دنیا کی امیر ترین جنگجو تنظیم
کمائی کرنے میں حشیشن اور القاعدہ کو بھی مات دینے والی لڑاکا داعش کا معلومات افروز تذکرہ
یہ 20 اگست 2015ء کی بات ہے' دوپہر کو شام کے تاریخی شہر پالمریا کے ایک چوک میں لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ جنگجو تنظیم' داعش کے مسلح گوریلے وہاں ایک ماہر آثار قدیمہ' خالد الاسد کو قتل کرنے کے ارادے سے لائے تھے۔ ایک گوریلے نے خالد الاسد کا سرقلم کیا اور لاش کھمبے سے لٹکا دی۔ مقتول کے جسم سے اس کے جرائم کی فہرست بھی ٹنگی تھی۔
مثلاً یہ کہ وہ شامی صدر بشارالاسد کاساتھی تھا اور دشمن (ایران) سے ملتا ملاتا رہتا ۔لیکن خالد الاسد کا اصل جرم مذہبی و سیاسی نہیں معاشی پہلو رکھتا تھا۔ وہ پالمریا کے آثار قدیمہ کی د یکھ بھال کرنے والے ادارے کا سربراہ تھا۔ جب داعش نے شہر پر حملہ کیا' تو اس کی ایما پر ادارے نے سیکڑوں قدیم اور قیمتی آثار قدیمہ مختلف جگہوں میں چھپا دیئے۔ اب داعش کے کمانڈر وہ آثار قدیمہ حاصل کرنے کے خواہش مند تھے تاکہ انہیں بلیک مارکیٹ میں بیچ کر بھاری رقم کما سکیں۔ مگر خالد الاسد نے آثار قدیمہ کا پتا بتانے سے انکار کر دیا۔ چناں چہ اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
14 نومبر کو جب داعش کے گوریلوں نے پیرس کے شہری مقامات پر حملے کیے تو اس کو انتقامی کارروائی قرار دیا گیا۔ چونکہ مغربی ممالک داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہے ہیں لہٰذا اس نے بھی تشد د آمیز جواب دے ڈالا۔ مگر پیرس میں داعش کی کارروائی کا تعلق بھی بنیادی طور پر معاشیات سے ہے۔ اس عجوبے کی داستان حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔
٭٭
آج کا دور اس لحاظ سے عجیب و غریب ہے کہ سچ اور جھوٹ کے مابین تمیز کرنا کٹھن مرحلہ بن چکا۔ مثال کے طور پر داعش ہی کا معاملہ لیجیے ۔ اس کا بانی اردنی جنگجو' ابومعصب زرقاوی تھا۔ زرقاوی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ تنظیم کی بنیاد اس لیے رکھی گئی تاکہ عالم اسلام کو غاصب اور استعماری قوتوں سے نجات دلائی جا سکے۔لیکن زرقاوی کے مسلم مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ کٹر مذہبی تھا، جو مسلمان اس کے نظریات سے اتفاق نہ کرتا'مخالف قرار پاتا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ امریکا اور اسرائیل کا ایجنٹ بن گیا اور اس نے عالم اسلام میں نیا فتنہ کھڑا کر کے انتشار برپا کر ڈالا۔مغربی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ امریکا نے اسے دانستہ پالا پوسا تاکہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی جنگیں جاری رکھ کر اپنی اسلحہ ساز صنعتیں رواں دواں رکھ سکے۔
حقیقت جو بھی ہو ،1999ء میں داعش کی بنیاد رکھتے ہوئے یقیناً زرقاوی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ یہ تنظیم محض پندرہ برس میںانسانی تاریخ کی امیر ترین اور طاقت ور جنگجو تنظیم بن جائے گی۔ حشیشین سے لے کر القاعدہ تک اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی جنگجو تنظیم نہیں ملتی جو روزانہ کروڑوں روپے کماتی ہو اور جس کے زیر اقتدار علاقوں میں ایک کروڑ افراد آباد ہوں۔
