تاریخ پاکستان
ہم ایسی قوم ہیں جوکچھ نہ ہونیکے باوجود نیو کلئیر پاوربن سکتے ہیں، دھماکوں اورڈرون میں روزمرتے ہیں مگرجینا نہیں چھوڑتے۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جیسے ہم آج بادشاہ عالمگیر، جنگ غدر، اسپین اور غرناطہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ پڑھتے ہیں، ایسے ہی آنے والی نسلیں جب آج کے پاکستان کو پڑھیں گی تو کیا پڑھیں گی؟ ہمارے ملک، ہمارے معاشرے کا اگر کوئی تجزیہ کرے یا تاریخ لکھے تو وہ کیا لکھے گا؟ شاید وہ لکھے کہ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں ایمان کی رمُق موجود تھی، جِس میں دین کی چنگاری پنہاں تھی۔ ایک ایسی قوم تھی جو روز مرتی تھی مگر جینا نہیں چھوڑتی تھی، جو لٹانے پر آئے تو سب کچھ لٹا دیتی تھی جو جیتے تو بچوں کی طرح گلیوں میں آجاتی تھی، جو ناچتی تھی تو موسم بدل دیتی تھی اور جب روتی تھی تو آسمانوں کو رُلا دیتی تھی۔
بغیر اعلیٰ تعلیم کے، بغیر زندگی کی بنیادی سہولتوں کے بھی اگر یہ قوم یہ سب کچھ کرسکتی ہے۔ نیو کلئیر پاور بن سکتی ہے، ہر چھٹے روز ایک خود کش حملے اور ہر چھٹے روز ڈرون حملے میں مرنے کے باوجود زندہ رہ سکتی ہے تو وہ کیا چیز ہے جو یہ نہیں کرسکتی؟
یہ ایک قوم تھی جس میں شدت تھی، محبت میں بھی اور نفرت میں بھی، جس کو کچھ دینے اور سب کچھ دینے کا فن آتا تھا، جس کے بچے کانے اور تختی سے پڑھ کے نکلے اور ایٹم بم بنا ڈالا، جو بغیر چھت کے سوجاتی تھی، جو بنا پیئے بھی سیراب تھی، اور جو ایک بار ٹھان لے اس کو پورا کرنے میں پوری کائنات اس کا ساتھ دیتی تھی۔
مگر
اس قوم کو اپنی قوت کا اندازہ ہی نہ ہوا، اسے معلوم ہی نہ ہوسکا کہ وہ کس خمیر کی مٹی سے بنی ہے، اس کو لوگوں نے، لیڈروں نے اپنی اپنی منشاء کے مطابق بانٹا اور تقسیم کیا، اس نے اپنے محسنوں کو بھلا دیا اور نجات دہندہ کو رد کردیا۔ اس نے اپنے دین کو بھلا دیا، اپنے ایمان کو بیچ دیا اور اپنے اوپر پڑھنا لکھنا اور سچ بولنا حرام کرلیا۔
پاکستانی بھی عجیب قوم ہے۔ یہ بیک وقت ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی، ہر شخص اپنے پر ہونے والے مظالم کی داستان سُناتا ہے مگر جب جہاں موقعہ ملتا ہے اپنے سے کمزور کو پیس دیتا ہے اور کوئی رعایت نہیں چھوڑتا۔ پردے کے ہلنے سے ڈرنے والا مسلمان ﷲ سے نہیں ڈرتا اور اس ملک میں لوڈ شیڈنگ بھی بہت ہے۔ صرف بجلی کی ہی نہیں کہ بلب بجھ گئے ہیں، خانقاہوں میں چراغ بھی بجھ گئے ہیں، مسجدوں کی رونق بھی بجھ گئی ہے۔ بچوں کے چہرے بھی بجھ گئے ہیں اُمیدوں کی شمع بھی گل ہوگئی ہے، ستاروں کی چمک بھی ماند پڑگئی ہے، چاند کا حسن بھی زائل ہوگیا ہے۔ منبر و محراب بھی خاموش ہیں۔ الغرض نصیبوں کی لوڈ شیڈنگ ہوگئی ہے۔
