ججز وہ کام کر دکھائیں جس سے لوگوں کے شکوے دور ہوجائیں چیف جسٹس
انصاف کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، افتخار چوہدری، تقریب سے خطاب
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کیلیے لوگوں نے بہت قربانیاں دی ہیں،ہمارا کام انصاف کی فراہمی ہے، رشوت اور کرپشن میں ہم زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پریا ہیں، عدلیہ اور اس سے باہرکرپشن ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔
راولپنڈی جوڈیشل کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ججوں پر فوری طور پر یہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر قیمت پر انصاف فراہم کریں ، مقدمات کا فیصلہ کردینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ایسا فیصلہ کرنا ہوتا ہے جس میں لوگوں کو محسوس ہوکہ انصاف کیاگیا ہے، میرا ایک نظریہ اور بھی ہے کہ انصاف کے راستے میں کوئی چیز بھی مانع نہیں ہونی چاہیے ، ہمارے ذہن میں ایک بات ہونی چاہیے کہ بلڈنگوں میں ہی انصاف ہوتا ہے یا آپ کے ذہن ، کردار اور عمل سے ہوتا ہے،
انصاف کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، میں نے بلوچستان میں ایسی عدالتیں بھی دیکھی ہیں جو چھوٹی سی مٹی نما گارے سے بنی جگہیں ہوتی تھیں، مگر جج وہاں سے باہر آتے تھے تو ان کے فیصلہ پر لوگ ان کی تعریف کرتے تھے، پنڈی کے نئے جوڈیشل کمپلیکس میں انشا اللہ ضرور انصاف ہوگا ، لیکن مجھے اور آپ کو اس وقت کا انتظار ہونا چاہیے ، جس میں ایک بوڑھا آدمی تین نسلوں سے اپنے مقدمہ کی پیروی میں ہے ، وہ کہے گا کہ اس کے ساتھ انصاف ہوا ہے، ججز کو تسلی اس آدمی یا بوڑھی خاتون کی کروانا ہے جو اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ عدالتوں کی دہلیز پر بیٹھے ہوں اور کہیں کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اسے انصاف ملنا چاہیے، تمام جج وہ کام کر دکھائیں کہ لوگوں کے گلے شکوے دور ہو جائیں،
ہمیں اس وقت کا انتظار ہے جب دیوانی مقدمات کا فیصلہ ہونا شروع ہو، کوئی شخص آج اعلیٰ عدلیہ میں کرپشن کی بات نہیں کر سکتا، نیم عدالتی اسٹاف سے شکایات ابھی ہیں ، میں کہتا ہوں کہ ان کی سرپرستی کریں اور ان کے جائز مطالبات اور تنخواہوں میں اضافہ کے معاملات حل کروائیں، کسی جج پر اس بات کا حرف نہیں آنا چاہیے کہ ان کا اسٹاف کرپٹ ہے اور وہ رشوت لیتا ہے، میرے نزدیک رشوت ، کرپشن چاہے عدلیہ میں ہو یا اس سے باہر ہو، اس حوالے سے میرے اور میرے ساتھیوں کیلیے زیرو ٹالرنس ہے ، اسے ہم کسی طور بھی برداشت نہیں کر سکتے، ہم نے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے ناصرف عدلیہ کی تطہیر کی بلکہ حکومتی اداروں میں ہونے والی کرپشن کا بھی نوٹس لیا ہے، جو ہمیں رپورٹ کی جاتی ہے، ہمارے اس اقدام سے کرپشن کی نذر ہونے والا ملک کا اربوں روپیہ واپس آیا ہے،
ہم کرپشن پر زیرو ٹالرنس میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ، چاہے ہمیں اس کیلیے مشکل سے مشکل امتحان اور آزمائش میں کیوں نہ پڑنا پڑے، چیف جسٹس نے کہا کہ کالا کوٹ ، کالی ٹائی ، کالا کیمرہ گذشتہ پانچ برسوں سے ملک میں آئین کی بالا دستی ، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کیلیے جدوجہد کر رہے ہیں، یہ اللہ کا کرم ہے کہ وکلاء، سول سوسائٹی اور میڈیا کے طرز عمل کی وجہ سے ملک میں آج جمہوریت کا دور دورہ ہے، ہیں، عوام کو عدلیہ پر بھر پور اعتماد ہے ، عدلیہ لوگوں کی شکایات سے آگاہ ہے، انھوں نے کہا کہ جج آئینی تجاوز اور من مانی کیخلاف مضبوط دیوار بن جائیں، بلوچستان کے لوگ بھی دوسرے علاقوں جتنے ہی محب وطن ہیں، بلوچستان میں آئین اور قانون کو نافذ کیا جانا چاہیے ، جس کا وہاں فقدان ہے، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ ججز قانون سے روگردانی کریں گے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
