جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
ڈھاکا میں پاکستان کے عشاق کا مقتل سجا ہے، سینٹرل جیل کے پھانسی گھاٹ سے سرفروشوں کے لاشے برآمد ہو رہے ہیں۔
ڈھاکا میں پاکستان کے عشاق کا مقتل سجا ہے، سینٹرل جیل کے پھانسی گھاٹ سے سرفروشوں کے لاشے برآمد ہو رہے ہیں۔ وسیع تر جنوبی ایشیا کے خاکے میں خون شہیدان سے رنگ بھرے جا رہے ہیں۔صلاح الدین قادر چوہدری اورعلی احسن مجاہد کی پھانسی کے بعد حکومتی شہ پر جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنماؤں کے گھوں کا محاصرہ جاری ہے۔ ڈھاکا اور بنگلہ دیش کے بڑے شہر ایک نیا نظر دیکھ رہے ہیں۔ انتظامیہ' عدلیہ اور بنگلہ دیش فوج سب ہاتھ دھو کر 45 سال پرانے گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں۔
میرے والد بہادر آدمی تھے۔ انھوں نے موت کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کال کوٹھڑی میں بڑے وقار سے اسے خوش آمدید کہا۔ صدر بنگلہ دیش کو رحم کی اپیل کرنے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہمام قادر چوہدری اپنے شہید والد صلاح الدین قادر چوہدری کی تدفین کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ صلاح الدین قادر چوہدری کو 1971 میں خانہ جنگی کے دوران مبینہ جرائم پر اتوار کی شب پھانسی دے دی گئی تھی، انھیں الزامات کے تحت جماعت اسلامی کے رہنما اور بنگلہ دیش پارلیمان کے سابق رکن علی احسن مجاہد کو بھی تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
35 سال قبل صلاح الدین قادر چوہدری نے اپنے عظیم والد فضل القادری چوہدری کی ڈھاکا سینٹرل جیل سے آنے والی میت کو وصول کیا تھا جنھیں پاکستان سے محبت کے جرم میں تادم مرگ قید رکھا گیا تھا۔ صلاح الدین قادر چوہدری کی داستان حیات بڑی دلدوز اور جان گداز ہے۔ 23 مارچ 1971 کو ڈھاکا میں فوجی کارروائی شروع ہوتی ہے تو 26 مارچ 1971 کو انھیں کراچی بھجوا دیا جاتا ہے، وہ محمود اے یارون خاندان کے مہمان ہوتے ہیں اور بعدازاں پنجاب یونیورسٹی میں داخلے کے لیے لاہور آ جاتے ہیں جہاں معروف سیاستدان سابق رکن قومی اسمبلی اسحاق خاکوانی کے ہاں قیام کرتے ہیں۔
یہ سب دستاویزی ثبوت پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران باضابطہ تصدیق کراتے، اسحق خاکوانی کے سپرد کرتے ہیں۔ محمود ہارون کی صاحبزادی امبر سہگل بیگم حسینہ واجد سے براہ راست فون پر بات کرتی ہیں، انھیں صلاح الدین قادر چوہدری کی بے گناہی کے بارے میں ذاتی شہادت دیتی ہیں۔ سابق نگران وزیراعظم اور چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو بنگلہ دیش سپریم کورٹ میں پیش ہونا چاہتے ہیں لیکن حسینہ واجد سرکار' محمد میاں سومرو امبر سہگل' اسحق خاکوانی کے بنگلہ دیش داخلے پر پابندی عائد کر دیتی ہے۔
بنگلہ دیش سپریم کورٹ ان تمام دستاویزات کو خود ساختہ اور جعلی قرار دے کر نظرثانی کی درخواست مسترد کر دیتی ہے جس کے بعد صلاح الدین قادر چوہدری کو اتوار کی شب پھانسی دے دی جاتی ہے۔ صلاح الدین قادر چوہدری 7 بار لگا تار بنگلہ دیش پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے تھے۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سرکردہ لیڈر تھے۔
صلاح الدین قادر چوہدری کے ساتھ پھانسی پانے والے جماعت اسلامی کے رہنما اور تحفظ پاکستان کے لیے مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے لڑنے والے البدر کے معروف کمانڈر علی احسن مجاہد بھی بنگلہ دیش پارلیمان کے رکن اور بیگم خالدہ ضیا کی کابینہ میں شامل رہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے طویل خاموشی کے بعد صلاح الدین قادر چوہدری اور علی احسن مجاہد کے عدالتی قتل پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے یاد دلایا ہے کہ 9 اپریل 1971 کے سہ فریقی معاہدے کے تحت جس میں پاکستان' بنگلہ دیش اور بھارت نے دستخط کیے تھے، تلخ ماضی کو دفن کر کے مثبت انداز فکر کے تحت آگے بڑھتے ہوئے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی پر زور دیا گیا تھا۔ حسینہ واجد حکومت نے اس بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے بنگلہ دیش کے معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے جس پر پاکستانی سفیر مقیم ڈھاکا شجاع عالم کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے۔
