کیا مہذب اور کیا غیرمہذب دنیا بھر میں خواتین تشدد کا شکار
خواتین پر تشدد کی روک تھام کے سلسلے میں قوانین کی موجودگی اس قسم کے افسوسناک واقعات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے
خواتین پر تشدد دراصل اُس بیمار سوچ کا عکاس ہے جو بچیوں اور خواتین کو اُن کے جائز حقوق دینے کو کسی طرح بھی تیار نہیں۔ یہ بیمار سوچ کسی خاص معاشرے یا تہذیب تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں اس کی نمائندگی موجود ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر کوئی بھی ملک اس شرمناک فعل کے ارتکاب سے مبرا نہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے90 میں سے 85 معاشروںمیں بیویوں کو مارا پیٹا جاتا ہے جبکہ دنیا کی 70 فیصد تک خواتین اپنی زندگی میں تشدد کے بھیانک تجربے سے گزرتی ہیں۔ خواتین پر تشدد کے مضمرات سے معاشروں کو آگاہ کرنے اور اس قبیح فعل کو روکنے کی کوششوں کو تقویت دینے کی غرض سے ہر سال 25 نومبر کو اقوام متحدہ کے تحت دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ اور اس کے ساتھ ہی 25 نومبر سے10 دسمبر تک صنفی تشدد کے خلاف 16 روزہ عالمی مہم کا بھی آغاز ہو جاتا ہے۔
خواتین پر تشدد کی بہت سی صورتیں ہیں یہ جسمانی، جنسی، نفسیاتی اور معاشی کسی بھی حوالے سے ہو سکتاہے۔ یہ تما م صورتیں آپس میں باہم مربوط ہیں اور خواتین کی پیدائش سے بڑھاپے تک اُن پر اثر انداز ہوتی ہیں۔دنیا بھر میں خواتین کو درپیش ایک بڑا خطرہ ان پر تشدد خصوصاً جنسی تشدد اور حملوں کی صورت میں موجود ہے۔یو این ایف پی اے کے مطابق دنیا میں 50 فیصد جنسی حملوں کی شکارخواتین کی عمر15 سال سے کم ہوتی ہے۔
جبکہ2012 میں دنیا میں54 ہزار کم سن لڑکیوں جن کی عمر 10 سے 19 سال کے درمیان تھی تشدد کے باعث ہلاک ہوئیں۔ان میں سے30 ہزار بچیاں جنوب ایشیاء میں تشدد کے باعث اس دنیا سے منہ موڑ گئیں۔جبکہ دنیا میں ہر پانچ خواتین میں سے ایک اپنی پوری زندگی میںآبروریزی کے خطرے کا شکار رہتی ہے اورجنگ یا مسلح تصادم کی صورت میںتو خواتین پر تشددسنگین نوعیت اختیار کر جاتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل دنیا بھرمیں خواتین پر ہونے والے تشدد اور اُس کے امکانات کی منظر کشی یوں کرتا ہے کہ اگر دنیا ایک ہزار افراد پر مبنی ایک گاؤں ہو تو آدھی تعداد خواتین کی ہے جسے 510 ہونا چاہیئے تھا لیکن 10 کو صنفی بنیاد پر اسقاط حمل کے ذریعے پیدا ہی نہیں کیا گیایا پھروہ بچپن میں غفلت کے باعث مر گئیں۔ گاؤں کی مختلف کمیونٹیز ( گروہوں) میں لڑکیوں کو لڑکوں کے مقابلے میں کم قیمتی تصور کیا جاتاہے۔ گاؤں کی خواتین ایچ آئی وی/ ایڈز کے خطرہ کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔گاؤں میں3 خواتین پہلے ہی اس مرض کا شکار ہیں۔اور کم تعلیم اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں سے اُن کی آگہی محدود ہے۔
اس گاؤں میں167 خواتین کو مارا پیٹا جاتا ہے یا جنسی تعلقات پر مجبور کیا جاتا ہے اور تین میں سے ایک اس امکان کا شکارہوتی ہیںکہ اُن کے ساتھ ایسا سلوک ہوسکتا ہے۔گاؤں میں خواتین اپنے خاندان کے اراکین کے ہاتھوں قتل ہونے کے امکان کا بھی شکار رہتی ہیں۔70 فیصد خواتین کا قتل اُن کے مرد ساتھی/ شوہر کرتے ہیں۔گاؤں میںصرف60 فیصد خواتین اپنے اوپر ہونے والا تشدد ظاہر کرتی ہیں اور مزید70 فیصد کسی سروے کے انٹرویو کے وقت اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہیں۔100 خواتین عصمت دری یا اس کے اقدام کا شکار ہوتی ہیں۔اور خاص کر اگر گاؤں کسی مسلح تصادم کا شکار ہو۔گاؤں بھر میں خواتین پر تشدد رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کی تفتیش ہو تی ہے اور نہ ہی اسے چیک کیا جاتاہے۔
