اردو بے قاعدہ دوسرا حصہ
ب سے بیوی، بکری… بیوی کا تو نام بدنام ہے۔ معلوم نہیں کیوں یہ لفظ وضع کردیا گیا
GILGIT:
ب سے بیوی، بکری... بیوی کا تو نام بدنام ہے۔ معلوم نہیں کیوں یہ لفظ وضع کردیا گیا۔ بکری صحیح معلوم ہوتا ہے۔ ان معنوں میں کہ صبح سے شام تک کھاتی رہتی ہے۔ مار، جھڑکیاں، گالیاں اور کوسنے۔ صبح سے شام تک کام، کام اور کام۔ بیوی نہ ہوگئی قائداعظم ہوگئی۔ ساس سسر تو اپنی عمر طبعی کے لحاظ سے بستر پر پڑے رہتے ہیں، مگر شوہر کامدار کو دیکھیے۔ ہفتہ اتوار آیا نہیں کہ نخرے شروع۔ ناشتے میں یہ پکانا، وہ پکانا۔ ''تمہارے ہاتھ کی پوریاں، پراٹھے اور حلوے کا جواب نہیں۔ میرے لیے ذرا کرکرا سا پراٹھا بنانا۔ بس منہ میں جاتے ہی گھل جائے۔'' (حالانکہ سب چیزیں بازار میں ملتی ہیں۔ مگر اس شقی القلب شخص کو کون سمجھائے کہ میں بھی انسان ہوں، ہاتھ پاؤں اور دل و دماغ رکھتی ہوں، جو تھک بھی جاتا ہے۔ صبح اٹھتے ہی ساتھ سارے گھر والوں کے اور بچوں کے کپڑے دھوئے ہیں۔ ماسی اس گھر میں نہیں لگائی۔ وجہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ شوہر صاحب اس پر فریفتہ ہوجاتے ہیں۔ سوچتی ہوں کہ کوئی بوڑھی کھوسٹ سی عورت رکھ لوں۔ ایک بار رکھی بھی تھی، لیکن اس سے کام ہی نہیں ہوتا تھا۔ کراہتی رہتی اور ناشتہ مانگتی۔ پھر دوپہر کو باقاعدہ کھانا کھا کر ہی جاتی۔ ایک ہزار میں مہنگی پڑ رہی تھی۔ حساب کتاب کیا جائے تو دو ہزار بنتے تھے۔ میں نے اسے گھر سے باہر کیا اور واشنگ مشین منگوالی۔ زندگی اب سکون سے گزر رہی ہے، شوہر اور ان کے والدین کی۔)
اب کچن میں جاؤں گی تو بچے جاگنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ چاہیے، وہ چاہیے۔ ''میرا خیال ہے کہ اب تم کچن میں ہو۔ برتن کھنکنے کی آواز آرہی ہے۔ ذرا ایک کپ چائے تو بنا دو۔ تمہیں تو معلوم ہوگا کہ میں بیڈ ٹی پیتا ہوں۔'' (گویا مجھ پر احسان کرتے ہیں۔ جو بیڈ ٹی پیتے ہیں وہ بھی انسان ہوتے ہیں اور جو نہیں پیتے وہ بھی انسان ہوتے ہیں، کیا پینے والوں کی سینگ نکل آتی ہیں؟ یہ بیڈ ٹی پیتے ہیں پھر پے در پے دو سگرٹیں پیتے ہیں، تب ٹوائلٹ کی طرف جاتے ہیں۔) نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے چائے چولہے پر چڑھا دی۔
''آج کتابوں کی نمائش ہورہی ہے، مجھے اور میرے دوستوں کو اس میں جانا ہے۔'' انھوں نے چائے کی پیالی تھامتے ہوئے کہا۔ ''تمہارے پاس ایک ہزار روپے ہوں تو دے دینا۔ آیندہ تنخواہ پر دے دوں گا۔'' (خیر پیسے تو یہ دے دیں گے، پیسوں کا تو خیال رکھتے ہیں۔ مگر کتنی بار کہا ہے کہ ہفتہ اور اتوار کو باہر جانے کا کوئی پروگرام نہ بنایا کریں۔ خاص طور پر اپنے اول جلول دوستوں کے ساتھ، جو بیویوں کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے اور انھیں میرے بارے میں بہکاتے رہتے ہیں۔ میں ان کے نام جانتی ہوں، لیکن کسی کو بتانے کا کیا فائدہ، یہ تو ہماری آپس کی بات ہے)
میں ان کے قضیے میں الجھی ہوئی تھی کہ کونے والے کمرے سے آواز آئی۔ ''بہو ناشتہ تیار ہوگیا؟''
