ملالہ۔۔۔۔تبدیلی کا استعارہ
ظلم کا، جبر کا نشانہ بننے والی یہ بچی آج پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے
KARACHI:
اُس کے پَر سانس لیتے تھے، اور اُس کے بدن میں زندگی دوڑتی تھی۔
پنچھی گھنے درختوں، پہاڑوں سے پرے، نیلگوں آسمان میں تیرتا تھا۔ اپنی ہی قوت سے آگے بڑھتا ہوا، مسرت سے چہکتا ہوا کہ اُس کا مقصد منزل نہیں، بلکہ سفر تھا کہ وہ لمحۂ موجود میں جیتا تھا۔
اچانک فائر کی کریہہ آواز گونجی، نیلگوں آسمان میں منجمد ہوگئی، اور آسمان سرخ ہوگیا۔ اب زخمی پنچھی گر رہا تھا کہ اُس کے ملائم پَر مزید سانس نہیں لے رہے تھے۔ وہ زندگی نامی پھڑپھڑاہٹ سے محروم ہوگئے تھے۔ وہ نیچے کی طرف گر رہا تھا۔ وحشی قہقہے پہاڑوں میں ناچتے تھے۔ اور درختوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔
آس کے پنچھی پر حملہ وقت کو اداس کر گیا۔ سرسبز وادیوں میں، جہاں کبھی ندی گنگناتی تھی، اب مکمل سناٹا تھا۔ اور برف پوش چوٹیوں پر، جہاں شام ڈھلے عزم کے دیے جھلملاتے تھے، جیون آس بڑھاتے تھے، اب تاریکی تھی۔ پُرفضا ماحول، جو کل تک زندگی کے لیے سازگار تھا، ٹھیک اُس لمحے تیرگی کی لپیٹ میں تھا، کیوں کہ رجائیت پر کاری ضرب لگی تھی، کیوں کہ قنوطیت بڑھ گئی تھی۔
مگر یہ قنوطیت جلد دم توڑ دے گی۔ وادیوں میں بہتی ندی پھر گنگنائے گی۔ پُرفضا ماحول زندگی کی پرورش کرے گا کہ ملالہ یوسف زئی، ایک نہتی لڑکی، جو کم سنی ہی میں عزم و ہمت کی علامت بنی گئی تھی، خود پر ہونے والے جان لیوا حملے کے بعد اب تبدیلی کا استعارہ بن چکی ہے۔
وہ نہتی لڑکی موت کو پچھاڑنے کی جستجو میں ہے۔ فقط اِس لیے کہ اُسے علم سے پیار ہے، وہ درس گاہوں کی اہمیت سے قلم کی قوت سے واقف ہے۔ سو وہ موت سے لڑ رہی ہے، تاکہ زندگی کا دیا روشن رہے، جس کی لو جہالت کی دبیز چادر میں چھید ڈالتی ہے۔
ظلم کا، جبر کا نشانہ بننے والی یہ بچی آج پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ شاید ہی کوئی آنکھ ہو، جس میں اُس کے لیے آنسو نہ ہو۔ شاید ہی کوئی دل ہو، جس سے اُس کے لیے دعا نہ نکلی ہو۔ اور اِن ہی دعائوں کے طفیل، اور زیست کی اُس قوت کے وسیلے، جو آب حیات ہے، وہ روشنی کی جانب پلٹ رہی ہے، تاکہ اپنے خوابوں کا تعاقب جاری رکھے۔ اُن خوابوں کا تعاقب جو مقدس ہیں، جن کا مقصد شکست و ریخت کے شکار اِس معاشرے کو تبدیل کرنا ہے، اُس فکر کو شکست دے کر، جو تعلیم سے خوف زدہ ہے۔
وہ اِس وقت بھی محو سفر ہے۔ اُسی بس میں سوار ہے، جو چند روز قبل اُس کے گھر کی سمت جارہی تھی، مگر اپنی منزل پر پہنچ نہیں سکی۔ اِس وقت بھی اُس کی آنکھوں میں سپنے ہیں، اپنوں سے ملنے کے معصوم سپنے۔ بہ ظاہر وہ تنہا ہے، پر حقیقتاً تنہا نہیں کہ اُس جیسی لاکھوں بچیاں اس کے ساتھ سفر کر رہی ہیں، جو اُس کی ہم نام نہیں، پر وہ سب ملالہ ہیں۔ اُن سب کی آنکھیں، ٹھیک اس کی حسین آنکھوں کے مانند سپنوں سے لبریز ہیں۔ ان میں تبدیلی کی آس دمکتی ہے۔
