دیرپا پالیسیاں بنانے کی ضرورت
آج سیاستدان تو نہیں بدلے مگر انھی کرپٹ سیاستدانوں کے ہاتھوں ملک کو ٹھیک کرنے کی کوشش ہو رہی ہے
آج سیاستدان تو نہیں بدلے مگر انھی کرپٹ سیاستدانوں کے ہاتھوں ملک کو ٹھیک کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ملک میں اب مارشل لاء تو نہیں لگ رہے مگر نہ جانے کیوں2008ء سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ''ہم سب ایک صفحہ'' پر ہیں۔ اس تاثر کی وجہ سے بعض متنازعہ اور مشکل فیصلے بھی قابل قبول ٹھہرے۔اس تاثر پر پہرہ دینا عین قومی مفاد ہے اور یہ سب اداروں کی ذمے داری ہے۔ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ماضی میں سول قیادت کو بدنام کر کے ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں کی گئی بلکہ محض اقتدار کی خاطر اداروں کو متنازعہ بنایا گیا۔
لیکن اس سارے کھیل میں بطور ''پاکستانی شہری'' خود کو دیکھتا ہوں تو اپنے آپ کو لاچار گردانتا ہوں کیوں کہ جس حکومت کو مجھ سمیت کروڑوں عوام نے منتخب کیا تھا وہ تو سارے وسائل اپنے بچاؤ میں استعمال کر رہی ہے، اسے عوام کی کیا پروا؟ وہ پیسہ جو ملک کی بقاء کے لیے استعمال کرنا چاہیے، جو تعلیم پر خرچ کیا جانا چاہیے، جو صحت عامہ پر خرچ کیا جانا چاہیے، جو لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جانا چاہیے اس پیسے کو ہم کسی اور مقصد پر خرچ کر رہے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ اگر حکومتیں ٹھیک چلیں تو نیب، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کو دیے جانے والے اربوں روپے سالانہ بچا کر دیگر شعبوں میں خرچ کیے جا سکتے ہیں جس سے عوام کا بھلا ہو۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ ملک میں کام کرنے والی ایجنسیوں کا بجٹ ہمارے تعلیم و صحت کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے؟ اور یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں بلکہ اس خطے کے کئی ممالک کے ساتھ ہے اسی لیے نوبل ایوارڈ یافتہ کیلاش ستیارتھی کا کہنا ہے ''پوری دنیا میں فوجی سرگرمیوں پر پانچ دنوں میں جتنا خرچ آتا ہے، اتنے میں دنیا کے تمام بچوں کو پورے سال پڑھایا جا سکتا ہے۔''
یہ ماننے کی بات ہے کہ ملکوں کی ترقی میں فوج نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اس کے فیصلوں کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی حوالے سے گزشتہ دنوں مشہور روسی تاریخ دان ایس ایم پلوخی کی شہرہ آفاق کتاب ''یالٹا:امن کی قیمت'' (Yalta: The Price of Peace) میرے ہاتھ لگی تو اس میں فوجی حکومتوں کی مہارتوں کا ذکر بڑی 'شان' سے کیا گیا ہے۔
اس میں دنیا بھر کے فوجی سربراہوں کے فیصلوں کو سپرد قلم کیا گیا ہے اس کتاب میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ 50سال بعد جب سوویت یونین ٹوٹا تو نئی روسی قیادت نے ریاستی اداروں کی پرانی خفیہ دستاویزات جاری کیں تو جاکر پتہ چلا کہ نئی دنیا کی تقسیم کے فیصلے فوجی سربراہوں نے کیے تھے۔ کتاب پڑھتے ہوئے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ریاستیں، ان کا میڈیا اور سیاسی جماعتیں اختلافات کے باوجود منتخب حکومتوں کی بالادستیوں کے تاثر پر ہردم پہرہ دیتے ہیں۔