میں نے ایک سینی میں ساس سسر کا ناشتہ لگا کر ان کے کمرے میں پہنچا دیا۔ سسر فجر پڑھتے تھے اس لیے علی الصبح جاگ جاتے تھے۔ کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتے تھے۔ سوائے اس کے کہ گھٹنے جواب دے گئے تھے، اس لیے آہستہ چلتے تھے۔ کانوں سے صحیح سنائی نہیں دیتا تھا، اس لیے اپنی بات ان کی سماعت تک پہنچانے کے لیے پھیپڑوں کا زور لگانا پڑتا تھا۔ ساس کو دکھائی کم دیتا تھا اور ان کی یادداشت گڑبڑ تھی، اس لیے کھانے کے بعد انھیں یاد نہیں رہتا تھا کہ انھوں نے کھایا کہ نہیں۔ وہ پھر مانگ بیٹھتی تھیں۔ لاکھ یقین دلاؤ کہ آپ کھا چکی ہیں، لیکن ان کا جواب ہوتا تھا کہ ابھی تو نہیں کھایا۔ بہرحال یادداشت ان کی گم ہوئی تھی، میری تو نہیں۔ انھیں زیادہ کھا کر بدہضمی ہوجاتی تھی۔
ناشتے کی سینی انھوں نے ہاتھ سے لے لی اور چائے پاپا دیکھ کر کہنے لگیں۔ ''بریانی کہاں گئی؟''
''کون سی بریانی؟'' میں نے حیرت سے پوچھا۔
''وہی جو تم ابھی بنارہی تھیں؟ ہانڈی میں چمچہ چلانے کی آواز آرہی تھی؟''
''وہ تو میں دوپہر کے لیے کریلے پکا رہی تھی۔''
''بہرحال بریانی پکانا تو مجھے دو پلیٹیں دے دینا۔ انھیں بالکل نہ دینا۔ ان کا معدہ خراب ہے۔'' انھوں نے شوہر کی طرف اشارہ کیا۔
بات تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ انھیں بریانی بہت پسند تھی۔ اتنی کہ اگر ان کا بس چلتا تو وہ صبح سے لے کر رات تک بریانی ہی کھاتی رہتیں۔ میں نے بھی سوچا تھا کہ ان کے لیے صبح ایک دیگ پکادیا کروں اور رات تک انھیں بریانی کھلاتی رہوں۔ اس کے بعد ان کا بیڑہ پار ہوجائے گا۔
بیوی کے معنی اور مفہوم لغت میں تبدیل کرنا پڑیں گے۔ اس لیے کہ میں تو ملازمہ، دھوبن، باورچن، مالن اور نہ جانے کیا کیا تھی۔ مالن اس لیے کہ گھر کا آنگن کچا تھا اور ساس کے مشوروں پر وہاں فصل تیار کرنے کا شوق میں ہی پورا کرتی تھی۔ فصل؟ مرچ، پودینے، ہرے دھنیے اور ادرک کی۔
میرے ہاتھ مٹی میں لتھڑے دیکھ کر شوہر بہت خوش ہوتے ہیں کہ کوئی کام کررہی ہوں۔ (جیسے میں کوئی کام ہی نہیں کرتی یا مجھے کام کرنا نہیں آتا۔) دلچسپ بات یہ کہ خوش پھر بھی مجھ سے کوئی نہیں رہتا تھا۔ ہر کام میں کیڑے نکالنا ان کا مشغلہ تھا۔ شوہر صاحب لقمہ زبان پر رکھنے سے پیشتر فرمانے لگتے۔ ''ارے! یہ سالن کیسا پکایا ہے تم نے؟ لہسن کی بو آرہی ہے۔''
''سالن میں لہسن پڑا ہے، اس لیے اس کی بو تو آئے گی۔''
''روٹیاں تو گول پکا لیا کرو۔''
''روٹیاں اگر چوکور ہوں گی تو کیا ہضم نہیں ہوں گی؟ روٹیوں کے گول ہونے پر سب کیوں مصر رہتے ہیں؟''
''یہ دال میں کیا ڈال دیا؟''
''کچھ نہیں ڈالا۔ کچن میں کاکروچ بہت ہوچکے ہیں۔ ہانڈی کھلی رہ جاتی ہے بعض اوقات۔ دیکھ کر کھائیے گا۔''
''کہاں سے دیکھوں؟ اس وقت تو لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔''
''میرا مطلب موم بتی کو نزدیک رکھ لیجیے۔ پلیٹ میں سے بہت کچھ نکلنے کی توقع ہے۔ یہ گھر عجائب گھر ہوتا جارہا ہے۔ گلی میں کتے بھونکتے ہیں، آنگن میں بلیوں کی میاؤں میاؤں، کچن پر کاکروچز کا قبضہ۔ چوہے بغیر بلائے آجاتے ہیں۔''
