دل ہی تو ہے۔۔۔۔
دنیا بھرکی شاعری میں عشقیہ جذبات کو موضوع سخن بنانا ایک عام سی بات ہے۔
دنیا بھرکی شاعری میں عشقیہ جذبات کو موضوع سخن بنانا ایک عام سی بات ہے۔ خصوصاً، اردو، فارسی اور ہندی شاعری میں یہ روایت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ہمارے تمام کلاسیکی اور جدید شعرا نے اس میدان میں خیالات و جذبات کے گھوڑے دوڑائے ہیں، ولی گجراتی سے لے کر میر تقی میر تک، امیر حسن سے لے کر غالب تک اور جوش صاحب سے لے کر مصطفیٰ زیدی تک، سبھی اس کار زار حیات کے شہسوار نکلے، گویا عشق کرنا اتنا ہی ضروری تھا جتنا کھانا پینا۔ یہی نہیں بلکہ ان 'کردہ اور ناکردہ' عشق کی داستانیں، یادوں کی برات، آپ بیتی، پاپ بیتی'' تک جا پہنچیں ۔
برصغیر پاک و ہند کا معاشرہ ایک تہذیب یافتہ ہے لیکن اسی مہذب معاشرے میں جہاں بیٹی باپ کے سامنے سر سے دوپٹہ نہیں سرکنے دیتی تھی، جہاں بھائی اپنی بہنوں کی عزت کے محافظ سمجھے جاتے ہیں، جہاں ایک عورت کا شادی کے بعد کسی دوسرے مرد کی طرف التفات سے دیکھنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے، وہیں اس سوسائٹی کے مرد ادیب اور شاعر برملا اپنا سامان رسوائی روزنامچے کی طرح لیے پھرتے ہیں لیکن کبھی برا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ یہ حق انھیں معاشرے نے دیا ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ پھر نہایت لطیف اور جذباتی (کسی حد تک غیر اخلاقی) انداز میں اپنے گناہ کھول کر بیان کریں اور نہ صرف واہ واہ کے ڈونگرے برسائیں، بلکہ کتابی صورت میں اپنی اپنی داستان عشق بھی بیان کریں ۔
اس وقت جو کتاب میرے سامنے ہے وہ انھی موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ یعنی ''دل ہی تو ہے'' جس میں راشد اشرف نے مشاہیر کی ذاتی زندگیوں کے وہ صفحات پیش کیے ہیں جن پر کسی نے لعنت ملامت کی تو کسی نے کہا کہ کائنات کا وجود بھی تو اظہار عشق ہی ہے۔ سچ ہے۔ محبت خدا ہے۔ رب کریم نے اس کائنات میں جو کچھ انسان کو دیا ہے وہ اس کی محبت و عنایت ہی تو ہے۔ محبت کا جذبہ تحفہ خداوندی ہے۔ آج جو دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پہ کھڑی ہے۔ اس کی وجہ انسانوں اور ملکوں کے درمیان پیار کا کم ہونا ہی تو ہے۔
بہرحال ذکر ہو رہا تھا، ان ذاتی زندگی کے موضوعات کا جو آپ بیتیوں اور خود نوشتوں کی صورت میں بازار ادب میں آئیں اور ان میں سے کچھ واقعات منتخب کر کے لوگوں کو ''نو رتن ہنڈیا'' کھلائی گئی ہے۔ یوپی والے اسے ''دیوانی ہنڈیا'' بھی کہتے ہیں۔ لیکن ایک سوال میرا سب سے ہے۔ وہ یہ کہ جس طرح جوش صاحب نے بڑھاپے میں اپنا اٹھارواں عشق کیا۔ گو کہ یکطرفہ تھا اور موصوفہ اپنے بھائی کی نوکری لگوانا چاہتی تھیں، جس میں وہ کامیاب بھی رہیں۔ یا قتیل شفائی، آغا حشر، شکیل عادل زادہ، آغا اشرف، ساقی فاروقی، اشفاق نقوی اور بہت سے لوگ جو سب مرد ہیں۔
