کرپشن اور فریب کاری کا گٹھ جوڑ
افغانستان (اور عراق) کی مخلوط حکومتوں کو اَن گنت بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے
KARACHI:
افغانستان (اور عراق) کی مخلوط حکومتوں کو اَن گنت بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے لیکن ان میں سب سے بڑا اور خطرناک مسئلہ ''فریب کاری'' (infidelity) کا ہے کیونکہ جن فوجیوں اور پولیس کے سپاہیوں کو امریکا اور نیٹو فورسز نے تربیت دی ہے وہ اکثر و بیشتر اپنی بندوقوں کا رخ اپنے انسٹرکٹروں اور ساتھی سپاہیوں کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ اور بسا اوقات تو یہ محض پلک جھپکنے کا فیصلہ ہوتا ہے جس کا پہلے سے کوئی شائبہ یا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ عسکریت پسند عناصر جان بوجھ کر فوج یا پولیس میں دراندازی کر لیتے ہیں لیکن یہ کام متعلقہ افراد کو ساتھ ملائے بغیر نہیں ہو سکتا۔ افغانستان میں کرپشن معاشرے کی ہر سطح تک راہ پا چکی ہے۔ نچلے درجے کے تمام سرکاری افسر کرپشن میں ملوث ہیں بالخصوص وہ جن سے کنٹریکٹ حاصل کرنے والی ایجنسیاں اپنا سامان منگواتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے معاشرے میں کرپشن کو رواج کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ نچلے درجہ کے افسر پاسپورٹ' ویزہ یا ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ بنانے کے لیے رشوت لتے ہیں۔ دوسری طرف اعلیٰ سطح پر کرپشن کے نیٹ ورکس کی سرپرستی کی جاتی ہے جس سے کرپشن بڑی تیزی سے پھیلتی ہے۔ اس سے مجرمانہ نیٹ ورک کو بڑھاوا ملتا ہے اور فنڈز کا بے دریغ ضیاع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ملک کی سیکیورٹی متزلزل ہو جاتی ہے۔ جو چیز حقیقی معنوں میں بے حد خطرناک ہے وہ کرپشن کا سیکیورٹی کے حصار میں راہ پا جانا ہے۔ بااثر افراد تک رسائی کے لیے رشوت کا استعمال تیسری دنیا کے ممالک میں عام ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ کوئی ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے بھی رشوت دی جاتی ہے بلکہ اس مقصد کے لیے شراب اور عورتوں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے بالخصوص ان جگہوں پر جہاں ایسی چیزوں پر سخت پابندیاں عائد ہوتی مگر اس طریقے سے کام نکالنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ اشیاء کو حاصل کرنے والے شعبوں کے افسر مختلف ایجنسیوں سے مقابلے میں جعلی اعداد و شمار دے کر کنٹریکٹ حاصل کر لیتے ہیں اور وہ بین الاقوامی کمپنیاں اور ایجنسیاں جو رشوت نہیں دیتیں انھیں کنٹریکٹ نہیں مل پاتا۔
ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی گلوبل ایجنڈا کونسل (جی اے سی) نے ''شفافیت اور انسداد بدعنوانی'' کے حوالے سے تجویز کیا ہے کہ تمام بین الاقوامی پروکیورمنٹ ایجنسیوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو طے شدہ رہنما اصولوں کے مطابق کام کرنا چاہیے اور داخلی طور پر معاملات پر مضبوط کنٹرول رکھنا چاہیے نیز اخلاقیات سے بھی صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک نے بھی رہنما اصول مرتب کیے ہوئے ہیں جن کی ترتیب کا سہرا پینل کی رکن نکولا بنوشی کے سر ہے۔ انھوں نے کرپشن کے حوالے سے ایک واضح پالیسی تشکیل دی ہے جس میں پارٹنرز' ملازمین اور ذیلی کنٹریکٹرز کے حصول کے اصول بھی متعین کیے گئے ہیں۔ تمام اسٹاف کو انسداد بدعنوانی کی پالیسیوں کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ بین الاقوامی ایجنسیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ کرپشن کے بارے میں فی الفور اطلاع دیں تا کہ صورت حال پر ابتدا میں ہی قابو پایا جا سکے۔ ایک انٹرنل افیئرز ڈیپارٹمنٹ کو کرپشن کے خطرے کا مکمل تجزیہ کر کے اس کی بیخ کنی کرنی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ کہاں پر کرپشن کا امکان پیدا ہو سکتا ہے لہذا اس کا وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی سدباب کر دیا جائے۔