''ٹھیک ہے۔ اگلے سال مریخ پر چل کر مکان بنائیں گے۔'' وہ جھنجلا کر کہتے ہیں اور بات یہاں ختم ہوجاتی ہے۔
ب سے بیوی، بکری... بیوی کا تو نام بدنام ہے۔ معلوم نہیں کیوں یہ لفظ وضع کردیا گیا۔ بکری صحیح معلوم ہوتا ہے۔ ان معنوں میں کہ صبح سے شام تک کھاتی رہتی ہے۔ مار، جھڑکیاں، گالیاں اور کوسنے۔ صبح سے شام تک کام، کام اور کام۔ بیوی نہ ہوگئی قائداعظم ہوگئی۔ ساس سسر تو اپنی عمر طبعی کے لحاظ سے بستر پر پڑے رہتے ہیں، مگر شوہر کامدار کو دیکھیے۔ ہفتہ اتوار آیا نہیں کہ نخرے شروع۔ ناشتے میں یہ پکانا، وہ پکانا۔ ''تمہارے ہاتھ کی پوریاں، پراٹھے اور حلوے کا جواب نہیں۔ میرے لیے ذرا کرکرا سا پراٹھا بنانا۔ بس منہ میں جاتے ہی گھل جائے۔'' (حالانکہ سب چیزیں بازار میں ملتی ہیں۔ مگر اس شقی القلب شخص کو کون سمجھائے کہ میں بھی انسان ہوں، ہاتھ پاؤں اور دل و دماغ رکھتی ہوں، جو تھک بھی جاتا ہے۔ صبح اٹھتے ہی ساتھ سارے گھر والوں کے اور بچوں کے کپڑے دھوئے ہیں۔ ماسی اس گھر میں نہیں لگائی۔ وجہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ شوہر صاحب اس پر فریفتہ ہوجاتے ہیں۔ سوچتی ہوں کہ کوئی بوڑھی کھوسٹ سی عورت رکھ لوں۔ ایک بار رکھی بھی تھی، لیکن اس سے کام ہی نہیں ہوتا تھا۔ کراہتی رہتی اور ناشتہ مانگتی۔ پھر دوپہر کو باقاعدہ کھانا کھا کر ہی جاتی۔ ایک ہزار میں مہنگی پڑ رہی تھی۔ حساب کتاب کیا جائے تو دو ہزار بنتے تھے۔ میں نے اسے گھر سے باہر کیا اور واشنگ مشین منگوالی۔ زندگی اب سکون سے گزر رہی ہے، شوہر اور ان کے والدین کی۔)
اب کچن میں جاؤں گی تو بچے جاگنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ چاہیے، وہ چاہیے۔ ''میرا خیال ہے کہ اب تم کچن میں ہو۔ برتن کھنکنے کی آواز آرہی ہے۔ ذرا ایک کپ چائے تو بنا دو۔ تمہیں تو معلوم ہوگا کہ میں بیڈ ٹی پیتا ہوں۔'' (گویا مجھ پر احسان کرتے ہیں۔ جو بیڈ ٹی پیتے ہیں وہ بھی انسان ہوتے ہیں اور جو نہیں پیتے وہ بھی انسان ہوتے ہیں، کیا پینے والوں کی سینگ نکل آتی ہیں؟ یہ بیڈ ٹی پیتے ہیں پھر پے در پے دو سگرٹیں پیتے ہیں، تب ٹوائلٹ کی طرف جاتے ہیں۔) نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے چائے چولہے پر چڑھا دی۔
''آج کتابوں کی نمائش ہورہی ہے، مجھے اور میرے دوستوں کو اس میں جانا ہے۔'' انھوں نے چائے کی پیالی تھامتے ہوئے کہا۔ ''تمہارے پاس ایک ہزار روپے ہوں تو دے دینا۔ آیندہ تنخواہ پر دے دوں گا۔'' (خیر پیسے تو یہ دے دیں گے، پیسوں کا تو خیال رکھتے ہیں۔ مگر کتنی بار کہا ہے کہ ہفتہ اور اتوار کو باہر جانے کا کوئی پروگرام نہ بنایا کریں۔ خاص طور پر اپنے اول جلول دوستوں کے ساتھ، جو بیویوں کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے اور انھیں میرے بارے میں بہکاتے رہتے ہیں۔ میں ان کے نام جانتی ہوں، لیکن کسی کو بتانے کا کیا فائدہ، یہ تو ہماری آپس کی بات ہے)
میں ان کے قضیے میں الجھی ہوئی تھی کہ کونے والے کمرے سے آواز آئی۔ ''بہو ناشتہ تیار ہوگیا؟''