پاکستان بھی اس گلوبل ویلیج کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ جہاں خواتین پر تشدد کی کیفیت توجہ طلب صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے۔ جس کا اندازہ عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ سیچویشن آف وائلنس آگینسٹ وومن ان پاکستان 2013 ء کے اعداد وشمار کے تجزیہ سے لگایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں2008 سے 2013 تک خواتین پر تشدد کے واقعات میں 3.71 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اور 7571 سے بڑھ کر 7852واقعات ریکارڈ ہوئے۔ یوں 2013ء میں پاکستان میں ہر روز خواتین پر تشدد کے اوسطً 22 واقعات رپورٹ ہوئے۔ مذکورہ سال خواتین پر تشدد کے حوالے سے ڈسٹرکٹ فیصل آبادکی صورتحال سب سے ابتر رہی جہاں خواتین پر تشدد کے 1038واقعات رپورٹ ہوئے۔598 پُرتشدد واقعات کے ساتھ لاہور دوسرے اور راولپنڈی خواتین پر تشدد کے 430 واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے یہ واقعات ملک میں خواتین پر تشدد کی کسی حد تک صورتحال تو واضح کرتے ہیں لیکن مکمل منظر کشی نہیں کرتے۔کیونکہ یہ تمام اعدادوشمار اخباری خبروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اور گزشتہ کچھ سالوں سے ملک میں امن وامان کی صورتحال، غیر یقینی سیاسی فضاء، انتخابات، حادثات ، قدرتی آفات ، بین الاقوامی حالات اور سرحدوں پر بھارتی جارحیت میڈیا ( اخبارات )کی زیادہ توجہ کے مرکز رہے۔ان حالات میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات کی کیا پوری طرح رپورٹنگ ہوئی ہوگی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ ویسے بھی یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے زیادہ تر واقعات میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے ۔ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات کے اعدادوشمار کا ایک ذریعہ پولیس ریکارڈ بھی ہے۔ جس تک آسان رسائی ایک اہم ایشو ہے۔ لیکن یہ ذریعہ بھی مکمل طور پر Reliable نہیں۔
کیونکہ ہمارے پولیس نظام کی امیج، پولیس اہلکاروں کا رویہ اور تھانوں کا ماحول خواتین پر تشدد کے بہت سے واقعات کو رپورٹ ہی نہیں ہونے دیتا ۔ جب خواتین پر تشدد کے واقعات درج نہیں ہوں گے تو پھر کیسے اس مسئلہ پر قابو پانے کے لئے قانون کا سہارا لیا جا سکے گا؟۔ماہرین اس کا حل ملک میں موجود انصاف کے نظام خصوصاً پولیس میں خواتین کی شرکت کو قرار دیتے ہیں۔کیونکہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ امر ہے کہ پولیس میں خواتین اسٹاف کی موجودگی اور عصمت دری کے واقعات کی رپورٹنگ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
لیکن اس کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں صرف 9 فیصد پولیس خواتین اسٹاف پر مشتمل ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ دی ورلڈز وومن 2010 کے مطابق جنوب ایشیاء کی پولیس میں خواتین اسٹاف کا تناسب صرف تین فیصد ہے۔ جبکہIndividual land نامی غیر سرکاری تنظیم کی تحقیق کے مطابق پاکستانی پولیس میں تقریباً 3700 خواتین موجود ہیں جو کل تعداد کا ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔
دنیا کاشاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں خواتین کبھی نا کبھی مارپیٹ، دھونس دھمکیوں ، تذلیل اور محرومی کے مراحل سے نا گزرتی ہوں۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر تین میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میںGender based abuse کے تلخ تجربے سے گزرتی ہیں۔پاکستان میں بھی خواتین پر unreported تشدد کی کیفیت دنیا سے مختلف نہیں لیکن شاید کچھ زیادہ ضرور ہے۔پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 ملک میںخواتین پر ہونے والے تشدد کے بارے میں جو حقائق سامنے لاتا ہے اُس کے مطابق ملک میں 15 سے 49سال کی عمر کی 32.2 فیصدشادی شدہ خواتین جسمانی تشدد برداشت کرتی ہیں۔
