قدم قدم پر میرا سامنا انہی سے ہے
یقینی طور پر یورپ کو مسلم امہ کی اس تکلیف کا اب ضرور اندازہ ہو گیا ہو گا
جب فرانس پر 'دہشت گردوں' کا حملہ ہوا تو فوری طور پر اس کے نتائج کے حوالے سے ایک ہی خیال ذہن میں آیا کہ اب پاکستان اور خاص کر مسلم مہاجرین اور یورپ میں رہنے والے مسلمانوں پر ایک بار پھر نائن الیون کے 'ردعمل' کی تاریخ دہرائی جائے گی گو کہ ان حملوں میں ایک مسلمان کو بھی بطور 'ہیرو' پیش کرنے کی کوشش کی گئی، جس نے ان حملہ آوروں سے دو خواتین کی جان بچائی تھی لیکن یہ یورپ کے نزدیک کافی نہیں تھا۔ کیا مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو انتہا پسندوں کے حملوں سے بچانے کے لیے مسلمان آگے نہیں بڑھتے کہ یورپ کے نزدیک وہ ہیرو اس لیے نہیں کہلائے جاتے کہ وہ مسلم ہیں۔ بلا شبہ سانحہ پیرس کا درد ہم سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔
یقینی طور پر یورپ کو مسلم امہ کی اس تکلیف کا اب ضرور اندازہ ہو گیا ہو گا کہ جب دہشت گرد بے گناہ انسانوں کو نشانہ بناتے ہیں تو کس قدر تکلیف ہوتی ہے، افغانستان، پاکستان، بھارت، برما، افریقہ، شام، عراق، لبنان، یمن، فلسطین سمیت بے گناہوں پر دہشت گردوں کے حملوں میں قیمتی جانیں جاتی ہیں۔ ہمارے لبرل و سیکولر کلاس حلقے چہرے پر پیرس کے جھنڈے لگا کر اظہار یکجہتی تو کر رہے ہیں لیکن انھوں نے روہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر کبھی آنسو ہی بہائے ہوں، شام، عراق، یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے، لبنان و فلسطین، لیبیا میں امریکا و اسرائیل جو کھیل کھیل رہا ہے، افغانستان میں تین عشروں سے لاکھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والی قیامت کم نہیں ہو رہی۔
پہلے القاعدہ، پھر طالبان کو آشیر باد دینے بعد اب داعش کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والے ترقی یافتہ نام نہاد مہذب ممالک کا چہرہ روس کی قیادت نے جرات مندی سے بے نقاب کر دیا ہے۔ عراق میں رچایا جانے والا کھیل، شام اور یمن سے ہوتا ہوا افغانستان میں داخل ہو چکا ہے اور ہم شتر مرغ کی طرح اپنا سر ریت سے باہر نکال لیں تو ہمیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہے گا کہ داعش نے پاکستان میں اپنے انتظامی قدم رکھ دیے ہیں، چونکہ پاکستان میں تیل کے ذخائر نہیں، پاکستان میں اربوں ڈالر کے خزانے نہیں، بلکہ قرضوں میں ڈوبا ایک ایسا ملک ہے۔
جس کے پاس صرف ایٹمی طاقت ہے لیکن انسان کی شکل میں چلتے پھرتے بم ضرور ہیں، اس لیے داعش کی تمام تر توجہ یہاں افرادی قوت کے حصول پر مرکوز ہے اور کئی ماہ سے اس پر باقاعدہ عمل بھی ہو رہا ہے اور بھاری مراعات پر افغان سرحد پر داعش کے لیے بھرتی کا عمل جاری ہے۔
ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ داعش کے نام پر پنجاب و کراچی میں پمفلٹ بانٹے اور دیواروں پر چسپاں کیے جا چکے ہیں، پشاور کے افغان مہاجرین کے کیمپ میں داعش کے کارندے آزادانہ جاتے رہے ہیں اور وہاں پرچار کر کے بھاری معاوضوں میں افرادی قوت حاصل کرتے ہیں اور بیروزگاری کے شکار نوجوان خودکشی کرنے پر تو ویسے بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک اپنی جان دینے کا یہی بہترین مصرف نظر آتا ہے کہ جان تو ویسے بھی رائیگاں جا رہی ہے جاتے جاتے وہ اپنے اہل خاندان کا 'بھلا' کر جائے تو کیا مضائقہ ہے۔