یہ قوم علم سے ایسے متنفر ہوئی، ایسی بے توفیق ہوئی کہ کوئی مہینے میں 5 ہزار صفحات بھی نہیں پڑھتا، صرف وہ علم حاصل کرنا چاہتی ہے جس سے پیسہ کما سکے، معاشی حیوان بن جائے، مگر کاش پیسہ ہی کمالیا ہوتا وہ بھی کہاں کمایا؟ مغرب کے پاس پیسہ ہے دین نہیں، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔
مورخ لکھے گا کہ جس قوم کو اپنے پیچھے ادارے، افراد، اور منصوبے چھوڑ کر جانے تھے وہ پلاٹس اور شاپنگ پلازے چھوڑ گئی۔ مورخ لکھے گا جس قوم نے روٹی اسلئے کھانی تھی کہ رزاق کا شکر ادا کرسکے، روٹی اُس قوم کو کھا گئی۔ مورخ لکھے گا ایک ایسی قوم تھی جو فطرت سے ٹکرا گئی اور پھر فطرت نے اُسے پچھاڑدیا۔ مورخ لکھے گا کہ جتنا چھپا کے گناہ کرتی تھی اتنا چھپا کے نیکیاں کرگئی ہوتی تو سُرخرو ہوجاتی اور شاید یہ بھی لکھے کہ جس اسلام کے نام پر ملک لیا، اسی اسلام کو اسی ملک میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا۔
ایک ایسی قوم جسے غلامی سے عشق تھا، جس نے پلاننگ کا سارا کام اپنے آقاؤں کے سپرد کر دیا تھا کہ غلام پلاننگ تھوڑا ہی کرتا ہے۔ جس کا ریشہ ریشہ غلام تھا، جسے غلامی اچھی لگنے لگی تھی، جسے غلامی سے محبت ہوگئی تھی؛ جسکی رگ و پے میں غلامی سرائیت کرگئی تھی، جس کا مزاج غلامانہ بن گیا تھا، جہاں غلامی کے بغیر جینا مشکل تھا، جہاں آزاد بندوں کا سانس رک جاتا تھا یا روک دیا جاتا تھا۔ ایک ایسی قوم جو نا دیدنی زنجیروں میں جکڑ دی گئی، جسے شک کی وادی میں ہانک دیا گیا، جس میں اعتماد نہ رہا اور جب اعتماد نہ رہے تو کیسے کوئی پہاڑوں کا سینہ چاک کرے اورکیسے کوئی کائنات کو مسخر کرے۔
اگر بندہ ہمت کرے اور محنت کرے تو نبوت کے علاوہ وہ کونسا ایسا مقام ہے جو حاصل نہ کیا جاسکے، سُپر پاور بننے سے خدا کی ولایت اور دوستی تک سب ہمت و اُمید کے ہی تو مرہونِ منّت ہیں اور سب سے بڑا ظلم جو اِس قوم پر ہوا وہ اُمید کی غربت ہے۔ نا اُمیدی کا یقین ہے، اندھیرے کی نوید ہے جو ہمارے ٹی وی چینلز ہمارے جوانوں کی رگوں میں ہر روز نشے کی طرح اُتار رہے ہیں۔ پہلے کوئی سوچتا تھا کہ ایسے بولیں گے تو کوئی کیا کہے گا، جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے وہ ''کوئی'' بھی مرگیا۔ ہمارے ملک میں لوگ زندگی کے خواب دیکھتے ہیں باہر والے خوابوں کی زندگی گزارتے ہیں اُور اب تو خواب دیکھنے والے بھی کم ہی رہ گئے ہیں۔ مہنگے خواب دیکھنے کے لئے آنکھیں بیچنا پڑتی ہیں، دن اور رات ایک کرنے پڑتے ہیں، پتہ ماری کی محنت ہوتی ہے مگر جو لوگ ہمت نہیں کرتے وہ پھر کرامات، معجزات کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار کرتے کرتے فنا ہوجاتے ہیں۔