کس شان سے اور اہتمام سے بیوی بچوں اور بہوؤں کے ہوتے ہوئے اپنے عشق کے قصے بیان کرتے ہیں اور داد پاتے ہیں کیونکہ انھیں یہ حق حاصل ہے کہ جو چاہیں کریں اور بیوی بچے یا والدین کوئی سوال بھی نہ کر سکیں۔ واہ کیا کہنے۔ لیکن کیا کسی عورت کو یہ سوسائٹی یہ حق دے گی کہ وہ بھی اپنی واردات قلبی بیان کرے؟ آخر کو وہ بھی تو انسان ہے اور محبت کا خمیر خدا نے عورت کے وجود میں زیادہ شامل کیا ہے؟
لیکن نہیں۔ عورت کو اس کی اجازت نہیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر شادی سے پہلے کوئی منگنی یا نکاح ہو کے ٹوٹ گیا تو ساری زندگی صفائیاں دیتے گزر جاتی ہے کہ ''ایسا کچھ بھی نہیں تھا''۔ دراصل ہماری سوسائٹی منافق ہے جو بات عورت کے لیے غلط ہے وہ مرد کے لیے صحیح کیوں ہے؟ یہ تضادات ہیں معاشرے کے جس کی وجہ سے بہت کچھ پردوں میں ہو جاتا ہے۔ دعا دیجیے ''فیس بک'' کو کہ اب نابالغ لڑکیاں بھی ان ادیبوں اور شاعروں سے چار ہاتھ آگے ہیں۔ جب ان کے قصے شایع ہوں گے تو لوگ واقعی انگشت بہ دنداں رہ جائیں گے۔ کیونکہ انٹرنیٹ، چیٹنگ اور فیس بک کی کہانیاں سرعام بیان نہ کی جاسکیں گی۔
چلیے اب آتے ہیں کتاب کی طرف۔ سوچتی ہوں کہ ''مطربہ'' کے شاعر نے ہر معاملے میں خود کو بالکل ''معصوم'' ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، اگر وہ مغنیہ نہ ہوتی تو موصوف صاحب دیوان بھی نہ ہوتے۔ ملاحظہ کیجیے :
''میری کتاب ''مطربہ'' میں جو نظمیں ہیں وہ رفاقت کے ساڑھے چار سال کے دوران کی ہیں۔ اس عرصے میں مجھے جو تجربے حاصل ہوئے ان کی یہ نظمیں عکاس ہیں۔'' موصوف نے مغنیہ کے تمام کام اپنے ذمے لے لیے تھے۔ ان کا جوان بیٹا پستول لیے گھومتا تھا، اور بے چاری بیوی سر پیٹتی تھی۔ موصوف نے ہر واقعے میں یہ ثابت کیا ہے کہ جتنی بھی عورتیں ان کی زندگی میں آئیں وہ ''زبردستی'' ان پر مسلط ہو گئیں، ورنہ تو وہ اپنی بیوی سے ہی مخلص تھے۔
''دل ہی تو ہے'' کی زیادہ تر آپ بیتیاں میں پہلے پڑھ چکی تھی لیکن واقعات کو یکجا کر کے اسے دو آتشہ بنا دیا گیا،کیا کہنے ہیں ان شاہ جی کے جو چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ تھے۔ نہ آنکھوں میں دم تھا نہ ہاتھوں میں جنبش، لیکن گلاب چہرے انھیں زندگی عطا کرتے تھے۔ موصوف کے بارے میں جو رائے ان کی منکوحہ نے دی ہے وہ بوجوہ یہاں نقل نہیں کی جا سکتی۔ مردوں نے تمام حقوق خود ساختہ طور پر اپنے لیے مخصوص کر لیے ہیں۔ پوری کتاب میں تبرکاً صرف سحاب قزلباش اور سلمیٰ صدیقی شامل ہیں۔