جبکہ 38.5 فیصداپنے شوہروں کے ہاتھوںجسمانی یا جذباتی تشدد سہتی ہیں۔ملک میں سب سے زیادہ تشدد کی شکار بیویوں کے تناسب کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔جہاں 57.4 فیصد خواتین اپنے رفیقِ حیات کی جانب سے جسمانی یا جذباتی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔صنف نازک پر تشدد کی دوسری بڑی شرح بلوچستان کی خواتین پر مشتمل ہے جہاں50.1 فیصد خواتین اپنے زندگی کے ساتھی کی وحشت کا نشانہ بنتی ہیں۔
اس شرمناک فعل کی شکار تیسری نمایاں شرح پنجاب کی خواتین پر مبنی ہے صوبہ کی 39.3 فیصد خواتین اپنے شوہروں کی جانب سے اذیتیں برداشت کرتی ہیں۔ اسلام آباد میںیہ شرح 38.9 فیصد اور سندھ میں23 فیصد ہے ملک میں خواتین پر جسمانی یا جذباتی تشدد کی سب سے کم شرح گلگت بلتستان میں ہے پی ڈی ایچ ایس کے مطابق جہاں20 فیصد زوجائیں اس قبیح فعل کی زد میں آتی ہیں۔ ملک کے دیہی علاقوں میں خواتین پر ہاتھ اٹھانا یا اُن کی نفسیاتی طور پر تذلیل کرنا شہروںکی نسبت زیادہ ہے ۔ پاکستان کے دیہہ میں41.6 اور شہروں میں32.2 فیصد بیاہی خواتین ُپر تشدد واقعات کا سامنا کرتی ہیں۔
خواتین پر تشدد کے منظر عام پر آنے والے واقعات کے علاوہ اَن گنت کیسز سامنے ہی نہیں آتے اور گھروں کی چاردیواری کے اندر ہی دباء دیئے جاتے ہیں۔ چاہے وہ خواتین پر جسمانی تشدد ہو،نفسیاتی یا پھر معاشی' خواتین خود بھی اس کے بارے میں کم ہی زبان کھولتی ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے اعداد و شمار جو منظر نامہ پیش کررہے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ ملک میں15 سے 49 سال کی عمر کی جسمانی تشدد کا شکار51.3 فیصدشادی شدہ خواتین تشدد کے وقت نہ ہی مدد کے لئے کسی کو پکار تی ہیں اور نہ ہی کسی سے اُس کا ذکر کرتی ہیں۔خاموشی کی ان زنجیروں میں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا کی خواتین جکڑی ہوئی ہیںجہاں جسمانی تشدد کا شکار 66.8 فیصد خواتین اس حوالے سے چپ اختیار کرلیتی ہیں۔بلوچستان کی 66.4 فیصد خواتین اپنے پر ہونے والے تشدد کو چپ چاپ سہہ لیتی ہیں۔سندھ میں بھی صورتحال ملتی جلتی ہی ہے جہاں58.9 فیصد خواتین تشدد کے معاملے میں خاموشی ہی کو عافیت سمجھتی ہیں۔گلگت بلتستان کی 58 فیصد ،اسلام آباد کی 46.8 اور پنجاب کی 40.6 فیصدجسمانی تشدد کا شکار خواتین اپنے پر بیتی کا کسی اور سے تذکرہ ہی نہیں کرتیں۔
خواتین پر تشدد کی ایک اور اہم وجہ اور صورت اُن کی کم عمری میں شادی بھی ہے۔اقوام متحدہ کے آبادی کے فنڈکے مطابق دنیا میں ہر سال ایک کروڑ 40 لاکھ بچیاں جن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔یعنی 38 ہزار روزانہ اور ہر 30 سیکنڈ میں 13 کم سن لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2015 کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی شرح کے حوالے سے دنیا بھر میں64 ویں اور 15 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کی شرح کے حوالے سے 70 ویں نمبرپر ہے۔
خواتین پر ہونے والا کسی بھی قسم کا تشدد اُن کی جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی صحت کو ناصرف متاثرکرتا ہے۔بلکہ عوامی زندگی میں حصہ لینے کے لئے اُن کی صلاحیت کو ختم کردیتاہے۔اور اس تشدد کے اثرات آنے والی نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔ خصوصاً بچوں کی نفسیات، تر بیت اور نشوونما پر خواتین کے تشدد کا بہت منفی اثر پڑتا ہے۔خواتین پر تشدد خاندانوں اور کمیونٹیز کو نسل در نسل نقصان پہنچاتا ہے اور معاشرہ میں پائے جانے والے دیگر تشدد کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔
اس کے علاوہ معاشروں کو خواتین پر تشدد کی costs بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں جو بہت زیادہ ہے جس کی جانب بہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔اقوام متحدہ کے مطابق اس میں متاثرہ خواتین کے علاج اُن کی اور اُنکے بچوں کی معاونت اور گنہگاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے حوالے سے خدمات پر آنے والے اخراجات کی مالیت بھی شامل ہے براہ راست اخراجات کی مد میں آتے ہیں۔