ابو معصب زرقاوی کی قائم کردہ تنظیم اب خود کو ''دولت اسلامیہ فی عراق و شام'' کہلواتی ہے تاہم ''داعش'' یا ''اسلامی ریاست'' اس کے معروف عوامی نام ہیں۔ چونکہ اس خود ساختہ ریاست کو دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا' اسی لیے اسے تنظیم کی حیثیت ہی سے جانا جاتا ہے۔آج عراق اور شام کا تقریباً 81ہزار مربع میل علاقہ داعش کے قبضے میں ہے۔ اس علاقے میں ایک کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ ان میں اکثریت سنی مسلمانوںکی ہے۔ یہ سنی قبائل ہی ہیں جن کی مدد سے داعش نے دونوں مسلم ممالک کے وسیع علاقوں پر قبضہ کیا۔
اس نام نہاد ریاست کا امیر ایک عراقی جنگجو' ابوبکربغدادی ہے۔ وہ نائبین' مجلس شوری اور گورنروں کی مدد سے نظام حکومت چلا رہا ہے۔ ارکان مجلس شوری ریاست میں مذہبی معاملات کے بھی نگران ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ داعش کی حکومت کا ڈھانچہ دو متناقص طاقتوں پر مشتمل ہے۔ اس کی انتظامی مشینری مرحوم عراقی صدر' صدام حسین کے سیکولر ساتھیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ جبکہ میدان جنگ میں القاعدہ کے سابق کٹر مذہبی رہنما سرگرم عمل ہیں۔ بہر حال بہترین انتظامی صلاحیتوں اور تجربے کار عسکری فنون و حرب کے ملاپ ہی نے داعش کو ایک طاقتور تنظیم کا روپ دے ڈالا۔
داعش کو جنم دینے میں عراقی حکومت کی غلطیوں کا بڑا حصّہ ہے۔ امریکی حملے کے بعد جو عراقی حکمران برسراقتدار آئے' وہ ایک مخصوص طبقے کو مراعات دیتے رہے۔ اس امرنے سنی قبائل کو اتنا زیادہ ناراض کیا کہ وہ داعش جیسی جنگجو تنظیم کی حمایت کرنے لگے۔ انہی کا تعاون پا کر اوائل 2013ء سے داعش کے جنگجو عراق و شام کے علاقوں پر قابض ہونے لگے۔
اس دوران داعش نے ایسی سرگرمیاں بھی انجام دیں جنہیں علمائے کرام کی اکثریت غیر اسلامی قرار دے چکی ۔ مثال کے طور پر نہتے مسلم و غیر مسلم شہریوں کا قتل' غیر مسلم خواتین کو زبردستی لونڈی بنا لینا' قیدیوں کو زندہ جلانا اور جرائم (منشیات کی خرید و فروخت اور اغوابرائے تاوان ) کے ذریعے آمدنی میں اضافہ کرنا۔ان سرگرمیوں سے دراصل اپنے زیر اقتدار علاقوں میں خوف و دہشت کا ماحول جنم دینا مقصود تھا۔ اسی لیے اب ایک کروڑ باشندے بے چوں چرا داعش حکومت کا ہر حکم قبول کر لیتے ہیں۔
ذرائع آمدن
داعش کی فوج تقریباً ایک لاکھ فوجیوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے چند ہزار ہی داعش کے نظریات سے متاثر ہوکر اس میں شامل ہوئے... بقیہ کرائے کے فوجی ہیں جنہیں ہرماہ 50 ہزار سے سوا لاکھ روپے تک بہ لحاظ عہدہ تنخواہ ملتی ہے۔ کرائے کی اتنی بڑی فوج کھڑی کرنے کے باعث ہی داعش کئی ہزار مربع میل رقبے پر قبضہ کرسکی۔
شروع میں مشرق وسطیٰ کے وہ مخیر لوگ داعش کی مالی مدد کرتے رہے جو اس سے نظریاتی لگاؤ رکھتے تھے۔ جب داعش نے شہروں اور قصبوں میں قدم جمالیے، تو وہاں اس کے جنگجو غنڈے بن بیٹھے۔ مخالفین کو اغوا کرکے بھاری رقم بطور تاوان کمائی جاتی۔ تاجروں اور کاروباریوں سے بھتا لیا جانے لگا۔ تاہم آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ اس وقت ہاتھ آیا جب داعش نے تیل کے کئی کنوؤں پر قبضہ کرلیا۔
