’’کتاب‘‘ دنیا در دنیا ہے

کہتے ہیں کہ علم کا حصول کتاب کے مطالعے کے بغیرناممکن ہے، خواہ اس کا تعلق نصاب سے ہو یا غیر نصابی علوم سے

کہتے ہیں کہ علم کا حصول کتاب کے مطالعے کے بغیرناممکن ہے، خواہ اس کا تعلق نصاب سے ہو یا غیر نصابی علوم سے ۔ زمانہ طالب علمی میں بنیادی طور پر انسان زیادہ تر نصابی علوم سے ہی استفادہ کرتا ہے ۔ نصاب یا تدریسی عمل میں شامل سائنسی مضامین طبیعات ،کیمیاء، علم ریاضی جنھیں ہم طبعی علوم یا علوم عقلیہ کا نام دیتے ہیں ۔ دینی اورمذہبی اعتبار سے علوم اسلامیہ کے تحت پڑھائے جانے والے مضامین میں قرآن و حدیث، فقہ ، تفسیر، صرف ونحوکے ساتھ انسانی طرزِ عمل کے مشاہدے کے مضامین معاشیات، زراعت، سیاسیات، تاریخ، فلسفہ، جغرافیہ اور دیگر مضامین شامل ہیں۔ امتحانی اعتبار سے ریاست کی طرف سے منظورشدہ ٹیکسٹ بک بورڈ، یونیورسٹی سطح پر انھی مضامین میں سے امتحانی پرچہ جات کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔ اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم طب، انجینئرنگ،کمپیوٹر ٹیکنالوجی جیسے فنی مضامین کا تدریسی سلسلہ بھی انھیں نصابی سرگرمیوں سے جڑا ہوا ہے۔

ادب بھی ہماری تعلیم و تربیت کا محور ہے اور ہمارے معاشرے کا قیمتی اور موروثی سرمایہ بھی ۔نثری تحریر،صنفِ سخن، ڈرامہ نگاری، افسانہ نگاری، فلم، دستاویزی فلموں کی عکس بندی اسی اردو ادب کا احاطہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مطالعہ کا دوسرا پہلو غیرنصابی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ان سرگرمیوں میں اخبارات، رسائل،جریدے، رپورٹس کے علاوہ مختلف محققین اورمصنفین کی مختلف عنوانات پر تحریرکردہ کتب کا مطالعہ ہے، جو یقینا انسان کے ذہنی شعوروارتقاء کو جلابخشنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ غرض نصابی و غیرنصابی کتب دونوں سے رشتے کی استواری انسان کو تحقیقی اور تخلیقی عمل تک رسائی کا اہم ذریعہ بنا دیتی ہے۔ جان ملٹن کہتا ہے ''اچھی کتاب انسان کے لیے زندگی کا بہترین سرمایہ ہے'' جب کہ البیرونی اپنے خیالات کا اظہاراس انداز سے کرتا ہے ''خیالات کی جنگ میں کتابیں ہتھیارکا کام دیتی ہیں ''۔ان دونوں مفکرین کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ علم ایک وسیع سمندرکی مانند ہے۔

ایک ذی شعور اور ترقی پسند انسان کی ہمیشہ ہی سے یہ خواہش رہی کہ وہ زیادہ سے زیادہ کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے علم کی دولت سے مالا مال ہوسکے، مگر باوجودکوشش کے انسان علم کی پیاس لیے لحدکی دہلیز تک پہنچ جاتا ہے۔ تاریخ انسانی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں ان ہی قوموں نے ترقی کی تیزی سے منازل و مدارج طے کی ہیں جنہوں نے کتابوں کے مطالعے سے سچا عشق رکھتے ہوئے علم ودانش کی قدروں کو پہچانا ۔عالمی شہرت یافتہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیاں اور لائبریریاں علم دوستی کی لازوال شناخت ہیں۔ تحصیل علم کی شان تو دیکھیے کہ ان تمام یونیورسٹیوں کے ہر شعبے میں شب وروز عملی طور پر تحقیق کا کام جاری ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ علم دوست ہیں ،کتاب سے محبت کرتے ہیں ،شارٹ کٹ سے نفرت کرتے ہیں ، محنت کو اپنا شعارسمجھتے ہیں ۔اسی لیے لن پوتانگ اچھی کتاب کے بار ے میں کچھ اس طرح سے رقمطرازہے''حقیقی اور سچی تحریر وہ ہے جو نہ صرف انسان کو غوروفکر پرمجبور کر ے بلکہ اسے زندگی کے رموز سے آشنا بھی کر ے۔''


