اس طرز عمل کو کیا نام دیا جائے
اس کا مقصد محنت کشوں کے مسائل پر تحقیق کے علاوہ ان کی تربیت کرنا ہے۔
ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ ایک نجی ٹیلی ویژن چینل نے ایک رپورٹ میں ناظرین کو بتایا گیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را (Raw) کراچی میں کام کرنے والی ایک تنظیم کی مالی امداد کرتی ہے۔ ایک دو اخبارات میں بھی ایسی ہی خبر شایع ہوئیں۔بات یہ ہے کہ بعض اینکرز کا یہ وتیرہ بن چکا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں اور سیاسی شخصیات کے خلاف بنا کسی ثبوت ان کی شہرت کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
ماضی میں ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہوا کرتے تھے، مگر جب سے ملک میں الیکٹرونک میڈیا متعارف ہوا ہے، ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔جہاں تک مذکورہ سماجی تنظیم کا تعلق ہے، تو اس سے متعلق افراد کو سندھ سمیت پورے ملک کے عوام کی اکثریت اچھی طرح جانتی ہے۔ اس تنظیم کے روح رواں 1960ء کے عشرے سے کراچی کے سیاسی منظرنامے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں۔ انھوں نے NSF کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ 1970ء سے محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد کا حصہ بنے۔ راقم کو بھی پانچ برس تک اس تنظیم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔
اس کا مقصد محنت کشوں کے مسائل پر تحقیق کے علاوہ ان کی تربیت کرنا ہے۔ اس تنظیم سے متعلق افراد کا ملک کی مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں اور متوشش شہریوں کی طرح یہ بھی ماننا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کے بغیر معاشرے کے محروم طبقات کے مسائل کا حل ممکن نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک اپنے وسائل کا بڑا حصہ دفاعی امور پر خرچ کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے سماجی سیکٹر کے لیے بہت کم رقم بچ پاتی ہے۔ غربت، افلاس اور ننگ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ پورے جنوبی ایشیا کا حساس ترین مسئلہ بن چکا ہے۔
معاشی ماہرین اور عالمی سرمایہ کاروں کی نظریں صرف بھارت کی اس 60 کروڑ آبادی پر جمی ہوئی ہیں، جو قوت خرید رکھتی ہے۔ لیکن انھیں اس ملک کے وہ 20 کروڑ عوام نظر نہیں آتے، جو زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہی کچھ پاکستان کا حال ہے، جہاں 30 فیصد سے زائد آبادی خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اس صورتحال کا اصل سبب وسائل کی کمیابی نہیں ہے۔ بلکہ وسائل کی بدانتظامی یعنی mis-management ہے۔ یہ تلخ حقائق ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتے جو جنگجویانہ (hawks) مزاج رکھتے ہیں اور ہر مسئلے کا حل جنگ و جدل اور خون خرابے کو سمجھتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کا فکری، نظریاتی اور نسلی تشخص اسی وقت برقرار رہ سکتا ہے، جب نسل انسانی اس کرہ ارض پر موجود ہوگی۔
جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک پاکستان اور بھارت کی اسٹیبلشمنٹ اور شدت پسند سیاسی و سماجی تنظیموں نے یہ وتیرہ بنا لیا ہے کہ امن، شانتی اور اہنسا کی بات کرنے والوںپر دشنام طرازی کر کے ان کی آوازوں کو خاموش کر دیا جائے۔ ہمارے یہاں ہر اس شخص بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) کا ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے، جو امن اور خوشگوار تعلقات کی بات کرے۔ یہی کچھ معاملہ بھارت کا ہے، جہاں پاکستان سے دوستی اور اچھے تعلقات کے متمنی افراد اور تنظیموں کو ISI کا ایجنٹ کہہ کر ان کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے۔
آج یوسف خان (دلیپ کمار)، شاہ رخ خان اور عامر خان، جنھوں نے ثقافتی میدان میں بھارت کو ایک نمایاں شناخت دی، انتہاپسندوں کی دشنام طرازیوں کی زد میں ہیں اور وہ سخت پریشانی کے عالم میں ہیں۔ پاکستان میں بھی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کے علاوہ ایسے لوگوں کو بھی را کا ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے، جن کے اجداد نے یہ جانتے ہوئے کہ اس کے خطے پر پاکستان نہیں بنے گا، اس ملک کے قیام کی جدوجہد میں بے لوث حصہ لیا اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب انھیں را کا ایجنٹ قرار دینے والوں کے اجداد انگریز بہادر کو سلامیاں دے رہے تھے۔ یہ حقائق ہیں اور انھیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ بدقسمتی سے یہ کلچر مسلسل پروان چڑھ رہا ہے۔