اس وقت شام اور عراق میں تیل کے بعض بڑے کنوئیں بھی داعش کی ملکیت ہیں۔ ان سے نکلنے والا تیل مختلف ممالک کی طرف سمگل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ داعش کے مخالفین مثلاً کرد اور دیگر جنگجو تنظیمیں بھی اس سے تیل خریدنے پر مجبور ہیں۔ خیال ہے کہ تیل کی فروخت سے داعش روزانہ ڈیڑھ تا دو کروڑ روپے کماتی ہے۔
جب امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ داعش کی تنصیبات پر فضائی حملے کرنے لگے تو انہوں نے تیل کے کنوؤں پر بمباری کرنے سے پرہیز کیا۔ وجہ یہ کہ آئل ریفائنریوں میں شہری ہی کام کرتے ہیں۔ یوں شہریوں کو ڈھال بناکر داعش تیل کی اپنی تنصیبات محفوظ کرنے میں کامیاب رہی۔ تاہم ماہ اکتوبر میں امریکا و فرانس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر ڈالی۔
اکتوبر کے آخری دنوں میں فرانسیسی طیاروں نے داعش کی ملکیت تیل کے کنوؤں پر بم باری کی اور انہیں سخت نقصان پہنچایا۔ یوں وہاں کام رک گیا۔ جب تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کم ہوئی، تو داعش مالی بحران میں مبتلا ہوگئی۔ اُدھر فوجیوں کو تنخواہیں لازماً دینی تھیں۔ اسی طرح نئے اسلحے کی خرید بھی ضروری تھی تاکہ مخالفین کا مقابلہ کیا جاسکے۔
مالی بحران کا نشانہ بن کرداعش کی قیادت شدید طیش میں آگئی۔ اس نے پھر یورپ میں بیٹھے اپنے حمایتی جنگجوؤں کو حکم دیا کہ جس طرح فرانس نے ہمارے شہریوں کو نشانہ بنایا ، اسی طرح وہ بھی حملہ کرکے فرانسیسی شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالیں۔ چناںچہ 13 نومبر کو انہوں نے پیرس میں شہریوں پر دھاوا بولا اور ایک سو انتیس شہری قتل کر ڈالے۔
تیل کے کنوئیں بند ہونے سے داعش یقینا مالی بحران کا شکار ہو گی، تاہم اسے دیگر ذرائع سے اتنی رقم ضرور ملتی ہے کہ وہ اپنا انتظامی ڈھانچہ برقرار رکھ سکے۔ ان ذرائع میں سرفہرست شہریوں پر ٹیکس لگانا ہے۔ داعش نے اپنی نام نہاد حکومت میں عوام پر مختلف ٹیکس لگا رکھے ہیں جن کے ذریعے اسے معقول رقم ملتی ہے۔
داعش نے اپنی مملکت کو خیر باد کہنے والوں پر ''خروج ٹیکس'' بھی لگارکھا ہے۔ دراصل اسے خدشہ ہے کہ خوف کا شکار شہری اسلامی ریاست کو چھوڑ جائیں گے۔ لہٰذا انہیں جانے سے باز رکھنے کی خاطر خروج ٹیکس لگا دیا گیا۔ اب اسلامی ریاست سے باہر جانے والے ہر بچے یا بڑے کو تقریباً ایک لاکھ روپے دینے پڑتے ہیں۔
داعش قائدین نے اعلان کیا تھا کہ وہ خلفائے راشدین کی طرز پر فلاحی مملکت قائم کریں گے جہاں غریبوں اور ضرور مندوں کو تمام سہولیات مفت میسّر ہوں گی۔ لیکن یہ تنظیم اپنی مملکت میں خوف و دہشت پھیلانے کے علاوہ کوئی ٹھوس تعمیری کام نہیں کرسکی۔
