چالاک کون لیڈر یا عوام
مشرف کا دور آیا تو بڑے بڑے لوگ ان کے سگریٹ کو سلگانے کے لیے اپنے لائٹرز لے کر آگے بڑھتے
بلاول بھٹو زرداری کے لیے لی گئی ٹوپی اور اجرک غلطی سے وزیراعلیٰ کو دے دی جائے تو فوراً واپس لے لی جاتی ہے۔ کیا عوام بڑے چالاک ہیں؟ وزیراعظم کے لیے ''قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں'' کا نعرہ لگانے والوں کے قدم جم جاتے ہیں۔ وہ آگے نہیں بڑھتے جب میاں صاحب مسجد کی جانب چل پڑتے ہیں۔ مشرف کا دور آیا تو یہ نعرہ لگانے والوں کی کارکردگی مختلف تھی۔ عام لوگ تو زیر عتاب وزیراعظم کے لیے سڑکوں پر تھے لیکن لیڈر کہیں نہیں تھے۔ پھر کئی لوگ مشرف کے ساتھی بنے۔ جب تاریخ کا دھارا بدلا تو مشرف کا ساتھ دینے والے درجن بھر وزرا نواز شریف کے ساتھی بن گئے۔ یوں سوال ابھرتا ہے کہ چالاک کون؟ لیڈر یا عوام۔
مشرف کا دور آیا تو بڑے بڑے لوگ ان کے سگریٹ کو سلگانے کے لیے اپنے لائٹرز لے کر آگے بڑھتے۔ اقتدار سے محرومی پر درجن بھر لوگ پھر اقتدار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوکر وزارت کا حلف اٹھا چکے ہیں یا تمنائی ہیں۔ واقعتاً ٹی وی چینلز سب کچھ ریکارڈ کر لیتے تھے۔ وہ ''منکر نکیر'' کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بعض تیز اینکر پرسن لوٹے بن جانے والوں سے اپنے حال کے لیڈروں کی تعریف کرواتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ماضی قریب کے حکمران کی برائیاں۔ وہ حکمران جن کا ساتھ اس ٹی وی پروگرام کے مہمان نے بھرپور انداز میں دیا ہوتا ہے۔ بعض معصوم سے ٹی وی میزبان تھوڑی سی گفتگو کے بعد اپنے مہمان کو ان کی کہی ہوئی باتیں سناتے ہیں۔ وہ باتیں جو انھوں نے اچھے وقت کے حکمران کی تعریف میں کہی ہوتی ہیں۔ سندھ کی ایک ادی کے علاوہ پنجاب کے عزیز و گبرو جوان کے ساتھ ایسا کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔ گزرے کل میں مشرف کا ساتھ دینے والے اور نواز شریف کی خامیاں بیان کرنے والوں کو ان کی ماضی کی باتیں سنوائی جاتی ہیں۔ اسی لیے سوال ابھرتا ہے کہ چالاک کون؟ لیڈر یا عوام۔
آئیے اب ایک طالب علم کی سیاست میں دلچسپی اور شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھ دینے کی داستان سنتے ہیں۔ کراچی سے اصغر خان انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب شہر قائد قومیت کے رنگ میں نہیں رنگا تھا۔ یہ حزب اختلاف کا شہر تھا۔ اور واقعتاً پورے پاکستان کا سیاسی امام تھا۔ وہ امام جو ایبٹ آباد کے اصغر خان اور ڈیرہ غازی خان کے شیرباز مزاری کو کامیاب کرواتا تھا۔ برنس روڈ کے حلقے سے ایئرمارشل پی این اے کے امیدوار تھے۔ بھٹو کے مقابل نو پارٹیوں کے اتحاد کے سبب زوردار مقابلہ تھا۔ حکومت سمجھ رہی تھی کہ حزب اختلاف منتشر ہے۔ 77 کے انتخابات کا ایک سال قبل انعقاد کا سبب ہی تھا۔ نوجوان طالب علم اپنے سینے پر ایئرمارشل کی بڑی سی تصویر لگائے جلسے میں شرکت کرتا۔ انتخابی جلوس میں اصغر خان کو ایئرپورٹ سے برنس روڈ تک آنے میں صبح سے رات ہوگئی۔ ''تم بولو اصغر جیتے گا، تم سن لو اصغر جیتے گا'' اس دور کے مقبول نعرے تھے۔
لاکھوں کے جلوس کے مقابل ایک ہفتے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ویسا ہی جلوس نکالا۔ وہ ایئرپورٹ سے نکل کر اور برنس روڈ سے گزر کر لیاری پہنچے۔ زوردار معرکہ آرائی تھی۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں الیکشن ہوئے۔ دھاندلی کے الزام میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے مذاکرات کا کوئی سرا ہی نہ ملا۔ اصغر خان نے افواج پاکستان کو خط لکھا جب کہ بیگم نسیم ولی خان اپنے شوہر کے خلاف الزامات کا خاتمہ چاہتی تھیں۔ نہ نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا اور نہ سیاسی قیدی رہا ہوئے، نہ چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اتفاق ہوا اور نہ نئی حکومت کے خدوخال طے ہوئے۔ جولائی میں مارشل لا نافذ ہوگیا۔ قومی اتحاد اب انتشار کا شکار ہوگیا۔ اصغر خان پی این اے سے الگ ہوئے۔ اب پھر وہ برنس روڈ آئے۔ اب لاکھوں نہیں بلکہ صرف چند سو لوگ تھے۔ وہ طالب علم شامیانے کے باہر کھڑا سوچ رہا تھا کہ چالاک کون؟ لیڈر یا عوام۔