جدید سائنسی طریقہ کار اپناتے ہو ئے حیرت اور فکرانگیز ترقی نے جہاں جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب بر پا کیا ہے، وہاں کمپیوٹر ٹیکنالوجی اپنی ابتداء سے مرحلہ وارسفر طے کرنے کے بعد آج ہمارے سامنے گلوبل ولیج کی جگہ گلوبل ہٹ کی شکل میں موجود ہے ۔یعنی مانیٹر سے ایل سی ڈی ،ایل سی ڈی سے لیپ ٹاپ ، لیپ ٹاپ سے ٹیبلٹ اور پھر جدیدیت کا شاہکار موبائل فون (Cell)ہے جو انٹرنیٹ کی جدید سہولت کے ساتھ آپ کے پاس ہے ۔کم سے کم وقت میں کسی بھی کتاب سے متعلق مواد کا جلد حصول سرچ کے آپشن کے ذریعے آپ کے سامنے موجود ہے ۔یہ تمام حقائق اپنی جگہ مگر اس حقیقت اور افادیت وانفرادیت سے کسی طرح انکار ممکن نہیں کہ جو اہمیت کتاب کے متعلق کی عصرقدیم میں تھی عصرحاضر میں بھی وہ اتنی ہی وقعت ومنزلت کے ساتھ قائم ودائم ہے۔

بلاشبہ ہمارے ہاں بھی کتاب ایک مضبوط صنعت کا درجہ حاصل کرچکی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نصابی اور غیر نصابی کتب کے ذخیرے کا بڑا مرکز لاہورکا قدیمی اردو بازار ہے۔اس علمی وادبی شہرکے عین وسط میں مال روڈ پر انارکلی کی کمرشل بلڈنگ اور مشہور و معروف کوچہ ادب''پاک ٹی ہاؤس'' کے مقابل سروس روڈ پر ہر اتوار کو سجنے والا پرانی کتب کا میلہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کتاب کی اہمیت میں کمی نہیں آئی ہے۔ یوں تو کتابوں کی چھوٹی بڑی نمائشوں کے انعقاد کا سلسلہ ملک کے تقریبا ہر شہر میں سالہا سال جاری رہتا ہے۔ عموماً شہر میں قائم کتابوں کے سب سے بڑے مرکز''اردو بازار'' گنجان آبادی اورگمبھیر ٹریفک کے رش کی وجہ سے عام آدمی کا وہاں تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔

اس قسم کی نمائشوں سے علم کے متلاشیوں کے لیے آسان ہو جاتا ہے کہ وہ ایک چھت تلے محفوظ مقام پر اپنی فیملی کے ہمراہ باآسانی اپنی من پسند کتابوں کا انتخاب کرسکیں۔ اس سلسلے میں لائقِ تحسین ہے پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن جو بلاشبہ ملک کا نامور ایسا ادارہ ہے جوگزشتہ گیارہ برس سے ملک میں نمائش کے ذریعے کتاب بینی کو زندہ رکھے ہوئے ہے، جس کا واضع ثبوت کراچی کے مرکز میں قائم ایکسپو سینٹر میں عالمی طرز پرکتب میلہ کا انعقاد ہے ۔ میلہ کیا تھا کتابوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا ، جس میں حقیقتاً علم کا خزانہ چھپا ہوا تھا۔تین کشادہ ہالوں میں ایسوسی ایشن کے نمایندے کیمطابق لگ بھگ 330کتب اسٹالز لگائے گئے تھے، جن میں ٹرکش قونصلیٹ کراچی کی طرف سے ایک ، چین اور بھارت کے ایک سے زائد اسٹالزلگائے گئے تھے۔ 30سے 50فیصد کی رعایتی قیمت پر یہ کتب خریدی جاسکتی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ نے گزشتہ سالوں کی طرح امسال بھی اس کتابی میلہ میں میڈیا پارٹنرکا کردار ادا کیا۔ تینوں ہالوں میں لگائے گئے اسٹالز پر لوگوں کا بے پناہ رش پانچوں دن جاری رہا ۔ ڈرامے نگار، تخلیق کار، مصنفین، دانشوروں، صحافیوں کے علاوہ طلبا اورطالبات کی ایک بڑی تعداد نے اس میلہ میں شرکت فرمائی ۔ مقامی ٹی وی چینلز کی طرف سے میلے کی کوریج کا سلسلہ بھی جاری رہا۔بھرپورکتابی ذخیرہ کے اعتبار سے کراچی کے علاوہ لاہورکے مشہورومعروف اور قدیمی اشاعتی اداروں کے اسٹالز بھی اس میلہ میں نمایاں نظر آئے۔ سب سے زیادہ رش انگریزی ناولوں کے اسٹال پر دیکھنے کو ملا جو غور طلب ہے۔ہمارا پیغام ہے کہ کتابوں کی روشنی سے اپنا دل و دماغ منورکرو،کتابیں چراغ ہدایت ہوا کرتی ہیں ۔ان کی موجودگی میں بھی اگرکوئی تاریکی میں رہے تو وہ اس کا خود ذمے دار ہے۔اسی لیے کسی مفکر ودانش ور نے خوب کہا ہے''کتاب ''دنیا دردنیا ہے۔
Load Next Story