شام و عراق کے آثار قدیمہ سے ملنے والے قیمتی نوادرات کی فروخت بھی داعش کے لیے آمدن کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہ بیش قیمت نوادرات بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے دنیا بھر میں بیچے جاتے ہیں۔ آثار قدیمہ اکٹھے کرنے کے شوقین ان نوادرات کو کروڑوں روپے میں خریدتے ہیں۔داعش منشیات کے کاروبار سے بھی بھاری رقم کماتی ہے۔ تھائی لینڈ اور افغانستان سے آنے والی ہیروئن جب اسلامی ریاست سے گزرے، تو اسمگلر اپنا مال محفوظ رکھنے کے لیے داعش کو منہ مانگی رقم بطور بھتا دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آمدن کے مختلف ذرائع سے فائدہ اٹھا کر داعش پچھلے تین سال میں کم از کم ''دو ارب ڈالر'' (دو کھرب روپے) کا سرمایہ جمع کرچکی۔ یہ امر اسے دنیا کی امیر ترین جنگجو تنظیم بنا ڈالتا ہے۔ یہی حقیقت یہ بھی آشکارا کرتی ہے کہ داعش کے تمام ذرائع آمدن ختم ہوجائیں، تب بھی وہ پانچ چھ ماہ بھر پور مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
داعش کی بدقسمتی کہ اس نے روسیوں کو بھی اپنا مخالف بنالیا۔ داعش کا دعویٰ ہے کہ 31 اکتوبر کو اسی کے نصب کردہ بم نے روسی مسافر بردار طیارہ مصر میں مار گرایا۔ تب سے روسی طیارے مسلسل داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کررہے ہیں۔یہ بات بھی گرم ہے کہ روس اپنے ڈیڑھ لاکھ فوجی شام بھجوا رہا ہے تاکہ بشار الاسد حکومت کے تمام مخالفین کو نیست و نابود کرسکے۔
حکمت عملی تبدیل ہو گئی
دو ماہ پہلے تک داعش کی توجہ اپنی خلافت کو مستحکم کرنے پر مرکوز تھی۔ وہ القاعدہ کے مانند مختلف ممالک میں بم دھماکے کرنے کی قائل نہ تھی۔ داعش کے قائدین کا خیال تھا کہ یوں تنظیم کئی ممالک کو اپنا دشمن بنالے گی۔ لیکن داعش کی جانب سے کیے گئے تین بڑے حملے (روسی مسافر بردار طیارے پر حملہ، بیروت میں بم دھماکے اور پیرس حملہ) عیاں کرتے ہیں کہ تنظیم کی حکمت عملی تبدیل ہوچکی۔
ماہرین کا خیال ہے، اتحادی طیاروں کی بم باری نے نہ صرف داعش کا بھاری اسلحہ تباہ کیا بلکہ تیل کے کنوؤں کو بھی برباد کر ڈالا جن سے اسے بھاری آمدن ہوتی تھی۔ بھاری اسلحے اور ذرائع آمدن سے ہاتھ دھونے پر قائدین داعش شدید طیش میں آگئے لہٰذا انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور اسلامی ریاست سے باہر بھی مخالفین پر حملے کرنے لگے۔
داعش کی فوج میں پانچ چھ ہزار فوجی غیرملکی ہیں۔یہ یورپی، ایشیائی اور افریقی ممالک سے آ کر تنظیم میں شامل ہوئے۔اب قائدین ِداعش دنیا بھرمیں پھیلے ہمدردوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک ہی میں قیام کریں۔انھیں مناسب موقع پر ''عمل''کرنے کا اشارہ دیا جائے گا۔گویا یہ خطرہ جنم لے چکا کہ اب کئی ملکوں میں داعش کے ''سلیپنگ سیل''وجود میں آ جائیں گے۔
لبنان اور فرانس میں حملے افشا کرتے ہیں کہ داعش کئی ممالک میں اپنا جال بچھا چکی اور وہاں اس کے خاموش ہمدرد موجود ہیں۔ داعش جب چاہے ان کے ذریعے قتل و غارت کراسکتی ہے۔ چونکہ داعش کے پاس وسائل ہیں اور کثیر تعداد میں سرمایہ بھی اور وہ عالمی قوت بننے کی خواہش مند ہے، لہٰذا یہ حقائق اسے نہایت خطرناک تنظیم بنا ڈالتے ہیں۔ گویا آنے والے وقت میں داعش کے خصوصاً مغربی مخالفین مثلاً امریکا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور آسٹریلیا کو نہایت ہوشیار رہنا ہوگا۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی بڑی تعداد بستی ہے اور جن میں داعش سے نظریاتی قرب رکھنے والے شدت پسند مسلمان موجود ہوسکتے ہیں۔