سلمیٰ نے کرشن چندر سے شادی کی، لیکن یہ جرم بھی مردوں کی عدالت میں ناقابل معافی ٹھہرا۔ ایک مذہبی جماعت آج تک تبرا بھیج رہی ہے کہ بھلا عورت ہو کر وہ بھی مسلمان؟ اور ہندو سے شادی؟ البتہ مرد حضرات جو چاہیں کریں اور جو ''کچھ'' زندگی میں کیا ہے اسے بلا کم و کاست بیان کرنا بھی مردانگی کی دلیل ہے۔ منکوحہ تو صرف بچوں کی ماں ہوتی ہے اور بس! لیکن میں راشد سے یہ ضرور کہوں گی کہ جس طرح ہر بات برملا کہنے کی نہیں ہوتی اسی طرح ہر تحریر شایع کرنے کے لیے بھی نہیں ہوتی۔ لیکن وہ انسانی نفسیات کے اس پہلو سے بھی یقیناً واقف ہیں کہ ایسی ہی بدنام زمانہ تحریروں کی شمولیت سے کتاب بکتی بھی ہے اسی لیے۔ ''آپ بیتی، پاپ بیتی'' کو شامل کیا گیا۔
لیکن راشد کو غالب اور ستم پیشہ ڈومنی کی داستان عشق یاد نہ آئی جسے غالب چودہویں کہتے تھے۔ شاید اس لیے کہ وہ صاحب ذوق تھی، غالب شناس تھی، اور ایک تہذیب کی پروردہ تھی۔ اس داستان عشق میں کوئی ''مصالحہ'' نہیں تھا۔ اسی طرح نیاز فتح پوری اور طاہرہ دیوی شیرازی والا واقعہ بھی موجود نہیں۔ ہرچند کہ طاہرہ دراصل فضل حق قریشی تھے، لیکن نیاز صاحب اسے محبوبہ سمجھ بیٹھے تھے۔
مصطفیٰ زیدی اور شہناز گل کا واقعہ اپنی بدنام شہرت کے باعث لوگوں کے ذہن میں اب بھی تازہ ہے، لیکن عطیہ فیضی اور علامہ اقبال کا جذباتی عشق بھی یہاں موجود نہیں۔ جب کہ شبلی، اقبال اور عطیہ فیضی کے خطوط موجود ہیں۔ ضیا الدین احمد برنی نے اقبال اور عطیہ کے خطوط شایع کیے ہیں، لیکن یہ مہذب عشق ہیں۔ ان میں نہ مبالغہ آرائی ہے نہ ''فتوحات'' کا ذکر۔ مشاہر والے حصے میں کم از کم عطیہ اور اقبال کو جگہ ضرور ملنی چاہیے تھی۔ کیونکہ ان خطوط میں اقبال ایک محبت کرنے والے انسان نظر آتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے بعض قصیدہ نگاروں نے انھیں انسان سے فرشتہ بنا کر ان کی اصل شخصیت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح فیض احمد فیض اور ڈاکٹر رشید جہاں کی باہمی دلچسپی بھی ایک زبردست واقعہ ہے۔ ڈاکٹر رشید جہاں دراصل فیض کی Mentor تھیں۔ لیکن فیض کا دل شاعر کا دل تھا، جو بہت گداز ہوتا ہے۔
بہرحال یہ کتاب دراصل Male Dominating Society کا عکس ہے اور خوب ہے۔ بڑے بڑے جغادری ادیب اور شاعر کس دیدہ دلیری سے واردات قلبی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ منکوحہ کی آہوں اور سسکیوں کا ذکر اسی فاتحانہ انداز سے کرتے نظر آتے ہیں جس طرح اپنی ''بزم آرائیوں'' کا۔ شاباش ہے جوش صاحب کی مظلوم بیگم اشرف جہاں پر کہ وہ ہر ''واردات'' سہتی رہیں۔ لیکن آخری واردات نے انھیں توڑ کے رکھ دیا کہ وہ جہاں بھی جاتی تھیں ملامت آمیز نظروں کا سامنا بھی کرتی تھیں اور میرے خیال میں یہی صدمہ انھیں لے ڈوبا۔ اقبال نے شاید انھی وجوہات کو کیفیات کو محسوس کر کے کہا تھا کہ ہندوستان کے شاعر اور ادیبوں کے اعصاب پر ہمیشہ عورتوں ہی کی حکمرانی رہی ہے۔