اصولی طور پر الزام تراشی کرنے سے پہلے یہ دیکھ اور سمجھ لینا چاہیے کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ پر دوسروں پر پتھر پھینکنے سے اپنا گھر بھی محفوظ نہیں رہتا۔ جو لوگ وطن عزیز میں مختلف کمیونٹیز، تنظیموں اور افراد پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں، یا الزامات عائد کرنے کے لیے مختلف لوگوں کو اکساتے رہے ہیں، کبھی ماضی قریب کی تاریخ پر بھی نظر ڈال لیں کہ ان کے اجداد اور رہنماؤں کا نوآبادیاتی نظام میں کیا کردار رہا ہے؟ اگر تاریخ کے حقیقی صفحات کھول کر رکھ دیے جائیں، تو بہت سوں کی دلیری، جرأت اور حب الوطنی کا پردہ چاک ہو کر رہ جائے گا۔ لیکن ہمارا مقصد کسی کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینا ہے اور نہ کسی کے کردار کو مشکوک بنانا ہے۔ اسی طرح کسی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ہمارے کردار کو اپنے مقاصد کے لیے مشکوک بنانے کی کوشش کرے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں رواداری اور صبر و تحمل کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔اسی میں سب کی بہتری ہے۔
لیکن وطن عزیز میں باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھس جانا عام سی بات بن چکی ہے۔ ایک صاحب جو اس ملک کے وفاقی وزیر ہیں، انھوں نے ان تمام سماجی تنظیموں کو ملک دشمن قرار دیدیا، جو محنت کشوں، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ حالانکہ اسلام آباد اور پنجاب سمیت ملک بھر میں دہشت گردوں کے ہمدرد چھپے ہوئے ہیں لیکن ان پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔
اب ذرا ذرایع ابلاغ کی بات کر لی جائے۔ پرنٹ میڈیا میں شروع ہی سے یہ روایت رہی ہے کہ کسی خبر کو شایع کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کی جائے۔ آج بھی بیشتر قومی اخبارات اس روایت پر سختی کے ساتھ کاربند ہیں۔ اس کے علاوہ اگر غلطی سے کوئی غلط خبر شایع ہوجائے تو گزشتہ روز معذرت کرنے کا کلچر بھی عام ہے۔ لیکن الیکٹرونک میڈیا میں ایسی کوئی روایت نظر نہیں آتی۔ یہی کچھ حال سرشام سے محفلیں سجانے والے اینکرز کا ہے، جنھیں ہر خرابی بسیار صرف سیاستدانوں میں نظر آتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کی اصلاح تو ممکن نہیں ہے، لیکن ذرایع ابلاغ سے متعلق لوگ اپنی اصلاح ضرور کر سکتے ہیں۔
ماضی میں ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہوا کرتے تھے، مگر جب سے ملک میں الیکٹرونک میڈیا متعارف ہوا ہے، ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔جہاں تک مذکورہ سماجی تنظیم کا تعلق ہے، تو اس سے متعلق افراد کو سندھ سمیت پورے ملک کے عوام کی اکثریت اچھی طرح جانتی ہے۔ اس تنظیم کے روح رواں 1960ء کے عشرے سے کراچی کے سیاسی منظرنامے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں۔ انھوں نے NSF کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ 1970ء سے محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد کا حصہ بنے۔ راقم کو بھی پانچ برس تک اس تنظیم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔
اس کا مقصد محنت کشوں کے مسائل پر تحقیق کے علاوہ ان کی تربیت کرنا ہے۔ اس تنظیم سے متعلق افراد کا ملک کی مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں اور متوشش شہریوں کی طرح یہ بھی ماننا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کے بغیر معاشرے کے محروم طبقات کے مسائل کا حل ممکن نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک اپنے وسائل کا بڑا حصہ دفاعی امور پر خرچ کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے سماجی سیکٹر کے لیے بہت کم رقم بچ پاتی ہے۔ غربت، افلاس اور ننگ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ پورے جنوبی ایشیا کا حساس ترین مسئلہ بن چکا ہے۔