کیا اسلام نے کبھی کسی بے گناہ کی جان لینے اور لوٹ مارکرنیکا حکم دیا ہے؟ کیا اسلام نے کبھی کسی انسان کی مذہبی آزادی چھیننے کا حکم دیا ہے؟ کیا اسلام نے امن و سلامتی کے بجائے کبھی تشدد کی تعلیم دی ہے؟ کیا کبھی اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق پر غاصب ہونے کی ہدایات دیں ہیں؟ تو سیکولرازم، یا لبرل ازم کا نام لینے کے بجائے اسلام کی آفاقی تعلیمات سے دنیا کو کیوں آگاہ نہیں کیا جاتا کہ اسلام دین نام رکھنے سے اس دہشت گرد کا دین اسلام نہیں ہو جاتا اور پھر ہر دہشت گرد کو مسلمان ہی کیوں سمجھا جاتا ہے، اگر کسی نے کالے کپڑے پر کلمہ لکھ کر کسی کا سر قلم کر دیا ہے تو ایسا تو کوئی اسلام دشمن بھی تو کر سکتا ہے۔
فضل حیات عرف ملا فضل اللہ جو لکڑیوں کی خرید و فروخت اور چیئر لفٹ کی مزدوری سے بڑھتے بڑھتے اپنے سسر کی تحریک نفاذ شریعت نامی تنظیم میں شامل ہو کر طاقت سے اس قدر مغلوب ہو گیا کہ سوات کا گرین چوک خونی چوک بن گیا، جہاں آئے روز سر قلم کیے جاتے، انسانوں کو ذبح کیا جاتا۔ اس کے دو سالہ سفاکانہ اور تاریک دور میں جو کچھ ہوا کیا اس کو اسلامی کہیں گے اگر ہم اس تمام عمل کو داعش کی پیدائش کا نام دیں تو کیا قباحت ہے کہ فرق تو صرف نام کا ہے۔
کہنے کو تو یہ طالبان تھے، لیکن افغانستان میں اسلام کے ان نام لیوا طالبان کو داعش نے مشرقی افغانستان کے صوبے ننگرہار میں ان کے سر کیوں قلم کیے؟ داعش، طالبان سے افغانستان میں کیوں لڑ رہی ہے؟ پاکستان طالبان کے ترجمان داعش میں کیوں شامل ہوئے؟ باخبر ذرایع دعوی کرتے ہیں کہ ملا اختر منصور امیر امارات اسلامیہ ( تحریک طالبان افغانستان ) سے مقابلہ کرنے کے لیے ملا رسول گروپ نے خود کو دولت اسلامیہ (داعش) میں ضم کر لیا ہے کیونکہ ملا رسول گروپ میں زیادہ جنگجو نہیں ہیں۔ اس لیے داعش کے ساتھ مل کر وہ امریکا و نیٹو مخالف طالبان کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
شام میں امریکا اپنا اسلحہ شام مخالف گروہ کو دینا چاہتا ہے لیکن کمال غلطی سے داعش کے پاس پہنچ جاتا ہے، جی20 داعش سے سستے داموں تیل خرید رہے ہیں، اربوں ڈالر کا کاروبار یورپی ممالک کر رہے ہیں، جدید ٹیکنالوجی سمیت اہم ترین تنصیبات پر داعش کا قبضہ صاف اپنے آستینوں میں چھپے سانپوں کا پتہ دیتے ہیں۔
اسلام میں جمعتہ المبارک ایک مقدس دن قرار دیا ہے۔ یوم جمعہ کے دن ایسا کون سا اسلام پرست ہے جو نمازیوں کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکتا، تحقیقات کے مطابق پندرہ سالوں میں دہشت گردی اور بم دھماکوں میں جان بحق ہونے والے افراد کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے جس میں ستر فیصد جمعے کے دن نشانہ بنے۔ داعش نے اپنے مخالفین کے سر قلم کیے ان کے اغوا کا تاوان طلب کیا، یزدیوں، شیعوں سمیت ایسے سنی مسلمانوں پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑے جو ان کے حمایتی نہیں بننا چاہتے تھے۔