جو بات بہت خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ بعض بین الاقوامی ایجنسیاں غیر رسمی طور پر تسلیم کرتی ہیں کہ کرپشن کا عنصر ضرور موجود ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اپنے افسروں کو اس خطرے کے سامنے بغیر کسی تحفظ کے پیش کر دیتی ہیں اور انھیں مکمل صورت حال سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ ترقی پذیر ملکوں کی کمپنیاں جو مساویانہ طور پر دوسروں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں وہ پروکیورمنٹ ایجنسیوں کے افسروں کی انسانی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ سنٹیرا (Centerra) کے مارک کروتھرز (Mark Carruthers) نے بہت تحقیق کے بعد جو مقالہ لکھا ہے اس میں تلقین کی گئی ہے کہ کرپشن کو برداشت کرنے کے پیمانے (Parameters) متعین کرنے چاہئیں کہ کسی خاص موقع پر کیا طریقہ اختیار کیا جائے اور کونسا لیور (lever) استعمال کیا جائے تا کہ کرپشن کا اثر کم ہو سکے اور کون سا ایسا طریقہ کار استعمال کیا جائے جس سے کرپشن پر قابو پایا جا سکے۔
اس سلسلے میں اس نے داخلی طور پر جو اقدامات متعین کیے ہیں ان میں -1 اس بات کی صاف صاف وضاحت کی جائے کہ کس حد تک کرپشن کو برداشت کیا جائے گا۔ (اصولاً تو زیرو ٹالرینس (Zero Tolerance) ہونی چاہیے -2 ان افراد کی واضح طور پر نشاندہی کی جائے جن کو کرپشن کی نگرانی کے لیے متعین کیا گیا ہو -3 پورے اسٹاف کو کرپشن کے امکانات اور انسداد کرپشن کے طریق کار کی مشق کرائی جائے جو کہ میزبان ملک کے بیوروکریٹ اور سیکیورٹی فورسز ہر سطح پر متعین کرتی ہیں -4 مواصلات کے نظام کو ابتداء میں ہی نافذ کیا جائے تا کہ کرپشن کے کسی بھی واقعے کی بین الاقوامی ایجنسیوں کو فوری طور پر اطلاع دی جا سکے۔ کرپشن کو موثر طور پر روکنے کے لیے شفاف رپورٹنگ سسٹم کا ہونا لازمی ہے۔یہ ایک ایسا راز ہے جس کو جان بوجھ کر چھپا کے رکھا جاتا ہے حالانکہ اسے سب جانتے ہیں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر بہت سی کمپنیوں کے افسر کرپشن کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے میزبان ملک میں ایسا ہی رواج ہوتا ہے بصورت دیگر وہ اپنا کاروبار جاری نہیں رکھ سکتے۔ایک غیر ملکی حکومت کے افسروں اور اس کی پراپرٹی کی حفاظت کے لیے متعین کیے جانے والے سیکیورٹی گارڈز کی دیانت داری اور یک جہتی کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جانی چاہیے جو سیکیورٹی گارڈز کے تربیتی پروگرام کا بھی اہتمام کرے۔
اس بات پر ہونے والی حیرت کا اندازہ لگائیے کہ سیکیورٹی فراہم کرنے والی جس کمپنی کو کنٹریکٹ دیا گیا اس کے پاس نہ صرف یہ کہ تربیتی اسکول نہیں تھا بلکہ اس کے پاس تربیتی پروگرام کا سلیبس بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ کھلی کرپشن کی وجہ سے ہوا۔ ورلڈ اکنامک فورم کا حالیہ اجلاس ''شفافیت اور انسداد بدعنوانی'' کے موضوع پر ابوظہبی میں ہوا جس میں یہ محسوس کیا گیا کہ بین الاقوامی ایجنسیاں اور پرائیویٹ کمپنیاں دونوں کو افغانستان اور عراق وغیرہ جیسے ممالک میں کام کرنا بے حد مشکل لگ رہا ہے کیونکہ وہاں کرپشن کے بغیر کسی کام کو کرنا ممکن ہی نہیں رہ گیا۔ انٹرنیشنل ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام کے لیے اس بات کی یقین دہانی ممکن ہی نہیں کہ ان کا پروکیورمنٹ اسٹاف کسی کرپشن پریکٹس میں ملوث نہیں حالانکہ اس سے ان کے سیکیورٹی حکام کے لیے شدید خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ انھی وجوہات پر ان کا پورا مشن ناکامی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ جن علاقوں میں تنازعات پیدا ہو چکے ہوں وہاں مغربی ممالک سے تربیت دینے اور اعانت کرنے کی خاطر آنے والے افسران کو شروع ہی میں اس بارے میں واضح بریفنگ دی جانی چاہیے کہ امکانی طور پر '' فریب کاری کے خطرے'' والی صورت حال سے کس طرح نمٹنا چاہیے۔ غیر ملکی حکومتوں اور بین الاقوامی ایجنسیوں کے لیے شورش زدہ علاقوں میں کام کرنا بے حد مشکل ہے تاہم ان مشکلات پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔
افغانستان (اور عراق) کی مخلوط حکومتوں کو اَن گنت بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے لیکن ان میں سب سے بڑا اور خطرناک مسئلہ ''فریب کاری'' (infidelity) کا ہے کیونکہ جن فوجیوں اور پولیس کے سپاہیوں کو امریکا اور نیٹو فورسز نے تربیت دی ہے وہ اکثر و بیشتر اپنی بندوقوں کا رخ اپنے انسٹرکٹروں اور ساتھی سپاہیوں کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ اور بسا اوقات تو یہ محض پلک جھپکنے کا فیصلہ ہوتا ہے جس کا پہلے سے کوئی شائبہ یا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ عسکریت پسند عناصر جان بوجھ کر فوج یا پولیس میں دراندازی کر لیتے ہیں لیکن یہ کام متعلقہ افراد کو ساتھ ملائے بغیر نہیں ہو سکتا۔ افغانستان میں کرپشن معاشرے کی ہر سطح تک راہ پا چکی ہے۔ نچلے درجے کے تمام سرکاری افسر کرپشن میں ملوث ہیں بالخصوص وہ جن سے کنٹریکٹ حاصل کرنے والی ایجنسیاں اپنا سامان منگواتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے معاشرے میں کرپشن کو رواج کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ نچلے درجہ کے افسر پاسپورٹ' ویزہ یا ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ بنانے کے لیے رشوت لتے ہیں۔ دوسری طرف اعلیٰ سطح پر کرپشن کے نیٹ ورکس کی سرپرستی کی جاتی ہے جس سے کرپشن بڑی تیزی سے پھیلتی ہے۔ اس سے مجرمانہ نیٹ ورک کو بڑھاوا ملتا ہے اور فنڈز کا بے دریغ ضیاع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ملک کی سیکیورٹی متزلزل ہو جاتی ہے۔ جو چیز حقیقی معنوں میں بے حد خطرناک ہے وہ کرپشن کا سیکیورٹی کے حصار میں راہ پا جانا ہے۔ بااثر افراد تک رسائی کے لیے رشوت کا استعمال تیسری دنیا کے ممالک میں عام ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ کوئی ٹھیکہ حاصل کرنے کے لیے بھی رشوت دی جاتی ہے بلکہ اس مقصد کے لیے شراب اور عورتوں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے بالخصوص ان جگہوں پر جہاں ایسی چیزوں پر سخت پابندیاں عائد ہوتی مگر اس طریقے سے کام نکالنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ اشیاء کو حاصل کرنے والے شعبوں کے افسر مختلف ایجنسیوں سے مقابلے میں جعلی اعداد و شمار دے کر کنٹریکٹ حاصل کر لیتے ہیں اور وہ بین الاقوامی کمپنیاں اور ایجنسیاں جو رشوت نہیں دیتیں انھیں کنٹریکٹ نہیں مل پاتا۔
ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی گلوبل ایجنڈا کونسل (جی اے سی) نے ''شفافیت اور انسداد بدعنوانی'' کے حوالے سے تجویز کیا ہے کہ تمام بین الاقوامی پروکیورمنٹ ایجنسیوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو طے شدہ رہنما اصولوں کے مطابق کام کرنا چاہیے اور داخلی طور پر معاملات پر مضبوط کنٹرول رکھنا چاہیے نیز اخلاقیات سے بھی صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک نے بھی رہنما اصول مرتب کیے ہوئے ہیں جن کی ترتیب کا سہرا پینل کی رکن نکولا بنوشی کے سر ہے۔ انھوں نے کرپشن کے حوالے سے ایک واضح پالیسی تشکیل دی ہے جس میں پارٹنرز' ملازمین اور ذیلی کنٹریکٹرز کے حصول کے اصول بھی متعین کیے گئے ہیں۔ تمام اسٹاف کو انسداد بدعنوانی کی پالیسیوں کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ بین الاقوامی ایجنسیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ کرپشن کے بارے میں فی الفور اطلاع دیں تا کہ صورت حال پر ابتدا میں ہی قابو پایا جا سکے۔ ایک انٹرنل افیئرز ڈیپارٹمنٹ کو کرپشن کے خطرے کا مکمل تجزیہ کر کے اس کی بیخ کنی کرنی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ کہاں پر کرپشن کا امکان پیدا ہو سکتا ہے لہذا اس کا وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی سدباب کر دیا جائے۔
