گڈگورننس اور ترقی لازم و ملزوم ہیں

ملکی خوشحالی کے لیے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا

ملکی خوشحالی کے لیے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، فوٹو: فائل

چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے ملک بھر میں بڑھتی ہوئی آلودگی سے متعلق سوموٹو کیس کی سماعت میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے وفاق اور چاروں صوبوں کی جانب سے پیش کردہ رپورٹس کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ بیڈ گورننس سے لاتعلق رہ کر عوام کو حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے' کاغذی کارروائی کر کے عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے' عملی اقدامات صفر ہیں' کیا ہمیشہ قرضوں کی بھیک مانگ کر ملک چلائیں گے' بھیک کے پیسوں سے منصوبے بنائیں گے اور پھر انھیں چلانے کے لیے مزید بھیک درکار ہوگی۔

ملکی خوشحالی کے لیے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن جب تک سسٹم میں تبدیلی لا کر گراس روٹ لیول پر عوامی مسائل حل نہ کیے جائیں ملک ترقی کی جانب نہیں بڑھ سکتا۔ حکمران بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے نعرے لگا کر تبدیلی اور عوامی خوشحالی کے دعوے کر رہے ہیں لیکن صورت حال یہ ہے کہ عوام ابھی تک زندگی کے بنیادی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بالکل صائب کہا ہے کہ عوام حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں لیکن بدلے میں انھیں کچھ نہیں ملتا۔ عوام حکومت کو ٹیکس اس امید پر دیتے ہیں کہ ان کے بنیادی مسائل حل کیے جائیں گے لیکن حکمران عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ٹیکس بڑھانے کی نوید سنا رہے ہیں جب تک یہ ٹیکس عوام کی زندگیوں میں تبدیلی نہیں لاتے تب تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ملک میں گڈگورننس موجود ہے۔ دوسری جانب کشکول توڑنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور عالمی مالیاتی اداروں سے بڑے پیمانے پر قرضے لیے جا رہے ہیں' حکمران گڈگورننس کے دعوے کرتے تھکتے نہیں مگر نہ تو پولیس کے نظام میں تبدیلی لائی گئی اور نہ سرکاری اداروں ہی کی کارکردگی بہتر بنائی گئی۔


سرکاری اداروں کا یہ عالم ہے کہ عوام کے جائز کام بھی سالہا سال تک التوا کا شکار رہتے ہیں اور جب تک رشوت نہ دی جائے بات آگے نہیں بڑھتی' کرپشن کا یہ عالم ہے کہ سرکاری خزانے کو بے دردی سے کرپشن کی نذر کیا جا رہا ہے اور ان لوگوں کو کبھی احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا۔ عدالت نے کراچی شہر کی حالت زار پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ہر شاہراہ پر گندگی کے ڈھیر لگے ہیں، جہاں دیکھو کچرے کے ڈھیر جل رہے ہیں اور ملازمین گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرتے ہیں، سرکاری ملازمین کا احتساب کیوں نہیں ہوتا' عوام کے مسائل حل نہیں کیے جا رہے' ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بعض علاقوں میں زمین کا رنگ بدل گیا ہے' 1998 تک کراچی کے لوگ عام سپلائی کا پانی پیتے تھے آج شہر میں لوگ پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔ حکمران چند علاقوں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا کر یہ نعرے لگاتے ہیں کہ انھوں نے شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کر دیا لیکن دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ پینے کا صاف پانی شہریوں کی بہت تھوڑی تعداد تک محدود ہے جب کہ آج بھی شہروں میں ایسے علاقوں کی کمی نہیں جہاں لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں بلکہ بعض پسماندہ علاقوں میں انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔

اسپتالوں میں صحت کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے' زندگی بچانے والی ادویات کا معیار بھی شک و شبہ سے بالاتر نہیں، خوراک میں ملاوٹ عام ہے جس سے بیماریاں روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور سرکاری ادارے ہیں کہ چند ایک کارروائیاں کر کے باقی مسائل سے آنکھیں موند لیتے ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے عوامی منصوبے کاغذوں تک محدود ہیں' آئے دن اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوتی رہتی ہیں کہ بہت سے تعلیمی ادارے انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں' بعض تعلیمی اداروں کی تو عمارتیں ہی نہیں اور طلباء کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں' بعض تعلیمی ادارے تو ایسے بھی سامنے آئے ہیں جہاں ایک بھی طالب علم نہیں اور وہاں جانور بندھے ہوئے ہیں۔ گڈگورننس تو حکمرانوں کے نعروں اور دعوؤں میں دکھائی دیتی ہے جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ بیڈ گورننس کی عملی شکل ہر سرکاری ادارے میں موجود ہے۔

ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ادارے تو موجود ہیں مگر ماحولیاتی آلودگی ہے کہ مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے' میونسپل اداروں کے ملازمین گندگی کے ڈھیر اٹھانے کے بجائے انھیں آگ لگا کر ماحولیاتی آلودگی میں خاطر خواہ اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں سڑکوں پر عام دکھائی دیتی ہیں' فیکٹریوں کے کیمیکل ملے پانی سے نہروں اور دریاؤں کے صاف پانی کو بھی آلودہ کر دیا گیا ہے جس سے انسانوں کے ساتھ ساتھ آبی حیات کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے بالکل درست نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں راوی کے پل پر کھڑے ہو کر دریا کا ایک خوبصورت نظارہ ہوتا تھا لیکن آج وہاں غلاظت ہی ملے گی۔ جب تک بیڈگورننس کو حقیقی معنوں میں گڈگورننس میں تبدیل نہیں کیا جاتا کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ عوام کی زندگی میں انقلاب نہیں لا سکتا۔
Load Next Story