جبکہ بالواسطہ اخراجات میں روزگار سے محرومی اور پیداواری عمل سے کٹ جانا اور انسانی درد اور مصائب شامل ہیں۔ امریکہ میں مرد ساتھیوں/خاوندوں کے ہاتھوں خواتین پر تشدد کی Cost 5.8 ارب ڈالر سالانہ ہے جس میں سے 4.1 ارب ڈالر اکیلے براہ راست میڈیکل کی سہولیات اور صحت کی دیکھ بھا ل کی خدمات پر خرچ ہوتے ہیں۔ جبکہ پیداوری عمل کو 1.8 ارب ڈالر کا نقصان ہو تا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں گھریلو تشدد کی بلواسطہ اور بالواسطہ Cost 23 ارب پاؤنڈسالانہ ہے۔
خواتین پر تشدد کی اتنی بڑی مالیت کے نقصانات کی مثالیںدراصل معاشروں میں اُس منفی تاثر کے باعث ہیں جس کے تحت مرد خواتین پر تشدد کو جائز قرار دیتے ہیںاور خواتین اپنے آپ پر تشدد کو جائز سمجھتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی پراگرس آف دی ورلڈز ویمن2011-12 نامی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 41 میں سے 17 ممالک میں ایک چوتھائی یا اس سے زائد افراد اس بات کو حق بجانب قرار دیتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو مارپیٹ سکتا ہے۔اوراقوام متحدہ کی رپورٹ دی ورلڈز وومن 2010 کے مطابق 33 ممالک جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ان کی 29 فیصد خواتین اس بات سے متفق ہیں کہ شوہر سے بحث کی پاداش میں خواتین کو مارا پیٹا جا سکتا ہے۔اور 21 فیصد کا کہنا تھا کہ کھانا کے جل جانے کی صورت میں خاوند بیوی پر تشدد کرسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق خواتین پر تشدد کی روک تھام کے سلسلے میں قوانین کی موجودگی اس قسم کے افسوسناک واقعات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے ممالک جہاں گھریلو تشدد پر قانون موجود نہیں وہاں 50 فیصد لوگ خواتین پر تشدد کو جائز قرار دیتے ہیں۔اور جن ممالک میں قوانین موجود ہیں وہاں22 فیصد لوگ اس خیال کے حامی ہیں۔ اگرچہ گزشتہ چار دہائیوں سے خواتین پر تشدد کو انسانی حقوق کی پامالی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔اور یہ سماجی پالیسی کا یک اہم حصہ ہے ۔
لیکن حکومتوں کا ردعمل اس حوالے سے یکساں نہیں کچھ ممالک نے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لئے جامع پالیسیز اختیار کی ہیں اور کچھ ابھی سست روی کا شکار ہیں۔ جس کا اندازہ اقوام متحدہ کی رپورٹ پراگرس آف دی ورلڈز وومن 2015-16 کے ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیاکے 195 ممالک میں سے 119 میں گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی کی جاچکی ہے جبکہ 42 ممالک میں ابھی گھریلو تشدد کے بارے میں قانون سازی موجود نہیں ۔ اور 34 ممالک کی اس حوالے سے معلومات موجود نہیں۔
اسی طرح جنسی ہرانسگی پر 125 ممالک میں قانون سازی موجود ہے جبکہ 36ممالک میں جنسی ہرانسگی کے حوالے سے قانون سازی ابھی نہیں ہوئی۔ اور 34 ممالک کی معلومات موجود نہیں۔جبکہ 132 ممالک نے شادی کے وقت مرد اور عورت کی کم ازکم عمر کو یکساں کردیا ہے اور 63 ممالک میں ابھی اس حوالے سے قانون سازی ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ 143 ممالک کے آئین میں خواتین اور مردوں کے درمیان برابری کو یقینی بنا یا گیا ہے۔52 ممالک نے ابھی یہ سفر طے کرنا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ عشرے کے دوران خواتین کے بارے میں ہونے والی قانون سازی خوش آئند ہے۔ جس میں قابل ذکر ہیں۔ لیکن ملک میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات ان قوانین پر موثر عملدارآمد کا تقاضا کرتے ہیں۔ کیونکہ خواتین پرتشدد برابری، ترقی اور امن کے مقاصد کے حصول کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے ۔ اور اس وقت ہماری اولین ضرورت امن اور ترقی ہے جن کے حصول کے لئے خواتین پر تشدد سے پاک معاشرے کا قیام ضروری ہے ۔
