جنید کا روم
اس میں مذہبی سیاح بھی شامل ہیں۔مگرمذہب کی قیدسے آزادپوری دنیاسے سیاح یہاں آتے رہتے ہیں۔
روم بذات خود ایک میوزیم ہے۔ہزاروںسالوں سے قائم ایک دلفریب شہر۔کبھی کبھی ذہن میں خیال آتاہے کہ اگرخدا روم کی عمارتوں میں لگی اینٹوں اورپتھروں کو زبان دے ڈالے توایک عجیب طرح کی قیامت آجائیگی۔ تاریخ کاایک ایک ورق تبدیل ہوجائے گا۔ورق کیا، شائد تاریخ کی اکثرگرہیں کھل جائیں یاشائدبندش ہوجائے ہیں۔میں الجیریا سے روم آچکا ہوں۔
اٹلی یورپ کاپاکستان ہے۔خدانے اس ملک کوہرنعمت دے ڈالی ہے۔بہترین موسم،پھل،زرخیزخطہ اورذہین لوگ۔ مگرقدرت کااپنانظام ہے۔معلوم وجوہات کی بناپروہ تمام منفی عناصرحکومت میں سرایت کرچکے ہیںجوکسی بھی بربادشدہ ملک میں موجودہوتے ہیں۔کرپشن نے دنیاکے اس امیرملک کوبھکاری بناڈالاہے۔سیاستدانوں،سرکاری عمال اورفوج کے اعلیٰ افسروں نے اٹلی کے نظامِ حکومت کی چولیں ہلاڈالیں ہیں۔سیاستدان ہروہ وعدہ کرتے ہیں،جوپورانھیں کر سکتے۔ ہر سودے اورمعاہدہ میں کمیشن مانگنے کاراج بالکل ہماری طرح ہے۔اوپرسے لے کرنیچے تک کسی دفترمیں بابوؤںکی مٹھی گرم کیے بغیرآپ کچھ نہیں کرسکتے۔میرامشورہ ہے کہ پاکستان اوراٹلی کو ایک جیسے حالات کی بدولت"جڑواں ممالک "قرار دینے پرغورکرناچاہیے۔حیرت ہے کہ ابھی ہمارے مقتدرلوگ اس باصلاحیت ملک سے کیوں فیضیاب نہیں ہوئے۔ مگرمیں یقین سے عرض کرسکتاہوں کہ ہمارے سیاستدان ایک نہ ایک دن اس ملک سے ضرورفائدہ اٹھائیں گے۔مگرچھوڑیے،میں کن باتوں کولے کربیٹھ گیا۔ اسطرح کی باتیں تودرجنوں قلمی مزدورروزلکھتے ہیں جنکاکوئی اثرنہیں ہوتا۔ہوگابھی نہیں۔
کل دوپہرکے کھانے کے لیے ایک درمیانہ درجہ کے ہوٹل میں بیٹھاتھا۔ایک نوجوان جس نے مناسب کپڑے پہن رکھے تھے قریب آیااوربھیک مانگنی شروع کردی۔وہ غیرملکی سیاحوں پرزیادہ محنت کررہاتھا۔اپناآدھاکھانااس فقیرکے حوالے کردیا۔خوشی سے اگلی میزپرجاکردوبارہ بھیک مانگنے لگا۔ہوٹل کی انتظامیہ نے اسے کچھ نہیں کہا۔ویٹربھی خاموش رہے۔لگتاہے کہ یہاں بھیک مانگنے پرکوئی پابندی نہیں۔آپ کسی بھی جگہ دستِ سوال درازکرسکتے ہیں۔مقامی لوگ اس بھکاری کوکچھ نہیں دے رہے تھے۔