مورخ شاید یہ بھی لکھے کہ اس قوم نے خود محنت نہ کی بلکہ بیاّ کا گھر بھی توڑ دیا، جس نے کم ظرفوں کو دین کی تعلیم دے دی اور بدعقلوں کو دنیا کی، یہاں بھنورے میں پلے ہوئے لوگوں کو حکومت ملی جنہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ کسی اور کا سچ بھی سچ ہوسکتا ہے۔ ایک ایسا ملک تھا جہاں غریب، کسمپرسی کی حالت میں کم ظرف کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے، جہاں ہر کام کے لئےغریب کو دن میں ہزاروں سجدے کرنے پڑتے تھے، جہاں سچ بولنے کی زکوۃ تنہائی تھی، جہاں ٹھنڈے مزاج لوگوں کو بےغیرت کہا جاتا تھا، جہاں گناہ تکرار کے باعث عادت بن چکے تھے، جہاں علم بغیر تزکئے کے پھیلا اور جہاں ذکر بغیر علم کے پروان چڑھا، ایک ایسی قوم جسے بے وقوفی اور حُسنِ ظن میں فرق ہی پتہ نہ چل سکا اور ایک ایسی قوم جو سواسو سالوں سے تصویر کے جائز یا نا جائز ہونے کا فیصلہ ہی نہ کرسکی، ایک ایسی قوم جسے ﷲ 68 سالوں سے درگذر کرتا چلا آیا۔ جسکے ساتھ مالک کُل نِباہ کرتا چلا آیا مگر اس نے نباہ نہ کی۔
اور مورخ شاید یہ بھی لکھے کہ جو قوم پولیو ویکسین پر فتویٰ لیتی تھی وہ اپنے مخالفوں کا قتل جائز سمجھتی تھی، ایک ایسی قوم جو اسکولوں کوبموں سے اڑا دیا کرتی تھی اور جہاں عالم پڑھائی کو بےغیرتی کی وجہ بتاتے تھے، ایک ایسی قوم جہاں جھوٹ کی بسیوں قسمیں تھیں، یہاں تک کہ جس شخص پر تھوکنے کو دل نہ چاہے اس کی بھی خوشامد کریں۔
ایک قوم جس کو کہانیاں سنانے کا شوق تھا مگرعمل کا نہیں، جو سچی بات سے منہ پھیر لیتی تھی اور کبر کرتی تھی۔ جہاں حق گوئی قابل تعزیر جرم تھا اور جھوٹ بولنے والوں کی جے جے کار، جہاں لوگوں نے بولنا اسلئے سیکھا کہ باقی لوگوں کوبیوقوف بنا سکیں اور حدیث کی روشنی میں ملعون ٹھہرے۔
ایک ایسا ملک جہاں 5 ہزار بچے سالانہ نالیوں اور کچرے کے ڈبّوں میں پھینک دیئے جاتے ہوں، 6 ہزار قتل ہوجاتے ہوں، 10 لاکھ ایف آئی آر کٹتی ہوں، 15 سو بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہو، 80 کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوجاتی ہو اور ایمبولینس میں انتظار کرتا بیمار، صاحب کے گذر جانے تک لاش بن جاتا ہو۔ ایک ایسی قوم جو سال میں 3 سو ارب بھتے میں دے دیتی ہو اور پھر بھی خوف کے سائے میں جیتی ہو۔
اور آخر میں مورّخ شاید ایک نیا ترانہ بھی لکھے، اور یہ کہ یہ ترانہ آپ لیٹ کے سن سکتے ہیں کیونکہ اگر کھڑے ہونے کی قوت ہوتی تو اِس حال پہ پہنچتے ہی کیوں؟
