سرکلرریلوے کی منظوری
ماہرین کے خیال میں شہر کراچی اتنا پھیل گیا اور پیچیدہ ہوچکا ہے
کراچی کے شہریوں کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ دیگر متعلقہ وفاقی اور صوبائی اداروں اور محکموں کے بعد ٹرانسپورٹ مافیا نے بھی شہر کے لیے ایک ماس ٹرانزٹ منصوبے کی منظوری دے دی ہے اور اس کے بعد حکومت کے لیے کسی ایسے منصوبے کو مزید موخر کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ اس سے پہلے اگرچہ کوئی بات کھل کر نہیں کی جاتی تھی مگر سچ یا جھوٹ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا کے دوسرے اسی سائز کے شہروں کے برعکس کراچی میں کوئی ماس ٹرانزٹ منصوبہ پائے تکمیل تک نہ پہنچنے کا سبب یہ ہے کہ طاقت ور ٹرانسپورٹ مافیا اس کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ کیوں کہ مافیا کے لوگ بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر شہریوں کے لیے سرکلر ریلوے ٹرینیں یا بڑی بسیں چلادی گئیں تو اس کے نتیجے میں ان کی آمدنی متاثر ہوگی۔ اسی لیے وہ عین وقت پر ایسے کسی بھی منصوبے کو سبوتاژ کردیتے ہیں۔
اس سلسلے میں ٹرانسپورٹ مافیا کے ایک ترجمان نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط کے ساتھ یہ بتایاکہ مافیا کو اب شہر میں ماس ٹرانزٹ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر کوئی اعتراض نہیں رہا ہے کیوں کہ بقول اس کے شہر کی آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ایسے کسی بڑے منصوبے کے بغیر ایک تو گزارہ بھی ممکن نہیں رہا ہے اور اگر اب ٹرینیں اور بڑی بسیں چلادی بھی گئیں تو ٹرانسپورٹ مافیا کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ٹرانسپورٹ مافیا کے اس ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ صرف وہی نہیں بعض دوسری قوتیں بھی جو شہر کراچی کی مختلف شاہراہوں سے غیر قانونی روڈ ٹیکس وصول کرتی ہیں اس صورتحال کی ذمے دار ہیں کیوں کہ ان کا خیال بلکہ خوف ہے کہ اگر لوگ ماس ٹرانزٹ سہولتیں شروع ہونے کے بعد ٹریفک جام سے گھبراکر گاڑیاں گھر رکھ کر آنے لگے تو روڈ ٹیکس کی شکل میں وصول کی جانی والی رقم کم ہوجائے گی۔ بقول اس کے اسی لیے اب تک لیاری ایکسپریس وے کو مکمل طور پر دونوں طرف سے نہیں کھولا گیا ہے۔
جب اس سلسلے میں ٹرانسپورٹ کے ماہرین سے بات کی گئی تو پہلے انھوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ شہر میں ماس ٹرانزٹ کا کوئی منصوبہ لانے کے لیے ٹرانسپورٹ مافیا کی مخالفت دور ہوگئی ہے اور اب یہ بڑا کام پورے امن و سکون سے کیا جاسکتا ہے اس کے بعد ماہرین کی اکثریت نے یہ رائے دی کہ اس مرحلے پر جو ماس ٹرانزٹ منصوبہ شہر کراچی کے لیے سب سے زیادہ مناسب اور FEASIBLE ہے، وہ سرکلر ریلوے ہے جسے اب بھی زندہ کیا جاسکتا ہے اور جس کی تکمیل میں نسبتاً کم عرصہ لگے گا۔ایک زمانہ تھا جب شہر کے مضافات سے سرکلر ریلوے ٹرین وزیر مینشن کے راستے سٹی اسٹیشن جایا کرتی تھی اس وقت سرکل ریلوے کے راستے شہری علاقے سے گریزاں ذرا ہٹ کر تھے مگر اب شہر اتنا پھیل گیا ہے کہ یہ سارے راستے اور سرکلر ریلوے اسٹیشن شہر کے وسط میں آگئے ہیں اور اچھی بات یہ کہ اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔
ماہرین کے خیال میں شہر کراچی اتنا پھیل گیا اور پیچیدہ ہوچکا ہے کہ اس کے لیے کوئی ماس ٹرانزٹ منصوبہ تعمیر کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا، اس اعتبار سے بھی سرکلر ریلوے واحد منصوبہ ہے جسے شہر کو کم سے کم ڈسٹرب سروائیو کرتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن بھی ہیں صرف تھوڑے سے تجاوزات ہٹانے ہوںگے اور ریلوے کراسنگ کی جگہ فلائی اوور یا انڈر گراؤنڈ راستے بنانے ہوںگے۔
ماہرین کی یہ رائے بھی ہے کہ شہر کا ٹریفک اتنا بڑھ چکا ہے کہ سرکلر ریلوے کے لیے محض ریلوے پھاٹک بنانے سے کام نہیں چلے گا کیوں کہ یہ ریلوے پھاٹک خطرناک بھی ہوںگے اور شہر کے ٹریفک کو بھی متاثر کریںگے اس لیے سرکلر ریلوے کو اسی صورت میں کامیاب بنایا جاسکے گا جب اس کی ٹرینیں شہر کے ایک سرے سے چلیں اور بلا روک ٹوک دوسرے سرے تک پہنچ جائیں اور اس دوران صرف اہم ریلوے اسٹیشنوں پر رکیں اور اس مقصد سے راستے میں فلائی اوورز اور انڈر پاسز بنانے ہوںگے۔ بلاشبہ یہ واحد موڈ آف ٹرانسپورٹ ہے جس کے ذریعے لاکھوں شہریوں کو کم سے کم وقت میں شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک منتقل کیا جاسکتا ہے۔
اگر ہم اس شہر میں ٹریفک کا اژدھام کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں شہر کی سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں، رکشاؤں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد کم کرنی ہوگی اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم کراچی کے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کا متبادل ذریعہ فراہم کریں، خاص طور پر امرا کے طبقے کے لیے ایئرکنڈیشنڈ بوگیوں کا بندوبست کرنا ہوگا تاکہ لوگ اپنی گاڑیاں اور کاریں گھر پر چھوڑ کر ایئر کنڈیشنڈ ٹرینوں کے ذریعے آیا اور جایا کریں، کیوں کہ آج کل پاک چین اقتصادی راہداری کا بڑا چرچا ہے اس لیے سرکلر ریلوے کو بھی اسی راہداری کا حصہ بنایا جاسکتا ہے یا یہ راہداری بنانے والوں کی طرف سے کراچی کے عوام کے لیے ایک تحفہ بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ یہ چینی جاپانی ہی ہیں جو سرکلر ریلوے کی تعمیر نو کرسکتے ہیں۔
ابھی سچی بات ہے لوگوں کو اندازہ نہیں کہ سرکلر ریلوے ٹرینوں کے دوبارہ چلنے سے شہر کراچی کے حسن میں کتنا اضافہ ہوگا اور اس کا شمار دنیا کے ان ترقی یافتہ شہروں میں ہونے لگے گا جو ایک اچھے ماس ٹرانزٹ سسٹم سے بہرہ ور ہورہے ہیں، پھر اس کے نتیجے میں وہ بدنما داغ بھی دور ہوسکیںگے جو جا بجا کٹے پھٹے ریلوے ٹریکس اور اجاڑ اسٹیشنوں کی صورت میں نظر آتے ہیں یہاں اس منصوبے پر آثار قدیمہ کا محکمہ ضرور اعتراض کرسکتا ہے جو سرکلر ریلوے اسٹیشنوں کو آرکائیوز میں شامل کرنے والا تھا۔پھر یہ بھی ہوگا کہ ابھی جن پوتوں نواسوں کو ہم یہ کہانیاں سنایا کرتے ہیں کہ بیٹے ایک وہ وقت تھا جب اس شہر کے درمیان میں سے ٹرین چلا کرتی تھی وہی پوتے نواسے بڑے ہونے کے بعد اس ٹرین میں بیٹھ سکیںگے اور ٹرین کی کھڑکیوں سے شہر کے مختلف حصوں کا نظارہ کرسکیںگے۔