ملالہ یوسف زئی پر حملے کو پاکستان کے کروڑوں باسیوں نے خود پر حملہ تصور کیا۔ رنگ و نسل کی تقسیم مٹ گئی۔ امیر و غریب، سب کے ہاتھ اُس کی صحت یابی کی دعا کے لیے اٹھ گئے۔ مسجد، مندر، کلیسا، ہر جگہ اُس کا نام یک ساں محبت سے لیا گیا۔ سڑکوں پر، درس گاہوں پر یہ عہد کیا گیا کہ اُس کے سفر کو جاری رکھا جائے گا کہ اُس کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی کہ اسے یاد رکھا جائے۔
اور ایسا ہی ہوگا کہ وہ لمحات شاذ ہی جنم لیتے ہیں، جو ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے انسانوں کو اکٹھا کر دیتے ہیں۔ اور اس افسوس ناک واقعے کے نتیجے میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ بکھرے ہوئے ایک نقطے پر آگئے، یک آواز ہوگئے، ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
کیا ملالہ زندگی کی جانب لوٹ آئے گی؟
بے شک قوم دعا گو ہے، لیکن اب یہ معاملہ کلیدی نہیں، کیوں کہ یہ طے ہے کہ سرخ آسمان جلد زندگی کی قوت سے نیلا ہوجائے گا۔ وہ آس کی پنچھیوں سے بھر جائے گا، جن کے معصوم پَر سانس لیتے ہوں گے، جن کی پرواز چوٹیوں سے بہت بُلند ہوگی، جن کے وجود میں امید کا آب حیات تیرتا ہوگا۔
آس کے پنچھی پرواز جاری رکھیں گے۔
اُس کے پَر سانس لیتے تھے، اور اُس کے بدن میں زندگی دوڑتی تھی۔
پنچھی گھنے درختوں، پہاڑوں سے پرے، نیلگوں آسمان میں تیرتا تھا۔ اپنی ہی قوت سے آگے بڑھتا ہوا، مسرت سے چہکتا ہوا کہ اُس کا مقصد منزل نہیں، بلکہ سفر تھا کہ وہ لمحۂ موجود میں جیتا تھا۔
اچانک فائر کی کریہہ آواز گونجی، نیلگوں آسمان میں منجمد ہوگئی، اور آسمان سرخ ہوگیا۔ اب زخمی پنچھی گر رہا تھا کہ اُس کے ملائم پَر مزید سانس نہیں لے رہے تھے۔ وہ زندگی نامی پھڑپھڑاہٹ سے محروم ہوگئے تھے۔ وہ نیچے کی طرف گر رہا تھا۔ وحشی قہقہے پہاڑوں میں ناچتے تھے۔ اور درختوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔
آس کے پنچھی پر حملہ وقت کو اداس کر گیا۔ سرسبز وادیوں میں، جہاں کبھی ندی گنگناتی تھی، اب مکمل سناٹا تھا۔ اور برف پوش چوٹیوں پر، جہاں شام ڈھلے عزم کے دیے جھلملاتے تھے، جیون آس بڑھاتے تھے، اب تاریکی تھی۔ پُرفضا ماحول، جو کل تک زندگی کے لیے سازگار تھا، ٹھیک اُس لمحے تیرگی کی لپیٹ میں تھا، کیوں کہ رجائیت پر کاری ضرب لگی تھی، کیوں کہ قنوطیت بڑھ گئی تھی۔
مگر یہ قنوطیت جلد دم توڑ دے گی۔ وادیوں میں بہتی ندی پھر گنگنائے گی۔ پُرفضا ماحول زندگی کی پرورش کرے گا کہ ملالہ یوسف زئی، ایک نہتی لڑکی، جو کم سنی ہی میں عزم و ہمت کی علامت بنی گئی تھی، خود پر ہونے والے جان لیوا حملے کے بعد اب تبدیلی کا استعارہ بن چکی ہے۔