راولپنڈی جوڈیشل کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ججوں پر فوری طور پر یہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر قیمت پر انصاف فراہم کریں ، مقدمات کا فیصلہ کردینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ایسا فیصلہ کرنا ہوتا ہے جس میں لوگوں کو محسوس ہوکہ انصاف کیاگیا ہے، میرا ایک نظریہ اور بھی ہے کہ انصاف کے راستے میں کوئی چیز بھی مانع نہیں ہونی چاہیے ، ہمارے ذہن میں ایک بات ہونی چاہیے کہ بلڈنگوں میں ہی انصاف ہوتا ہے یا آپ کے ذہن ، کردار اور عمل سے ہوتا ہے،
انصاف کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، میں نے بلوچستان میں ایسی عدالتیں بھی دیکھی ہیں جو چھوٹی سی مٹی نما گارے سے بنی جگہیں ہوتی تھیں، مگر جج وہاں سے باہر آتے تھے تو ان کے فیصلہ پر لوگ ان کی تعریف کرتے تھے، پنڈی کے نئے جوڈیشل کمپلیکس میں انشا اللہ ضرور انصاف ہوگا ، لیکن مجھے اور آپ کو اس وقت کا انتظار ہونا چاہیے ، جس میں ایک بوڑھا آدمی تین نسلوں سے اپنے مقدمہ کی پیروی میں ہے ، وہ کہے گا کہ اس کے ساتھ انصاف ہوا ہے، ججز کو تسلی اس آدمی یا بوڑھی خاتون کی کروانا ہے جو اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ عدالتوں کی دہلیز پر بیٹھے ہوں اور کہیں کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اسے انصاف ملنا چاہیے، تمام جج وہ کام کر دکھائیں کہ لوگوں کے گلے شکوے دور ہو جائیں،
ہمیں اس وقت کا انتظار ہے جب دیوانی مقدمات کا فیصلہ ہونا شروع ہو، کوئی شخص آج اعلیٰ عدلیہ میں کرپشن کی بات نہیں کر سکتا، نیم عدالتی اسٹاف سے شکایات ابھی ہیں ، میں کہتا ہوں کہ ان کی سرپرستی کریں اور ان کے جائز مطالبات اور تنخواہوں میں اضافہ کے معاملات حل کروائیں، کسی جج پر اس بات کا حرف نہیں آنا چاہیے کہ ان کا اسٹاف کرپٹ ہے اور وہ رشوت لیتا ہے، میرے نزدیک رشوت ، کرپشن چاہے عدلیہ میں ہو یا اس سے باہر ہو، اس حوالے سے میرے اور میرے ساتھیوں کیلیے زیرو ٹالرنس ہے ، اسے ہم کسی طور بھی برداشت نہیں کر سکتے، ہم نے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے ناصرف عدلیہ کی تطہیر کی بلکہ حکومتی اداروں میں ہونے والی کرپشن کا بھی نوٹس لیا ہے، جو ہمیں رپورٹ کی جاتی ہے، ہمارے اس اقدام سے کرپشن کی نذر ہونے والا ملک کا اربوں روپیہ واپس آیا ہے،
ہم کرپشن پر زیرو ٹالرنس میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ، چاہے ہمیں اس کیلیے مشکل سے مشکل امتحان اور آزمائش میں کیوں نہ پڑنا پڑے، چیف جسٹس نے کہا کہ کالا کوٹ ، کالی ٹائی ، کالا کیمرہ گذشتہ پانچ برسوں سے ملک میں آئین کی بالا دستی ، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کیلیے جدوجہد کر رہے ہیں، یہ اللہ کا کرم ہے کہ وکلاء، سول سوسائٹی اور میڈیا کے طرز عمل کی وجہ سے ملک میں آج جمہوریت کا دور دورہ ہے، ہیں، عوام کو عدلیہ پر بھر پور اعتماد ہے ، عدلیہ لوگوں کی شکایات سے آگاہ ہے، انھوں نے کہا کہ جج آئینی تجاوز اور من مانی کیخلاف مضبوط دیوار بن جائیں، بلوچستان کے لوگ بھی دوسرے علاقوں جتنے ہی محب وطن ہیں، بلوچستان میں آئین اور قانون کو نافذ کیا جانا چاہیے ، جس کا وہاں فقدان ہے، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ ججز قانون سے روگردانی کریں گے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