برصغیر پاک و ہند کا معاشرہ ایک تہذیب یافتہ ہے لیکن اسی مہذب معاشرے میں جہاں بیٹی باپ کے سامنے سر سے دوپٹہ نہیں سرکنے دیتی تھی، جہاں بھائی اپنی بہنوں کی عزت کے محافظ سمجھے جاتے ہیں، جہاں ایک عورت کا شادی کے بعد کسی دوسرے مرد کی طرف التفات سے دیکھنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے، وہیں اس سوسائٹی کے مرد ادیب اور شاعر برملا اپنا سامان رسوائی روزنامچے کی طرح لیے پھرتے ہیں لیکن کبھی برا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ یہ حق انھیں معاشرے نے دیا ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ پھر نہایت لطیف اور جذباتی (کسی حد تک غیر اخلاقی) انداز میں اپنے گناہ کھول کر بیان کریں اور نہ صرف واہ واہ کے ڈونگرے برسائیں، بلکہ کتابی صورت میں اپنی اپنی داستان عشق بھی بیان کریں ۔
اس وقت جو کتاب میرے سامنے ہے وہ انھی موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ یعنی ''دل ہی تو ہے'' جس میں راشد اشرف نے مشاہیر کی ذاتی زندگیوں کے وہ صفحات پیش کیے ہیں جن پر کسی نے لعنت ملامت کی تو کسی نے کہا کہ کائنات کا وجود بھی تو اظہار عشق ہی ہے۔ سچ ہے۔ محبت خدا ہے۔ رب کریم نے اس کائنات میں جو کچھ انسان کو دیا ہے وہ اس کی محبت و عنایت ہی تو ہے۔ محبت کا جذبہ تحفہ خداوندی ہے۔ آج جو دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پہ کھڑی ہے۔ اس کی وجہ انسانوں اور ملکوں کے درمیان پیار کا کم ہونا ہی تو ہے۔
بہرحال ذکر ہو رہا تھا، ان ذاتی زندگی کے موضوعات کا جو آپ بیتیوں اور خود نوشتوں کی صورت میں بازار ادب میں آئیں اور ان میں سے کچھ واقعات منتخب کر کے لوگوں کو ''نو رتن ہنڈیا'' کھلائی گئی ہے۔ یوپی والے اسے ''دیوانی ہنڈیا'' بھی کہتے ہیں۔ لیکن ایک سوال میرا سب سے ہے۔ وہ یہ کہ جس طرح جوش صاحب نے بڑھاپے میں اپنا اٹھارواں عشق کیا۔ گو کہ یکطرفہ تھا اور موصوفہ اپنے بھائی کی نوکری لگوانا چاہتی تھیں، جس میں وہ کامیاب بھی رہیں۔ یا قتیل شفائی، آغا حشر، شکیل عادل زادہ، آغا اشرف، ساقی فاروقی، اشفاق نقوی اور بہت سے لوگ جو سب مرد ہیں۔