[poll id="798"]
نوٹ: یکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
بغیر اعلیٰ تعلیم کے، بغیر زندگی کی بنیادی سہولتوں کے بھی اگر یہ قوم یہ سب کچھ کرسکتی ہے۔ نیو کلئیر پاور بن سکتی ہے، ہر چھٹے روز ایک خود کش حملے اور ہر چھٹے روز ڈرون حملے میں مرنے کے باوجود زندہ رہ سکتی ہے تو وہ کیا چیز ہے جو یہ نہیں کرسکتی؟
یہ ایک قوم تھی جس میں شدت تھی، محبت میں بھی اور نفرت میں بھی، جس کو کچھ دینے اور سب کچھ دینے کا فن آتا تھا، جس کے بچے کانے اور تختی سے پڑھ کے نکلے اور ایٹم بم بنا ڈالا، جو بغیر چھت کے سوجاتی تھی، جو بنا پیئے بھی سیراب تھی، اور جو ایک بار ٹھان لے اس کو پورا کرنے میں پوری کائنات اس کا ساتھ دیتی تھی۔
مگر
اس قوم کو اپنی قوت کا اندازہ ہی نہ ہوا، اسے معلوم ہی نہ ہوسکا کہ وہ کس خمیر کی مٹی سے بنی ہے، اس کو لوگوں نے، لیڈروں نے اپنی اپنی منشاء کے مطابق بانٹا اور تقسیم کیا، اس نے اپنے محسنوں کو بھلا دیا اور نجات دہندہ کو رد کردیا۔ اس نے اپنے دین کو بھلا دیا، اپنے ایمان کو بیچ دیا اور اپنے اوپر پڑھنا لکھنا اور سچ بولنا حرام کرلیا۔
پاکستانی بھی عجیب قوم ہے۔ یہ بیک وقت ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی، ہر شخص اپنے پر ہونے والے مظالم کی داستان سُناتا ہے مگر جب جہاں موقعہ ملتا ہے اپنے سے کمزور کو پیس دیتا ہے اور کوئی رعایت نہیں چھوڑتا۔ پردے کے ہلنے سے ڈرنے والا مسلمان ﷲ سے نہیں ڈرتا اور اس ملک میں لوڈ شیڈنگ بھی بہت ہے۔ صرف بجلی کی ہی نہیں کہ بلب بجھ گئے ہیں، خانقاہوں میں چراغ بھی بجھ گئے ہیں، مسجدوں کی رونق بھی بجھ گئی ہے۔ بچوں کے چہرے بھی بجھ گئے ہیں اُمیدوں کی شمع بھی گل ہوگئی ہے، ستاروں کی چمک بھی ماند پڑگئی ہے، چاند کا حسن بھی زائل ہوگیا ہے۔ منبر و محراب بھی خاموش ہیں۔ الغرض نصیبوں کی لوڈ شیڈنگ ہوگئی ہے۔
یہ قوم علم سے ایسے متنفر ہوئی، ایسی بے توفیق ہوئی کہ کوئی مہینے میں 5 ہزار صفحات بھی نہیں پڑھتا، صرف وہ علم حاصل کرنا چاہتی ہے جس سے پیسہ کما سکے، معاشی حیوان بن جائے، مگر کاش پیسہ ہی کمالیا ہوتا وہ بھی کہاں کمایا؟ مغرب کے پاس پیسہ ہے دین نہیں، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔
مورخ لکھے گا کہ جس قوم کو اپنے پیچھے ادارے، افراد، اور منصوبے چھوڑ کر جانے تھے وہ پلاٹس اور شاپنگ پلازے چھوڑ گئی۔ مورخ لکھے گا جس قوم نے روٹی اسلئے کھانی تھی کہ رزاق کا شکر ادا کرسکے، روٹی اُس قوم کو کھا گئی۔ مورخ لکھے گا ایک ایسی قوم تھی جو فطرت سے ٹکرا گئی اور پھر فطرت نے اُسے پچھاڑدیا۔ مورخ لکھے گا کہ جتنا چھپا کے گناہ کرتی تھی اتنا چھپا کے نیکیاں کرگئی ہوتی تو سُرخرو ہوجاتی اور شاید یہ بھی لکھے کہ جس اسلام کے نام پر ملک لیا، اسی اسلام کو اسی ملک میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا۔