جو بات بہت خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ بعض بین الاقوامی ایجنسیاں غیر رسمی طور پر تسلیم کرتی ہیں کہ کرپشن کا عنصر ضرور موجود ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اپنے افسروں کو اس خطرے کے سامنے بغیر کسی تحفظ کے پیش کر دیتی ہیں اور انھیں مکمل صورت حال سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ ترقی پذیر ملکوں کی کمپنیاں جو مساویانہ طور پر دوسروں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں وہ پروکیورمنٹ ایجنسیوں کے افسروں کی انسانی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ سنٹیرا (Centerra) کے مارک کروتھرز (Mark Carruthers) نے بہت تحقیق کے بعد جو مقالہ لکھا ہے اس میں تلقین کی گئی ہے کہ کرپشن کو برداشت کرنے کے پیمانے (Parameters) متعین کرنے چاہئیں کہ کسی خاص موقع پر کیا طریقہ اختیار کیا جائے اور کونسا لیور (lever) استعمال کیا جائے تا کہ کرپشن کا اثر کم ہو سکے اور کون سا ایسا طریقہ کار استعمال کیا جائے جس سے کرپشن پر قابو پایا جا سکے۔
اس سلسلے میں اس نے داخلی طور پر جو اقدامات متعین کیے ہیں ان میں -1 اس بات کی صاف صاف وضاحت کی جائے کہ کس حد تک کرپشن کو برداشت کیا جائے گا۔ (اصولاً تو زیرو ٹالرینس (Zero Tolerance) ہونی چاہیے -2 ان افراد کی واضح طور پر نشاندہی کی جائے جن کو کرپشن کی نگرانی کے لیے متعین کیا گیا ہو -3 پورے اسٹاف کو کرپشن کے امکانات اور انسداد کرپشن کے طریق کار کی مشق کرائی جائے جو کہ میزبان ملک کے بیوروکریٹ اور سیکیورٹی فورسز ہر سطح پر متعین کرتی ہیں -4 مواصلات کے نظام کو ابتداء میں ہی نافذ کیا جائے تا کہ کرپشن کے کسی بھی واقعے کی بین الاقوامی ایجنسیوں کو فوری طور پر اطلاع دی جا سکے۔ کرپشن کو موثر طور پر روکنے کے لیے شفاف رپورٹنگ سسٹم کا ہونا لازمی ہے۔یہ ایک ایسا راز ہے جس کو جان بوجھ کر چھپا کے رکھا جاتا ہے حالانکہ اسے سب جانتے ہیں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر بہت سی کمپنیوں کے افسر کرپشن کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے میزبان ملک میں ایسا ہی رواج ہوتا ہے بصورت دیگر وہ اپنا کاروبار جاری نہیں رکھ سکتے۔ایک غیر ملکی حکومت کے افسروں اور اس کی پراپرٹی کی حفاظت کے لیے متعین کیے جانے والے سیکیورٹی گارڈز کی دیانت داری اور یک جہتی کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جانی چاہیے جو سیکیورٹی گارڈز کے تربیتی پروگرام کا بھی اہتمام کرے۔
اس بات پر ہونے والی حیرت کا اندازہ لگائیے کہ سیکیورٹی فراہم کرنے والی جس کمپنی کو کنٹریکٹ دیا گیا اس کے پاس نہ صرف یہ کہ تربیتی اسکول نہیں تھا بلکہ اس کے پاس تربیتی پروگرام کا سلیبس بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ کھلی کرپشن کی وجہ سے ہوا۔ ورلڈ اکنامک فورم کا حالیہ اجلاس ''شفافیت اور انسداد بدعنوانی'' کے موضوع پر ابوظہبی میں ہوا جس میں یہ محسوس کیا گیا کہ بین الاقوامی ایجنسیاں اور پرائیویٹ کمپنیاں دونوں کو افغانستان اور عراق وغیرہ جیسے ممالک میں کام کرنا بے حد مشکل لگ رہا ہے کیونکہ وہاں کرپشن کے بغیر کسی کام کو کرنا ممکن ہی نہیں رہ گیا۔ انٹرنیشنل ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام کے لیے اس بات کی یقین دہانی ممکن ہی نہیں کہ ان کا پروکیورمنٹ اسٹاف کسی کرپشن پریکٹس میں ملوث نہیں حالانکہ اس سے ان کے سیکیورٹی حکام کے لیے شدید خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ انھی وجوہات پر ان کا پورا مشن ناکامی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ جن علاقوں میں تنازعات پیدا ہو چکے ہوں وہاں مغربی ممالک سے تربیت دینے اور اعانت کرنے کی خاطر آنے والے افسران کو شروع ہی میں اس بارے میں واضح بریفنگ دی جانی چاہیے کہ امکانی طور پر '' فریب کاری کے خطرے'' والی صورت حال سے کس طرح نمٹنا چاہیے۔ غیر ملکی حکومتوں اور بین الاقوامی ایجنسیوں کے لیے شورش زدہ علاقوں میں کام کرنا بے حد مشکل ہے تاہم ان مشکلات پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