کس شان سے اور اہتمام سے بیوی بچوں اور بہوؤں کے ہوتے ہوئے اپنے عشق کے قصے بیان کرتے ہیں اور داد پاتے ہیں کیونکہ انھیں یہ حق حاصل ہے کہ جو چاہیں کریں اور بیوی بچے یا والدین کوئی سوال بھی نہ کر سکیں۔ واہ کیا کہنے۔ لیکن کیا کسی عورت کو یہ سوسائٹی یہ حق دے گی کہ وہ بھی اپنی واردات قلبی بیان کرے؟ آخر کو وہ بھی تو انسان ہے اور محبت کا خمیر خدا نے عورت کے وجود میں زیادہ شامل کیا ہے؟
لیکن نہیں۔ عورت کو اس کی اجازت نہیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر شادی سے پہلے کوئی منگنی یا نکاح ہو کے ٹوٹ گیا تو ساری زندگی صفائیاں دیتے گزر جاتی ہے کہ ''ایسا کچھ بھی نہیں تھا''۔ دراصل ہماری سوسائٹی منافق ہے جو بات عورت کے لیے غلط ہے وہ مرد کے لیے صحیح کیوں ہے؟ یہ تضادات ہیں معاشرے کے جس کی وجہ سے بہت کچھ پردوں میں ہو جاتا ہے۔ دعا دیجیے ''فیس بک'' کو کہ اب نابالغ لڑکیاں بھی ان ادیبوں اور شاعروں سے چار ہاتھ آگے ہیں۔ جب ان کے قصے شایع ہوں گے تو لوگ واقعی انگشت بہ دنداں رہ جائیں گے۔ کیونکہ انٹرنیٹ، چیٹنگ اور فیس بک کی کہانیاں سرعام بیان نہ کی جاسکیں گی۔
چلیے اب آتے ہیں کتاب کی طرف۔ سوچتی ہوں کہ ''مطربہ'' کے شاعر نے ہر معاملے میں خود کو بالکل ''معصوم'' ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، اگر وہ مغنیہ نہ ہوتی تو موصوف صاحب دیوان بھی نہ ہوتے۔ ملاحظہ کیجیے :
''میری کتاب ''مطربہ'' میں جو نظمیں ہیں وہ رفاقت کے ساڑھے چار سال کے دوران کی ہیں۔ اس عرصے میں مجھے جو تجربے حاصل ہوئے ان کی یہ نظمیں عکاس ہیں۔'' موصوف نے مغنیہ کے تمام کام اپنے ذمے لے لیے تھے۔ ان کا جوان بیٹا پستول لیے گھومتا تھا، اور بے چاری بیوی سر پیٹتی تھی۔ موصوف نے ہر واقعے میں یہ ثابت کیا ہے کہ جتنی بھی عورتیں ان کی زندگی میں آئیں وہ ''زبردستی'' ان پر مسلط ہو گئیں، ورنہ تو وہ اپنی بیوی سے ہی مخلص تھے۔
''دل ہی تو ہے'' کی زیادہ تر آپ بیتیاں میں پہلے پڑھ چکی تھی لیکن واقعات کو یکجا کر کے اسے دو آتشہ بنا دیا گیا،کیا کہنے ہیں ان شاہ جی کے جو چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ تھے۔ نہ آنکھوں میں دم تھا نہ ہاتھوں میں جنبش، لیکن گلاب چہرے انھیں زندگی عطا کرتے تھے۔ موصوف کے بارے میں جو رائے ان کی منکوحہ نے دی ہے وہ بوجوہ یہاں نقل نہیں کی جا سکتی۔ مردوں نے تمام حقوق خود ساختہ طور پر اپنے لیے مخصوص کر لیے ہیں۔ پوری کتاب میں تبرکاً صرف سحاب قزلباش اور سلمیٰ صدیقی شامل ہیں۔
