قیدی اور درندے
تاکیدسے بتایاکہ کھانے میں چپس اور کولڈڈرنکس نہیں ہونے چاہیے۔
KARACHI:
الجیریامیری توقع سے بھی بہترملک نکلاہے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ آیاہوں۔دل میں غبارہے کہ پہلے کیوں نہ پہنچ سکا۔ مگرکس کس چیزکابوجھ دل پررکھا جائے۔ یہاں تو حسرتیں ہی حسرتیں ہیں۔خواہشوں کاایک ادنیٰ ساسمندر۔لاہورسے ٹرکش ائیرلائنزکاجہازاستنبول ائیرپورٹ پرتین گھنٹے رکا۔ ائیر پورٹ مناسب حدتک جدید اور بڑا ہے۔ مگرقوم وہی تساہل کا شکار۔صدیوں سے سوئے ہوئے لوگ جنھیں کمال اتاترک نے جگانے کی بھرپورکوشش کی۔لگتاہے مستقبل کے حالات میں اس عظیم رہنما کا خواب کہیں کھوساجائیگا۔شائدمستقل طور پر۔میرے ساتھ مقصودصاحب تھے۔دونوں نے ائیرپورٹ کے ایک ریسٹورنٹ سے کھانالیا۔
تاکیدسے بتایاکہ کھانے میں چپس اور کولڈڈرنکس نہیں ہونے چاہیے۔ مگرکھانامیں ہمیں ہروہ چیزملی جسکامنع کیاتھا۔تیل میں تیرتے ہوئے آلوکے چپس اورٹھنڈی کولڈڈرنکس۔ ویٹرکوگزارش کی توہمیں غور سے دیکھااورخاموشی سے کھانارکھ کرچلاگیا۔استنبول ائیرپورٹ پرپہلی بارمیں بیس برس پہلے آیاتھا۔یہ درست ہے کہ حجم میں بہت بڑاہوگیاہے۔مگرمقامی لوگوں کے رویے بالکل وہی ہیں۔بالکل پہلے جیسے۔ہوسکتاہے کہ ان کوتوانائی کااَن دیکھا ٹیکہ لگ جائے اوروہ بہترہوجائیں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں مکمل طورپرغلط سمجھ رہا ہوں۔ مگران کی ترقی اورمسلسل ترقی کے دعوے کافی حدتک غلط ثابت ہوئے ہیں۔
الجیریاکاائیرپورٹ کافی اچھاہے۔پاکستان کے سفیر قاسم متقی نے سفارت خانہ کاعملہ ائیرپورٹ پربھیج رکھا تھا۔ بغیر کسی دشواری کے ہم لوگ ہوٹل پہنچ گئے۔ ائیرپورٹ سے لے کر اب تک میرے ذہن میں ایک سوالیہ نشان ہے۔جس مشقت سے مقامی پولیس ہمارے سرکاری وفدکی حفاظت کرتی ہے، اس سے ظاہرہوتاہے کہ دہشت گردی کاعفریب کسی نہ کسی شکل میں ان کے لیے اب تک بھیانک خواب ہے۔حدتویہ ہے کہ ہم جب بھی پیدل ہوٹل سے باہرنکلے توتین پولیس والے ہمارے ساتھ ساتھ موجود رہے۔ شائد ہمسایہ ملک مالی میں سیاحوں کویرغمال بنانے کے حادثہ نے یہاں کی حکومت کوبہت زیادہ چوکنارہنے پر مجبور کر رکھا ہے۔پاکستانی سفیر قاسم متقی بھی ایک قلندرانسان ہے۔