گزشتہ دن کابیشترحصہ ویٹیکن(Vatican)کودیکھتے ہوئے گزرا۔آپکوشائدمعلوم نہ ہو ویٹیکن ایک خودمختارملک ہے۔دنیاکاسب سے چھوٹاملک۔پوپ اس کا بادشاہ، رہبریا لیڈرہوتاہے۔ عیسائی مذہب کے ایک فرقہ کے لیے انتہائی مقدس ہے۔جس طرح ہمارے لیے سرزمین حجاز۔ ویٹیکن انتہائی خوبصورت مقام ہے۔ہزاروں برس قدیم عمارتوں پر مشتمل۔ تمام عمارتوں کے اوپر مذہبی پیشواؤں کے انتہائی دیدہ زیب مجسمے نصب کیے گئے ہیں۔ہرمجسمہ آرٹ کاایک نادرشہکار ہے۔ان بادشاہوں اور ملکاؤں کے پتلے بھی نصب ہیں جنہوں نے اس مذہبی جگہ کوبنانے میں مددکی تھی۔ ویٹیکن کوبنانے میں ڈیڑھ سوسال لگے تھے۔یہاں کاآرٹیکچرمحیرالعقول حد تک خوبصورت ہے۔ ویٹیکن کے بالکل درمیان میں ایک بہت بڑا دالان ہے۔اس میں دولاکھ کے قریب لوگ سماسکتے ہیں۔ ہر وقت سیاحوں سے بھرارہتاہے۔
اس میں مذہبی سیاح بھی شامل ہیں۔مگرمذہب کی قیدسے آزادپوری دنیاسے سیاح یہاں آتے رہتے ہیں۔پوپ بھی یہیں رہتا ہے۔ ہر اتوار کو اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہرنکل کرلوگوں کوخطاب کرتا ہے۔ اتواروالے دن دالان لوگوں سے کچھاکھچ بھراہوتاہے۔لوگ اپنے گناہ بخشوانے اورثواب حاصل کرنے کے لیے ہرطرح اپنے دل کو مطمئن کرتے ہیں۔ہمارے اس مقام پرآنے سے چند گھنٹے پہلے جارج بش یہاں آیاہواتھا۔ویسے اس سابقہ امریکی صدرکے جرائم اتنے زیادہ ہیں کہ اسے پوپ کا مجاور بن جانا چاہیے۔مگرکفارہ پھر بھی ادانہ ہوپائیگا۔ ویٹیکن کے ارد گرد بازار اورریسٹورنٹ موجودہیں۔تمام مقامات کافرش ہزاروں برس پرانے طریقے کے مطابق محفوظ رکھا گیاہے۔گول چھوٹی چھوٹی ناہمواراینٹوں سے مزین۔اس پر آپ عام جوتوں سے قطعاًنہیں چل سکتے۔آرام دہ جوگر،اگرآپکے پاس نہیں ہیں، تو آپ کچھ نہیں دیکھ سکتے۔
ٹکٹ خریدنے کے لیے کھڑاتھاکہ ایک ناشناسانوجوان میری طرف بڑھا۔اسے معلوم ہوچکاتھاکہ میں پاکستانی ہوں۔بتانے لگاکہ وہ ویٹیکن کے باہرسیاحوں کو گائڈ کرتا ہے۔ میرے ذہن میں آیاکہ ٹکٹ تولینے ہیں،توکیوں نہ اپنے ہم وطن سے لیے جائیں۔چنانچہ میں اورسارے دوست جنید کے ساتھ ہولیے۔پہلی بارپتہ چلاکہ سیاحت کتنا بڑا، منافع بخش اورپیچیدہ کاروبارہے۔اسکااپناایک طورطریقہ ہے۔ جنید ہمیں چندمنٹوں میں ایک ٹریول ایجنسی پرلے گیا۔وہاں سے ٹکٹ پچاس یوروکاخریدا۔ایجنسی کامالک ایک بنگلہ دیشی تھا۔ وہ اورجنید واپس ویٹیکن لے کرآئے۔ہمیں ایک پروفیشنل گائڈ کے حوالے کیاگیا۔یہ گائڈایک ضعیف سی خاتون تھی۔اتنی ضعیف کہ لگتاتھاکہ کسی تابوت سے نکل کرسیدھی یہاں پہنچی ہے۔صرف کپڑے بدلنے کاترددکیاہے۔اسے ویٹیکن کی تاریخ ازبرتھی۔دوہزارقبل بادشاہوں کاذکراسطرح کررہی تھی کہ ان کے دربارمیں نوکری کرتی رہی ہے۔علاقے کی تاریخ پر حیرت انگیزعبورتھا۔