اس سلسلے میں جس محکمے پر سب سے زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے وہ ریلوے کا محکمہ ہے جس کے پاس اس منصوبے کو مکمل کرانے اور پھر اس کے بعد اسے چلانے کے لیے مطلوبہ صلاحیت بھی ہے اور تجربہ بھی، یہ منصوبہ شہر کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے نت نئے مواقع پیدا کرے گا اس لیے محکمہ ریلوے کو ٹرانسپورٹ مافیا سے این او سی لیتے ہی اپنا کام شروع کردینا چاہیے اور جلد سے جلد اسے پائے تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔
سرکلر ریلوے کے منصوبے کے لیے دل و جان سے منظوری دیتے ہوئے ٹرانسپورٹ مافیا کی طرف سے ایک شرط رکھی گئی ہے مافیا کے لوگوں کی فرمائش ہے کہ جہاں سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھا جائے یا اس کے افتتاح ہونے کی تختی لگائی جائے وہیں ایک تختی ٹرانسپورٹ مافیا کی خدمت کے اعتراف میں لگائی جائے جس پر خوش نما الفاظ میں لکھا جائے کہ وہ منصوبہ جس کے لیے ٹرانسپورٹ مافیا نے اپنے ''بریڈ اینڈ بٹر'' کی قربانی دی اور اپنے کل کے لیے اپنا آج قربان کیا تاکہ کراچی کے شہری آرام سے دفتر آجاسکیں۔ مافیا کے لوگوں کی یہ قربانی کراچی شہر کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھی جائے گی۔
سرکلر ریلوے چل پڑی تو بلاشبہ اچھی بری بے شمار کہانیاں تخلیق ہوںگی۔ شہر کے لوگوں کو روز مرہ گفتگو کے لیے ایک نیا موضوع میسر آجائے گا، سیاسی جماعتوں کا فائدہ یہ ہے کہ جو پارٹی بھی مرکزی یا صوبائی حکومت میں یہ کام کر گزرے گی وہ اگلے انتخابات میں کراچی کے شہریوں سے ووٹ مانگ سکے گی۔
پھر یہ بھی ہوگا کہ ایک مرتبہ منصوبے پر عمل در آمد شروع ہونے کے بعد بہت سے والدین نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پوتوں، نواسوں سے یہ وعدہ کرسکیںگے کہ وہ (بچے اور پوتے نواسے) جب بڑے ہوںگے تو وہ انھیں گھر کی کھڑکیوں سے سرکلر ریلوے کی ٹرین چلتی دکھاسکیںگے۔
اس سلسلے میں ٹرانسپورٹ مافیا کے ایک ترجمان نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط کے ساتھ یہ بتایاکہ مافیا کو اب شہر میں ماس ٹرانزٹ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر کوئی اعتراض نہیں رہا ہے کیوں کہ بقول اس کے شہر کی آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ایسے کسی بڑے منصوبے کے بغیر ایک تو گزارہ بھی ممکن نہیں رہا ہے اور اگر اب ٹرینیں اور بڑی بسیں چلادی بھی گئیں تو ٹرانسپورٹ مافیا کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
ٹرانسپورٹ مافیا کے اس ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ صرف وہی نہیں بعض دوسری قوتیں بھی جو شہر کراچی کی مختلف شاہراہوں سے غیر قانونی روڈ ٹیکس وصول کرتی ہیں اس صورتحال کی ذمے دار ہیں کیوں کہ ان کا خیال بلکہ خوف ہے کہ اگر لوگ ماس ٹرانزٹ سہولتیں شروع ہونے کے بعد ٹریفک جام سے گھبراکر گاڑیاں گھر رکھ کر آنے لگے تو روڈ ٹیکس کی شکل میں وصول کی جانی والی رقم کم ہوجائے گی۔ بقول اس کے اسی لیے اب تک لیاری ایکسپریس وے کو مکمل طور پر دونوں طرف سے نہیں کھولا گیا ہے۔