داعش کا تما م رخ اسلامی ممالک میں عرب ممالک کو نشانہ بنانا ہے۔ جسمیں مغربی ممالک کے علاوہ عرب ممالک اور کوہ قاف کے جنگجو بھی شامل ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں داعش کا وجود مخفی نہیں ہے لیکن اس کی ترجیحات پاکستان کے تیل کے ذخائر، لوڈشیڈنگ کی بجلی، قرضوں میں ڈوبے بینک اور نااہل سیاست دانوں کی نام نہاد حکومت نہیں ہے بلکہ ایٹمی صلاحیت کا حصول و تباہی ہے جیسے امریکا سمیت پاکستان مخالف بھارت اسرائیل اور یورپ کی دلی خواہش ہے اور بادی النظر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ داعش کے نام پر پاکستان میں کیا کھیل کھیلا جا سکتا ہے، ہمیں اپنی صفوں کی حفاظت کرنی ہے، ایک امید صرف پاکستان کی عسکری قوت ہے جس کے ہاتھوں میں ایٹمی طاقت محفوظ ہے۔
یقینی طور پر یورپ کو مسلم امہ کی اس تکلیف کا اب ضرور اندازہ ہو گیا ہو گا کہ جب دہشت گرد بے گناہ انسانوں کو نشانہ بناتے ہیں تو کس قدر تکلیف ہوتی ہے، افغانستان، پاکستان، بھارت، برما، افریقہ، شام، عراق، لبنان، یمن، فلسطین سمیت بے گناہوں پر دہشت گردوں کے حملوں میں قیمتی جانیں جاتی ہیں۔ ہمارے لبرل و سیکولر کلاس حلقے چہرے پر پیرس کے جھنڈے لگا کر اظہار یکجہتی تو کر رہے ہیں لیکن انھوں نے روہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر کبھی آنسو ہی بہائے ہوں، شام، عراق، یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے، لبنان و فلسطین، لیبیا میں امریکا و اسرائیل جو کھیل کھیل رہا ہے، افغانستان میں تین عشروں سے لاکھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والی قیامت کم نہیں ہو رہی۔
پہلے القاعدہ، پھر طالبان کو آشیر باد دینے بعد اب داعش کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والے ترقی یافتہ نام نہاد مہذب ممالک کا چہرہ روس کی قیادت نے جرات مندی سے بے نقاب کر دیا ہے۔ عراق میں رچایا جانے والا کھیل، شام اور یمن سے ہوتا ہوا افغانستان میں داخل ہو چکا ہے اور ہم شتر مرغ کی طرح اپنا سر ریت سے باہر نکال لیں تو ہمیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہے گا کہ داعش نے پاکستان میں اپنے انتظامی قدم رکھ دیے ہیں، چونکہ پاکستان میں تیل کے ذخائر نہیں، پاکستان میں اربوں ڈالر کے خزانے نہیں، بلکہ قرضوں میں ڈوبا ایک ایسا ملک ہے۔
جس کے پاس صرف ایٹمی طاقت ہے لیکن انسان کی شکل میں چلتے پھرتے بم ضرور ہیں، اس لیے داعش کی تمام تر توجہ یہاں افرادی قوت کے حصول پر مرکوز ہے اور کئی ماہ سے اس پر باقاعدہ عمل بھی ہو رہا ہے اور بھاری مراعات پر افغان سرحد پر داعش کے لیے بھرتی کا عمل جاری ہے۔
ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ داعش کے نام پر پنجاب و کراچی میں پمفلٹ بانٹے اور دیواروں پر چسپاں کیے جا چکے ہیں، پشاور کے افغان مہاجرین کے کیمپ میں داعش کے کارندے آزادانہ جاتے رہے ہیں اور وہاں پرچار کر کے بھاری معاوضوں میں افرادی قوت حاصل کرتے ہیں اور بیروزگاری کے شکار نوجوان خودکشی کرنے پر تو ویسے بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک اپنی جان دینے کا یہی بہترین مصرف نظر آتا ہے کہ جان تو ویسے بھی رائیگاں جا رہی ہے جاتے جاتے وہ اپنے اہل خاندان کا 'بھلا' کر جائے تو کیا مضائقہ ہے۔
کیا اسلام نے کبھی کسی بے گناہ کی جان لینے اور لوٹ مارکرنیکا حکم دیا ہے؟ کیا اسلام نے کبھی کسی انسان کی مذہبی آزادی چھیننے کا حکم دیا ہے؟ کیا اسلام نے امن و سلامتی کے بجائے کبھی تشدد کی تعلیم دی ہے؟ کیا کبھی اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق پر غاصب ہونے کی ہدایات دیں ہیں؟ تو سیکولرازم، یا لبرل ازم کا نام لینے کے بجائے اسلام کی آفاقی تعلیمات سے دنیا کو کیوں آگاہ نہیں کیا جاتا کہ اسلام دین نام رکھنے سے اس دہشت گرد کا دین اسلام نہیں ہو جاتا اور پھر ہر دہشت گرد کو مسلمان ہی کیوں سمجھا جاتا ہے، اگر کسی نے کالے کپڑے پر کلمہ لکھ کر کسی کا سر قلم کر دیا ہے تو ایسا تو کوئی اسلام دشمن بھی تو کر سکتا ہے۔