وقت کا پہیہ آگے بڑھا۔ جنرل ضیا کا طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا۔ بے نظیر بھٹو کے لیے اقتدار کا راستہ صاف ہو گیا۔ یاد رہے اپریل 86 میں پاکستان آنے والی بے نظیر نوے میں جنرل ضیا کی صدارت میں الیکشن لڑنے پر راضی ہوگئی تھیں۔ آئی جے آئی بنی، بالکل قومی اتحاد کی طرح۔ اس مرتبہ اس کے قائدین نواز شریف اور قاضی حسین احمد تھے۔ انھوں نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دور رکھا۔ بیس ماہ بعد وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو صدر غلام اسحق خان نے برطرف کردیا۔ اب الیکشن ہوئے تو آئی جے آئی کامیاب ہوئی۔ نواز شریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے۔ تین سال گزرے تو آئی جے آئی میں پھوٹ پڑ گئی تھی۔ جماعت اسلامی نے اپنا راستہ الگ کرلیا اور اسلامک فرنٹ کے نام سے الیکشن میں حصہ لیا۔ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں۔ مسلم لیگ کے ماہرین شماریات نے حساب لگایا کہ انھیں مزید تیس سیٹیں مل جاتیں تو حکومت بنا لیتے۔ یہ وہی ڈھائی درجن نشستیں ہیں جن پر وہ جماعت اسلامی کی وجہ سے ہارے ہیں۔ مذہبی پارٹی نے کہا کہ وہ اگر اتنے ہی اہم ہیں تو انھیں اہمیت کیوں نہیں دی جاتی؟ اب وہ طالب علم لڑکا نہیں رہا تھا بلکہ آدمی بن گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ چالاک کون؟ لیڈر یا عوام۔
صدر پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کردیا۔ اب وہ لڑکا جو طالب علم سے آدمی بنا ایک بار پھر طالب علم بن چکا تھا۔ قانون کا طالب علم۔ اس نے آئین کا آرٹیکل 209 ایک بار پھر دیکھا۔ جب آئین بحال ہو چکا ہے اور ملک میں مارشل لا بھی نہیں تو صدر کس طرح چیف جسٹس کو برطرف کرسکتے ہیں؟ جب ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیاں، سینیٹ اور بلدیاتی ادارے تک موجود ہیں تو یہ غیر جمہوری قدم کیوں اٹھایا گیا؟ سب کالے کوٹ والے یہی سوچ رہے تھے۔ وکلا کی تحریک شروع ہوئی تو تمام سیاسی پارٹیاں بھی میدان میں آگئیں۔ وہ ''ادھوری عدلیہ'' کی موجودگی میں الیکشن لڑنے کو تیار نہ تھے۔ امریکیوں نے بے نظیر سے اور بی بی نے نواز شریف سے بات کی۔ انتخابی مہم شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کی قائد کو شہید کردیاگیا۔ الیکشن چند ہفتے کو ملتوی ہوئے۔ اب تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا۔ پھر آصف زرداری صدر بن گئے لیکن عدلیہ بحال نہ ہوئی۔ تحریک ایک سال اور چلی۔ اس دوران گورنر سلمان تاثیر نے پنجاب میں شریف برادران کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ یہی وہ وقت تھا جب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملہ ہوا۔ نواز شریف بھی میدان میں آگئے۔ زرداری حکومت چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے پر مجبور ہوئی۔