اپنی دنیامیں رہنے والادرویش۔لیکن جتنی تیاری قاسم نے پاکستان وفدکی مصروفیات اورمیٹنگوں کے لیے کی تھی،بہت کم دیکھنے میں نظرآتی ہے۔الجزائرکے خارجہ سیکریٹری کے ساتھ ایک بھرپورنشست ہوئی۔بتایاگیاکہ وہ پہلی بارکسی غیرملکی وفدسے اتنی دیرباتیں کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے نام سے اس شخص کی آنکھوں میں ایک چمک سی آجاتی تھی۔اپنائیت اوریگانگت کی روشنی۔وہ تین سال اسلام آبادمیں اپنے ملک کے سفیررہے ہیں۔ بتانے لگے کہ اسلام آبادمیں جتنے لذیذآم کھائے ہیں،کہیں بھی نصیب نہیں ہوئے۔بہت سی باتیں ہوئیں۔اکثرلکھ نہیں سکتا۔وہ شخص پاکستان سے محبت کرنے والاشخص ہے۔ ہماری کسی بھی حکومت نے اس ذہنی قربت کاکوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہم عجیب لوگ ہیں۔دشمنوں کودودھ پلاتے ہیں۔اوردوستوں کو دھکے مارمارکراپنے آپ سے دور کرتے ہیں۔
80 کی دہائی میںالجیریاسے سیکڑوں مقامی لوگ کراچی لائے گئے۔ ان سے ضابطہ کی کارروائی مکمل کروائی گئی۔اس کے بعد،انھیں پشاورکے ذریعے افغانستان بھجوایا گیا۔ کیمپوں میں جہادکی تربیت دی گئی۔اسلحہ مہیا کیا گیا۔ اور پھر روس کے خلاف استعمال کیاگیا۔الجیریاسے ہزاروں نوجوان پاکستان کے مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے آئے۔روس کا جہادختم ہونے کے بعد بچے کھچے لوگ واپس اپنے ملک آگئے۔ بدقسمتی سے جوکچھ ہمارے ملک سے سیکھا،وہ یہاں آزمانے کی کوشش کی۔ مگر حکومت کی سخت حکمتِ عملی کے سامنے وہ کچھ نہ کر پائے۔ الجیریاکی حکومت نے جوکچھ کیا،وہ دس پندرہ سال پہلے ہماری حکومتوں کوبھی کرناچاہیے تھا۔ مگر صاحبان!ہم نے آج تک وقت پرکوئی کام نہیں کیا۔ تاخیرکاخمیازہ آج ستر ہزار جانیں ضایع ہونے کے بعدبھی جنگ کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ کیا کہا جائے۔ دنیا کے ان بدقسمت ملکوں میں سے ہیں جنھیں ہم نے خوداپنے ہاتھ سے بربادکیاہے۔یہ کھیل شائد آج تک جاری ہے۔ صرف اداکارتبدیل ہوئے ہیں۔
شہرکے عین وسط میں شہداکی ایک عظیم نشانی بنی ہوئی ہے۔ یہ تین بڑے بڑے سیمنٹ کے ستون ہیں جودورسے نظر آتے ہیں۔عمارت کے نیچے ایک عظیم الشان میوزیم ہے۔ اس میں الجیریاکی خونی تاریخ لکھی ہوئی محفوظ ہے۔ یہاں شروع میں رومن قابض رہے۔پھرتین صدیوں کے لیے یہ سلطنت عثمانیہ کاحصہ بن گیا۔مگران کی بدقسمتی کااصل دور فرانسیسی حکمرانی سے شروع ہوا۔شائدآپکے علم میں نہ ہوکہ فرانس کے اس خطہ کوکبھی کالونی کادرجہ نہیں دیاگیا۔اسکواپنے ملک کاحصہ سمجھتے تھے۔مگرایک انتہائی حقیرحصہ۔یہاں کے مقامی لوگوں کوجانوروں کی سطح پررکھاگیا۔بچوں اورعورتوں سے کھیتی باڑی کروائی جاتی تھی۔ جانورکی جگہ دویاتین خواتین کوہل کے سامنے باندھ دیا جاتا تھا۔ انکارکی سزاصرف اور صرف موت تھی۔یہی سزاآہستہ کام کرنے کی بھی تھی۔اوریہی سزابوڑھے ہونے کی تھی۔ فرانسیسی لوگ یہاں کے مقامی لوگوں کوکئی کئی دن بھوکارکھتے تھے۔اس ملک کی تمام پیداواراپنے ملک میں بھیج دیتے تھے۔