اس تاثر ہی کی بدولت وہ فیصلے کرنے والوں کو طاقتیں دیتے ہیں۔ اس لیے حکمرانوں کو گھبرانے کی ضرورت اسی وقت محسوس ہوا کرتی ہے جب وہ درست نہ ہوں، اگر حکمران یا سیاست دان ملک کو صحیح سمت میں لے کر چلیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام انھیں سپورٹ کریں گے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ آج سیاست دانوں کا ایک طبقہ ڈرتا ہے کہ فوج کہیں امن و امان کے بعد لوٹ مار، کرپشن اور زمینوں پر قبضوں کے معاملات بھی نہ دیکھنے لگے۔
ایسا ہوا تو اُن کے لیے زمین تنگ ہو جائے گی۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو وہ کل نہیں بلکہ آج سے یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا لیڈر آئے جو ملک میں جاری کرپشن کے نظام کا بھی خاتمہ کرے۔ خاص طور پر جنہوں نے قومی خزانے کو لوٹا ہے، قومی املاک پر قبضے کیے ہیں، اربوں روپے کی ٹیکس چوری کی ہے، اُن کے خلاف بھی کوئی ضرب عضب جیسا آپریشن شروع کیا جائے۔ ان سیاستدانوں کو خیال نہیں آتا کہ وہ اپنی ذاتی تشہیر کے لیے بھی اربوں روپے کے اشتہارات دینے سے گریز نہیں کرتے انھیں یہ بات سمجھ جانی چاہیے کہ اگر درخت پھل دے رہا ہو تو بتایا نہیں جاتا کہ اس پودے پر پھل آیا ہوا ہے۔
وہ سب کو نظر آ جاتا ہے۔ بہرحال! آخری بات یہ کہ اگر آرمی چیف امریکا کے دورے پر جاتے ہیں تو سیاستدانوں کو اس کی تائید کرنا چاہیے تھی۔ ایوب خان نے تاشقند کے لیے رخت سفر باندھا تو قومی رہنماؤںنے ایئر پورٹ پر ان کو الوداع کیا۔ بھٹو نے شملہ کا رخ کیا تو بھی قومی قیادت نے ان کو تائید سے نوازا۔ کیا اس دور کی سیاسی قیادت میںکوئی تعصب نہ تھا، کیا ان سیاستدانوں نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ ان کی تائید سے حکمران اور شیر ہو جائیں گے، ابھی کتنے دن گزرے ہیں کہ وزیر اعظم دو مرتبہ امریکا گئے، کیا کسی نے کوئی بات کی؟
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر فوج اور سیاستدان ایک پیج پر ہوں گے تو اس کا فائدہ پاکستان کو ہی ہوگا اس کی ایک چھوٹی سی مثال فوج اور منتخب پارلیمان نے ''یمن'' جیسے دوررس فیصلے بھی کیے۔ موجودہ حالات میں جس دہشت گردی اور انتہا پسندیوں کے خلاف ہم بحیثیت قوم کمربستہ ہیں کیا کسی تنازعہ کی موجودگی میں اس کو کامیاب کروایا جا سکتا ہے؟ نہیں! پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ دنیا کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا ملک ہے جو آزاد ہوتے ہی ان حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کے ہتھے چڑھ گیا جو حرص و ہوس کے پجاری تھے اور ہم آج تک اس طبقہ کے اعمال و افعال دیکھ رہے ہیں اور ان کی غلامی میں آزاد پاکستانی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عوام بے چاروں کو تو کبھی سکھ نصیب ہوا بھی نہیں۔ ان کے لیے تو ملک کے ہر حصے میں تفکرات ہی لکھے ہوئے ہیں۔
روزانہ حادثے ہو رہے ہیں۔ غریب شخص روزانہ قتل ہو رہے ہیں۔ کون مر رہے ہیں؟ عام لوگ تھانوں، کچہریوں، اسپتالوں، دفتروں میں ذلت و رسوائی ہے۔ کس کے لیے؟ عوام کے لیے مہنگائی کا جن ہے جو قابو میں نہیں آرہا اور مہنگائی کا یہ جن کس کو لتاڑ رہا ہے؟ غریب عوام کو... یوٹیلٹی بلوں میں ماہانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں ایک ایسا تھنک ٹینک بنانے کی ضرورت ہے جو دیرپا پالیسیاں بنائے اور عمل درآمد بھی کرائے، جسے کسی کے آنے جانے سے فرق بھی نہ پڑے۔ اُمید ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم ایسا ہی دیکھیں گے!