سلمیٰ نے کرشن چندر سے شادی کی، لیکن یہ جرم بھی مردوں کی عدالت میں ناقابل معافی ٹھہرا۔ ایک مذہبی جماعت آج تک تبرا بھیج رہی ہے کہ بھلا عورت ہو کر وہ بھی مسلمان؟ اور ہندو سے شادی؟ البتہ مرد حضرات جو چاہیں کریں اور جو ''کچھ'' زندگی میں کیا ہے اسے بلا کم و کاست بیان کرنا بھی مردانگی کی دلیل ہے۔ منکوحہ تو صرف بچوں کی ماں ہوتی ہے اور بس! لیکن میں راشد سے یہ ضرور کہوں گی کہ جس طرح ہر بات برملا کہنے کی نہیں ہوتی اسی طرح ہر تحریر شایع کرنے کے لیے بھی نہیں ہوتی۔ لیکن وہ انسانی نفسیات کے اس پہلو سے بھی یقیناً واقف ہیں کہ ایسی ہی بدنام زمانہ تحریروں کی شمولیت سے کتاب بکتی بھی ہے اسی لیے۔ ''آپ بیتی، پاپ بیتی'' کو شامل کیا گیا۔
لیکن راشد کو غالب اور ستم پیشہ ڈومنی کی داستان عشق یاد نہ آئی جسے غالب چودہویں کہتے تھے۔ شاید اس لیے کہ وہ صاحب ذوق تھی، غالب شناس تھی، اور ایک تہذیب کی پروردہ تھی۔ اس داستان عشق میں کوئی ''مصالحہ'' نہیں تھا۔ اسی طرح نیاز فتح پوری اور طاہرہ دیوی شیرازی والا واقعہ بھی موجود نہیں۔ ہرچند کہ طاہرہ دراصل فضل حق قریشی تھے، لیکن نیاز صاحب اسے محبوبہ سمجھ بیٹھے تھے۔
مصطفیٰ زیدی اور شہناز گل کا واقعہ اپنی بدنام شہرت کے باعث لوگوں کے ذہن میں اب بھی تازہ ہے، لیکن عطیہ فیضی اور علامہ اقبال کا جذباتی عشق بھی یہاں موجود نہیں۔ جب کہ شبلی، اقبال اور عطیہ فیضی کے خطوط موجود ہیں۔ ضیا الدین احمد برنی نے اقبال اور عطیہ کے خطوط شایع کیے ہیں، لیکن یہ مہذب عشق ہیں۔ ان میں نہ مبالغہ آرائی ہے نہ ''فتوحات'' کا ذکر۔ مشاہر والے حصے میں کم از کم عطیہ اور اقبال کو جگہ ضرور ملنی چاہیے تھی۔ کیونکہ ان خطوط میں اقبال ایک محبت کرنے والے انسان نظر آتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے بعض قصیدہ نگاروں نے انھیں انسان سے فرشتہ بنا کر ان کی اصل شخصیت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح فیض احمد فیض اور ڈاکٹر رشید جہاں کی باہمی دلچسپی بھی ایک زبردست واقعہ ہے۔ ڈاکٹر رشید جہاں دراصل فیض کی Mentor تھیں۔ لیکن فیض کا دل شاعر کا دل تھا، جو بہت گداز ہوتا ہے۔
بہرحال یہ کتاب دراصل Male Dominating Society کا عکس ہے اور خوب ہے۔ بڑے بڑے جغادری ادیب اور شاعر کس دیدہ دلیری سے واردات قلبی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ منکوحہ کی آہوں اور سسکیوں کا ذکر اسی فاتحانہ انداز سے کرتے نظر آتے ہیں جس طرح اپنی ''بزم آرائیوں'' کا۔ شاباش ہے جوش صاحب کی مظلوم بیگم اشرف جہاں پر کہ وہ ہر ''واردات'' سہتی رہیں۔ لیکن آخری واردات نے انھیں توڑ کے رکھ دیا کہ وہ جہاں بھی جاتی تھیں ملامت آمیز نظروں کا سامنا بھی کرتی تھیں اور میرے خیال میں یہی صدمہ انھیں لے ڈوبا۔ اقبال نے شاید انھی وجوہات کو کیفیات کو محسوس کر کے کہا تھا کہ ہندوستان کے شاعر اور ادیبوں کے اعصاب پر ہمیشہ عورتوں ہی کی حکمرانی رہی ہے۔