقت تک اس خطے میں یہ مشہور ہو چکا تھا کہ فرانسیسی بہت طاقت ور ہیں ۔ مغل تو دور سو رہے تھے اور اس جگہ پر دو طاقتیں اٹھ گئی تھیں ۔ جن کا تعلق اس خطے سے نہیں تھا ۔
اسی دوران حیدرآباد سے ایک خبر آتی ہے کہ نظام الملک انتقال کر گئے ۔ اور اُس کی جگہ ان کا بیٹا ناصر جنگ منصب پر بیٹھا ۔ مگر اس کا بھتیجا مظفر جنگ بھی یہ عہدہ چاہتا تھا ۔ ایسے میں اُسے معلوم تھا کہ اس وقت علاقے کا چوہدری فرانسیسی ڈوپلے ہے۔ تو وہ فورا بھاگا بھاگا اُس کی خدمت میں گیا ۔ ڈوپلے نے اُسے اپنا مہمان بنایا اور اپنے جاسوس دوڑائے ۔ بات فورا پھیل گئی اور وہاں کا ایک اور سردار چندا صاحب خدمت میں حاضر ہو گئے جو کرناٹک کے انوار الدین کو ہٹانا چاہتے تھے ۔
بس ڈوپلے کو کیا چاہیے تھا ۔ اُسے ماحول مل گیا تھا۔ یعنی اسی علاقے کے دو اہم سردار جو کمزور تھے مگر اقتدار میں آنا چاہتے تھے ۔ آپ یوں سمجھیے جیسے ایک طرف شام کے حزب اختلاف کے لوگ ہوں جو اقتدار چاہتے ہوں اور کمزور ہیں ۔ لیکن وہ امریکا کے پاس چلے جائیں ۔ یا پھر یوں سمجھیں کہ جیسے روس بشار الاسد کے لیے دوڑا دوڑا آجائے۔ ڈوپلے کو کیا چاہیے تھا ۔ اُس نے فورا ہندوستانی سپاہیوں کی فوج بھیجی ۔اب تینوں کی فوج یعنی مظفر جنگ ، چندا صاحب اور ڈوپلے کی فوج نے چڑھائی شروع کی۔ اُس وقت کے اتحادی لشکر نے محاذ کھول دیا۔ انوار الدین کو شکست ہوئی ۔ اور ناصر جنگ کا بھی خاتمہ ہوا ۔ سب نے ڈوپلے کی واہ واہ کی ۔ڈوپلے کرناٹک کا گورنر بن گیا ۔
اور چندا صاحب اس کی ماتحتی میں آتے ہوئے نواب بن گئے ۔اور تجارت کے لیے مشرقی ساحل عطا کر دیا گیا ۔ انوار الدین کے بیٹے کو محاصرے میں رکھا ہوا تھا ۔ بیٹے نے انگریز سرکار سے مدد مانگ لی ۔ اب انگریز سرکار یا کمپنی بہادر کو انوار الدین کے بیٹے سے کچھ نہیں لینا دینا تھا ۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ساحل پر فرانسیسی بیٹھ گئے تھے ۔
یوں سمجھیے کہ تیل پر داعش بیٹھ گئی تھی ۔ اور اُس کی مدد امریکا بھی کر رہا تھا ۔ایسے میں اگر روس بشار الاسد کی مدد کے لیے نہ آتا تو کیا ہوتا۔ ایسے ہی انگریزوں نے مسلمان انوارالدین کے بیٹے کو بچانے کی کوشش سچے دل سے کی یا پھر اپنی تجارت کے تحفظ کے لیے ۔ ہم تو یہ بات افغان جہاد سے سمجھ گئے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عراقی اور شامی کب تک اس حقیقت کو سمجھتے ہیں ۔اور اُس سے بڑھ کر فرانس خود اپنی چالوں کو یاد کر کے کب تاریخ سے سبق سیکھے گا؟
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