مثلاً یہ کہ وہ شامی صدر بشارالاسد کاساتھی تھا اور دشمن (ایران) سے ملتا ملاتا رہتا ۔لیکن خالد الاسد کا اصل جرم مذہبی و سیاسی نہیں معاشی پہلو رکھتا تھا۔ وہ پالمریا کے آثار قدیمہ کی د یکھ بھال کرنے والے ادارے کا سربراہ تھا۔ جب داعش نے شہر پر حملہ کیا' تو اس کی ایما پر ادارے نے سیکڑوں قدیم اور قیمتی آثار قدیمہ مختلف جگہوں میں چھپا دیئے۔ اب داعش کے کمانڈر وہ آثار قدیمہ حاصل کرنے کے خواہش مند تھے تاکہ انہیں بلیک مارکیٹ میں بیچ کر بھاری رقم کما سکیں۔ مگر خالد الاسد نے آثار قدیمہ کا پتا بتانے سے انکار کر دیا۔ چناں چہ اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
14 نومبر کو جب داعش کے گوریلوں نے پیرس کے شہری مقامات پر حملے کیے تو اس کو انتقامی کارروائی قرار دیا گیا۔ چونکہ مغربی ممالک داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہے ہیں لہٰذا اس نے بھی تشد د آمیز جواب دے ڈالا۔ مگر پیرس میں داعش کی کارروائی کا تعلق بھی بنیادی طور پر معاشیات سے ہے۔ اس عجوبے کی داستان حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔
٭٭
آج کا دور اس لحاظ سے عجیب و غریب ہے کہ سچ اور جھوٹ کے مابین تمیز کرنا کٹھن مرحلہ بن چکا۔ مثال کے طور پر داعش ہی کا معاملہ لیجیے ۔ اس کا بانی اردنی جنگجو' ابومعصب زرقاوی تھا۔ زرقاوی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ تنظیم کی بنیاد اس لیے رکھی گئی تاکہ عالم اسلام کو غاصب اور استعماری قوتوں سے نجات دلائی جا سکے۔لیکن زرقاوی کے مسلم مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ کٹر مذہبی تھا، جو مسلمان اس کے نظریات سے اتفاق نہ کرتا'مخالف قرار پاتا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ امریکا اور اسرائیل کا ایجنٹ بن گیا اور اس نے عالم اسلام میں نیا فتنہ کھڑا کر کے انتشار برپا کر ڈالا۔مغربی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ امریکا نے اسے دانستہ پالا پوسا تاکہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی جنگیں جاری رکھ کر اپنی اسلحہ ساز صنعتیں رواں دواں رکھ سکے۔
حقیقت جو بھی ہو ،1999ء میں داعش کی بنیاد رکھتے ہوئے یقیناً زرقاوی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ یہ تنظیم محض پندرہ برس میںانسانی تاریخ کی امیر ترین اور طاقت ور جنگجو تنظیم بن جائے گی۔ حشیشین سے لے کر القاعدہ تک اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی جنگجو تنظیم نہیں ملتی جو روزانہ کروڑوں روپے کماتی ہو اور جس کے زیر اقتدار علاقوں میں ایک کروڑ افراد آباد ہوں۔