مجھے آدھی باتیں سمجھ نہیں آئیں۔لہجہ میں عجیب سی کرختگی تھی۔ایک نامعلوم دکھ کی چھاپ۔ ہمارے گروپ میں ہرطرح کے لوگ شامل تھے۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جوڑے اور میرے جیسے صدیوں پرانے لوگ بھی۔ گائڈنے ایک جھنڈانکالااورہم اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ ٹور تین گھنٹے کاتھا۔ ویٹیکن میں مقامی لوگوں نے روزگار کے انوکھے طریقے اپنالیے ہیں۔لوگ پرانے زمانے کاجنگی لباس پہن کربازارمیں کھڑے ہوجاتے ہیں۔تلوار،ڈھال اورآہنی خودسے مزین۔لگتاہے کہ ابھی کسی جنگ سے واپس آئے ہیں۔لوگ ان کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں اورانکوایک یادو یورودیتے ہیں۔سیاح بھی خوش اوراللہ کے یہ بندے بھی خوش۔ایک ایسے ہی بہادر جنگجو کے ساتھ تصویر کھچوائی۔ چند منٹ کے بعد مجھے ایک دکان پرکھڑاآئس کریم کھاتا نظر آیا۔ اس کے بعد دوبارہ اپنے مقام پرچلاگیا۔
تین گھنٹے کے بعدواپس آیاتوجنیدوہیں کھڑا ہوا ملا۔ جہاں ہم اسے چھوڑکرگئے تھے۔باتیں شروع ہوگئیں۔وہاں کئی پاکستانی نوجوان کھڑے تھے۔یہ تمام ٹورسٹ گائڈ اور ٹریول ایجنسیوں کے ساتھ ملکرکام کرتے ہیں۔ جنید جوہر ٹاؤن لاہورکارہنے والاہے۔ایک بچے کاوالد۔فیملی لاہورہی میں رہتی ہے۔یہاںروزگارکی تلاش میں آیاتھا۔روم میں اسے دوبرس ہوچکے ہیں۔وہ بی اے پاس ہے۔ متعدد کمپیوٹر کورس کررکھے ہیں۔مگرپاکستان میں کوئی نوکری نہ مل سکی۔ اگر کہیں اتفاق سے مل بھی گئی توبہت مختصر وقت کے لیے۔ قسمت آزمانے دوبئی چلاگیا۔وہاں دوسال گزارے۔ مگر زندگی ڈگر پرنہ آسکی۔مجبوراًکسی نہ کسی مشکل طریقے سے اٹلی آگیا۔ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ اٹلی کاویزہ کیسے حاصل کرلیا۔پتہ نہیں نوجوان نے دکھ،سلوک اورناانصافی کے کتنے دریاعبورکیے ہونگے۔خیربتانے لگاکہ وہ ماہانہ بارہ سے پندرہ سو یورو کماتا ہے۔دوپاکستانیوں نے ملکرکرایہ پرایک چھوٹا ساکمرہ لے رکھا ہے۔کرایہ دوڈھائی سویاشائدتین سویورو بتایا تھا۔ کھانادونوں ملکربناتے ہیں۔
جنید کے مطابق ایک ماہ کے کھانے پربھی دو سو یورو خرچ ہوجاتے ہیں۔باقی نوسویورو پاکستان اپنے خاندان اوربیوی بچوں کوبھیج دیتا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ پاکستانی روپے۔بتانے لگا کہ اگراپنے وطن میں اسے کوئی بھی باعزت روزگارمل جائے تو ایک منٹ بھی روم نہ ٹھہرے۔فوراًواپس چلا جائے۔