عالمی طاقتوں کی منافقت کا پردہ چاک
سپر پاورز ایک عجیب دیوانگی میں مبتلا ہیں، روسی جنگی طیارہ کو مار گرانے کا واقعہ جلتی پر تیل کے مترادف ہے،
پیرس سانحہ کے بعد سے عالمی سیاست میں تنائو اور کشیدگی کا گھنائونا چکر چل پڑا ہے جس کے نتیجہ میں مشرق وسطیٰ سمیت مسلم ملکوں کو سرد جنگ کی نئی لپیٹ میں لانے کے خطرات مزید شدت اختیار کرگئے ہیں، گزشتہ روز ترک فضائیہ نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر روس کا جنگی طیارہ مار گرا کر اس اندیشہ پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے ، ترکی اور روس کے درمیان سفارتی جنگ شروع ہو گئی ہے ۔
دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو طلب کر کے احتجاج کیا۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے طیارہ مار گرانے کے عمل کو دہشت گردوں کے مددگاروں کی جانب سے پشت پر کیا جانے والا وار قرار دیتے ہوئے ترکی کو سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔
شام و عراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیم داعش کے خاتمہ اور اسے ہمہ جہتی شکست دینے کے لیے عالمی قوتوں نے عالم اسلام کو اپنی منافقانہ اور وحشیانہ منصوبہ بندی کے ساتھ وار زون میں بدل دیا ہے جس کا بھانڈہ خود صدر پیوتن نے ترکی کے شہر اناطولیہ میں جی 20 کے سربراہی اجلاس میں یہ انکشاف کر کے پھوڑدیا تھا کہ داعش کو10 ترقی یافتہ ملک جو جی 20 کے رکن ہیں مالی امداد کرتے ہیں۔ یہ دوعملی کی انتہا ہے، اور درپردہ تجارت و حمایت کی شرم ناک حکمت عملی ہے۔
امریکی صدر اوباما نے فرانس کے صدر فرانسو اولاند کے ہمراہ پریس کانفرنس کی، امریکی صدر اوباما نے کہا ہے کہ 65 اقوام داعش (آئی ایس آئی ایس) کو تباہ کرنے کے لیے متحد ہوچکی ہیں۔ داعش نے سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ اصل میں روسی مسافر بردار طیارہ جو مصری علاقہ میں مار گرایا گیا اس کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی، دوسری جانب امریکا،فرانس، برطانیہ اور دیگر ممالک داعش سے جنگ لڑ رہے ہیں مگر اندر ہی اندر اس سے تیل خرید کر داعش کو مالی تزویراتی اور حربی طاقت و استحکام عطا کر رہے ہیں۔
روس اور ایران شام کے صدر بشارالاسد کی پشت پناہی پر کمربستہ ہیں، یوں روسی صدر کا ترکی کے خلاف سخت ردعمل کسی بھی لمحہ خطے کو نئی مصیبت میں ڈال سکتا ہے، پوپ فرانسس نے پیداشدہ صورتحال پر کہا تھا کہ دنیا تیسری جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ترکی کے اپنے داخلی حالات بھی قابل رشک نہیں، یمن اور سعودی عرب کا تنازعہ تاحال حل نہیں ہوا، شام مکمل محاصرے میں ہے، وہ اپنی بقا کے سب سے کڑے امتحان سے گزر رہا ہے، عالمی طاقتیں بشارالاسد حکومت کا خاتمہ چاہتی ہیں،ان میں مفادات اور خطے پر بالادستی کی کشمکش اور مسابقت عروج پر ہے، نشانہ مسلمان ملک بن رہے ہیں ، لاکھوں مہاجرین یورپ اور امریکا میں پناہ حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔
سپر پاورز ایک عجیب دیوانگی میں مبتلا ہیں، روسی جنگی طیارہ کو مار گرانے کا واقعہ جلتی پر تیل کے مترادف ہے، میڈیا کی اطلاع کے مطابق روسی جنگی طیارے SU-24کو ترک فضائیہ کے ایف 16طیاروں نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر مار گرایا۔ طیارہ فضا ہی میں تباہ ہو گیا اور اس کا ملبہ شام کے علاقے میں گرا۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ تباہ کیے گئے طیارے کو سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر متعدد بار وارننگ دی گئی تھی تاہم اس نے اسے نظرانداز کر دیا۔
دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ ترکی نے شامی فضائی حدود میں اس کے جنگی طیارے کا نشانہ بنایا ہے اور روسی طیارہ مار گرانا کمر میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ اب ترکی کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ان انتباہات کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی قوتوں سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے معاملات متعلقہ جمہوری اور امن فورمز پر طے کریں اور بلاوجہ چھوٹے ملکوں اورمسلمانوں کو اپنے مفادات اور جنگ زرگری کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ پہلے تو پوتن کے اس سنگین انکشاف پر توجہ دیں کہ داعش کی مالی امداد وہ ملک کررہے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ داعش کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیں گے۔
لیکن اس منافقت پر پردہ ڈال کر امریکا سمیت دیگر ممالک پھر سے پاکستان پر دہشتگردوں کی داخلی و بیرونی فنڈنگ کا مسلسل الزام لگا رہے ہیں، حال ہی میں امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں موجود نامعلوم عناصر دہشت گردوں کی مالی معاونت کے اہم ذرایع ہیں۔ یہ بات امریکی محکمہ خزانہ کی ''assessment 2015 Financing Risk National Terrorist ''کے نام سے جاری رپورٹ میں کہی گئی۔ بعض کالعدم تنظیموں کے نام لے کر زور دیا جارہا ہے کہ پاکستان اس فنڈنگ کا سلسلہ منقطع کرے۔
مگر خود جو بااثر اور ترقی یافتہ ممالک داعش کو شکست دینے کے دعویدار ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتے، ایک امریکی سابق سفیر اور ماہر حرب جان بولٹن نے اپنے مقالہ میں یہ شر انگیز تجویز پیش کی ہے کہ شام وعراق کے دن گنے جا چکے اس لیے ان کے انضمام کا اعلان کرکے ایک نیا سنی ملک بنایا جائے۔ انھوں نے صدراوباما کی شامی حکمت عملی اور فرانس وامریکا کی مشترکہ فضائی جنگ کو فضول قراردیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ عالمی قوتیں عراق و شام کا پیچھا چھوڑیں اور امن عالم کے قیام کے لیے بربادی کے اس کھیل کو ترک کریں جس کا نشانہ عالم اسلام کو بنایا گیا ہے۔
دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو طلب کر کے احتجاج کیا۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے طیارہ مار گرانے کے عمل کو دہشت گردوں کے مددگاروں کی جانب سے پشت پر کیا جانے والا وار قرار دیتے ہوئے ترکی کو سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔
شام و عراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیم داعش کے خاتمہ اور اسے ہمہ جہتی شکست دینے کے لیے عالمی قوتوں نے عالم اسلام کو اپنی منافقانہ اور وحشیانہ منصوبہ بندی کے ساتھ وار زون میں بدل دیا ہے جس کا بھانڈہ خود صدر پیوتن نے ترکی کے شہر اناطولیہ میں جی 20 کے سربراہی اجلاس میں یہ انکشاف کر کے پھوڑدیا تھا کہ داعش کو10 ترقی یافتہ ملک جو جی 20 کے رکن ہیں مالی امداد کرتے ہیں۔ یہ دوعملی کی انتہا ہے، اور درپردہ تجارت و حمایت کی شرم ناک حکمت عملی ہے۔
امریکی صدر اوباما نے فرانس کے صدر فرانسو اولاند کے ہمراہ پریس کانفرنس کی، امریکی صدر اوباما نے کہا ہے کہ 65 اقوام داعش (آئی ایس آئی ایس) کو تباہ کرنے کے لیے متحد ہوچکی ہیں۔ داعش نے سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ اصل میں روسی مسافر بردار طیارہ جو مصری علاقہ میں مار گرایا گیا اس کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی، دوسری جانب امریکا،فرانس، برطانیہ اور دیگر ممالک داعش سے جنگ لڑ رہے ہیں مگر اندر ہی اندر اس سے تیل خرید کر داعش کو مالی تزویراتی اور حربی طاقت و استحکام عطا کر رہے ہیں۔
