گلشن اقبال شہریوں کو نئے انداز میں لوٹنے والا گروہ سرگرم
کار میں بیٹھا بہروپیا پوچھتا ہے کیا پاکستان کاسب سے بڑا نوٹ 100روپے کاہے؟
گلشن اقبال میں عام شہریوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لوٹنے والے نئے گروہ کا انکشاف ہوا ہے۔
اس گروہ سے وابستہ افراد خود کوغیر ملکی باشندہ ظاہر کرکے شہریوں کی جیبیں خالی کر کے فرار ہو جاتے ہیں، یہ گروہ 2 سے3 ملزمان پر مشتمل ہے، کار سوار گروہ کسی بھی معزز شہری کو راہ چلتے روکتا ہے کار میں موجود ایک شخص جوکوٹ پینٹ پہنے ہوتا ہے وہ 100روپے کا نوٹ جیب سے نکال کرعربی یا انگریزی زبان میں شہریوں سے پوچھتا ہے کہ 100روپے کا نوٹ کیا ملک کا سب سے بڑا نوٹ ہے اور جب شہریوں کی جانب سے منع کیا جاتا ہے اور شہری بتاتے ہیں کہ پاکستان میں1000روپے اور 500 روپے کا نوٹ ملک میں بڑے نوٹ ہیں توخود کو غیر ملکی ظاہر کرنے والا یہ شخص شہریوں سے1000روپے کا نوٹ اور500 روپے کا نوٹ دکھا نے کو کہتا ہے اور اگر شہری نوٹ نہ دکھائیں تو کار میں ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھا شخص ایک پاسپورٹ دکھاتا ہے اور شہریوں کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد شہریوں کی جیبیں خالی کرکے فرار ہوجاتا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ گلشن اقبال بلاک 4 ڈسکوری جنرل اسٹور کے قریب ریجنسی اپارٹمنٹ کے رہائشی میڈیکل اسٹورکے مالک جہانگیر نامی شخص کے ساتھ پیش آیا، متاثرہ شخص نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ واردات میں سیاہ رنگ کی کرولا کار استعمال کی گئی تھی اور کار سوارگروہ ان کی جیب سے 10 ہزار روپے لوٹ کرفرار ہوگیا ہے ، انھوں نے بتایا کہ جب گروہ کے ارکان نے انھیں1000روپے کا نوٹ اور500 روپے دکھانے کاکہا توانھوں نے انھیں منی چینجر جانے کا مشورہ دیا لیکن گروہ کے رکن اور غیر ملکی باشندے کا روپ دھارے شخص نے ان کی جیب میں ہاتھ ڈال دیا اور بٹوہ نکال کر پیسے دیکھنے لگا اور کچھ دیر بعد بٹوہ واپس کردیا اور کار میں بیٹھ کر فرار ہوگیا۔
میڈیل اسٹور کے مالک نے بتایا کہ جب انھوں نے گھر پہنچ کر اپنا بٹوہ دوبارہ دیکھا تو بٹوے سے10ہزار روپے غائب تھے اور اس واقعے سے متعلق جب شہری جہانگیر نے اپنے قریبی لوگوں اور علاقہ مکینوں کو بتایا تو علاقہ مکینوں کاکہنا تھا کہ کار سوار گروہ گلشن اقبال بلاک 4 میں متعدد وارداتیں کر چکا ہے اورمتعلقہ پولیس اسٹیشن کو آگا ہ کیے جانے کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہو ئی اور نہ ہی گروہ گرفتار ہو سکا ہے۔
اس گروہ سے وابستہ افراد خود کوغیر ملکی باشندہ ظاہر کرکے شہریوں کی جیبیں خالی کر کے فرار ہو جاتے ہیں، یہ گروہ 2 سے3 ملزمان پر مشتمل ہے، کار سوار گروہ کسی بھی معزز شہری کو راہ چلتے روکتا ہے کار میں موجود ایک شخص جوکوٹ پینٹ پہنے ہوتا ہے وہ 100روپے کا نوٹ جیب سے نکال کرعربی یا انگریزی زبان میں شہریوں سے پوچھتا ہے کہ 100روپے کا نوٹ کیا ملک کا سب سے بڑا نوٹ ہے اور جب شہریوں کی جانب سے منع کیا جاتا ہے اور شہری بتاتے ہیں کہ پاکستان میں1000روپے اور 500 روپے کا نوٹ ملک میں بڑے نوٹ ہیں توخود کو غیر ملکی ظاہر کرنے والا یہ شخص شہریوں سے1000روپے کا نوٹ اور500 روپے کا نوٹ دکھا نے کو کہتا ہے اور اگر شہری نوٹ نہ دکھائیں تو کار میں ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھا شخص ایک پاسپورٹ دکھاتا ہے اور شہریوں کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد شہریوں کی جیبیں خالی کرکے فرار ہوجاتا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ گلشن اقبال بلاک 4 ڈسکوری جنرل اسٹور کے قریب ریجنسی اپارٹمنٹ کے رہائشی میڈیکل اسٹورکے مالک جہانگیر نامی شخص کے ساتھ پیش آیا، متاثرہ شخص نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ واردات میں سیاہ رنگ کی کرولا کار استعمال کی گئی تھی اور کار سوارگروہ ان کی جیب سے 10 ہزار روپے لوٹ کرفرار ہوگیا ہے ، انھوں نے بتایا کہ جب گروہ کے ارکان نے انھیں1000روپے کا نوٹ اور500 روپے دکھانے کاکہا توانھوں نے انھیں منی چینجر جانے کا مشورہ دیا لیکن گروہ کے رکن اور غیر ملکی باشندے کا روپ دھارے شخص نے ان کی جیب میں ہاتھ ڈال دیا اور بٹوہ نکال کر پیسے دیکھنے لگا اور کچھ دیر بعد بٹوہ واپس کردیا اور کار میں بیٹھ کر فرار ہوگیا۔
میڈیل اسٹور کے مالک نے بتایا کہ جب انھوں نے گھر پہنچ کر اپنا بٹوہ دوبارہ دیکھا تو بٹوے سے10ہزار روپے غائب تھے اور اس واقعے سے متعلق جب شہری جہانگیر نے اپنے قریبی لوگوں اور علاقہ مکینوں کو بتایا تو علاقہ مکینوں کاکہنا تھا کہ کار سوار گروہ گلشن اقبال بلاک 4 میں متعدد وارداتیں کر چکا ہے اورمتعلقہ پولیس اسٹیشن کو آگا ہ کیے جانے کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہو ئی اور نہ ہی گروہ گرفتار ہو سکا ہے۔