فضل حیات عرف ملا فضل اللہ جو لکڑیوں کی خرید و فروخت اور چیئر لفٹ کی مزدوری سے بڑھتے بڑھتے اپنے سسر کی تحریک نفاذ شریعت نامی تنظیم میں شامل ہو کر طاقت سے اس قدر مغلوب ہو گیا کہ سوات کا گرین چوک خونی چوک بن گیا، جہاں آئے روز سر قلم کیے جاتے، انسانوں کو ذبح کیا جاتا۔ اس کے دو سالہ سفاکانہ اور تاریک دور میں جو کچھ ہوا کیا اس کو اسلامی کہیں گے اگر ہم اس تمام عمل کو داعش کی پیدائش کا نام دیں تو کیا قباحت ہے کہ فرق تو صرف نام کا ہے۔
کہنے کو تو یہ طالبان تھے، لیکن افغانستان میں اسلام کے ان نام لیوا طالبان کو داعش نے مشرقی افغانستان کے صوبے ننگرہار میں ان کے سر کیوں قلم کیے؟ داعش، طالبان سے افغانستان میں کیوں لڑ رہی ہے؟ پاکستان طالبان کے ترجمان داعش میں کیوں شامل ہوئے؟ باخبر ذرایع دعوی کرتے ہیں کہ ملا اختر منصور امیر امارات اسلامیہ ( تحریک طالبان افغانستان ) سے مقابلہ کرنے کے لیے ملا رسول گروپ نے خود کو دولت اسلامیہ (داعش) میں ضم کر لیا ہے کیونکہ ملا رسول گروپ میں زیادہ جنگجو نہیں ہیں۔ اس لیے داعش کے ساتھ مل کر وہ امریکا و نیٹو مخالف طالبان کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
شام میں امریکا اپنا اسلحہ شام مخالف گروہ کو دینا چاہتا ہے لیکن کمال غلطی سے داعش کے پاس پہنچ جاتا ہے، جی20 داعش سے سستے داموں تیل خرید رہے ہیں، اربوں ڈالر کا کاروبار یورپی ممالک کر رہے ہیں، جدید ٹیکنالوجی سمیت اہم ترین تنصیبات پر داعش کا قبضہ صاف اپنے آستینوں میں چھپے سانپوں کا پتہ دیتے ہیں۔
اسلام میں جمعتہ المبارک ایک مقدس دن قرار دیا ہے۔ یوم جمعہ کے دن ایسا کون سا اسلام پرست ہے جو نمازیوں کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکتا، تحقیقات کے مطابق پندرہ سالوں میں دہشت گردی اور بم دھماکوں میں جان بحق ہونے والے افراد کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے جس میں ستر فیصد جمعے کے دن نشانہ بنے۔ داعش نے اپنے مخالفین کے سر قلم کیے ان کے اغوا کا تاوان طلب کیا، یزدیوں، شیعوں سمیت ایسے سنی مسلمانوں پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑے جو ان کے حمایتی نہیں بننا چاہتے تھے۔
داعش کا تما م رخ اسلامی ممالک میں عرب ممالک کو نشانہ بنانا ہے۔ جسمیں مغربی ممالک کے علاوہ عرب ممالک اور کوہ قاف کے جنگجو بھی شامل ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں داعش کا وجود مخفی نہیں ہے لیکن اس کی ترجیحات پاکستان کے تیل کے ذخائر، لوڈشیڈنگ کی بجلی، قرضوں میں ڈوبے بینک اور نااہل سیاست دانوں کی نام نہاد حکومت نہیں ہے بلکہ ایٹمی صلاحیت کا حصول و تباہی ہے جیسے امریکا سمیت پاکستان مخالف بھارت اسرائیل اور یورپ کی دلی خواہش ہے اور بادی النظر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ داعش کے نام پر پاکستان میں کیا کھیل کھیلا جا سکتا ہے، ہمیں اپنی صفوں کی حفاظت کرنی ہے، ایک امید صرف پاکستان کی عسکری قوت ہے جس کے ہاتھوں میں ایٹمی طاقت محفوظ ہے۔