جنیدمجھے بس تک چھوڑنے آیا۔محبت سے کہنے لگا کہ اگرہم لوگ کل بھی آئیں تووہ ہمارے لیے ضرورپہنچ جائے گا۔ جنیدکی عمرپچیس یاچھبیس برس ہوگی۔وہ جتنی شدیدمحنت کررہا ہے، دیکھ کر دعائیں دینے کودل چاہتا ہے۔ غریب الوطنی، ہوائی روزگاراورمنفی رویوں کاشکار۔افسوس ہوتاہے۔دل پر بوجھ ساآگیاہے۔یہاں اکثرپاکستانیوں کے ساتھ بہترسلوک نہیں کیاجاتا۔خیریہ کوئی عجیب بات نہیں۔پاکستانیوں کے ساتھ ان کے اپنے وطن میں اچھااورمنصفانہ سلوک نہیں ہوتا۔ پردیس کے لوگوں کے رویوں کاکیاگلہ کرنا۔
روم کودیکھنے کے لیے چنددن انتہائی ناکافی ہیں۔ ویٹیکن کو انتہائی سرسری طریقے سے دیکھنے کے بعدمیں ایک بس میں بیٹھ گیاجو سیاحوں کے لیے مختص ہے۔ایک بارٹکٹ خریدلیں تو پورا دن کہیں بھی اترسکتے ہیں اورپھردوبارہ بس میں سفرکرسکتے ہیں۔ڈبل ڈیکربس کی چھت پربراجمان ہو گیا۔سوارہوتے ہوئے ایک ہیڈفون دیاجاتاہے۔اپنی نشست پربیٹھ کرسوئچ میں لگائیں۔ہرعمارت کے متعلق معلومات ملنی شروع ہوجائینگی۔دنیاکی تمام زبانوں میںتفصیلی معلومات۔ ہرزبان کے چینل الگ ہیں۔اس میں اردوچینل نہیں تھا۔بس کا اوپر والا حصہ کھلا تھا۔ تیز ہوا اور شدید ٹھنڈ۔ میں نے اس تیزسردی میں اپنے کیمرے سے ہراہم عمارت کی تصویریں لیں۔ سفر ایک گھنٹہ سے کچھ زیادہ تھا۔بس سے اترتے وقت سردی کی شدت سے دانت بج رہے تھے۔ مگر اگر بس کے اوپرنہ بیٹھتاتوروم کونہ دیکھ پاتا۔ دنیا کا پہلا اسپتال بھی دیکھا۔جسکے اوپر صحت کی دیوی کابت نصب تھا۔
اٹلی میں ڈیڑھ سے دولاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔اصل تعدادکاکسی کوبھی علم نہیں۔معدودے چندفیصدکے علاوہ اکثریت سفیدپوش محنت کشوں کی ہے۔جنیدان میں سے ایک ہے۔عام ساغریب الوطن پاکستانی۔ہمارے مقتدرطبقے کے لوگ یہاں خاندان کولے کرسرکاری خرچہ پردورے کرتے ہیں۔ ان ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں جہاں مقامی امیرلوگ ٹھہرنے کے متعلق سوچ نہیں سکتے۔شہردیکھنے کے لیے قیمتی ترین گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔بیگمات کروڑوں روپے کی شاپنگ کرتی ہیں۔ترس کھاکرکچھ پاکستانیوں کوایک ہال میں جمع کرکے خطاب کیاجاتاہے۔ان کے سامنے مگرمچھ کے آنسوبہائے جاتے ہیں۔سبق دیاجاتاہے کہ مزیدمحنت کریں اورملک کی خدمت کریں۔ سب کومعلوم ہوتاہے کہ یہ سب کچھ مکمل جھوٹ ہے۔کوئی بھی جنیداوراس جیسے ہزاروں محنت کشوں سے یہ نہ پوچھتاہے کہ تم کن حالات میں اپناوطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ تم نے اتنے عذاب کیوں جھیلے ہیں۔کوئی سوال نہیں اور کوئی جواب نہیں۔مگر میں ان نوجوانوں کی عظمت کوسلام پیش کرتاہوں۔میں نے روم نہیں دیکھا بلکہ جنیدکاروم دیکھا ہے۔