1971 کے دوران مبینہ جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے حسینہ واجد بیگم جہاں آرا امام کو میدان میں لائی تھیں۔ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں سرگرم کردار ادا کرنے پر ''زندہ شہید'' کا اعزاز پانے والی اس خاتون کا ایک بیٹا شفیع امام عرف رومی مکتی باہنی کا کمانڈر تھا جو لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔ ''71 کے وہ دن'' نامی کتاب کی مصنفہ جہاں آرا امام نے مشرقی پاکستان کے خلاف اپنے خاندان کے جرائم کی تمام تفصیلات بڑی وضاحت سے بیان کی ہیں، اسی خاتون نے مارچ 1992 میں سب سے پہلے مبینہ جنگی جرائم میں ملوث اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف عوامی عدالت (Gono Adalat) لگائی اور مجرموں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔بیگم خالدہ ضیا کی حکومت نے ایسی نام نہاد عدالتیں لگانے اورقانون ہاتھ میں لینے کے خلاف 28 افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے جنھیں بعدازاں جسٹس حبیب الرحمن کی نگران حکومت نے واپس لے لیا تھا۔
1994 کے بعد بیگم خالدہ ضیا کے خلاف وسیع تر سیاسی اتحاد میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو شامل کرنے کے لیے حسینہ واجد نے سیاسی حکمت عملی کے تحت جنگی جرائم نے مقدمات تو پس پشت ڈال کر چپ سادھ لی۔ پارلیمان کی مدت ختم ہونے کے بعد پرامن انتقال اقتدار کے لیے نگران حکومت کی تشکیل کے لیے مخالف کی کمیٹی ضرب میں جماعت اسلامی کے امیر پروفیسرغلام اعظم کو مسودہ تیار کرنے کی اہم ترین ذمے داری سونپی۔ کہتے ہیں کہ غیرجانبدار انتظار اور عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات کے لیے مسودہ قانون پر اتفاق رائے سے عمل درآمد پروفیسر غلام اعظم کی ذہنی صلاحیتوں کا شاہکار ہے اور پھر 2008 کے انتخابات سے پہلے عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے ایک بار پھر پھانسہ پلٹا اور 1971 کے جنگی جرائم میں ملوث تمام افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کو انتخابی منشور کا حصہ بنا دیا۔
لیکن اسے انتخابی شعبدہ بازی سے زیادہ اہمیت نہ دی گئی لیکن حسینہ واجد نے پارلیمانی اکثریت حاصل کر کے ''جنگی جرائم کے عالمی ٹریبونل'' قائم کرنے کا اعلان کر دیا اور اب 44 سال ان چھوٹے سچے مقدمات میں ڈھاکا سینٹرل جیل کو پاکستان کے حامیوں کا مقتل بنا دیا گیا ہے جس پر انسانی حقوق اور قانون پر عملدرآمد سے متعلقہ عالمی ادارے شدید احتجاج کر رہے ہیں لیکن بھارتی حکومت اور پاکستانی سول سوسائٹی کی غالب اکثریت اس پر چپ سادھے ہوئے ہے۔ لیکن بوڑھے سرفروش' سربلند بڑے وقار سے اپنے قدموں پر چلتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو چوم رہے ہیں۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔
میرے والد بہادر آدمی تھے۔ انھوں نے موت کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کال کوٹھڑی میں بڑے وقار سے اسے خوش آمدید کہا۔ صدر بنگلہ دیش کو رحم کی اپیل کرنے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہمام قادر چوہدری اپنے شہید والد صلاح الدین قادر چوہدری کی تدفین کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ صلاح الدین قادر چوہدری کو 1971 میں خانہ جنگی کے دوران مبینہ جرائم پر اتوار کی شب پھانسی دے دی گئی تھی، انھیں الزامات کے تحت جماعت اسلامی کے رہنما اور بنگلہ دیش پارلیمان کے سابق رکن علی احسن مجاہد کو بھی تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
35 سال قبل صلاح الدین قادر چوہدری نے اپنے عظیم والد فضل القادری چوہدری کی ڈھاکا سینٹرل جیل سے آنے والی میت کو وصول کیا تھا جنھیں پاکستان سے محبت کے جرم میں تادم مرگ قید رکھا گیا تھا۔ صلاح الدین قادر چوہدری کی داستان حیات بڑی دلدوز اور جان گداز ہے۔ 23 مارچ 1971 کو ڈھاکا میں فوجی کارروائی شروع ہوتی ہے تو 26 مارچ 1971 کو انھیں کراچی بھجوا دیا جاتا ہے، وہ محمود اے یارون خاندان کے مہمان ہوتے ہیں اور بعدازاں پنجاب یونیورسٹی میں داخلے کے لیے لاہور آ جاتے ہیں جہاں معروف سیاستدان سابق رکن قومی اسمبلی اسحاق خاکوانی کے ہاں قیام کرتے ہیں۔
یہ سب دستاویزی ثبوت پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران باضابطہ تصدیق کراتے، اسحق خاکوانی کے سپرد کرتے ہیں۔ محمود ہارون کی صاحبزادی امبر سہگل بیگم حسینہ واجد سے براہ راست فون پر بات کرتی ہیں، انھیں صلاح الدین قادر چوہدری کی بے گناہی کے بارے میں ذاتی شہادت دیتی ہیں۔ سابق نگران وزیراعظم اور چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو بنگلہ دیش سپریم کورٹ میں پیش ہونا چاہتے ہیں لیکن حسینہ واجد سرکار' محمد میاں سومرو امبر سہگل' اسحق خاکوانی کے بنگلہ دیش داخلے پر پابندی عائد کر دیتی ہے۔