لیکن اس سارے کھیل میں بطور ''پاکستانی شہری'' خود کو دیکھتا ہوں تو اپنے آپ کو لاچار گردانتا ہوں کیوں کہ جس حکومت کو مجھ سمیت کروڑوں عوام نے منتخب کیا تھا وہ تو سارے وسائل اپنے بچاؤ میں استعمال کر رہی ہے، اسے عوام کی کیا پروا؟ وہ پیسہ جو ملک کی بقاء کے لیے استعمال کرنا چاہیے، جو تعلیم پر خرچ کیا جانا چاہیے، جو صحت عامہ پر خرچ کیا جانا چاہیے، جو لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جانا چاہیے اس پیسے کو ہم کسی اور مقصد پر خرچ کر رہے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ اگر حکومتیں ٹھیک چلیں تو نیب، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کو دیے جانے والے اربوں روپے سالانہ بچا کر دیگر شعبوں میں خرچ کیے جا سکتے ہیں جس سے عوام کا بھلا ہو۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ ملک میں کام کرنے والی ایجنسیوں کا بجٹ ہمارے تعلیم و صحت کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے؟ اور یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں بلکہ اس خطے کے کئی ممالک کے ساتھ ہے اسی لیے نوبل ایوارڈ یافتہ کیلاش ستیارتھی کا کہنا ہے ''پوری دنیا میں فوجی سرگرمیوں پر پانچ دنوں میں جتنا خرچ آتا ہے، اتنے میں دنیا کے تمام بچوں کو پورے سال پڑھایا جا سکتا ہے۔''
یہ ماننے کی بات ہے کہ ملکوں کی ترقی میں فوج نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اس کے فیصلوں کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی حوالے سے گزشتہ دنوں مشہور روسی تاریخ دان ایس ایم پلوخی کی شہرہ آفاق کتاب ''یالٹا:امن کی قیمت'' (Yalta: The Price of Peace) میرے ہاتھ لگی تو اس میں فوجی حکومتوں کی مہارتوں کا ذکر بڑی 'شان' سے کیا گیا ہے۔
اس میں دنیا بھر کے فوجی سربراہوں کے فیصلوں کو سپرد قلم کیا گیا ہے اس کتاب میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ 50سال بعد جب سوویت یونین ٹوٹا تو نئی روسی قیادت نے ریاستی اداروں کی پرانی خفیہ دستاویزات جاری کیں تو جاکر پتہ چلا کہ نئی دنیا کی تقسیم کے فیصلے فوجی سربراہوں نے کیے تھے۔ کتاب پڑھتے ہوئے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ریاستیں، ان کا میڈیا اور سیاسی جماعتیں اختلافات کے باوجود منتخب حکومتوں کی بالادستیوں کے تاثر پر ہردم پہرہ دیتے ہیں۔
اس تاثر ہی کی بدولت وہ فیصلے کرنے والوں کو طاقتیں دیتے ہیں۔ اس لیے حکمرانوں کو گھبرانے کی ضرورت اسی وقت محسوس ہوا کرتی ہے جب وہ درست نہ ہوں، اگر حکمران یا سیاست دان ملک کو صحیح سمت میں لے کر چلیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام انھیں سپورٹ کریں گے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ آج سیاست دانوں کا ایک طبقہ ڈرتا ہے کہ فوج کہیں امن و امان کے بعد لوٹ مار، کرپشن اور زمینوں پر قبضوں کے معاملات بھی نہ دیکھنے لگے۔