میں نے ایک سینی میں ساس سسر کا ناشتہ لگا کر ان کے کمرے میں پہنچا دیا۔ سسر فجر پڑھتے تھے اس لیے علی الصبح جاگ جاتے تھے۔ کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتے تھے۔ سوائے اس کے کہ گھٹنے جواب دے گئے تھے، اس لیے آہستہ چلتے تھے۔ کانوں سے صحیح سنائی نہیں دیتا تھا، اس لیے اپنی بات ان کی سماعت تک پہنچانے کے لیے پھیپڑوں کا زور لگانا پڑتا تھا۔ ساس کو دکھائی کم دیتا تھا اور ان کی یادداشت گڑبڑ تھی، اس لیے کھانے کے بعد انھیں یاد نہیں رہتا تھا کہ انھوں نے کھایا کہ نہیں۔ وہ پھر مانگ بیٹھتی تھیں۔ لاکھ یقین دلاؤ کہ آپ کھا چکی ہیں، لیکن ان کا جواب ہوتا تھا کہ ابھی تو نہیں کھایا۔ بہرحال یادداشت ان کی گم ہوئی تھی، میری تو نہیں۔ انھیں زیادہ کھا کر بدہضمی ہوجاتی تھی۔
ناشتے کی سینی انھوں نے ہاتھ سے لے لی اور چائے پاپا دیکھ کر کہنے لگیں۔ ''بریانی کہاں گئی؟''
''کون سی بریانی؟'' میں نے حیرت سے پوچھا۔
''وہی جو تم ابھی بنارہی تھیں؟ ہانڈی میں چمچہ چلانے کی آواز آرہی تھی؟''
''وہ تو میں دوپہر کے لیے کریلے پکا رہی تھی۔''
''بہرحال بریانی پکانا تو مجھے دو پلیٹیں دے دینا۔ انھیں بالکل نہ دینا۔ ان کا معدہ خراب ہے۔'' انھوں نے شوہر کی طرف اشارہ کیا۔
بات تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ انھیں بریانی بہت پسند تھی۔ اتنی کہ اگر ان کا بس چلتا تو وہ صبح سے لے کر رات تک بریانی ہی کھاتی رہتیں۔ میں نے بھی سوچا تھا کہ ان کے لیے صبح ایک دیگ پکادیا کروں اور رات تک انھیں بریانی کھلاتی رہوں۔ اس کے بعد ان کا بیڑہ پار ہوجائے گا۔
بیوی کے معنی اور مفہوم لغت میں تبدیل کرنا پڑیں گے۔ اس لیے کہ میں تو ملازمہ، دھوبن، باورچن، مالن اور نہ جانے کیا کیا تھی۔ مالن اس لیے کہ گھر کا آنگن کچا تھا اور ساس کے مشوروں پر وہاں فصل تیار کرنے کا شوق میں ہی پورا کرتی تھی۔ فصل؟ مرچ، پودینے، ہرے دھنیے اور ادرک کی۔
میرے ہاتھ مٹی میں لتھڑے دیکھ کر شوہر بہت خوش ہوتے ہیں کہ کوئی کام کررہی ہوں۔ (جیسے میں کوئی کام ہی نہیں کرتی یا مجھے کام کرنا نہیں آتا۔) دلچسپ بات یہ کہ خوش پھر بھی مجھ سے کوئی نہیں رہتا تھا۔ ہر کام میں کیڑے نکالنا ان کا مشغلہ تھا۔ شوہر صاحب لقمہ زبان پر رکھنے سے پیشتر فرمانے لگتے۔ ''ارے! یہ سالن کیسا پکایا ہے تم نے؟ لہسن کی بو آرہی ہے۔''
''سالن میں لہسن پڑا ہے، اس لیے اس کی بو تو آئے گی۔''
''روٹیاں تو گول پکا لیا کرو۔''
''روٹیاں اگر چوکور ہوں گی تو کیا ہضم نہیں ہوں گی؟ روٹیوں کے گول ہونے پر سب کیوں مصر رہتے ہیں؟''
''یہ دال میں کیا ڈال دیا؟''
''کچھ نہیں ڈالا۔ کچن میں کاکروچ بہت ہوچکے ہیں۔ ہانڈی کھلی رہ جاتی ہے بعض اوقات۔ دیکھ کر کھائیے گا۔''
''کہاں سے دیکھوں؟ اس وقت تو لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔''
''میرا مطلب موم بتی کو نزدیک رکھ لیجیے۔ پلیٹ میں سے بہت کچھ نکلنے کی توقع ہے۔ یہ گھر عجائب گھر ہوتا جارہا ہے۔ گلی میں کتے بھونکتے ہیں، آنگن میں بلیوں کی میاؤں میاؤں، کچن پر کاکروچز کا قبضہ۔ چوہے بغیر بلائے آجاتے ہیں۔''
''ٹھیک ہے۔ اگلے سال مریخ پر چل کر مکان بنائیں گے۔'' وہ جھنجلا کر کہتے ہیں اور بات یہاں ختم ہوجاتی ہے۔