اٹلی یورپ کاپاکستان ہے۔خدانے اس ملک کوہرنعمت دے ڈالی ہے۔بہترین موسم،پھل،زرخیزخطہ اورذہین لوگ۔ مگرقدرت کااپنانظام ہے۔معلوم وجوہات کی بناپروہ تمام منفی عناصرحکومت میں سرایت کرچکے ہیںجوکسی بھی بربادشدہ ملک میں موجودہوتے ہیں۔کرپشن نے دنیاکے اس امیرملک کوبھکاری بناڈالاہے۔سیاستدانوں،سرکاری عمال اورفوج کے اعلیٰ افسروں نے اٹلی کے نظامِ حکومت کی چولیں ہلاڈالیں ہیں۔سیاستدان ہروہ وعدہ کرتے ہیں،جوپورانھیں کر سکتے۔ ہر سودے اورمعاہدہ میں کمیشن مانگنے کاراج بالکل ہماری طرح ہے۔اوپرسے لے کرنیچے تک کسی دفترمیں بابوؤںکی مٹھی گرم کیے بغیرآپ کچھ نہیں کرسکتے۔میرامشورہ ہے کہ پاکستان اوراٹلی کو ایک جیسے حالات کی بدولت"جڑواں ممالک "قرار دینے پرغورکرناچاہیے۔حیرت ہے کہ ابھی ہمارے مقتدرلوگ اس باصلاحیت ملک سے کیوں فیضیاب نہیں ہوئے۔ مگرمیں یقین سے عرض کرسکتاہوں کہ ہمارے سیاستدان ایک نہ ایک دن اس ملک سے ضرورفائدہ اٹھائیں گے۔مگرچھوڑیے،میں کن باتوں کولے کربیٹھ گیا۔ اسطرح کی باتیں تودرجنوں قلمی مزدورروزلکھتے ہیں جنکاکوئی اثرنہیں ہوتا۔ہوگابھی نہیں۔
کل دوپہرکے کھانے کے لیے ایک درمیانہ درجہ کے ہوٹل میں بیٹھاتھا۔ایک نوجوان جس نے مناسب کپڑے پہن رکھے تھے قریب آیااوربھیک مانگنی شروع کردی۔وہ غیرملکی سیاحوں پرزیادہ محنت کررہاتھا۔اپناآدھاکھانااس فقیرکے حوالے کردیا۔خوشی سے اگلی میزپرجاکردوبارہ بھیک مانگنے لگا۔ہوٹل کی انتظامیہ نے اسے کچھ نہیں کہا۔ویٹربھی خاموش رہے۔لگتاہے کہ یہاں بھیک مانگنے پرکوئی پابندی نہیں۔آپ کسی بھی جگہ دستِ سوال درازکرسکتے ہیں۔مقامی لوگ اس بھکاری کوکچھ نہیں دے رہے تھے۔
گزشتہ دن کابیشترحصہ ویٹیکن(Vatican)کودیکھتے ہوئے گزرا۔آپکوشائدمعلوم نہ ہو ویٹیکن ایک خودمختارملک ہے۔دنیاکاسب سے چھوٹاملک۔پوپ اس کا بادشاہ، رہبریا لیڈرہوتاہے۔ عیسائی مذہب کے ایک فرقہ کے لیے انتہائی مقدس ہے۔جس طرح ہمارے لیے سرزمین حجاز۔ ویٹیکن انتہائی خوبصورت مقام ہے۔ہزاروں برس قدیم عمارتوں پر مشتمل۔ تمام عمارتوں کے اوپر مذہبی پیشواؤں کے انتہائی دیدہ زیب مجسمے نصب کیے گئے ہیں۔ہرمجسمہ آرٹ کاایک نادرشہکار ہے۔ان بادشاہوں اور ملکاؤں کے پتلے بھی نصب ہیں جنہوں نے اس مذہبی جگہ کوبنانے میں مددکی تھی۔ ویٹیکن کوبنانے میں ڈیڑھ سوسال لگے تھے۔یہاں کاآرٹیکچرمحیرالعقول حد تک خوبصورت ہے۔ ویٹیکن کے بالکل درمیان میں ایک بہت بڑا دالان ہے۔اس میں دولاکھ کے قریب لوگ سماسکتے ہیں۔ ہر وقت سیاحوں سے بھرارہتاہے۔