روس اور ایران شام کے صدر بشارالاسد کی پشت پناہی پر کمربستہ ہیں، یوں روسی صدر کا ترکی کے خلاف سخت ردعمل کسی بھی لمحہ خطے کو نئی مصیبت میں ڈال سکتا ہے، پوپ فرانسس نے پیداشدہ صورتحال پر کہا تھا کہ دنیا تیسری جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ترکی کے اپنے داخلی حالات بھی قابل رشک نہیں، یمن اور سعودی عرب کا تنازعہ تاحال حل نہیں ہوا، شام مکمل محاصرے میں ہے، وہ اپنی بقا کے سب سے کڑے امتحان سے گزر رہا ہے، عالمی طاقتیں بشارالاسد حکومت کا خاتمہ چاہتی ہیں،ان میں مفادات اور خطے پر بالادستی کی کشمکش اور مسابقت عروج پر ہے، نشانہ مسلمان ملک بن رہے ہیں ، لاکھوں مہاجرین یورپ اور امریکا میں پناہ حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔
سپر پاورز ایک عجیب دیوانگی میں مبتلا ہیں، روسی جنگی طیارہ کو مار گرانے کا واقعہ جلتی پر تیل کے مترادف ہے، میڈیا کی اطلاع کے مطابق روسی جنگی طیارے SU-24کو ترک فضائیہ کے ایف 16طیاروں نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر مار گرایا۔ طیارہ فضا ہی میں تباہ ہو گیا اور اس کا ملبہ شام کے علاقے میں گرا۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ تباہ کیے گئے طیارے کو سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر متعدد بار وارننگ دی گئی تھی تاہم اس نے اسے نظرانداز کر دیا۔
دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ ترکی نے شامی فضائی حدود میں اس کے جنگی طیارے کا نشانہ بنایا ہے اور روسی طیارہ مار گرانا کمر میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ اب ترکی کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ ان انتباہات کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی قوتوں سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے معاملات متعلقہ جمہوری اور امن فورمز پر طے کریں اور بلاوجہ چھوٹے ملکوں اورمسلمانوں کو اپنے مفادات اور جنگ زرگری کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ پہلے تو پوتن کے اس سنگین انکشاف پر توجہ دیں کہ داعش کی مالی امداد وہ ملک کررہے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ داعش کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیں گے۔
لیکن اس منافقت پر پردہ ڈال کر امریکا سمیت دیگر ممالک پھر سے پاکستان پر دہشتگردوں کی داخلی و بیرونی فنڈنگ کا مسلسل الزام لگا رہے ہیں، حال ہی میں امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں موجود نامعلوم عناصر دہشت گردوں کی مالی معاونت کے اہم ذرایع ہیں۔ یہ بات امریکی محکمہ خزانہ کی ''assessment 2015 Financing Risk National Terrorist ''کے نام سے جاری رپورٹ میں کہی گئی۔ بعض کالعدم تنظیموں کے نام لے کر زور دیا جارہا ہے کہ پاکستان اس فنڈنگ کا سلسلہ منقطع کرے۔
مگر خود جو بااثر اور ترقی یافتہ ممالک داعش کو شکست دینے کے دعویدار ہیں وہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتے، ایک امریکی سابق سفیر اور ماہر حرب جان بولٹن نے اپنے مقالہ میں یہ شر انگیز تجویز پیش کی ہے کہ شام وعراق کے دن گنے جا چکے اس لیے ان کے انضمام کا اعلان کرکے ایک نیا سنی ملک بنایا جائے۔ انھوں نے صدراوباما کی شامی حکمت عملی اور فرانس وامریکا کی مشترکہ فضائی جنگ کو فضول قراردیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ عالمی قوتیں عراق و شام کا پیچھا چھوڑیں اور امن عالم کے قیام کے لیے بربادی کے اس کھیل کو ترک کریں جس کا نشانہ عالم اسلام کو بنایا گیا ہے۔