National Commission on the Status of Women Bill (2012), Acid Control and Acid Prevention Act (2011), Prevention of Anti-Women Practices (Criminal Laws Amendment) Act (2011), Protection Against Harassment of Women at the Workplace Act 2010, Section 509 of the Penal Code (amended in February 2010), Standard operating procedures for medico legal examination of women victims of violence (2010), Domestic Violence (Prevention and Protection) Bill (2009)
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے90 میں سے 85 معاشروںمیں بیویوں کو مارا پیٹا جاتا ہے جبکہ دنیا کی 70 فیصد تک خواتین اپنی زندگی میں تشدد کے بھیانک تجربے سے گزرتی ہیں۔ خواتین پر تشدد کے مضمرات سے معاشروں کو آگاہ کرنے اور اس قبیح فعل کو روکنے کی کوششوں کو تقویت دینے کی غرض سے ہر سال 25 نومبر کو اقوام متحدہ کے تحت دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ اور اس کے ساتھ ہی 25 نومبر سے10 دسمبر تک صنفی تشدد کے خلاف 16 روزہ عالمی مہم کا بھی آغاز ہو جاتا ہے۔
خواتین پر تشدد کی بہت سی صورتیں ہیں یہ جسمانی، جنسی، نفسیاتی اور معاشی کسی بھی حوالے سے ہو سکتاہے۔ یہ تما م صورتیں آپس میں باہم مربوط ہیں اور خواتین کی پیدائش سے بڑھاپے تک اُن پر اثر انداز ہوتی ہیں۔دنیا بھر میں خواتین کو درپیش ایک بڑا خطرہ ان پر تشدد خصوصاً جنسی تشدد اور حملوں کی صورت میں موجود ہے۔یو این ایف پی اے کے مطابق دنیا میں 50 فیصد جنسی حملوں کی شکارخواتین کی عمر15 سال سے کم ہوتی ہے۔
جبکہ2012 میں دنیا میں54 ہزار کم سن لڑکیوں جن کی عمر 10 سے 19 سال کے درمیان تھی تشدد کے باعث ہلاک ہوئیں۔ان میں سے30 ہزار بچیاں جنوب ایشیاء میں تشدد کے باعث اس دنیا سے منہ موڑ گئیں۔جبکہ دنیا میں ہر پانچ خواتین میں سے ایک اپنی پوری زندگی میںآبروریزی کے خطرے کا شکار رہتی ہے اورجنگ یا مسلح تصادم کی صورت میںتو خواتین پر تشددسنگین نوعیت اختیار کر جاتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل دنیا بھرمیں خواتین پر ہونے والے تشدد اور اُس کے امکانات کی منظر کشی یوں کرتا ہے کہ اگر دنیا ایک ہزار افراد پر مبنی ایک گاؤں ہو تو آدھی تعداد خواتین کی ہے جسے 510 ہونا چاہیئے تھا لیکن 10 کو صنفی بنیاد پر اسقاط حمل کے ذریعے پیدا ہی نہیں کیا گیایا پھروہ بچپن میں غفلت کے باعث مر گئیں۔ گاؤں کی مختلف کمیونٹیز ( گروہوں) میں لڑکیوں کو لڑکوں کے مقابلے میں کم قیمتی تصور کیا جاتاہے۔ گاؤں کی خواتین ایچ آئی وی/ ایڈز کے خطرہ کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔گاؤں میں3 خواتین پہلے ہی اس مرض کا شکار ہیں۔اور کم تعلیم اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں سے اُن کی آگہی محدود ہے۔
اس گاؤں میں167 خواتین کو مارا پیٹا جاتا ہے یا جنسی تعلقات پر مجبور کیا جاتا ہے اور تین میں سے ایک اس امکان کا شکارہوتی ہیںکہ اُن کے ساتھ ایسا سلوک ہوسکتا ہے۔گاؤں میں خواتین اپنے خاندان کے اراکین کے ہاتھوں قتل ہونے کے امکان کا بھی شکار رہتی ہیں۔70 فیصد خواتین کا قتل اُن کے مرد ساتھی/ شوہر کرتے ہیں۔گاؤں میںصرف60 فیصد خواتین اپنے اوپر ہونے والا تشدد ظاہر کرتی ہیں اور مزید70 فیصد کسی سروے کے انٹرویو کے وقت اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہیں۔100 خواتین عصمت دری یا اس کے اقدام کا شکار ہوتی ہیں۔اور خاص کر اگر گاؤں کسی مسلح تصادم کا شکار ہو۔گاؤں بھر میں خواتین پر تشدد رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کی تفتیش ہو تی ہے اور نہ ہی اسے چیک کیا جاتاہے۔