ایک ایسی قوم جسے غلامی سے عشق تھا، جس نے پلاننگ کا سارا کام اپنے آقاؤں کے سپرد کر دیا تھا کہ غلام پلاننگ تھوڑا ہی کرتا ہے۔ جس کا ریشہ ریشہ غلام تھا، جسے غلامی اچھی لگنے لگی تھی، جسے غلامی سے محبت ہوگئی تھی؛ جسکی رگ و پے میں غلامی سرائیت کرگئی تھی، جس کا مزاج غلامانہ بن گیا تھا، جہاں غلامی کے بغیر جینا مشکل تھا، جہاں آزاد بندوں کا سانس رک جاتا تھا یا روک دیا جاتا تھا۔ ایک ایسی قوم جو نا دیدنی زنجیروں میں جکڑ دی گئی، جسے شک کی وادی میں ہانک دیا گیا، جس میں اعتماد نہ رہا اور جب اعتماد نہ رہے تو کیسے کوئی پہاڑوں کا سینہ چاک کرے اورکیسے کوئی کائنات کو مسخر کرے۔
اگر بندہ ہمت کرے اور محنت کرے تو نبوت کے علاوہ وہ کونسا ایسا مقام ہے جو حاصل نہ کیا جاسکے، سُپر پاور بننے سے خدا کی ولایت اور دوستی تک سب ہمت و اُمید کے ہی تو مرہونِ منّت ہیں اور سب سے بڑا ظلم جو اِس قوم پر ہوا وہ اُمید کی غربت ہے۔ نا اُمیدی کا یقین ہے، اندھیرے کی نوید ہے جو ہمارے ٹی وی چینلز ہمارے جوانوں کی رگوں میں ہر روز نشے کی طرح اُتار رہے ہیں۔ پہلے کوئی سوچتا تھا کہ ایسے بولیں گے تو کوئی کیا کہے گا، جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے وہ ''کوئی'' بھی مرگیا۔ ہمارے ملک میں لوگ زندگی کے خواب دیکھتے ہیں باہر والے خوابوں کی زندگی گزارتے ہیں اُور اب تو خواب دیکھنے والے بھی کم ہی رہ گئے ہیں۔ مہنگے خواب دیکھنے کے لئے آنکھیں بیچنا پڑتی ہیں، دن اور رات ایک کرنے پڑتے ہیں، پتہ ماری کی محنت ہوتی ہے مگر جو لوگ ہمت نہیں کرتے وہ پھر کرامات، معجزات کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار کرتے کرتے فنا ہوجاتے ہیں۔
مورخ شاید یہ بھی لکھے کہ اس قوم نے خود محنت نہ کی بلکہ بیاّ کا گھر بھی توڑ دیا، جس نے کم ظرفوں کو دین کی تعلیم دے دی اور بدعقلوں کو دنیا کی، یہاں بھنورے میں پلے ہوئے لوگوں کو حکومت ملی جنہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ کسی اور کا سچ بھی سچ ہوسکتا ہے۔ ایک ایسا ملک تھا جہاں غریب، کسمپرسی کی حالت میں کم ظرف کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے، جہاں ہر کام کے لئےغریب کو دن میں ہزاروں سجدے کرنے پڑتے تھے، جہاں سچ بولنے کی زکوۃ تنہائی تھی، جہاں ٹھنڈے مزاج لوگوں کو بےغیرت کہا جاتا تھا، جہاں گناہ تکرار کے باعث عادت بن چکے تھے، جہاں علم بغیر تزکئے کے پھیلا اور جہاں ذکر بغیر علم کے پروان چڑھا، ایک ایسی قوم جسے بے وقوفی اور حُسنِ ظن میں فرق ہی پتہ نہ چل سکا اور ایک ایسی قوم جو سواسو سالوں سے تصویر کے جائز یا نا جائز ہونے کا فیصلہ ہی نہ کرسکی، ایک ایسی قوم جسے ﷲ 68 سالوں سے درگذر کرتا چلا آیا۔ جسکے ساتھ مالک کُل نِباہ کرتا چلا آیا مگر اس نے نباہ نہ کی۔