وہ نہتی لڑکی موت کو پچھاڑنے کی جستجو میں ہے۔ فقط اِس لیے کہ اُسے علم سے پیار ہے، وہ درس گاہوں کی اہمیت سے قلم کی قوت سے واقف ہے۔ سو وہ موت سے لڑ رہی ہے، تاکہ زندگی کا دیا روشن رہے، جس کی لو جہالت کی دبیز چادر میں چھید ڈالتی ہے۔
ظلم کا، جبر کا نشانہ بننے والی یہ بچی آج پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ شاید ہی کوئی آنکھ ہو، جس میں اُس کے لیے آنسو نہ ہو۔ شاید ہی کوئی دل ہو، جس سے اُس کے لیے دعا نہ نکلی ہو۔ اور اِن ہی دعائوں کے طفیل، اور زیست کی اُس قوت کے وسیلے، جو آب حیات ہے، وہ روشنی کی جانب پلٹ رہی ہے، تاکہ اپنے خوابوں کا تعاقب جاری رکھے۔ اُن خوابوں کا تعاقب جو مقدس ہیں، جن کا مقصد شکست و ریخت کے شکار اِس معاشرے کو تبدیل کرنا ہے، اُس فکر کو شکست دے کر، جو تعلیم سے خوف زدہ ہے۔
وہ اِس وقت بھی محو سفر ہے۔ اُسی بس میں سوار ہے، جو چند روز قبل اُس کے گھر کی سمت جارہی تھی، مگر اپنی منزل پر پہنچ نہیں سکی۔ اِس وقت بھی اُس کی آنکھوں میں سپنے ہیں، اپنوں سے ملنے کے معصوم سپنے۔ بہ ظاہر وہ تنہا ہے، پر حقیقتاً تنہا نہیں کہ اُس جیسی لاکھوں بچیاں اس کے ساتھ سفر کر رہی ہیں، جو اُس کی ہم نام نہیں، پر وہ سب ملالہ ہیں۔ اُن سب کی آنکھیں، ٹھیک اس کی حسین آنکھوں کے مانند سپنوں سے لبریز ہیں۔ ان میں تبدیلی کی آس دمکتی ہے۔
ملالہ یوسف زئی پر حملے کو پاکستان کے کروڑوں باسیوں نے خود پر حملہ تصور کیا۔ رنگ و نسل کی تقسیم مٹ گئی۔ امیر و غریب، سب کے ہاتھ اُس کی صحت یابی کی دعا کے لیے اٹھ گئے۔ مسجد، مندر، کلیسا، ہر جگہ اُس کا نام یک ساں محبت سے لیا گیا۔ سڑکوں پر، درس گاہوں پر یہ عہد کیا گیا کہ اُس کے سفر کو جاری رکھا جائے گا کہ اُس کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی کہ اسے یاد رکھا جائے۔
اور ایسا ہی ہوگا کہ وہ لمحات شاذ ہی جنم لیتے ہیں، جو ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے انسانوں کو اکٹھا کر دیتے ہیں۔ اور اس افسوس ناک واقعے کے نتیجے میں کچھ ایسا ہی ہوا۔ بکھرے ہوئے ایک نقطے پر آگئے، یک آواز ہوگئے، ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
کیا ملالہ زندگی کی جانب لوٹ آئے گی؟
بے شک قوم دعا گو ہے، لیکن اب یہ معاملہ کلیدی نہیں، کیوں کہ یہ طے ہے کہ سرخ آسمان جلد زندگی کی قوت سے نیلا ہوجائے گا۔ وہ آس کی پنچھیوں سے بھر جائے گا، جن کے معصوم پَر سانس لیتے ہوں گے، جن کی پرواز چوٹیوں سے بہت بُلند ہوگی، جن کے وجود میں امید کا آب حیات تیرتا ہوگا۔
آس کے پنچھی پرواز جاری رکھیں گے۔