اس میں مذہبی سیاح بھی شامل ہیں۔مگرمذہب کی قیدسے آزادپوری دنیاسے سیاح یہاں آتے رہتے ہیں۔پوپ بھی یہیں رہتا ہے۔ ہر اتوار کو اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہرنکل کرلوگوں کوخطاب کرتا ہے۔ اتواروالے دن دالان لوگوں سے کچھاکھچ بھراہوتاہے۔لوگ اپنے گناہ بخشوانے اورثواب حاصل کرنے کے لیے ہرطرح اپنے دل کو مطمئن کرتے ہیں۔ہمارے اس مقام پرآنے سے چند گھنٹے پہلے جارج بش یہاں آیاہواتھا۔ویسے اس سابقہ امریکی صدرکے جرائم اتنے زیادہ ہیں کہ اسے پوپ کا مجاور بن جانا چاہیے۔مگرکفارہ پھر بھی ادانہ ہوپائیگا۔ ویٹیکن کے ارد گرد بازار اورریسٹورنٹ موجودہیں۔تمام مقامات کافرش ہزاروں برس پرانے طریقے کے مطابق محفوظ رکھا گیاہے۔گول چھوٹی چھوٹی ناہمواراینٹوں سے مزین۔اس پر آپ عام جوتوں سے قطعاًنہیں چل سکتے۔آرام دہ جوگر،اگرآپکے پاس نہیں ہیں، تو آپ کچھ نہیں دیکھ سکتے۔
ٹکٹ خریدنے کے لیے کھڑاتھاکہ ایک ناشناسانوجوان میری طرف بڑھا۔اسے معلوم ہوچکاتھاکہ میں پاکستانی ہوں۔بتانے لگاکہ وہ ویٹیکن کے باہرسیاحوں کو گائڈ کرتا ہے۔ میرے ذہن میں آیاکہ ٹکٹ تولینے ہیں،توکیوں نہ اپنے ہم وطن سے لیے جائیں۔چنانچہ میں اورسارے دوست جنید کے ساتھ ہولیے۔پہلی بارپتہ چلاکہ سیاحت کتنا بڑا، منافع بخش اورپیچیدہ کاروبارہے۔اسکااپناایک طورطریقہ ہے۔ جنید ہمیں چندمنٹوں میں ایک ٹریول ایجنسی پرلے گیا۔وہاں سے ٹکٹ پچاس یوروکاخریدا۔ایجنسی کامالک ایک بنگلہ دیشی تھا۔ وہ اورجنید واپس ویٹیکن لے کرآئے۔ہمیں ایک پروفیشنل گائڈ کے حوالے کیاگیا۔یہ گائڈایک ضعیف سی خاتون تھی۔اتنی ضعیف کہ لگتاتھاکہ کسی تابوت سے نکل کرسیدھی یہاں پہنچی ہے۔صرف کپڑے بدلنے کاترددکیاہے۔اسے ویٹیکن کی تاریخ ازبرتھی۔دوہزارقبل بادشاہوں کاذکراسطرح کررہی تھی کہ ان کے دربارمیں نوکری کرتی رہی ہے۔علاقے کی تاریخ پر حیرت انگیزعبورتھا۔