فرانسیسی مظالم لکھنے کے لیے توایک کتاب چاہیے۔ مقامی نوجوانوں کی فوج میں بھرتی لازمی تھی۔وہ فرنچ سپاہ کے لیے ڈھال کاکام کرتے تھے۔دونوں جنگوں میں لاکھوں الجیرین نوجوان رزق خاک ہوئے۔ دوسرا مقام، وہ عقوبت خانہ ہے جہاں آزادی کے متوالوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔ نوجوانوں کوکرسی پر باندھ کرانھیں بجلی کے جھٹکے دیے جاتے تھے۔ ان کے جسم کو آہستہ آہستہ آگ لگائی جاتی تھی۔اسی طرح مجاہدین کو رسیوں سے باندھ کر باریک تارسے گلا کاٹا جاتا تھا۔کم از کم چھ لاکھ مرداورخواتین قتل کیے گئے۔
شہرسے پچاس کلومیٹردورٹپازہ نام کاایک مقام ہے۔ ہزاروں برس پہلے رومن شہرتھا ۔ موہنجودڑو اور ٹیکسلاکی طرح ایک ہنستابستاشہر۔شائدرومیوں کاقلعہ بھی۔بہت عجیب سی جگہ ہے۔پہنچ کرلگتاہے کہ وقت تھم ساگیاہے۔رومن زبان میں لکھے گئے کتبے اکثرمقامات پرموجودہیں۔صدیوں پرانا بے مکین شہرسمندرکے بالکل ساتھ ہے۔ لگتاتھاکہ ابھی ہزار سال پرانابحری جہازساحل پررکے گا۔وہاں سے سیکڑوں رومی برآمدہونگے اور بے آبادشہرمیں زندگی کی لہرکوواپس لے آینگے۔ ٹپازہ کے عین وسط میں سفیدداڑھی والاایک نایاب قسم کا آرٹسٹ موجودتھا۔عام سے درختوں کو اپنی کاری گری سے آرٹ کے نمونوں میں تبدیل کردیتا ہے۔اس کے بالکل سامنے دو ایسے چھوٹے چھوٹے درخت تھے،جنھیں اس نے میناکاری کے ذریعے ایک تصویرمیں بدل دیاتھا۔کمال فن بھی اورعجیب بھی۔وہ سب کے ساتھ تصویریں کھچواتا تھا۔ مکمل طور پر سفید بالوںکے ساتھ رومی سلطنت کاکوئی گمشدہ سینیٹر نظر آتا ہے جو ابھی بادشاہ کوکوئی مشورہ دیکرلوٹاہے۔ اس کے سامنے ایک ہیٹ رکھا تھا جس میں سیاح پیسے ڈال رہے تھے۔ٹپازہ میں تین جگہوں پرانسان کے قتل کے کھیل کے لیے اسٹیڈیم بنے ہوئے ہیں۔انھیں کلوزیم کہا جاتا ہے۔
سیڑھیوں پرلوگ بیٹھتے تھے۔ان کے سامنے آہنی سلاخیں لگی ہوتیں تھیں۔ لوگ تماشہ دیکھنے آتے تھے۔شراب پیتے تھے اوراپنی آنکھوں کے سامنے قیدیوں کوتلواروں اوربھالوؤں سے لڑتادیکھتے تھے۔اس کھیل میں صرف ایک اصول تھا۔آپ نے اپنے مدمقابل کوقتل کرناہے۔کسی رحم اوررنج کے بغیر۔ اس تفریح کا دوسر احصہ بھی اتناہی ہولناک تھا۔اسٹیڈیم میں چارپانچ جگہ پر سیڑھیوں کے ساتھ بڑے بڑے سوراخ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ جانوروں کے پنجرے نصب کردیے جاتے تھے۔ چند نہتے قیدیوں کومیدان میں کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا۔ سب سے پہلے پنجروں میں سے بھوکے بھیڑیوں کو نکالا جاتا تھا۔نہتے قیدی اپنے بچاؤکے لیے بھاگنے کی کوشش کرتے تھے۔بھیڑیے ان کا پیچھاکرتے تھے۔ایک قیدی کے لیے درجنوں بھیڑیوں سے کام لیاجاتاتھا۔اگرکوئی خوش قسمت قیدی بچ نکلتا تھا تو پھر پنجروں سے بھوکے چیتوں کومیدان میں لایا جاتا تھا۔ اس تماشے سے کوئی بھی قیدی زندہ نہیں بچتا تھا۔بے حال قیدیوں کومرتے دیکھ کراسٹیڈیم میں لوگ تالیاں بچاتے تھے۔ انکو گالیاں دیتے تھے۔ تماشہ ختم ہونے کے بعدسب واپس چلے جاتے تھے۔یہ خوفناک کھیل ہر ہفتہ ہوتاتھا۔
ایسالگ رہاہے کہ پاکستان کے عام لوگ بھی ان قیدیوںکی مانندہیں جوکلوسیم میں موجودہیں۔ان کی آنکھیں خوف اوردردسے پھٹی ہوئی ہیں۔انتظارمیں ہیں کہ سوراخ میں سے کون ساجانورنکلے گااوران کے جسم کو بوٹیوں میں تبدیل کردیگا۔اگرعام آدمی بھیڑیے کے پنجوں سے بچ نکلے گا تو پھر اس پربھوکے چیتے چھوڑدیے جائینگے۔ چیتوں کے پنجوں میں آنے کے بعدان کے منہ سے چیخیں نکلیں گی۔اسٹیڈیم میں آہنی حفاظتی پہرے میں موجود مقتدرطبقہ ان کی حالت زاردیکھ کرقہقہے لگائے گا۔ ہنسے گا۔ ٹپازہ میں یہ چھ سوسال ہوتارہا۔ہمارے ملک میں یہ ساٹھ سال سے مسلسل ہورہاہے۔رومن قیدیوں اور ہمارے عام آدمی میں کوئی فرق نہیں۔رتی برابربھی کوئی فرق نہیں۔ صرف خونخواردرندے بدل گئے ہیں۔
الجیریامیری توقع سے بھی بہترملک نکلاہے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ آیاہوں۔دل میں غبارہے کہ پہلے کیوں نہ پہنچ سکا۔ مگرکس کس چیزکابوجھ دل پررکھا جائے۔ یہاں تو حسرتیں ہی حسرتیں ہیں۔خواہشوں کاایک ادنیٰ ساسمندر۔لاہورسے ٹرکش ائیرلائنزکاجہازاستنبول ائیرپورٹ پرتین گھنٹے رکا۔ ائیر پورٹ مناسب حدتک جدید اور بڑا ہے۔ مگرقوم وہی تساہل کا شکار۔صدیوں سے سوئے ہوئے لوگ جنھیں کمال اتاترک نے جگانے کی بھرپورکوشش کی۔لگتاہے مستقبل کے حالات میں اس عظیم رہنما کا خواب کہیں کھوساجائیگا۔شائدمستقل طور پر۔میرے ساتھ مقصودصاحب تھے۔دونوں نے ائیرپورٹ کے ایک ریسٹورنٹ سے کھانالیا۔
تاکیدسے بتایاکہ کھانے میں چپس اور کولڈڈرنکس نہیں ہونے چاہیے۔ مگرکھانامیں ہمیں ہروہ چیزملی جسکامنع کیاتھا۔تیل میں تیرتے ہوئے آلوکے چپس اورٹھنڈی کولڈڈرنکس۔ ویٹرکوگزارش کی توہمیں غور سے دیکھااورخاموشی سے کھانارکھ کرچلاگیا۔استنبول ائیرپورٹ پرپہلی بارمیں بیس برس پہلے آیاتھا۔یہ درست ہے کہ حجم میں بہت بڑاہوگیاہے۔مگرمقامی لوگوں کے رویے بالکل وہی ہیں۔بالکل پہلے جیسے۔ہوسکتاہے کہ ان کوتوانائی کااَن دیکھا ٹیکہ لگ جائے اوروہ بہترہوجائیں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں مکمل طورپرغلط سمجھ رہا ہوں۔ مگران کی ترقی اورمسلسل ترقی کے دعوے کافی حدتک غلط ثابت ہوئے ہیں۔
