ہمارا جذبۂ افسوس اور زمینی حقائق
16 نومبر کو روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ایک انٹرویو دیا ہے
HARIPUR:
16 نومبر کو روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ایک انٹرویو دیا ہے۔ میں ان دوستوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو سمجھتے ہیں کہ عالمی بساط پر ایجنسیوں کے مابین خونی چپقلش کے تجزیے محض تُکے اور داعش جیسی خبیث فطرت تنظیموں پر مسلمان ہونے کے ناتے پردہ ڈالنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔
پیوٹن کہتا ہے کہ اس کے فارن پارٹنرز ان سے متواتر کہتے آرہے ہیں کہ روس شام میں جن مقامات کو ہدف بنارہا ہے اس کا ڈیٹا فراہم کیا جائے۔ دراصل انھیں خوف ان علاقوں کا ہے جن پر وہ چاہتے ہیں کہ روس بمباری نہ کرے کیوں کہ انھیں یہی ڈر ہے کہ ہم بالخصوص انھی علاقوں کو نشانہ بنائیں گے اور یہ کہ ہم باقی سب کو دھوکا دے رہے ہیں۔
(ہمارے ہاں انسانیت کے نعرے بازوں کے لیے بھی) پیوٹن نے کہا کہ دراصل روس پر تنقید ان کی اپنی خود ساختہ انسانی شرافت کے تصور پر مبنی ہے۔ داعش کے خلاف روسی پیشکش کو امریکا نے یہ نوٹ لکھ کر مسترد کیا: ''ہم تمھاری پیشکش کو مسترد کرتے ہیں۔'' پیوٹن کے اس بیان کو تو عالمی میڈیا نے بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا کہ داعش کو فنڈنگ کرنے والے چالیس ممالک میں سے جی ٹوئنٹی ممالک کے ارکان بھی شامل ہیں جن کے باقاعدہ ثبوت اس کے پاس موجود ہیں۔
پھر مزے کی بات یہ ہے کہ داعش نے روسی طیارے کی تباہی کی ذمے داری قبول کرلی تھی لیکن روس ہے کہ مانتا ہی نہیں۔ آخرکار تحقیقات کے بعد انھوں نے دنیا کو بتادیا کہ طیارہ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے اڑایا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی اور اسے روبہ عمل لانے کے لیے کئی جگہ لوپ ہولز فراہم کیے گئے۔ یہی وجہ تھی کہ روس داعش کے اعلان کے باوجود اسے نظرانداز کررہا تھا۔ طیارے کی تباہی کے ذمے داروں کی تلاش کے سخت روسی اعلان سے بہت واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اس واقعے کے پیچھے امریکی ہاتھ دیکھ رہا ہے جو اس خطے بالخصوص شام میں اس کے مفادات پر مسلسل حملے کررہا ہے۔
اس واقعے کے بعد دو عوامی مقامات پر (بشمول پیرس) داعش کے نام پر بڑی تباہی پھیلائی گئی ہے لیکن ان واقعات میں صرف روس ہی نے داعش کے اعلان کو مسترد کیا ہے۔کیوں؟ فرض کریں اگر روس کی طرح فرانس اور بیروت بھی داعش کے دعوے کو مسترد کردیں تو نتیجہ کیا برآمد ہوگا؟ یہی نا کہ داعش دنیا کو دھوکے میں رکھنے والا ایک پتلا ہے جس کے کاسٹیوم میں عالمی سفاک ایجنسیوں کے لوگ اور جرائم پیشہ نفسیاتی مریضوں کے گروپس کارفرما ہیں۔ فرنٹ پر مسلمانوں والے نام کے دہشت گرد جرائم پیشہ لوگوں کو رکھا جارہا ہے اور کچھ واقعی متشدد بیمار سوچ رکھنے والے بزعم خود ایمانی جذبے کے حامل مسلمانوں کو بھی۔ تو سوال یہ ہے کہ روس ایسا کیوں کررہا ہے؟ جواب بہت آسان ہے۔ داعش بنیادی طور پر امریکی پروڈکٹ ہے۔ روس کو اس کی مکمل تباہی کا کوئی اندیشہ نہیں، اس لیے وہ کھلے دل کے ساتھ داعش کے روپ میں بھی کارفرما رہتا ہے اور اس کے نام پر امریکی حملے کو سرعام قبول بھی نہیں کرتا۔ تاحال شام کے معاملے میں روس نے امریکی مفادات کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔
ایک چشم کشا حقیقت کو نظر انداز کیا جارہا ہے جو فنڈنگ ہی کے حوالے سے ہے۔ داعش خام تیل کی اسمگلنگ سے ماہانہ پچاس ملین ڈالرز کمارہی ہے۔ اس کے لیے اس نے شام اور عراق میں آئل فیلڈز پر قبضہ جما رکھا ہے۔ پوری دنیا کی سیاست اپنے پنجوں میں رکھنے والے مقتدر ممالک کے ہوتے ہوئے ایک دہشت گرد گروہ (اور وہ بھی مسلمان) بے انتہا منظم انداز میں اپنے وجود کی تشکیل کے بعد اسے باقاعدہ برقرار رکھنے کا مستقل بندوبست بھی کرے' معقول آدمی کے حلق سے یہ بات اترتی نہیں ہے۔ عراق اور شام میں ہر جگہ امریکی اورفرانسیسی بمبار طیارے (اور اب یکم اکتوبر سے روسی بھی) سب کچھ ملیامیٹ کرکے رکھ رہے ہیں اور ایک عرصے سے امریکا پر تنقید جاری تھی کہ امریکی طیارے ان آئل فیلڈز کو کیوں نشانہ نہیں بنارہے' اب آخرکار پیر کو امریکی طیاروں نے نشانہ بنایا تو کسے؟ داعش کے زیر کنٹرول علاقے کے قریب تیل لے جانے والے 116 داعشی ٹینکرز کو۔ اس کے علاوہ سیٹلائٹ طاقت رکھنے والے امریکا کو یہ نہیں معلوم کہ زیر کنٹرول علاقے میں آئل فیلڈز پر قابض داعش سے کیسے نمٹا جائے۔
ایک طرف امریکا نے فرانس حملے سے قبل اپنی ''پالیسی'' میں یہ تبدیلی کی اور دوسری طرف داعش نے بھی اپنے پینترے بدلے اور عوامی مقامات پر دہشت پھیلانے والے حملے شروع کردیے۔ اس حسن اتفاق پر امریکی ریاست منی سوتا کے انوسٹگیٹو جرنلسٹ جے سرموپولس کا تبصرہ ہے کہ یہ ٹائمنگ بہت مشکوک ہے۔ فرانس کے حملے کے تناظر میں یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے امریکا کو عین روسی پوزیشن پر دھکیلا گیا ہے۔ یعنی ایک محاذ امریکا نے روس کے اتحادی ملک شام میں کھولا ہے تو اس کے جواب میں امریکی اتحادی فرانس میں وسیع پیمانے پر دہشت پھیلانے والے تباہ کن واقعے کی صورت میں امریکا کو اس پوزیشن پر دھکیلنے کی کوشش کی گئی ہے جہاں اس خطے میں روس کی ہے۔ فرق تو دونوں میں بہت واضح ہے لیکن اگر اسی طرح امریکی اتحادی ممالک میں حملے ہونے لگے تو جلد ہی اتحادی ممالک کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
بہرحال، روسی طیارے کی تباہی کے بعد اس خطے میں جہاں مسلمانوں ہی کی مدد سے یورپ اور امریکا مل کر مسلمانوں کو خون میں نہلارہے ہیں، تزویراتی صورتحال بالکل تبدیل ہوگئی ہے۔ اب تک کیے گئے داعش کو ختم کرنے کے پرعزم امریکی و یورپی اعلانات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے خاص مقاصد کے تحت داعش کے خلاف جدوجہد کو صرف اعلانات تک محدود رکھا اور اب روس کے میدان میں اترنے کے بعد انھوں نے پہلی مرتبہ داعش کے آئل ٹینکرز کو نشانہ بنایا۔ روس واحد ملک ہے جسے داعش کی دھمکیوں کی ذرا بھی فکر نہیں۔ داعش نے روس کے اندر خون کے دریا بہانے کا اعلان کیا لیکن پیوٹن کا ردعمل اس پر اتنا پروفیشنل رہا جیسے کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تنازعات کے حوالے سے پالیسی بیان جاری کررہے ہوں۔ جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ پیرس حملے کے بعد مسلمانوں کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
فرانسیسی جھنڈے سے اپنے چہرے رنگنے والے شام کے ہمہ وقت خون رنگ چہرے پر نگاہ کرنے جتنی انسانیت سے بھی آشنا ہوتے تو اب تک ان کے پاس اپنے سگے بھائی کے مرنے پر بھی ظاہر کرنے کے لیے افسوس کی رمق تک نہ بچی ہوتی۔ ہم سب اپنے ملک میں بھی مذہب اور لسانی تعصب کے نام پر خون میں اتنے نہلائے جاچکے ہیں کہ ہماری ہمدردیاں، ہمارا جذبۂ افسوس اور جذبۂ انسانیت اپنے اپنے تعصبات کے اسیر ہوکر رہ چکے ہیں۔ دنیا بھر میں خون کی ندیاں بہائی جاتی ہیں، بوڑھے اور معصوم بچے اور عورتیں دریدہ بدن لے کر ماں کی گود جیسی زمین کو ڈھانپ دیتی ہیں اور ہم لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے گریبان پھاڑتے رہتے ہیں۔ ہمارے بس میں اور کیا ہے۔