معاشی ماہرین اور عالمی سرمایہ کاروں کی نظریں صرف بھارت کی اس 60 کروڑ آبادی پر جمی ہوئی ہیں، جو قوت خرید رکھتی ہے۔ لیکن انھیں اس ملک کے وہ 20 کروڑ عوام نظر نہیں آتے، جو زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہی کچھ پاکستان کا حال ہے، جہاں 30 فیصد سے زائد آبادی خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اس صورتحال کا اصل سبب وسائل کی کمیابی نہیں ہے۔ بلکہ وسائل کی بدانتظامی یعنی mis-management ہے۔ یہ تلخ حقائق ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتے جو جنگجویانہ (hawks) مزاج رکھتے ہیں اور ہر مسئلے کا حل جنگ و جدل اور خون خرابے کو سمجھتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کا فکری، نظریاتی اور نسلی تشخص اسی وقت برقرار رہ سکتا ہے، جب نسل انسانی اس کرہ ارض پر موجود ہوگی۔
جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک پاکستان اور بھارت کی اسٹیبلشمنٹ اور شدت پسند سیاسی و سماجی تنظیموں نے یہ وتیرہ بنا لیا ہے کہ امن، شانتی اور اہنسا کی بات کرنے والوںپر دشنام طرازی کر کے ان کی آوازوں کو خاموش کر دیا جائے۔ ہمارے یہاں ہر اس شخص بھارتی خفیہ ایجنسی را (RAW) کا ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے، جو امن اور خوشگوار تعلقات کی بات کرے۔ یہی کچھ معاملہ بھارت کا ہے، جہاں پاکستان سے دوستی اور اچھے تعلقات کے متمنی افراد اور تنظیموں کو ISI کا ایجنٹ کہہ کر ان کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے۔
آج یوسف خان (دلیپ کمار)، شاہ رخ خان اور عامر خان، جنھوں نے ثقافتی میدان میں بھارت کو ایک نمایاں شناخت دی، انتہاپسندوں کی دشنام طرازیوں کی زد میں ہیں اور وہ سخت پریشانی کے عالم میں ہیں۔ پاکستان میں بھی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کے علاوہ ایسے لوگوں کو بھی را کا ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے، جن کے اجداد نے یہ جانتے ہوئے کہ اس کے خطے پر پاکستان نہیں بنے گا، اس ملک کے قیام کی جدوجہد میں بے لوث حصہ لیا اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب انھیں را کا ایجنٹ قرار دینے والوں کے اجداد انگریز بہادر کو سلامیاں دے رہے تھے۔ یہ حقائق ہیں اور انھیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ بدقسمتی سے یہ کلچر مسلسل پروان چڑھ رہا ہے۔
اصولی طور پر الزام تراشی کرنے سے پہلے یہ دیکھ اور سمجھ لینا چاہیے کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ پر دوسروں پر پتھر پھینکنے سے اپنا گھر بھی محفوظ نہیں رہتا۔ جو لوگ وطن عزیز میں مختلف کمیونٹیز، تنظیموں اور افراد پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں، یا الزامات عائد کرنے کے لیے مختلف لوگوں کو اکساتے رہے ہیں، کبھی ماضی قریب کی تاریخ پر بھی نظر ڈال لیں کہ ان کے اجداد اور رہنماؤں کا نوآبادیاتی نظام میں کیا کردار رہا ہے؟ اگر تاریخ کے حقیقی صفحات کھول کر رکھ دیے جائیں، تو بہت سوں کی دلیری، جرأت اور حب الوطنی کا پردہ چاک ہو کر رہ جائے گا۔ لیکن ہمارا مقصد کسی کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینا ہے اور نہ کسی کے کردار کو مشکوک بنانا ہے۔ اسی طرح کسی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ہمارے کردار کو اپنے مقاصد کے لیے مشکوک بنانے کی کوشش کرے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں رواداری اور صبر و تحمل کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔اسی میں سب کی بہتری ہے۔
لیکن وطن عزیز میں باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھس جانا عام سی بات بن چکی ہے۔ ایک صاحب جو اس ملک کے وفاقی وزیر ہیں، انھوں نے ان تمام سماجی تنظیموں کو ملک دشمن قرار دیدیا، جو محنت کشوں، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ حالانکہ اسلام آباد اور پنجاب سمیت ملک بھر میں دہشت گردوں کے ہمدرد چھپے ہوئے ہیں لیکن ان پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔
اب ذرا ذرایع ابلاغ کی بات کر لی جائے۔ پرنٹ میڈیا میں شروع ہی سے یہ روایت رہی ہے کہ کسی خبر کو شایع کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کی جائے۔ آج بھی بیشتر قومی اخبارات اس روایت پر سختی کے ساتھ کاربند ہیں۔ اس کے علاوہ اگر غلطی سے کوئی غلط خبر شایع ہوجائے تو گزشتہ روز معذرت کرنے کا کلچر بھی عام ہے۔ لیکن الیکٹرونک میڈیا میں ایسی کوئی روایت نظر نہیں آتی۔ یہی کچھ حال سرشام سے محفلیں سجانے والے اینکرز کا ہے، جنھیں ہر خرابی بسیار صرف سیاستدانوں میں نظر آتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کی اصلاح تو ممکن نہیں ہے، لیکن ذرایع ابلاغ سے متعلق لوگ اپنی اصلاح ضرور کر سکتے ہیں۔