مجھے آدھی باتیں سمجھ نہیں آئیں۔لہجہ میں عجیب سی کرختگی تھی۔ایک نامعلوم دکھ کی چھاپ۔ ہمارے گروپ میں ہرطرح کے لوگ شامل تھے۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جوڑے اور میرے جیسے صدیوں پرانے لوگ بھی۔ گائڈنے ایک جھنڈانکالااورہم اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ ٹور تین گھنٹے کاتھا۔ ویٹیکن میں مقامی لوگوں نے روزگار کے انوکھے طریقے اپنالیے ہیں۔لوگ پرانے زمانے کاجنگی لباس پہن کربازارمیں کھڑے ہوجاتے ہیں۔تلوار،ڈھال اورآہنی خودسے مزین۔لگتاہے کہ ابھی کسی جنگ سے واپس آئے ہیں۔لوگ ان کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں اورانکوایک یادو یورودیتے ہیں۔سیاح بھی خوش اوراللہ کے یہ بندے بھی خوش۔ایک ایسے ہی بہادر جنگجو کے ساتھ تصویر کھچوائی۔ چند منٹ کے بعد مجھے ایک دکان پرکھڑاآئس کریم کھاتا نظر آیا۔ اس کے بعد دوبارہ اپنے مقام پرچلاگیا۔
تین گھنٹے کے بعدواپس آیاتوجنیدوہیں کھڑا ہوا ملا۔ جہاں ہم اسے چھوڑکرگئے تھے۔باتیں شروع ہوگئیں۔وہاں کئی پاکستانی نوجوان کھڑے تھے۔یہ تمام ٹورسٹ گائڈ اور ٹریول ایجنسیوں کے ساتھ ملکرکام کرتے ہیں۔ جنید جوہر ٹاؤن لاہورکارہنے والاہے۔ایک بچے کاوالد۔فیملی لاہورہی میں رہتی ہے۔یہاںروزگارکی تلاش میں آیاتھا۔روم میں اسے دوبرس ہوچکے ہیں۔وہ بی اے پاس ہے۔ متعدد کمپیوٹر کورس کررکھے ہیں۔مگرپاکستان میں کوئی نوکری نہ مل سکی۔ اگر کہیں اتفاق سے مل بھی گئی توبہت مختصر وقت کے لیے۔ قسمت آزمانے دوبئی چلاگیا۔وہاں دوسال گزارے۔ مگر زندگی ڈگر پرنہ آسکی۔مجبوراًکسی نہ کسی مشکل طریقے سے اٹلی آگیا۔ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ اٹلی کاویزہ کیسے حاصل کرلیا۔پتہ نہیں نوجوان نے دکھ،سلوک اورناانصافی کے کتنے دریاعبورکیے ہونگے۔خیربتانے لگاکہ وہ ماہانہ بارہ سے پندرہ سو یورو کماتا ہے۔دوپاکستانیوں نے ملکرکرایہ پرایک چھوٹا ساکمرہ لے رکھا ہے۔کرایہ دوڈھائی سویاشائدتین سویورو بتایا تھا۔ کھانادونوں ملکربناتے ہیں۔
جنید کے مطابق ایک ماہ کے کھانے پربھی دو سو یورو خرچ ہوجاتے ہیں۔باقی نوسویورو پاکستان اپنے خاندان اوربیوی بچوں کوبھیج دیتا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ پاکستانی روپے۔بتانے لگا کہ اگراپنے وطن میں اسے کوئی بھی باعزت روزگارمل جائے تو ایک منٹ بھی روم نہ ٹھہرے۔فوراًواپس چلا جائے۔جنیدمجھے بس تک چھوڑنے آیا۔محبت سے کہنے لگا کہ اگرہم لوگ کل بھی آئیں تووہ ہمارے لیے ضرورپہنچ جائے گا۔ جنیدکی عمرپچیس یاچھبیس برس ہوگی۔وہ جتنی شدیدمحنت کررہا ہے، دیکھ کر دعائیں دینے کودل چاہتا ہے۔ غریب الوطنی، ہوائی روزگاراورمنفی رویوں کاشکار۔افسوس ہوتاہے۔دل پر بوجھ ساآگیاہے۔یہاں اکثرپاکستانیوں کے ساتھ بہترسلوک نہیں کیاجاتا۔خیریہ کوئی عجیب بات نہیں۔پاکستانیوں کے ساتھ ان کے اپنے وطن میں اچھااورمنصفانہ سلوک نہیں ہوتا۔ پردیس کے لوگوں کے رویوں کاکیاگلہ کرنا۔