پاکستان بھی اس گلوبل ویلیج کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ جہاں خواتین پر تشدد کی کیفیت توجہ طلب صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے۔ جس کا اندازہ عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ سیچویشن آف وائلنس آگینسٹ وومن ان پاکستان 2013 ء کے اعداد وشمار کے تجزیہ سے لگایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں2008 سے 2013 تک خواتین پر تشدد کے واقعات میں 3.71 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اور 7571 سے بڑھ کر 7852واقعات ریکارڈ ہوئے۔ یوں 2013ء میں پاکستان میں ہر روز خواتین پر تشدد کے اوسطً 22 واقعات رپورٹ ہوئے۔ مذکورہ سال خواتین پر تشدد کے حوالے سے ڈسٹرکٹ فیصل آبادکی صورتحال سب سے ابتر رہی جہاں خواتین پر تشدد کے 1038واقعات رپورٹ ہوئے۔598 پُرتشدد واقعات کے ساتھ لاہور دوسرے اور راولپنڈی خواتین پر تشدد کے 430 واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے یہ واقعات ملک میں خواتین پر تشدد کی کسی حد تک صورتحال تو واضح کرتے ہیں لیکن مکمل منظر کشی نہیں کرتے۔کیونکہ یہ تمام اعدادوشمار اخباری خبروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اور گزشتہ کچھ سالوں سے ملک میں امن وامان کی صورتحال، غیر یقینی سیاسی فضاء، انتخابات، حادثات ، قدرتی آفات ، بین الاقوامی حالات اور سرحدوں پر بھارتی جارحیت میڈیا ( اخبارات )کی زیادہ توجہ کے مرکز رہے۔ان حالات میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات کی کیا پوری طرح رپورٹنگ ہوئی ہوگی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ ویسے بھی یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے زیادہ تر واقعات میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے ۔ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات کے اعدادوشمار کا ایک ذریعہ پولیس ریکارڈ بھی ہے۔ جس تک آسان رسائی ایک اہم ایشو ہے۔ لیکن یہ ذریعہ بھی مکمل طور پر Reliable نہیں۔
کیونکہ ہمارے پولیس نظام کی امیج، پولیس اہلکاروں کا رویہ اور تھانوں کا ماحول خواتین پر تشدد کے بہت سے واقعات کو رپورٹ ہی نہیں ہونے دیتا ۔ جب خواتین پر تشدد کے واقعات درج نہیں ہوں گے تو پھر کیسے اس مسئلہ پر قابو پانے کے لئے قانون کا سہارا لیا جا سکے گا؟۔ماہرین اس کا حل ملک میں موجود انصاف کے نظام خصوصاً پولیس میں خواتین کی شرکت کو قرار دیتے ہیں۔کیونکہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ امر ہے کہ پولیس میں خواتین اسٹاف کی موجودگی اور عصمت دری کے واقعات کی رپورٹنگ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
لیکن اس کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ دنیا میں صرف 9 فیصد پولیس خواتین اسٹاف پر مشتمل ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ دی ورلڈز وومن 2010 کے مطابق جنوب ایشیاء کی پولیس میں خواتین اسٹاف کا تناسب صرف تین فیصد ہے۔ جبکہIndividual land نامی غیر سرکاری تنظیم کی تحقیق کے مطابق پاکستانی پولیس میں تقریباً 3700 خواتین موجود ہیں جو کل تعداد کا ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔
دنیا کاشاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں خواتین کبھی نا کبھی مارپیٹ، دھونس دھمکیوں ، تذلیل اور محرومی کے مراحل سے نا گزرتی ہوں۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر تین میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میںGender based abuse کے تلخ تجربے سے گزرتی ہیں۔پاکستان میں بھی خواتین پر unreported تشدد کی کیفیت دنیا سے مختلف نہیں لیکن شاید کچھ زیادہ ضرور ہے۔پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 ملک میںخواتین پر ہونے والے تشدد کے بارے میں جو حقائق سامنے لاتا ہے اُس کے مطابق ملک میں 15 سے 49سال کی عمر کی 32.2 فیصدشادی شدہ خواتین جسمانی تشدد برداشت کرتی ہیں۔
جبکہ 38.5 فیصداپنے شوہروں کے ہاتھوںجسمانی یا جذباتی تشدد سہتی ہیں۔ملک میں سب سے زیادہ تشدد کی شکار بیویوں کے تناسب کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔جہاں 57.4 فیصد خواتین اپنے رفیقِ حیات کی جانب سے جسمانی یا جذباتی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔صنف نازک پر تشدد کی دوسری بڑی شرح بلوچستان کی خواتین پر مشتمل ہے جہاں50.1 فیصد خواتین اپنے زندگی کے ساتھی کی وحشت کا نشانہ بنتی ہیں۔