ابو معصب زرقاوی کی قائم کردہ تنظیم اب خود کو ''دولت اسلامیہ فی عراق و شام'' کہلواتی ہے تاہم ''داعش'' یا ''اسلامی ریاست'' اس کے معروف عوامی نام ہیں۔ چونکہ اس خود ساختہ ریاست کو دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا' اسی لیے اسے تنظیم کی حیثیت ہی سے جانا جاتا ہے۔آج عراق اور شام کا تقریباً 81ہزار مربع میل علاقہ داعش کے قبضے میں ہے۔ اس علاقے میں ایک کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ ان میں اکثریت سنی مسلمانوںکی ہے۔ یہ سنی قبائل ہی ہیں جن کی مدد سے داعش نے دونوں مسلم ممالک کے وسیع علاقوں پر قبضہ کیا۔
اس نام نہاد ریاست کا امیر ایک عراقی جنگجو' ابوبکربغدادی ہے۔ وہ نائبین' مجلس شوری اور گورنروں کی مدد سے نظام حکومت چلا رہا ہے۔ ارکان مجلس شوری ریاست میں مذہبی معاملات کے بھی نگران ہیں۔دلچسپ بات یہ کہ داعش کی حکومت کا ڈھانچہ دو متناقص طاقتوں پر مشتمل ہے۔ اس کی انتظامی مشینری مرحوم عراقی صدر' صدام حسین کے سیکولر ساتھیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ جبکہ میدان جنگ میں القاعدہ کے سابق کٹر مذہبی رہنما سرگرم عمل ہیں۔ بہر حال بہترین انتظامی صلاحیتوں اور تجربے کار عسکری فنون و حرب کے ملاپ ہی نے داعش کو ایک طاقتور تنظیم کا روپ دے ڈالا۔
داعش کو جنم دینے میں عراقی حکومت کی غلطیوں کا بڑا حصّہ ہے۔ امریکی حملے کے بعد جو عراقی حکمران برسراقتدار آئے' وہ ایک مخصوص طبقے کو مراعات دیتے رہے۔ اس امرنے سنی قبائل کو اتنا زیادہ ناراض کیا کہ وہ داعش جیسی جنگجو تنظیم کی حمایت کرنے لگے۔ انہی کا تعاون پا کر اوائل 2013ء سے داعش کے جنگجو عراق و شام کے علاقوں پر قابض ہونے لگے۔
اس دوران داعش نے ایسی سرگرمیاں بھی انجام دیں جنہیں علمائے کرام کی اکثریت غیر اسلامی قرار دے چکی ۔ مثال کے طور پر نہتے مسلم و غیر مسلم شہریوں کا قتل' غیر مسلم خواتین کو زبردستی لونڈی بنا لینا' قیدیوں کو زندہ جلانا اور جرائم (منشیات کی خرید و فروخت اور اغوابرائے تاوان ) کے ذریعے آمدنی میں اضافہ کرنا۔ان سرگرمیوں سے دراصل اپنے زیر اقتدار علاقوں میں خوف و دہشت کا ماحول جنم دینا مقصود تھا۔ اسی لیے اب ایک کروڑ باشندے بے چوں چرا داعش حکومت کا ہر حکم قبول کر لیتے ہیں۔
ذرائع آمدن
داعش کی فوج تقریباً ایک لاکھ فوجیوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے چند ہزار ہی داعش کے نظریات سے متاثر ہوکر اس میں شامل ہوئے... بقیہ کرائے کے فوجی ہیں جنہیں ہرماہ 50 ہزار سے سوا لاکھ روپے تک بہ لحاظ عہدہ تنخواہ ملتی ہے۔ کرائے کی اتنی بڑی فوج کھڑی کرنے کے باعث ہی داعش کئی ہزار مربع میل رقبے پر قبضہ کرسکی۔
شروع میں مشرق وسطیٰ کے وہ مخیر لوگ داعش کی مالی مدد کرتے رہے جو اس سے نظریاتی لگاؤ رکھتے تھے۔ جب داعش نے شہروں اور قصبوں میں قدم جمالیے، تو وہاں اس کے جنگجو غنڈے بن بیٹھے۔ مخالفین کو اغوا کرکے بھاری رقم بطور تاوان کمائی جاتی۔ تاجروں اور کاروباریوں سے بھتا لیا جانے لگا۔ تاہم آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ اس وقت ہاتھ آیا جب داعش نے تیل کے کئی کنوؤں پر قبضہ کرلیا۔