بنگلہ دیش سپریم کورٹ ان تمام دستاویزات کو خود ساختہ اور جعلی قرار دے کر نظرثانی کی درخواست مسترد کر دیتی ہے جس کے بعد صلاح الدین قادر چوہدری کو اتوار کی شب پھانسی دے دی جاتی ہے۔ صلاح الدین قادر چوہدری 7 بار لگا تار بنگلہ دیش پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے تھے۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سرکردہ لیڈر تھے۔
صلاح الدین قادر چوہدری کے ساتھ پھانسی پانے والے جماعت اسلامی کے رہنما اور تحفظ پاکستان کے لیے مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے لڑنے والے البدر کے معروف کمانڈر علی احسن مجاہد بھی بنگلہ دیش پارلیمان کے رکن اور بیگم خالدہ ضیا کی کابینہ میں شامل رہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے طویل خاموشی کے بعد صلاح الدین قادر چوہدری اور علی احسن مجاہد کے عدالتی قتل پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے یاد دلایا ہے کہ 9 اپریل 1971 کے سہ فریقی معاہدے کے تحت جس میں پاکستان' بنگلہ دیش اور بھارت نے دستخط کیے تھے، تلخ ماضی کو دفن کر کے مثبت انداز فکر کے تحت آگے بڑھتے ہوئے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی پر زور دیا گیا تھا۔ حسینہ واجد حکومت نے اس بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے بنگلہ دیش کے معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے جس پر پاکستانی سفیر مقیم ڈھاکا شجاع عالم کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے۔
1971 کے دوران مبینہ جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے حسینہ واجد بیگم جہاں آرا امام کو میدان میں لائی تھیں۔ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں سرگرم کردار ادا کرنے پر ''زندہ شہید'' کا اعزاز پانے والی اس خاتون کا ایک بیٹا شفیع امام عرف رومی مکتی باہنی کا کمانڈر تھا جو لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔ ''71 کے وہ دن'' نامی کتاب کی مصنفہ جہاں آرا امام نے مشرقی پاکستان کے خلاف اپنے خاندان کے جرائم کی تمام تفصیلات بڑی وضاحت سے بیان کی ہیں، اسی خاتون نے مارچ 1992 میں سب سے پہلے مبینہ جنگی جرائم میں ملوث اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف عوامی عدالت (Gono Adalat) لگائی اور مجرموں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔بیگم خالدہ ضیا کی حکومت نے ایسی نام نہاد عدالتیں لگانے اورقانون ہاتھ میں لینے کے خلاف 28 افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے جنھیں بعدازاں جسٹس حبیب الرحمن کی نگران حکومت نے واپس لے لیا تھا۔
1994 کے بعد بیگم خالدہ ضیا کے خلاف وسیع تر سیاسی اتحاد میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو شامل کرنے کے لیے حسینہ واجد نے سیاسی حکمت عملی کے تحت جنگی جرائم نے مقدمات تو پس پشت ڈال کر چپ سادھ لی۔ پارلیمان کی مدت ختم ہونے کے بعد پرامن انتقال اقتدار کے لیے نگران حکومت کی تشکیل کے لیے مخالف کی کمیٹی ضرب میں جماعت اسلامی کے امیر پروفیسرغلام اعظم کو مسودہ تیار کرنے کی اہم ترین ذمے داری سونپی۔ کہتے ہیں کہ غیرجانبدار انتظار اور عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات کے لیے مسودہ قانون پر اتفاق رائے سے عمل درآمد پروفیسر غلام اعظم کی ذہنی صلاحیتوں کا شاہکار ہے اور پھر 2008 کے انتخابات سے پہلے عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے ایک بار پھر پھانسہ پلٹا اور 1971 کے جنگی جرائم میں ملوث تمام افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کو انتخابی منشور کا حصہ بنا دیا۔
لیکن اسے انتخابی شعبدہ بازی سے زیادہ اہمیت نہ دی گئی لیکن حسینہ واجد نے پارلیمانی اکثریت حاصل کر کے ''جنگی جرائم کے عالمی ٹریبونل'' قائم کرنے کا اعلان کر دیا اور اب 44 سال ان چھوٹے سچے مقدمات میں ڈھاکا سینٹرل جیل کو پاکستان کے حامیوں کا مقتل بنا دیا گیا ہے جس پر انسانی حقوق اور قانون پر عملدرآمد سے متعلقہ عالمی ادارے شدید احتجاج کر رہے ہیں لیکن بھارتی حکومت اور پاکستانی سول سوسائٹی کی غالب اکثریت اس پر چپ سادھے ہوئے ہے۔ لیکن بوڑھے سرفروش' سربلند بڑے وقار سے اپنے قدموں پر چلتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو چوم رہے ہیں۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