الجیریاکاائیرپورٹ کافی اچھاہے۔پاکستان کے سفیر قاسم متقی نے سفارت خانہ کاعملہ ائیرپورٹ پربھیج رکھا تھا۔ بغیر کسی دشواری کے ہم لوگ ہوٹل پہنچ گئے۔ ائیرپورٹ سے لے کر اب تک میرے ذہن میں ایک سوالیہ نشان ہے۔جس مشقت سے مقامی پولیس ہمارے سرکاری وفدکی حفاظت کرتی ہے، اس سے ظاہرہوتاہے کہ دہشت گردی کاعفریب کسی نہ کسی شکل میں ان کے لیے اب تک بھیانک خواب ہے۔حدتویہ ہے کہ ہم جب بھی پیدل ہوٹل سے باہرنکلے توتین پولیس والے ہمارے ساتھ ساتھ موجود رہے۔ شائد ہمسایہ ملک مالی میں سیاحوں کویرغمال بنانے کے حادثہ نے یہاں کی حکومت کوبہت زیادہ چوکنارہنے پر مجبور کر رکھا ہے۔پاکستانی سفیر قاسم متقی بھی ایک قلندرانسان ہے۔
اپنی دنیامیں رہنے والادرویش۔لیکن جتنی تیاری قاسم نے پاکستان وفدکی مصروفیات اورمیٹنگوں کے لیے کی تھی،بہت کم دیکھنے میں نظرآتی ہے۔الجزائرکے خارجہ سیکریٹری کے ساتھ ایک بھرپورنشست ہوئی۔بتایاگیاکہ وہ پہلی بارکسی غیرملکی وفدسے اتنی دیرباتیں کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے نام سے اس شخص کی آنکھوں میں ایک چمک سی آجاتی تھی۔اپنائیت اوریگانگت کی روشنی۔وہ تین سال اسلام آبادمیں اپنے ملک کے سفیررہے ہیں۔ بتانے لگے کہ اسلام آبادمیں جتنے لذیذآم کھائے ہیں،کہیں بھی نصیب نہیں ہوئے۔بہت سی باتیں ہوئیں۔اکثرلکھ نہیں سکتا۔وہ شخص پاکستان سے محبت کرنے والاشخص ہے۔ ہماری کسی بھی حکومت نے اس ذہنی قربت کاکوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہم عجیب لوگ ہیں۔دشمنوں کودودھ پلاتے ہیں۔اوردوستوں کو دھکے مارمارکراپنے آپ سے دور کرتے ہیں۔
80 کی دہائی میںالجیریاسے سیکڑوں مقامی لوگ کراچی لائے گئے۔ ان سے ضابطہ کی کارروائی مکمل کروائی گئی۔اس کے بعد،انھیں پشاورکے ذریعے افغانستان بھجوایا گیا۔ کیمپوں میں جہادکی تربیت دی گئی۔اسلحہ مہیا کیا گیا۔ اور پھر روس کے خلاف استعمال کیاگیا۔الجیریاسے ہزاروں نوجوان پاکستان کے مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے آئے۔روس کا جہادختم ہونے کے بعد بچے کھچے لوگ واپس اپنے ملک آگئے۔ بدقسمتی سے جوکچھ ہمارے ملک سے سیکھا،وہ یہاں آزمانے کی کوشش کی۔ مگر حکومت کی سخت حکمتِ عملی کے سامنے وہ کچھ نہ کر پائے۔ الجیریاکی حکومت نے جوکچھ کیا،وہ دس پندرہ سال پہلے ہماری حکومتوں کوبھی کرناچاہیے تھا۔ مگر صاحبان!ہم نے آج تک وقت پرکوئی کام نہیں کیا۔ تاخیرکاخمیازہ آج ستر ہزار جانیں ضایع ہونے کے بعدبھی جنگ کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ کیا کہا جائے۔ دنیا کے ان بدقسمت ملکوں میں سے ہیں جنھیں ہم نے خوداپنے ہاتھ سے بربادکیاہے۔یہ کھیل شائد آج تک جاری ہے۔ صرف اداکارتبدیل ہوئے ہیں۔