16 نومبر کو روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ایک انٹرویو دیا ہے۔ میں ان دوستوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو سمجھتے ہیں کہ عالمی بساط پر ایجنسیوں کے مابین خونی چپقلش کے تجزیے محض تُکے اور داعش جیسی خبیث فطرت تنظیموں پر مسلمان ہونے کے ناتے پردہ ڈالنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔
پیوٹن کہتا ہے کہ اس کے فارن پارٹنرز ان سے متواتر کہتے آرہے ہیں کہ روس شام میں جن مقامات کو ہدف بنارہا ہے اس کا ڈیٹا فراہم کیا جائے۔ دراصل انھیں خوف ان علاقوں کا ہے جن پر وہ چاہتے ہیں کہ روس بمباری نہ کرے کیوں کہ انھیں یہی ڈر ہے کہ ہم بالخصوص انھی علاقوں کو نشانہ بنائیں گے اور یہ کہ ہم باقی سب کو دھوکا دے رہے ہیں۔
(ہمارے ہاں انسانیت کے نعرے بازوں کے لیے بھی) پیوٹن نے کہا کہ دراصل روس پر تنقید ان کی اپنی خود ساختہ انسانی شرافت کے تصور پر مبنی ہے۔ داعش کے خلاف روسی پیشکش کو امریکا نے یہ نوٹ لکھ کر مسترد کیا: ''ہم تمھاری پیشکش کو مسترد کرتے ہیں۔'' پیوٹن کے اس بیان کو تو عالمی میڈیا نے بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا کہ داعش کو فنڈنگ کرنے والے چالیس ممالک میں سے جی ٹوئنٹی ممالک کے ارکان بھی شامل ہیں جن کے باقاعدہ ثبوت اس کے پاس موجود ہیں۔
پھر مزے کی بات یہ ہے کہ داعش نے روسی طیارے کی تباہی کی ذمے داری قبول کرلی تھی لیکن روس ہے کہ مانتا ہی نہیں۔ آخرکار تحقیقات کے بعد انھوں نے دنیا کو بتادیا کہ طیارہ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے اڑایا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی اور اسے روبہ عمل لانے کے لیے کئی جگہ لوپ ہولز فراہم کیے گئے۔ یہی وجہ تھی کہ روس داعش کے اعلان کے باوجود اسے نظرانداز کررہا تھا۔ طیارے کی تباہی کے ذمے داروں کی تلاش کے سخت روسی اعلان سے بہت واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ وہ اس واقعے کے پیچھے امریکی ہاتھ دیکھ رہا ہے جو اس خطے بالخصوص شام میں اس کے مفادات پر مسلسل حملے کررہا ہے۔
اس واقعے کے بعد دو عوامی مقامات پر (بشمول پیرس) داعش کے نام پر بڑی تباہی پھیلائی گئی ہے لیکن ان واقعات میں صرف روس ہی نے داعش کے اعلان کو مسترد کیا ہے۔کیوں؟ فرض کریں اگر روس کی طرح فرانس اور بیروت بھی داعش کے دعوے کو مسترد کردیں تو نتیجہ کیا برآمد ہوگا؟ یہی نا کہ داعش دنیا کو دھوکے میں رکھنے والا ایک پتلا ہے جس کے کاسٹیوم میں عالمی سفاک ایجنسیوں کے لوگ اور جرائم پیشہ نفسیاتی مریضوں کے گروپس کارفرما ہیں۔ فرنٹ پر مسلمانوں والے نام کے دہشت گرد جرائم پیشہ لوگوں کو رکھا جارہا ہے اور کچھ واقعی متشدد بیمار سوچ رکھنے والے بزعم خود ایمانی جذبے کے حامل مسلمانوں کو بھی۔ تو سوال یہ ہے کہ روس ایسا کیوں کررہا ہے؟ جواب بہت آسان ہے۔ داعش بنیادی طور پر امریکی پروڈکٹ ہے۔ روس کو اس کی مکمل تباہی کا کوئی اندیشہ نہیں، اس لیے وہ کھلے دل کے ساتھ داعش کے روپ میں بھی کارفرما رہتا ہے اور اس کے نام پر امریکی حملے کو سرعام قبول بھی نہیں کرتا۔ تاحال شام کے معاملے میں روس نے امریکی مفادات کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔
ایک چشم کشا حقیقت کو نظر انداز کیا جارہا ہے جو فنڈنگ ہی کے حوالے سے ہے۔ داعش خام تیل کی اسمگلنگ سے ماہانہ پچاس ملین ڈالرز کمارہی ہے۔ اس کے لیے اس نے شام اور عراق میں آئل فیلڈز پر قبضہ جما رکھا ہے۔ پوری دنیا کی سیاست اپنے پنجوں میں رکھنے والے مقتدر ممالک کے ہوتے ہوئے ایک دہشت گرد گروہ (اور وہ بھی مسلمان) بے انتہا منظم انداز میں اپنے وجود کی تشکیل کے بعد اسے باقاعدہ برقرار رکھنے کا مستقل بندوبست بھی کرے' معقول آدمی کے حلق سے یہ بات اترتی نہیں ہے۔ عراق اور شام میں ہر جگہ امریکی اورفرانسیسی بمبار طیارے (اور اب یکم اکتوبر سے روسی بھی) سب کچھ ملیامیٹ کرکے رکھ رہے ہیں اور ایک عرصے سے امریکا پر تنقید جاری تھی کہ امریکی طیارے ان آئل فیلڈز کو کیوں نشانہ نہیں بنارہے' اب آخرکار پیر کو امریکی طیاروں نے نشانہ بنایا تو کسے؟ داعش کے زیر کنٹرول علاقے کے قریب تیل لے جانے والے 116 داعشی ٹینکرز کو۔ اس کے علاوہ سیٹلائٹ طاقت رکھنے والے امریکا کو یہ نہیں معلوم کہ زیر کنٹرول علاقے میں آئل فیلڈز پر قابض داعش سے کیسے نمٹا جائے۔
ایک طرف امریکا نے فرانس حملے سے قبل اپنی ''پالیسی'' میں یہ تبدیلی کی اور دوسری طرف داعش نے بھی اپنے پینترے بدلے اور عوامی مقامات پر دہشت پھیلانے والے حملے شروع کردیے۔ اس حسن اتفاق پر امریکی ریاست منی سوتا کے انوسٹگیٹو جرنلسٹ جے سرموپولس کا تبصرہ ہے کہ یہ ٹائمنگ بہت مشکوک ہے۔ فرانس کے حملے کے تناظر میں یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے امریکا کو عین روسی پوزیشن پر دھکیلا گیا ہے۔ یعنی ایک محاذ امریکا نے روس کے اتحادی ملک شام میں کھولا ہے تو اس کے جواب میں امریکی اتحادی فرانس میں وسیع پیمانے پر دہشت پھیلانے والے تباہ کن واقعے کی صورت میں امریکا کو اس پوزیشن پر دھکیلنے کی کوشش کی گئی ہے جہاں اس خطے میں روس کی ہے۔ فرق تو دونوں میں بہت واضح ہے لیکن اگر اسی طرح امریکی اتحادی ممالک میں حملے ہونے لگے تو جلد ہی اتحادی ممالک کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔
بہرحال، روسی طیارے کی تباہی کے بعد اس خطے میں جہاں مسلمانوں ہی کی مدد سے یورپ اور امریکا مل کر مسلمانوں کو خون میں نہلارہے ہیں، تزویراتی صورتحال بالکل تبدیل ہوگئی ہے۔ اب تک کیے گئے داعش کو ختم کرنے کے پرعزم امریکی و یورپی اعلانات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے خاص مقاصد کے تحت داعش کے خلاف جدوجہد کو صرف اعلانات تک محدود رکھا اور اب روس کے میدان میں اترنے کے بعد انھوں نے پہلی مرتبہ داعش کے آئل ٹینکرز کو نشانہ بنایا۔ روس واحد ملک ہے جسے داعش کی دھمکیوں کی ذرا بھی فکر نہیں۔ داعش نے روس کے اندر خون کے دریا بہانے کا اعلان کیا لیکن پیوٹن کا ردعمل اس پر اتنا پروفیشنل رہا جیسے کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تنازعات کے حوالے سے پالیسی بیان جاری کررہے ہوں۔ جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ پیرس حملے کے بعد مسلمانوں کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
فرانسیسی جھنڈے سے اپنے چہرے رنگنے والے شام کے ہمہ وقت خون رنگ چہرے پر نگاہ کرنے جتنی انسانیت سے بھی آشنا ہوتے تو اب تک ان کے پاس اپنے سگے بھائی کے مرنے پر بھی ظاہر کرنے کے لیے افسوس کی رمق تک نہ بچی ہوتی۔ ہم سب اپنے ملک میں بھی مذہب اور لسانی تعصب کے نام پر خون میں اتنے نہلائے جاچکے ہیں کہ ہماری ہمدردیاں، ہمارا جذبۂ افسوس اور جذبۂ انسانیت اپنے اپنے تعصبات کے اسیر ہوکر رہ چکے ہیں۔ دنیا بھر میں خون کی ندیاں بہائی جاتی ہیں، بوڑھے اور معصوم بچے اور عورتیں دریدہ بدن لے کر ماں کی گود جیسی زمین کو ڈھانپ دیتی ہیں اور ہم لوگ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے گریبان پھاڑتے رہتے ہیں۔ ہمارے بس میں اور کیا ہے۔