اور مورخ شاید یہ بھی لکھے کہ جو قوم پولیو ویکسین پر فتویٰ لیتی تھی وہ اپنے مخالفوں کا قتل جائز سمجھتی تھی، ایک ایسی قوم جو اسکولوں کوبموں سے اڑا دیا کرتی تھی اور جہاں عالم پڑھائی کو بےغیرتی کی وجہ بتاتے تھے، ایک ایسی قوم جہاں جھوٹ کی بسیوں قسمیں تھیں، یہاں تک کہ جس شخص پر تھوکنے کو دل نہ چاہے اس کی بھی خوشامد کریں۔
ایک قوم جس کو کہانیاں سنانے کا شوق تھا مگرعمل کا نہیں، جو سچی بات سے منہ پھیر لیتی تھی اور کبر کرتی تھی۔ جہاں حق گوئی قابل تعزیر جرم تھا اور جھوٹ بولنے والوں کی جے جے کار، جہاں لوگوں نے بولنا اسلئے سیکھا کہ باقی لوگوں کوبیوقوف بنا سکیں اور حدیث کی روشنی میں ملعون ٹھہرے۔
ایک ایسا ملک جہاں 5 ہزار بچے سالانہ نالیوں اور کچرے کے ڈبّوں میں پھینک دیئے جاتے ہوں، 6 ہزار قتل ہوجاتے ہوں، 10 لاکھ ایف آئی آر کٹتی ہوں، 15 سو بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہو، 80 کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوجاتی ہو اور ایمبولینس میں انتظار کرتا بیمار، صاحب کے گذر جانے تک لاش بن جاتا ہو۔ ایک ایسی قوم جو سال میں 3 سو ارب بھتے میں دے دیتی ہو اور پھر بھی خوف کے سائے میں جیتی ہو۔
اور آخر میں مورّخ شاید ایک نیا ترانہ بھی لکھے، اور یہ کہ یہ ترانہ آپ لیٹ کے سن سکتے ہیں کیونکہ اگر کھڑے ہونے کی قوت ہوتی تو اِس حال پہ پہنچتے ہی کیوں؟
لا الہ کے دیس میں
کشورِ حسین پر
المیہ ہی المیہ
پاک سرز مین پر
اہل زر کا راج ہے
جبر تخت و تاج ہے
ظلم کا سماج ہے
روگ لا علاج ہے
ظلم کا یہ سلِسلہ
طاق ہے جبین پر
المیہ ہی المیہ
پاک سر زمین پر
خوف ہے ہراس ہے
تشنگی ہے پیاس ہے
چھت ہے نا لباس ہے
چور چور آس ہے
ہائے لٹ گیا یقین
مرکز یقین پر
المیہ ہی المیہ
پاک سر زمین پر
شہر ہے یا گوٹھ ہے
نظریوں کی اوٹ ہے
نیتوں میں کھوٹ ہے
ٹھوکریں ہیں چوٹ ہے
رہزنی کا ہو گمان
اپنے ہم نشین پر
المیہ ہی المیہ
پاک سر زمین پر
بھیئریئے ہیں رو برو
بہہ رہا ہے کو بہ کو
اپنا خون جو بہ جو
تیر زن چہار سو
سب کے سب جھپٹ پڑے
آج اہل دین پر
المیہ ہی المیہ
پاک سر زمین پر
لا الہ کے دیس میں
کشور حسین پر
المیہ ہی المیہ
پاک سر زمین پر
[poll id="798"]
نوٹ: یکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