شہرکے عین وسط میں شہداکی ایک عظیم نشانی بنی ہوئی ہے۔ یہ تین بڑے بڑے سیمنٹ کے ستون ہیں جودورسے نظر آتے ہیں۔عمارت کے نیچے ایک عظیم الشان میوزیم ہے۔ اس میں الجیریاکی خونی تاریخ لکھی ہوئی محفوظ ہے۔ یہاں شروع میں رومن قابض رہے۔پھرتین صدیوں کے لیے یہ سلطنت عثمانیہ کاحصہ بن گیا۔مگران کی بدقسمتی کااصل دور فرانسیسی حکمرانی سے شروع ہوا۔شائدآپکے علم میں نہ ہوکہ فرانس کے اس خطہ کوکبھی کالونی کادرجہ نہیں دیاگیا۔اسکواپنے ملک کاحصہ سمجھتے تھے۔مگرایک انتہائی حقیرحصہ۔یہاں کے مقامی لوگوں کوجانوروں کی سطح پررکھاگیا۔بچوں اورعورتوں سے کھیتی باڑی کروائی جاتی تھی۔ جانورکی جگہ دویاتین خواتین کوہل کے سامنے باندھ دیا جاتا تھا۔ انکارکی سزاصرف اور صرف موت تھی۔یہی سزاآہستہ کام کرنے کی بھی تھی۔اوریہی سزابوڑھے ہونے کی تھی۔ فرانسیسی لوگ یہاں کے مقامی لوگوں کوکئی کئی دن بھوکارکھتے تھے۔اس ملک کی تمام پیداواراپنے ملک میں بھیج دیتے تھے۔
فرانسیسی مظالم لکھنے کے لیے توایک کتاب چاہیے۔ مقامی نوجوانوں کی فوج میں بھرتی لازمی تھی۔وہ فرنچ سپاہ کے لیے ڈھال کاکام کرتے تھے۔دونوں جنگوں میں لاکھوں الجیرین نوجوان رزق خاک ہوئے۔ دوسرا مقام، وہ عقوبت خانہ ہے جہاں آزادی کے متوالوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔ نوجوانوں کوکرسی پر باندھ کرانھیں بجلی کے جھٹکے دیے جاتے تھے۔ ان کے جسم کو آہستہ آہستہ آگ لگائی جاتی تھی۔اسی طرح مجاہدین کو رسیوں سے باندھ کر باریک تارسے گلا کاٹا جاتا تھا۔کم از کم چھ لاکھ مرداورخواتین قتل کیے گئے۔
شہرسے پچاس کلومیٹردورٹپازہ نام کاایک مقام ہے۔ ہزاروں برس پہلے رومن شہرتھا ۔ موہنجودڑو اور ٹیکسلاکی طرح ایک ہنستابستاشہر۔شائدرومیوں کاقلعہ بھی۔بہت عجیب سی جگہ ہے۔پہنچ کرلگتاہے کہ وقت تھم ساگیاہے۔رومن زبان میں لکھے گئے کتبے اکثرمقامات پرموجودہیں۔صدیوں پرانا بے مکین شہرسمندرکے بالکل ساتھ ہے۔ لگتاتھاکہ ابھی ہزار سال پرانابحری جہازساحل پررکے گا۔وہاں سے سیکڑوں رومی برآمدہونگے اور بے آبادشہرمیں زندگی کی لہرکوواپس لے آینگے۔ ٹپازہ کے عین وسط میں سفیدداڑھی والاایک نایاب قسم کا آرٹسٹ موجودتھا۔