ایسا ہوا تو اُن کے لیے زمین تنگ ہو جائے گی۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو وہ کل نہیں بلکہ آج سے یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا لیڈر آئے جو ملک میں جاری کرپشن کے نظام کا بھی خاتمہ کرے۔ خاص طور پر جنہوں نے قومی خزانے کو لوٹا ہے، قومی املاک پر قبضے کیے ہیں، اربوں روپے کی ٹیکس چوری کی ہے، اُن کے خلاف بھی کوئی ضرب عضب جیسا آپریشن شروع کیا جائے۔ ان سیاستدانوں کو خیال نہیں آتا کہ وہ اپنی ذاتی تشہیر کے لیے بھی اربوں روپے کے اشتہارات دینے سے گریز نہیں کرتے انھیں یہ بات سمجھ جانی چاہیے کہ اگر درخت پھل دے رہا ہو تو بتایا نہیں جاتا کہ اس پودے پر پھل آیا ہوا ہے۔
وہ سب کو نظر آ جاتا ہے۔ بہرحال! آخری بات یہ کہ اگر آرمی چیف امریکا کے دورے پر جاتے ہیں تو سیاستدانوں کو اس کی تائید کرنا چاہیے تھی۔ ایوب خان نے تاشقند کے لیے رخت سفر باندھا تو قومی رہنماؤںنے ایئر پورٹ پر ان کو الوداع کیا۔ بھٹو نے شملہ کا رخ کیا تو بھی قومی قیادت نے ان کو تائید سے نوازا۔ کیا اس دور کی سیاسی قیادت میںکوئی تعصب نہ تھا، کیا ان سیاستدانوں نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ ان کی تائید سے حکمران اور شیر ہو جائیں گے، ابھی کتنے دن گزرے ہیں کہ وزیر اعظم دو مرتبہ امریکا گئے، کیا کسی نے کوئی بات کی؟
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر فوج اور سیاستدان ایک پیج پر ہوں گے تو اس کا فائدہ پاکستان کو ہی ہوگا اس کی ایک چھوٹی سی مثال فوج اور منتخب پارلیمان نے ''یمن'' جیسے دوررس فیصلے بھی کیے۔ موجودہ حالات میں جس دہشت گردی اور انتہا پسندیوں کے خلاف ہم بحیثیت قوم کمربستہ ہیں کیا کسی تنازعہ کی موجودگی میں اس کو کامیاب کروایا جا سکتا ہے؟ نہیں! پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ دنیا کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا ملک ہے جو آزاد ہوتے ہی ان حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کے ہتھے چڑھ گیا جو حرص و ہوس کے پجاری تھے اور ہم آج تک اس طبقہ کے اعمال و افعال دیکھ رہے ہیں اور ان کی غلامی میں آزاد پاکستانی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عوام بے چاروں کو تو کبھی سکھ نصیب ہوا بھی نہیں۔ ان کے لیے تو ملک کے ہر حصے میں تفکرات ہی لکھے ہوئے ہیں۔
روزانہ حادثے ہو رہے ہیں۔ غریب شخص روزانہ قتل ہو رہے ہیں۔ کون مر رہے ہیں؟ عام لوگ تھانوں، کچہریوں، اسپتالوں، دفتروں میں ذلت و رسوائی ہے۔ کس کے لیے؟ عوام کے لیے مہنگائی کا جن ہے جو قابو میں نہیں آرہا اور مہنگائی کا یہ جن کس کو لتاڑ رہا ہے؟ غریب عوام کو... یوٹیلٹی بلوں میں ماہانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں ایک ایسا تھنک ٹینک بنانے کی ضرورت ہے جو دیرپا پالیسیاں بنائے اور عمل درآمد بھی کرائے، جسے کسی کے آنے جانے سے فرق بھی نہ پڑے۔ اُمید ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم ایسا ہی دیکھیں گے!