''ریاست ہوگی ماں کے جیسی'' کی دھن پر عدلیہ کی بحالی کے لیے وکلا نے جانی اور مالی قربانیاں دیں۔ اپنے ذاتی مقصد کے لیے نہیں بلکہ ایک قومی مقصد کی خاطر قانون دان میدان میں آئے تھے۔ عدلیہ بحال ہوئی لیکن توقعات پوری نہ ہوئیں۔ جی چاہتا ہے کہ کھل کر بات کی جائے اور نام کی لاج رکھ کر بے خطر آتشِ نمرود میں کود پڑوں لیکن۔۔۔۔۔۔ خیر یوں ایک بار پھر محسوس ہوا کہ شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھنے کی ہیٹ ٹرک ہوچکی ہے۔ طالب علم کے طور پر اصغر خان کی انتخابی مہم سے قانون کے طالب علم کی حیثیت سے چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک تک۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ چالاک کون؟ لیڈر یا عوام۔
مشرف کا دور آیا تو بڑے بڑے لوگ ان کے سگریٹ کو سلگانے کے لیے اپنے لائٹرز لے کر آگے بڑھتے۔ اقتدار سے محرومی پر درجن بھر لوگ پھر اقتدار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوکر وزارت کا حلف اٹھا چکے ہیں یا تمنائی ہیں۔ واقعتاً ٹی وی چینلز سب کچھ ریکارڈ کر لیتے تھے۔ وہ ''منکر نکیر'' کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بعض تیز اینکر پرسن لوٹے بن جانے والوں سے اپنے حال کے لیڈروں کی تعریف کرواتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ماضی قریب کے حکمران کی برائیاں۔ وہ حکمران جن کا ساتھ اس ٹی وی پروگرام کے مہمان نے بھرپور انداز میں دیا ہوتا ہے۔ بعض معصوم سے ٹی وی میزبان تھوڑی سی گفتگو کے بعد اپنے مہمان کو ان کی کہی ہوئی باتیں سناتے ہیں۔ وہ باتیں جو انھوں نے اچھے وقت کے حکمران کی تعریف میں کہی ہوتی ہیں۔ سندھ کی ایک ادی کے علاوہ پنجاب کے عزیز و گبرو جوان کے ساتھ ایسا کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔ گزرے کل میں مشرف کا ساتھ دینے والے اور نواز شریف کی خامیاں بیان کرنے والوں کو ان کی ماضی کی باتیں سنوائی جاتی ہیں۔ اسی لیے سوال ابھرتا ہے کہ چالاک کون؟ لیڈر یا عوام۔
آئیے اب ایک طالب علم کی سیاست میں دلچسپی اور شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھ دینے کی داستان سنتے ہیں۔ کراچی سے اصغر خان انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب شہر قائد قومیت کے رنگ میں نہیں رنگا تھا۔ یہ حزب اختلاف کا شہر تھا۔ اور واقعتاً پورے پاکستان کا سیاسی امام تھا۔ وہ امام جو ایبٹ آباد کے اصغر خان اور ڈیرہ غازی خان کے شیرباز مزاری کو کامیاب کرواتا تھا۔ برنس روڈ کے حلقے سے ایئرمارشل پی این اے کے امیدوار تھے۔ بھٹو کے مقابل نو پارٹیوں کے اتحاد کے سبب زوردار مقابلہ تھا۔ حکومت سمجھ رہی تھی کہ حزب اختلاف منتشر ہے۔ 77 کے انتخابات کا ایک سال قبل انعقاد کا سبب ہی تھا۔ نوجوان طالب علم اپنے سینے پر ایئرمارشل کی بڑی سی تصویر لگائے جلسے میں شرکت کرتا۔ انتخابی جلوس میں اصغر خان کو ایئرپورٹ سے برنس روڈ تک آنے میں صبح سے رات ہوگئی۔ ''تم بولو اصغر جیتے گا، تم سن لو اصغر جیتے گا'' اس دور کے مقبول نعرے تھے۔
لاکھوں کے جلوس کے مقابل ایک ہفتے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ویسا ہی جلوس نکالا۔ وہ ایئرپورٹ سے نکل کر اور برنس روڈ سے گزر کر لیاری پہنچے۔ زوردار معرکہ آرائی تھی۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں الیکشن ہوئے۔ دھاندلی کے الزام میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے مذاکرات کا کوئی سرا ہی نہ ملا۔ اصغر خان نے افواج پاکستان کو خط لکھا جب کہ بیگم نسیم ولی خان اپنے شوہر کے خلاف الزامات کا خاتمہ چاہتی تھیں۔ نہ نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا اور نہ سیاسی قیدی رہا ہوئے، نہ چیف الیکشن کمشنر کے نام پر اتفاق ہوا اور نہ نئی حکومت کے خدوخال طے ہوئے۔ جولائی میں مارشل لا نافذ ہوگیا۔ قومی اتحاد اب انتشار کا شکار ہوگیا۔ اصغر خان پی این اے سے الگ ہوئے۔ اب پھر وہ برنس روڈ آئے۔ اب لاکھوں نہیں بلکہ صرف چند سو لوگ تھے۔ وہ طالب علم شامیانے کے باہر کھڑا سوچ رہا تھا کہ چالاک کون؟ لیڈر یا عوام۔