اس وقت شام اور عراق میں تیل کے بعض بڑے کنوئیں بھی داعش کی ملکیت ہیں۔ ان سے نکلنے والا تیل مختلف ممالک کی طرف سمگل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ داعش کے مخالفین مثلاً کرد اور دیگر جنگجو تنظیمیں بھی اس سے تیل خریدنے پر مجبور ہیں۔ خیال ہے کہ تیل کی فروخت سے داعش روزانہ ڈیڑھ تا دو کروڑ روپے کماتی ہے۔
جب امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ داعش کی تنصیبات پر فضائی حملے کرنے لگے تو انہوں نے تیل کے کنوؤں پر بمباری کرنے سے پرہیز کیا۔ وجہ یہ کہ آئل ریفائنریوں میں شہری ہی کام کرتے ہیں۔ یوں شہریوں کو ڈھال بناکر داعش تیل کی اپنی تنصیبات محفوظ کرنے میں کامیاب رہی۔ تاہم ماہ اکتوبر میں امریکا و فرانس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر ڈالی۔
اکتوبر کے آخری دنوں میں فرانسیسی طیاروں نے داعش کی ملکیت تیل کے کنوؤں پر بم باری کی اور انہیں سخت نقصان پہنچایا۔ یوں وہاں کام رک گیا۔ جب تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کم ہوئی، تو داعش مالی بحران میں مبتلا ہوگئی۔ اُدھر فوجیوں کو تنخواہیں لازماً دینی تھیں۔ اسی طرح نئے اسلحے کی خرید بھی ضروری تھی تاکہ مخالفین کا مقابلہ کیا جاسکے۔
مالی بحران کا نشانہ بن کرداعش کی قیادت شدید طیش میں آگئی۔ اس نے پھر یورپ میں بیٹھے اپنے حمایتی جنگجوؤں کو حکم دیا کہ جس طرح فرانس نے ہمارے شہریوں کو نشانہ بنایا ، اسی طرح وہ بھی حملہ کرکے فرانسیسی شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالیں۔ چناںچہ 13 نومبر کو انہوں نے پیرس میں شہریوں پر دھاوا بولا اور ایک سو انتیس شہری قتل کر ڈالے۔
تیل کے کنوئیں بند ہونے سے داعش یقینا مالی بحران کا شکار ہو گی، تاہم اسے دیگر ذرائع سے اتنی رقم ضرور ملتی ہے کہ وہ اپنا انتظامی ڈھانچہ برقرار رکھ سکے۔ ان ذرائع میں سرفہرست شہریوں پر ٹیکس لگانا ہے۔ داعش نے اپنی نام نہاد حکومت میں عوام پر مختلف ٹیکس لگا رکھے ہیں جن کے ذریعے اسے معقول رقم ملتی ہے۔
داعش نے اپنی مملکت کو خیر باد کہنے والوں پر ''خروج ٹیکس'' بھی لگارکھا ہے۔ دراصل اسے خدشہ ہے کہ خوف کا شکار شہری اسلامی ریاست کو چھوڑ جائیں گے۔ لہٰذا انہیں جانے سے باز رکھنے کی خاطر خروج ٹیکس لگا دیا گیا۔ اب اسلامی ریاست سے باہر جانے والے ہر بچے یا بڑے کو تقریباً ایک لاکھ روپے دینے پڑتے ہیں۔
داعش قائدین نے اعلان کیا تھا کہ وہ خلفائے راشدین کی طرز پر فلاحی مملکت قائم کریں گے جہاں غریبوں اور ضرور مندوں کو تمام سہولیات مفت میسّر ہوں گی۔ لیکن یہ تنظیم اپنی مملکت میں خوف و دہشت پھیلانے کے علاوہ کوئی ٹھوس تعمیری کام نہیں کرسکی۔
شام و عراق کے آثار قدیمہ سے ملنے والے قیمتی نوادرات کی فروخت بھی داعش کے لیے آمدن کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہ بیش قیمت نوادرات بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے دنیا بھر میں بیچے جاتے ہیں۔ آثار قدیمہ اکٹھے کرنے کے شوقین ان نوادرات کو کروڑوں روپے میں خریدتے ہیں۔داعش منشیات کے کاروبار سے بھی بھاری رقم کماتی ہے۔ تھائی لینڈ اور افغانستان سے آنے والی ہیروئن جب اسلامی ریاست سے گزرے، تو اسمگلر اپنا مال محفوظ رکھنے کے لیے داعش کو منہ مانگی رقم بطور بھتا دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آمدن کے مختلف ذرائع سے فائدہ اٹھا کر داعش پچھلے تین سال میں کم از کم ''دو ارب ڈالر'' (دو کھرب روپے) کا سرمایہ جمع کرچکی۔ یہ امر اسے دنیا کی امیر ترین جنگجو تنظیم بنا ڈالتا ہے۔ یہی حقیقت یہ بھی آشکارا کرتی ہے کہ داعش کے تمام ذرائع آمدن ختم ہوجائیں، تب بھی وہ پانچ چھ ماہ بھر پور مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
داعش کی بدقسمتی کہ اس نے روسیوں کو بھی اپنا مخالف بنالیا۔ داعش کا دعویٰ ہے کہ 31 اکتوبر کو اسی کے نصب کردہ بم نے روسی مسافر بردار طیارہ مصر میں مار گرایا۔ تب سے روسی طیارے مسلسل داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کررہے ہیں۔یہ بات بھی گرم ہے کہ روس اپنے ڈیڑھ لاکھ فوجی شام بھجوا رہا ہے تاکہ بشار الاسد حکومت کے تمام مخالفین کو نیست و نابود کرسکے۔
حکمت عملی تبدیل ہو گئی
دو ماہ پہلے تک داعش کی توجہ اپنی خلافت کو مستحکم کرنے پر مرکوز تھی۔ وہ القاعدہ کے مانند مختلف ممالک میں بم دھماکے کرنے کی قائل نہ تھی۔ داعش کے قائدین کا خیال تھا کہ یوں تنظیم کئی ممالک کو اپنا دشمن بنالے گی۔ لیکن داعش کی جانب سے کیے گئے تین بڑے حملے (روسی مسافر بردار طیارے پر حملہ، بیروت میں بم دھماکے اور پیرس حملہ) عیاں کرتے ہیں کہ تنظیم کی حکمت عملی تبدیل ہوچکی۔
ماہرین کا خیال ہے، اتحادی طیاروں کی بم باری نے نہ صرف داعش کا بھاری اسلحہ تباہ کیا بلکہ تیل کے کنوؤں کو بھی برباد کر ڈالا جن سے اسے بھاری آمدن ہوتی تھی۔ بھاری اسلحے اور ذرائع آمدن سے ہاتھ دھونے پر قائدین داعش شدید طیش میں آگئے لہٰذا انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور اسلامی ریاست سے باہر بھی مخالفین پر حملے کرنے لگے۔
داعش کی فوج میں پانچ چھ ہزار فوجی غیرملکی ہیں۔یہ یورپی، ایشیائی اور افریقی ممالک سے آ کر تنظیم میں شامل ہوئے۔اب قائدین ِداعش دنیا بھرمیں پھیلے ہمدردوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک ہی میں قیام کریں۔انھیں مناسب موقع پر ''عمل''کرنے کا اشارہ دیا جائے گا۔گویا یہ خطرہ جنم لے چکا کہ اب کئی ملکوں میں داعش کے ''سلیپنگ سیل''وجود میں آ جائیں گے۔
لبنان اور فرانس میں حملے افشا کرتے ہیں کہ داعش کئی ممالک میں اپنا جال بچھا چکی اور وہاں اس کے خاموش ہمدرد موجود ہیں۔ داعش جب چاہے ان کے ذریعے قتل و غارت کراسکتی ہے۔ چونکہ داعش کے پاس وسائل ہیں اور کثیر تعداد میں سرمایہ بھی اور وہ عالمی قوت بننے کی خواہش مند ہے، لہٰذا یہ حقائق اسے نہایت خطرناک تنظیم بنا ڈالتے ہیں۔ گویا آنے والے وقت میں داعش کے خصوصاً مغربی مخالفین مثلاً امریکا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور آسٹریلیا کو نہایت ہوشیار رہنا ہوگا۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی بڑی تعداد بستی ہے اور جن میں داعش سے نظریاتی قرب رکھنے والے شدت پسند مسلمان موجود ہوسکتے ہیں۔