اس شرمناک فعل کی شکار تیسری نمایاں شرح پنجاب کی خواتین پر مبنی ہے صوبہ کی 39.3 فیصد خواتین اپنے شوہروں کی جانب سے اذیتیں برداشت کرتی ہیں۔ اسلام آباد میںیہ شرح 38.9 فیصد اور سندھ میں23 فیصد ہے ملک میں خواتین پر جسمانی یا جذباتی تشدد کی سب سے کم شرح گلگت بلتستان میں ہے پی ڈی ایچ ایس کے مطابق جہاں20 فیصد زوجائیں اس قبیح فعل کی زد میں آتی ہیں۔ ملک کے دیہی علاقوں میں خواتین پر ہاتھ اٹھانا یا اُن کی نفسیاتی طور پر تذلیل کرنا شہروںکی نسبت زیادہ ہے ۔ پاکستان کے دیہہ میں41.6 اور شہروں میں32.2 فیصد بیاہی خواتین ُپر تشدد واقعات کا سامنا کرتی ہیں۔
خواتین پر تشدد کے منظر عام پر آنے والے واقعات کے علاوہ اَن گنت کیسز سامنے ہی نہیں آتے اور گھروں کی چاردیواری کے اندر ہی دباء دیئے جاتے ہیں۔ چاہے وہ خواتین پر جسمانی تشدد ہو،نفسیاتی یا پھر معاشی' خواتین خود بھی اس کے بارے میں کم ہی زبان کھولتی ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے اعداد و شمار جو منظر نامہ پیش کررہے ہیں وہ کچھ یوں ہے کہ ملک میں15 سے 49 سال کی عمر کی جسمانی تشدد کا شکار51.3 فیصدشادی شدہ خواتین تشدد کے وقت نہ ہی مدد کے لئے کسی کو پکار تی ہیں اور نہ ہی کسی سے اُس کا ذکر کرتی ہیں۔خاموشی کی ان زنجیروں میں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا کی خواتین جکڑی ہوئی ہیںجہاں جسمانی تشدد کا شکار 66.8 فیصد خواتین اس حوالے سے چپ اختیار کرلیتی ہیں۔بلوچستان کی 66.4 فیصد خواتین اپنے پر ہونے والے تشدد کو چپ چاپ سہہ لیتی ہیں۔سندھ میں بھی صورتحال ملتی جلتی ہی ہے جہاں58.9 فیصد خواتین تشدد کے معاملے میں خاموشی ہی کو عافیت سمجھتی ہیں۔گلگت بلتستان کی 58 فیصد ،اسلام آباد کی 46.8 اور پنجاب کی 40.6 فیصدجسمانی تشدد کا شکار خواتین اپنے پر بیتی کا کسی اور سے تذکرہ ہی نہیں کرتیں۔
خواتین پر تشدد کی ایک اور اہم وجہ اور صورت اُن کی کم عمری میں شادی بھی ہے۔اقوام متحدہ کے آبادی کے فنڈکے مطابق دنیا میں ہر سال ایک کروڑ 40 لاکھ بچیاں جن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں۔یعنی 38 ہزار روزانہ اور ہر 30 سیکنڈ میں 13 کم سن لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2015 کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی شرح کے حوالے سے دنیا بھر میں64 ویں اور 15 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کی شرح کے حوالے سے 70 ویں نمبرپر ہے۔
خواتین پر ہونے والا کسی بھی قسم کا تشدد اُن کی جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی صحت کو ناصرف متاثرکرتا ہے۔بلکہ عوامی زندگی میں حصہ لینے کے لئے اُن کی صلاحیت کو ختم کردیتاہے۔اور اس تشدد کے اثرات آنے والی نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔ خصوصاً بچوں کی نفسیات، تر بیت اور نشوونما پر خواتین کے تشدد کا بہت منفی اثر پڑتا ہے۔خواتین پر تشدد خاندانوں اور کمیونٹیز کو نسل در نسل نقصان پہنچاتا ہے اور معاشرہ میں پائے جانے والے دیگر تشدد کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔
اس کے علاوہ معاشروں کو خواتین پر تشدد کی costs بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں جو بہت زیادہ ہے جس کی جانب بہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔اقوام متحدہ کے مطابق اس میں متاثرہ خواتین کے علاج اُن کی اور اُنکے بچوں کی معاونت اور گنہگاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے حوالے سے خدمات پر آنے والے اخراجات کی مالیت بھی شامل ہے براہ راست اخراجات کی مد میں آتے ہیں۔
جبکہ بالواسطہ اخراجات میں روزگار سے محرومی اور پیداواری عمل سے کٹ جانا اور انسانی درد اور مصائب شامل ہیں۔ امریکہ میں مرد ساتھیوں/خاوندوں کے ہاتھوں خواتین پر تشدد کی Cost 5.8 ارب ڈالر سالانہ ہے جس میں سے 4.1 ارب ڈالر اکیلے براہ راست میڈیکل کی سہولیات اور صحت کی دیکھ بھا ل کی خدمات پر خرچ ہوتے ہیں۔ جبکہ پیداوری عمل کو 1.8 ارب ڈالر کا نقصان ہو تا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں گھریلو تشدد کی بلواسطہ اور بالواسطہ Cost 23 ارب پاؤنڈسالانہ ہے۔