وقت کا پہیہ آگے بڑھا۔ جنرل ضیا کا طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا۔ بے نظیر بھٹو کے لیے اقتدار کا راستہ صاف ہو گیا۔ یاد رہے اپریل 86 میں پاکستان آنے والی بے نظیر نوے میں جنرل ضیا کی صدارت میں الیکشن لڑنے پر راضی ہوگئی تھیں۔ آئی جے آئی بنی، بالکل قومی اتحاد کی طرح۔ اس مرتبہ اس کے قائدین نواز شریف اور قاضی حسین احمد تھے۔ انھوں نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دور رکھا۔ بیس ماہ بعد وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو صدر غلام اسحق خان نے برطرف کردیا۔ اب الیکشن ہوئے تو آئی جے آئی کامیاب ہوئی۔ نواز شریف پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے۔ تین سال گزرے تو آئی جے آئی میں پھوٹ پڑ گئی تھی۔ جماعت اسلامی نے اپنا راستہ الگ کرلیا اور اسلامک فرنٹ کے نام سے الیکشن میں حصہ لیا۔ بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیراعظم بنیں۔ مسلم لیگ کے ماہرین شماریات نے حساب لگایا کہ انھیں مزید تیس سیٹیں مل جاتیں تو حکومت بنا لیتے۔ یہ وہی ڈھائی درجن نشستیں ہیں جن پر وہ جماعت اسلامی کی وجہ سے ہارے ہیں۔ مذہبی پارٹی نے کہا کہ وہ اگر اتنے ہی اہم ہیں تو انھیں اہمیت کیوں نہیں دی جاتی؟ اب وہ طالب علم لڑکا نہیں رہا تھا بلکہ آدمی بن گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ چالاک کون؟ لیڈر یا عوام۔
صدر پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کردیا۔ اب وہ لڑکا جو طالب علم سے آدمی بنا ایک بار پھر طالب علم بن چکا تھا۔ قانون کا طالب علم۔ اس نے آئین کا آرٹیکل 209 ایک بار پھر دیکھا۔ جب آئین بحال ہو چکا ہے اور ملک میں مارشل لا بھی نہیں تو صدر کس طرح چیف جسٹس کو برطرف کرسکتے ہیں؟ جب ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیاں، سینیٹ اور بلدیاتی ادارے تک موجود ہیں تو یہ غیر جمہوری قدم کیوں اٹھایا گیا؟ سب کالے کوٹ والے یہی سوچ رہے تھے۔ وکلا کی تحریک شروع ہوئی تو تمام سیاسی پارٹیاں بھی میدان میں آگئیں۔ وہ ''ادھوری عدلیہ'' کی موجودگی میں الیکشن لڑنے کو تیار نہ تھے۔ امریکیوں نے بے نظیر سے اور بی بی نے نواز شریف سے بات کی۔ انتخابی مہم شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کی قائد کو شہید کردیاگیا۔ الیکشن چند ہفتے کو ملتوی ہوئے۔ اب تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا۔ پھر آصف زرداری صدر بن گئے لیکن عدلیہ بحال نہ ہوئی۔ تحریک ایک سال اور چلی۔ اس دوران گورنر سلمان تاثیر نے پنجاب میں شریف برادران کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ یہی وہ وقت تھا جب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملہ ہوا۔ نواز شریف بھی میدان میں آگئے۔ زرداری حکومت چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے پر مجبور ہوئی۔
''ریاست ہوگی ماں کے جیسی'' کی دھن پر عدلیہ کی بحالی کے لیے وکلا نے جانی اور مالی قربانیاں دیں۔ اپنے ذاتی مقصد کے لیے نہیں بلکہ ایک قومی مقصد کی خاطر قانون دان میدان میں آئے تھے۔ عدلیہ بحال ہوئی لیکن توقعات پوری نہ ہوئیں۔ جی چاہتا ہے کہ کھل کر بات کی جائے اور نام کی لاج رکھ کر بے خطر آتشِ نمرود میں کود پڑوں لیکن۔۔۔۔۔۔ خیر یوں ایک بار پھر محسوس ہوا کہ شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھنے کی ہیٹ ٹرک ہوچکی ہے۔ طالب علم کے طور پر اصغر خان کی انتخابی مہم سے قانون کے طالب علم کی حیثیت سے چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک تک۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ چالاک کون؟ لیڈر یا عوام۔