میٹروبس اور اورنج ٹرین کی مخالفت کیوں

مگر ہم سب نے دیکھا کہ موٹروے بنائی گئی اور اُس کی افادیت کے ہم سب قائل بھی ہوئے۔

mnoorani08@gmail.com

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ میاں صاحب نے وزیرِاعظم کی حیثیت سے جب اپنے پہلے دور ِحکومت میں موٹروے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا تو ہمارے کچھ ایسے ہی سیاسی زعماء اور مفکرین نے اُس کی اپنے تئیں ایسی ہی مخالفت کی تھی جیسے وہ آج کل میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی مخالفت کر رہے ہیں۔

مگر ہم سب نے دیکھا کہ موٹروے بنائی گئی اور اُس کی افادیت کے ہم سب قائل بھی ہوئے۔ پھر جب میاں صاحب نے مئی1998ء میں بھارت کے اچانک ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کی طرف سے بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا اور پانچ کے مقابلے میں سات ایٹمی دھماکے کر دیے گئے تو ایسی ہی سوچ کے حامل اہلِ فکر و دانش نے ایک بار پھر اِسے غیرضروری اور غیر منطقی قرار دیکر مسترد کر دیا تھا، لیکن وقت اور تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ ایک مناسب اور بروقت کیا جانے والا نہایت درست اور مستحسن فیصلہ تھا جس کے ثمرات سے ہم آج بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ہندوستان اپنے تمام تر مذموم ارادوں اور جارحانہ عزائم کے باوجود ہم پر حملہ آور ہونے کی جرأت اور ہمت نہیں کر پا رہا ہے۔ دنیا ہمیں ایک ایٹمی قوت کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔

اِس سے قبل گرچہ ہم ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ضرور تھے لیکن کوئی ہمیں یہ درجہ اور حیثیت دینے پر راضی اور تیار نہ تھا۔1998ء میں گرچہ ہم معاشی طور پر ایک مشکل صورتحال سے گزر رہے تھے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی کچھ اتنے اچھے اور مستحکم نہ تھے کہ بین الاقوامی قدغنوں اور پابندیوں کا دباؤ برداشت کر سکیں۔ عالمی طاقتوں کی جانب سے دھماکے نہ کرنے کی صورت میں مالی اعانت کی بھی پیشکش کی گئی لیکن اُس وقت کے حکمرانوں نے صرف اور صرف قومی مفاد میں یہ زبردست تاریخی فیصلہ کر ڈالا۔ جس کی پاداش میں بعد ازاں گرچہ اُنہیں اپنے اقتدار سے بھی محروم ہونا پڑا مگر اُنہوں نے وہی کچھ کیا جو حالات اور وقت کا تقاضا تھا۔

لاہور سے اسلام آباد موٹر وے کو بنے ہوئے آج تقریباً اٹھارہ بیس برس ہو چکے ہیں۔ بعد میں آنے والوں نے اُسے آگے بڑھنے نہیں دیا اور وہ لاہور سے کراچی کی جانب اپنا سفر مکمل نہیں کر پائی۔ اب جا کے 2015ء میاں صاحب نے ایک بار پھر اُس پر کام شروع کر دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاک چین راہداری پر بھی کام تیزی سے جاری ہے۔

یہ منصوبہ بھی پچھلی حکومتوں کی عدم توجہ کے باعث اب تک عملی شکل اختیار نہیں کر پایا تھا۔ آنکھیں ششدر اور حیران ہیں کہ جنکی نظر اور دانش میں سڑکیں اور موٹروے بنانا ایک فضول اور بیکار مشق ہے نجانے آج اِس اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کیوں چپ اور خاموش ہیں۔ شاید اِس لیے کہ اِس کے پیچھے ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی اُسی طرح پر عزم کھڑی ہے جس طرح موجودہ حکومت ڈٹی ہوئی ہے۔

یہی منصوبہ اگر آج افواجِ پاکستان کی حمایت سے محروم ہو جائے تو ہمیں یقینِ کامل ہے کہ اِس میں بھی مین میخیں نکالنے والے پھر اُسی طرح سرگرم ہو جائیں گے جیسے وہ دیگر ترقیاتی کاموں کے خلاف کمربستہ ہو کر میدان میں اُتر آتے ہیں۔ کچھ لوگ ابھی بھی کسی نہ کسی طریقے سے اِس کے خلاف عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اِس کا روٹ تبدیل کر دیا گیا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ اِس کے فوائد اور ثمرات سے ہمارے صوبے کو محروم رکھا جا رہا ہے۔ مقصد صرف یہی ہے کہ اِس ملک میں کوئی بڑا اور میگا پروجیکٹ شروع ہی نہ کیا جا سکے۔


ایسا کوئی کام سرانجام نہ دیا جائے جس سے ہماری آنے والی نسلیں فیضیاب ہو پائیں۔ جس طرح کالاباغ ڈیم کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر اُسے ہمیشہ کے لیے سبوتاژ کر دیا گیا اُسی طرح ہر بڑے تعمیری اور ترقیاتی منصوبے کو ابتدا ہی میں ناکام بنا دینا ہمارا شعار اور وتیرہ بن چکا ہے۔

میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے مخالف اپنے موقف کے حق میں دلیل یہ دیتے ہیں کہ اِس ملک میں اور بھی مسائل ہیں پہلے اُنہیں حل کر لیا جائے پھر یہ لگژری سہولتیں لائی جائیں۔ عوام الناس کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، اسپتالوں کی حالت درست نہیں ہے، مدرسوں اور اسکولوں میں مناسب سہولتیں موجود نہیں ہیں مگر ایسے لوگوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ 1999ء سے2013ء تک کس کی حکومت تھی۔

اُنہوں نے یہ کام کیوں نہیں کیے، اُنہوں نے اپنے عوام کو اِن بنیادی سہولتوں سے کیوں محروم کیے رکھا، اُنہوں نے کوئی بڑا منصوبہ اور کوئی میگا پروجیکٹ بھی شروع نہیں کیا۔ توانائی اور بجلی پیدا کرنے کا کوئی کارخانہ بھی نہیں لگایا پھر سارا پیسہ کہاں گیا۔ اگر آج کسی کی ترجیحات موٹروے، اقتصادی راہداری اور میٹرو بس ہیں تو شکر کیا جائے کہ کوئی بہتر ترقیاتی کام تو ہو رہا ہے۔ عوام کا پیسہ عوام پر ہی خرچ ہو رہا ہے۔ میٹرو بس میں سفر کرنیوالے ہمارے غریب اور متوسط طبقے ہی کے لوگ ہیں جنھیں اب تک باوقار، آرام دہ اور باعزت سواری میسر نہ تھی۔ وہ صرف بیس روپے میں 27 کلومیٹر کا سفر بغیر کسی تکلیف اور پریشانی کے باآسانی کرتے ہیں اور اِس مد میں گرچہ حکومت کو سالانہ تقریباً ایک ارب روپے کا نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے مگر یہ پیسہ عوام ہی پر تو خرچ ہو رہا ہے۔ کسی کی جیب میں تو نہیں جا رہا۔

اِس سے پہلے عوا م کو نہ یہ سہولتیں دستیاب تھیں، نہ اُنہیں پینے کا صاف پانی، نہ صحت کی اچھی سہولتیں اور نہ اسکولوں میں بہتر انتظام میسر تھا۔ سارا خزانہ کہاں خرچ ہوتا تھا کسی نے اُن سے یہ سوال نہیں کیا۔ کراچی کے لوگ اپنے ایک سابق ناظمِ اعلیٰ مصطفی کمال کو آج بھی اچھے ناموں سے محض اِس لیے یا د کرتے ہیں کہ اُس نے سگنل فری روڈ، فلائی اوورز اور انڈر پاس بنا کر کراچی کی شکل بدل کر رکھدی تھی۔ اب اگر کوئی دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ سڑکیں، عمارتیں، بجلی پیدا کرنے کے پروجیکٹ، راہداریاں، میٹروبس اور اورنج ٹرین سروس شروع کر رہا ہے تو اس پر اعتراض کیسا۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ کون کام کر رہا ہے، کون اُنہیں بہتر سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈھائی برس گزر جانے اور اپوزیشن کی سخت مخالفت کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا عوام میں مقبولیت کا گراف کم نہیں ہو رہا۔ تمام ضمنی الیکشن اور حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج تو یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ عوام موجودہ حکومت کی کارکردگی سے قطعاً مایوس نہیں ہیں۔

اُنہیں معلوم ہے کہ اُن کی حکومت صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ اب اگر جن کے خیال میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبے غیر ضروری ہیں اُنہیں اپنی کارکردگی کے ذریعے اپنے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کر کے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اُن کا نظریہ اور اُن کا خیال درست تھا۔ لوگ اُنہیں جب سارے ملک کا حکمران بنائیں گے تو وہ اپنی ترجیحات اور ایجنڈے کے مطابق اُن کاموں کو سب سے پہلے کریں جنھیں وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ موجودہ حکومت اگر سابقہ حکمرانوں کی طرح کچھ نہ کرتی اور صرف دکھاوے کے طور پر بنیادی سہولتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہوتی اور درپردہ مال سمیٹ رہی ہوتی تو پھر اُس کے ساتھ بھی وہی حشر ہوتا جو 2013ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا۔

ناقدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ سارے کام پانچ سالوں میں کیے جا سکتے ہیں۔ کچھ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ سا تھ آج اگر دیگر ترقیاتی کام بھی ہو رہے ہیں تو اُنہیں ہو جانے دیا جائے۔ آپ کو جب موقعہ ملے آپ اپنی ترجیحات کے مطابق اُنہیں کرتے جایے گا۔ کون عوام کی بھلائی اور بہبود کے کام کرتا ہے اور کون صرف زبانی جمع خرچ کر کے اپنا وقت گزارتا ہے یہ وقت بتائے گا۔ ابھی اگلے الیکشن میں ڈھائی سال کا عرصہ باقی ہے۔ عوام نے ہر بڑی سیاسی پارٹی کو ایک ایک صوبہ عنایت فرمایا ہے جہاں وہ اپنے منشور اور ترجیحات کے مطابق آزادانہ کام کر سکتے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ وہی اصل منصف اور درست فیصلہ کرنے والے ہیں۔ جس کی کارکردگی عوام کی نظروں میں اچھی اور بہتر ین ہو گی، وہی اگلے پانچ سال کے لیے حکمراں قرار پائے گا۔
Load Next Story