جب اس سلسلے میں ٹرانسپورٹ کے ماہرین سے بات کی گئی تو پہلے انھوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ شہر میں ماس ٹرانزٹ کا کوئی منصوبہ لانے کے لیے ٹرانسپورٹ مافیا کی مخالفت دور ہوگئی ہے اور اب یہ بڑا کام پورے امن و سکون سے کیا جاسکتا ہے اس کے بعد ماہرین کی اکثریت نے یہ رائے دی کہ اس مرحلے پر جو ماس ٹرانزٹ منصوبہ شہر کراچی کے لیے سب سے زیادہ مناسب اور FEASIBLE ہے، وہ سرکلر ریلوے ہے جسے اب بھی زندہ کیا جاسکتا ہے اور جس کی تکمیل میں نسبتاً کم عرصہ لگے گا۔ایک زمانہ تھا جب شہر کے مضافات سے سرکلر ریلوے ٹرین وزیر مینشن کے راستے سٹی اسٹیشن جایا کرتی تھی اس وقت سرکل ریلوے کے راستے شہری علاقے سے گریزاں ذرا ہٹ کر تھے مگر اب شہر اتنا پھیل گیا ہے کہ یہ سارے راستے اور سرکلر ریلوے اسٹیشن شہر کے وسط میں آگئے ہیں اور اچھی بات یہ کہ اپنی اپنی جگہ موجود ہیں۔
ماہرین کے خیال میں شہر کراچی اتنا پھیل گیا اور پیچیدہ ہوچکا ہے کہ اس کے لیے کوئی ماس ٹرانزٹ منصوبہ تعمیر کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا، اس اعتبار سے بھی سرکلر ریلوے واحد منصوبہ ہے جسے شہر کو کم سے کم ڈسٹرب سروائیو کرتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن بھی ہیں صرف تھوڑے سے تجاوزات ہٹانے ہوںگے اور ریلوے کراسنگ کی جگہ فلائی اوور یا انڈر گراؤنڈ راستے بنانے ہوںگے۔
ماہرین کی یہ رائے بھی ہے کہ شہر کا ٹریفک اتنا بڑھ چکا ہے کہ سرکلر ریلوے کے لیے محض ریلوے پھاٹک بنانے سے کام نہیں چلے گا کیوں کہ یہ ریلوے پھاٹک خطرناک بھی ہوںگے اور شہر کے ٹریفک کو بھی متاثر کریںگے اس لیے سرکلر ریلوے کو اسی صورت میں کامیاب بنایا جاسکے گا جب اس کی ٹرینیں شہر کے ایک سرے سے چلیں اور بلا روک ٹوک دوسرے سرے تک پہنچ جائیں اور اس دوران صرف اہم ریلوے اسٹیشنوں پر رکیں اور اس مقصد سے راستے میں فلائی اوورز اور انڈر پاسز بنانے ہوںگے۔ بلاشبہ یہ واحد موڈ آف ٹرانسپورٹ ہے جس کے ذریعے لاکھوں شہریوں کو کم سے کم وقت میں شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک منتقل کیا جاسکتا ہے۔
اگر ہم اس شہر میں ٹریفک کا اژدھام کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں شہر کی سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں، رکشاؤں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد کم کرنی ہوگی اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم کراچی کے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کا متبادل ذریعہ فراہم کریں، خاص طور پر امرا کے طبقے کے لیے ایئرکنڈیشنڈ بوگیوں کا بندوبست کرنا ہوگا تاکہ لوگ اپنی گاڑیاں اور کاریں گھر پر چھوڑ کر ایئر کنڈیشنڈ ٹرینوں کے ذریعے آیا اور جایا کریں، کیوں کہ آج کل پاک چین اقتصادی راہداری کا بڑا چرچا ہے اس لیے سرکلر ریلوے کو بھی اسی راہداری کا حصہ بنایا جاسکتا ہے یا یہ راہداری بنانے والوں کی طرف سے کراچی کے عوام کے لیے ایک تحفہ بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ یہ چینی جاپانی ہی ہیں جو سرکلر ریلوے کی تعمیر نو کرسکتے ہیں۔