روم کودیکھنے کے لیے چنددن انتہائی ناکافی ہیں۔ ویٹیکن کو انتہائی سرسری طریقے سے دیکھنے کے بعدمیں ایک بس میں بیٹھ گیاجو سیاحوں کے لیے مختص ہے۔ایک بارٹکٹ خریدلیں تو پورا دن کہیں بھی اترسکتے ہیں اورپھردوبارہ بس میں سفرکرسکتے ہیں۔ڈبل ڈیکربس کی چھت پربراجمان ہو گیا۔سوارہوتے ہوئے ایک ہیڈفون دیاجاتاہے۔اپنی نشست پربیٹھ کرسوئچ میں لگائیں۔ہرعمارت کے متعلق معلومات ملنی شروع ہوجائینگی۔دنیاکی تمام زبانوں میںتفصیلی معلومات۔ ہرزبان کے چینل الگ ہیں۔اس میں اردوچینل نہیں تھا۔بس کا اوپر والا حصہ کھلا تھا۔ تیز ہوا اور شدید ٹھنڈ۔ میں نے اس تیزسردی میں اپنے کیمرے سے ہراہم عمارت کی تصویریں لیں۔ سفر ایک گھنٹہ سے کچھ زیادہ تھا۔بس سے اترتے وقت سردی کی شدت سے دانت بج رہے تھے۔ مگر اگر بس کے اوپرنہ بیٹھتاتوروم کونہ دیکھ پاتا۔ دنیا کا پہلا اسپتال بھی دیکھا۔جسکے اوپر صحت کی دیوی کابت نصب تھا۔
اٹلی میں ڈیڑھ سے دولاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔اصل تعدادکاکسی کوبھی علم نہیں۔معدودے چندفیصدکے علاوہ اکثریت سفیدپوش محنت کشوں کی ہے۔جنیدان میں سے ایک ہے۔عام ساغریب الوطن پاکستانی۔ہمارے مقتدرطبقے کے لوگ یہاں خاندان کولے کرسرکاری خرچہ پردورے کرتے ہیں۔ ان ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں جہاں مقامی امیرلوگ ٹھہرنے کے متعلق سوچ نہیں سکتے۔شہردیکھنے کے لیے قیمتی ترین گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔بیگمات کروڑوں روپے کی شاپنگ کرتی ہیں۔ترس کھاکرکچھ پاکستانیوں کوایک ہال میں جمع کرکے خطاب کیاجاتاہے۔ان کے سامنے مگرمچھ کے آنسوبہائے جاتے ہیں۔سبق دیاجاتاہے کہ مزیدمحنت کریں اورملک کی خدمت کریں۔ سب کومعلوم ہوتاہے کہ یہ سب کچھ مکمل جھوٹ ہے۔کوئی بھی جنیداوراس جیسے ہزاروں محنت کشوں سے یہ نہ پوچھتاہے کہ تم کن حالات میں اپناوطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ تم نے اتنے عذاب کیوں جھیلے ہیں۔کوئی سوال نہیں اور کوئی جواب نہیں۔مگر میں ان نوجوانوں کی عظمت کوسلام پیش کرتاہوں۔میں نے روم نہیں دیکھا بلکہ جنیدکاروم دیکھا ہے۔