عام سے درختوں کو اپنی کاری گری سے آرٹ کے نمونوں میں تبدیل کردیتا ہے۔اس کے بالکل سامنے دو ایسے چھوٹے چھوٹے درخت تھے،جنھیں اس نے میناکاری کے ذریعے ایک تصویرمیں بدل دیاتھا۔کمال فن بھی اورعجیب بھی۔وہ سب کے ساتھ تصویریں کھچواتا تھا۔ مکمل طور پر سفید بالوںکے ساتھ رومی سلطنت کاکوئی گمشدہ سینیٹر نظر آتا ہے جو ابھی بادشاہ کوکوئی مشورہ دیکرلوٹاہے۔ اس کے سامنے ایک ہیٹ رکھا تھا جس میں سیاح پیسے ڈال رہے تھے۔ٹپازہ میں تین جگہوں پرانسان کے قتل کے کھیل کے لیے اسٹیڈیم بنے ہوئے ہیں۔انھیں کلوزیم کہا جاتا ہے۔
سیڑھیوں پرلوگ بیٹھتے تھے۔ان کے سامنے آہنی سلاخیں لگی ہوتیں تھیں۔ لوگ تماشہ دیکھنے آتے تھے۔شراب پیتے تھے اوراپنی آنکھوں کے سامنے قیدیوں کوتلواروں اوربھالوؤں سے لڑتادیکھتے تھے۔اس کھیل میں صرف ایک اصول تھا۔آپ نے اپنے مدمقابل کوقتل کرناہے۔کسی رحم اوررنج کے بغیر۔ اس تفریح کا دوسر احصہ بھی اتناہی ہولناک تھا۔اسٹیڈیم میں چارپانچ جگہ پر سیڑھیوں کے ساتھ بڑے بڑے سوراخ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ جانوروں کے پنجرے نصب کردیے جاتے تھے۔ چند نہتے قیدیوں کومیدان میں کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا۔ سب سے پہلے پنجروں میں سے بھوکے بھیڑیوں کو نکالا جاتا تھا۔نہتے قیدی اپنے بچاؤکے لیے بھاگنے کی کوشش کرتے تھے۔بھیڑیے ان کا پیچھاکرتے تھے۔ایک قیدی کے لیے درجنوں بھیڑیوں سے کام لیاجاتاتھا۔اگرکوئی خوش قسمت قیدی بچ نکلتا تھا تو پھر پنجروں سے بھوکے چیتوں کومیدان میں لایا جاتا تھا۔ اس تماشے سے کوئی بھی قیدی زندہ نہیں بچتا تھا۔بے حال قیدیوں کومرتے دیکھ کراسٹیڈیم میں لوگ تالیاں بچاتے تھے۔ انکو گالیاں دیتے تھے۔ تماشہ ختم ہونے کے بعدسب واپس چلے جاتے تھے۔یہ خوفناک کھیل ہر ہفتہ ہوتاتھا۔
ایسالگ رہاہے کہ پاکستان کے عام لوگ بھی ان قیدیوںکی مانندہیں جوکلوسیم میں موجودہیں۔ان کی آنکھیں خوف اوردردسے پھٹی ہوئی ہیں۔انتظارمیں ہیں کہ سوراخ میں سے کون ساجانورنکلے گااوران کے جسم کو بوٹیوں میں تبدیل کردیگا۔اگرعام آدمی بھیڑیے کے پنجوں سے بچ نکلے گا تو پھر اس پربھوکے چیتے چھوڑدیے جائینگے۔ چیتوں کے پنجوں میں آنے کے بعدان کے منہ سے چیخیں نکلیں گی۔اسٹیڈیم میں آہنی حفاظتی پہرے میں موجود مقتدرطبقہ ان کی حالت زاردیکھ کرقہقہے لگائے گا۔ ہنسے گا۔ ٹپازہ میں یہ چھ سوسال ہوتارہا۔ہمارے ملک میں یہ ساٹھ سال سے مسلسل ہورہاہے۔رومن قیدیوں اور ہمارے عام آدمی میں کوئی فرق نہیں۔رتی برابربھی کوئی فرق نہیں۔ صرف خونخواردرندے بدل گئے ہیں۔