ابھی سچی بات ہے لوگوں کو اندازہ نہیں کہ سرکلر ریلوے ٹرینوں کے دوبارہ چلنے سے شہر کراچی کے حسن میں کتنا اضافہ ہوگا اور اس کا شمار دنیا کے ان ترقی یافتہ شہروں میں ہونے لگے گا جو ایک اچھے ماس ٹرانزٹ سسٹم سے بہرہ ور ہورہے ہیں، پھر اس کے نتیجے میں وہ بدنما داغ بھی دور ہوسکیںگے جو جا بجا کٹے پھٹے ریلوے ٹریکس اور اجاڑ اسٹیشنوں کی صورت میں نظر آتے ہیں یہاں اس منصوبے پر آثار قدیمہ کا محکمہ ضرور اعتراض کرسکتا ہے جو سرکلر ریلوے اسٹیشنوں کو آرکائیوز میں شامل کرنے والا تھا۔پھر یہ بھی ہوگا کہ ابھی جن پوتوں نواسوں کو ہم یہ کہانیاں سنایا کرتے ہیں کہ بیٹے ایک وہ وقت تھا جب اس شہر کے درمیان میں سے ٹرین چلا کرتی تھی وہی پوتے نواسے بڑے ہونے کے بعد اس ٹرین میں بیٹھ سکیںگے اور ٹرین کی کھڑکیوں سے شہر کے مختلف حصوں کا نظارہ کرسکیںگے۔
اس سلسلے میں جس محکمے پر سب سے زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے وہ ریلوے کا محکمہ ہے جس کے پاس اس منصوبے کو مکمل کرانے اور پھر اس کے بعد اسے چلانے کے لیے مطلوبہ صلاحیت بھی ہے اور تجربہ بھی، یہ منصوبہ شہر کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے نت نئے مواقع پیدا کرے گا اس لیے محکمہ ریلوے کو ٹرانسپورٹ مافیا سے این او سی لیتے ہی اپنا کام شروع کردینا چاہیے اور جلد سے جلد اسے پائے تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔
سرکلر ریلوے کے منصوبے کے لیے دل و جان سے منظوری دیتے ہوئے ٹرانسپورٹ مافیا کی طرف سے ایک شرط رکھی گئی ہے مافیا کے لوگوں کی فرمائش ہے کہ جہاں سرکلر ریلوے کا سنگ بنیاد رکھا جائے یا اس کے افتتاح ہونے کی تختی لگائی جائے وہیں ایک تختی ٹرانسپورٹ مافیا کی خدمت کے اعتراف میں لگائی جائے جس پر خوش نما الفاظ میں لکھا جائے کہ وہ منصوبہ جس کے لیے ٹرانسپورٹ مافیا نے اپنے ''بریڈ اینڈ بٹر'' کی قربانی دی اور اپنے کل کے لیے اپنا آج قربان کیا تاکہ کراچی کے شہری آرام سے دفتر آجاسکیں۔ مافیا کے لوگوں کی یہ قربانی کراچی شہر کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھی جائے گی۔
سرکلر ریلوے چل پڑی تو بلاشبہ اچھی بری بے شمار کہانیاں تخلیق ہوںگی۔ شہر کے لوگوں کو روز مرہ گفتگو کے لیے ایک نیا موضوع میسر آجائے گا، سیاسی جماعتوں کا فائدہ یہ ہے کہ جو پارٹی بھی مرکزی یا صوبائی حکومت میں یہ کام کر گزرے گی وہ اگلے انتخابات میں کراچی کے شہریوں سے ووٹ مانگ سکے گی۔
پھر یہ بھی ہوگا کہ ایک مرتبہ منصوبے پر عمل در آمد شروع ہونے کے بعد بہت سے والدین نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پوتوں، نواسوں سے یہ وعدہ کرسکیںگے کہ وہ (بچے اور پوتے نواسے) جب بڑے ہوںگے تو وہ انھیں گھر کی کھڑکیوں سے سرکلر ریلوے کی ٹرین چلتی دکھاسکیںگے۔