خواتین پر تشدد کی اتنی بڑی مالیت کے نقصانات کی مثالیںدراصل معاشروں میں اُس منفی تاثر کے باعث ہیں جس کے تحت مرد خواتین پر تشدد کو جائز قرار دیتے ہیںاور خواتین اپنے آپ پر تشدد کو جائز سمجھتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی پراگرس آف دی ورلڈز ویمن2011-12 نامی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 41 میں سے 17 ممالک میں ایک چوتھائی یا اس سے زائد افراد اس بات کو حق بجانب قرار دیتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو مارپیٹ سکتا ہے۔اوراقوام متحدہ کی رپورٹ دی ورلڈز وومن 2010 کے مطابق 33 ممالک جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ان کی 29 فیصد خواتین اس بات سے متفق ہیں کہ شوہر سے بحث کی پاداش میں خواتین کو مارا پیٹا جا سکتا ہے۔اور 21 فیصد کا کہنا تھا کہ کھانا کے جل جانے کی صورت میں خاوند بیوی پر تشدد کرسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق خواتین پر تشدد کی روک تھام کے سلسلے میں قوانین کی موجودگی اس قسم کے افسوسناک واقعات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے ممالک جہاں گھریلو تشدد پر قانون موجود نہیں وہاں 50 فیصد لوگ خواتین پر تشدد کو جائز قرار دیتے ہیں۔اور جن ممالک میں قوانین موجود ہیں وہاں22 فیصد لوگ اس خیال کے حامی ہیں۔ اگرچہ گزشتہ چار دہائیوں سے خواتین پر تشدد کو انسانی حقوق کی پامالی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔اور یہ سماجی پالیسی کا یک اہم حصہ ہے ۔
لیکن حکومتوں کا ردعمل اس حوالے سے یکساں نہیں کچھ ممالک نے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لئے جامع پالیسیز اختیار کی ہیں اور کچھ ابھی سست روی کا شکار ہیں۔ جس کا اندازہ اقوام متحدہ کی رپورٹ پراگرس آف دی ورلڈز وومن 2015-16 کے ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیاکے 195 ممالک میں سے 119 میں گھریلو تشدد کے خلاف قانون سازی کی جاچکی ہے جبکہ 42 ممالک میں ابھی گھریلو تشدد کے بارے میں قانون سازی موجود نہیں ۔ اور 34 ممالک کی اس حوالے سے معلومات موجود نہیں۔
اسی طرح جنسی ہرانسگی پر 125 ممالک میں قانون سازی موجود ہے جبکہ 36ممالک میں جنسی ہرانسگی کے حوالے سے قانون سازی ابھی نہیں ہوئی۔ اور 34 ممالک کی معلومات موجود نہیں۔جبکہ 132 ممالک نے شادی کے وقت مرد اور عورت کی کم ازکم عمر کو یکساں کردیا ہے اور 63 ممالک میں ابھی اس حوالے سے قانون سازی ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ 143 ممالک کے آئین میں خواتین اور مردوں کے درمیان برابری کو یقینی بنا یا گیا ہے۔52 ممالک نے ابھی یہ سفر طے کرنا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ عشرے کے دوران خواتین کے بارے میں ہونے والی قانون سازی خوش آئند ہے۔ جس میں قابل ذکر ہیں۔ لیکن ملک میں خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات ان قوانین پر موثر عملدارآمد کا تقاضا کرتے ہیں۔ کیونکہ خواتین پرتشدد برابری، ترقی اور امن کے مقاصد کے حصول کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے ۔ اور اس وقت ہماری اولین ضرورت امن اور ترقی ہے جن کے حصول کے لئے خواتین پر تشدد سے پاک معاشرے کا قیام ضروری ہے ۔
National Commission on the Status of Women Bill (2012), Acid Control and Acid Prevention Act (2011), Prevention of Anti-Women Practices (Criminal Laws Amendment) Act (2011), Protection Against Harassment of Women at the Workplace Act 2010, Section 509 of the Penal Code (amended in February 2010), Standard operating procedures for medico legal examination of women victims of violence (2010), Domestic Violence (Prevention and Protection) Bill (2009)