لیفٹ اور رائٹ
رائٹ اور لیفٹ کیا ہے؟ یہ برصغیر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی دو سو سالہ نظریاتی جنگ کا نام ہے۔
رائٹ اور لیفٹ کیا ہے؟ یہ برصغیر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی دو سو سالہ نظریاتی جنگ کا نام ہے۔ پاکستان میں اسے دایاں بازو اور بایاں بازو کہا جاتا ہے۔ نوجوان ان باتوں سے ناواقف ہیں۔ ادھیڑ عمر اور بزرگ جنھیں ساٹھ اور ستر کے عشروں میں پاکستان کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے کا موقع ملا، وہ سرخ و سبز سے بخوبی واقف ہیں، ہمارے آج کے نوجوانوں کو دو قسم کی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں دیکھنے کا موقع ملا ہے، کنوئیں کے مینڈک بے خبر ہیں ایک بڑی اہم نظریاتی جنگ سے۔
قومیت اور فرقہ واریت کی لڑائی میں لڑکپن گزار کر جوانی کے سنگم کو چھونے والے پہاڑ کی چوٹی سے ناواقف ہیں۔ وہ کیا جانیں کہ کالجز کے انتخابات میں 'ایشیا سرخ ہے اور ایشیا سبز ہے' کے نعروں میں کیا مزہ تھا۔ جامعات میں ''خون فلسطین سے ایشیا سرخ ہے اور گنبد رسولؐ سے ایشیا سبز ہے'' کے نعروں میں کیا سرور تھا۔ کالجز کے ماحول کے ذکر کے بعد ہم ملکی سیاست سے ہوتے ہوئے سوویت روس تک جائیںگے۔ برٹش انڈیا اور فرانس کے مختصر تذکرے کے بعد آخر میں لیفٹ کے دوستوں کو ایک تجویز۔
ذوالفقار علی بھٹو کے تیسرے نعرے نے ملکی سیاست میں ہلچل مچادی تھی۔ ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' کے نعرے نے ستر کے انتخابات میں مارکس اور لینن کو عوامی سطح پر متعارف کروایا، اس سے قبل ساٹھ کی دہائی میں کیفے ٹیریا میں دانشور حضرات اور تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات ان موضوعات پر گفتگو کرتے تھے۔ این ایس ایف اور اسلامی جمعیت طلبہ اس نظریاتی جنگ کے حریف ہوا کرتے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مولانا مودودی ؒ کی قیادت میں جماعت اسلامی نے رائٹ کا مورچہ سنبھالا تو لیفٹ کی نمایندگی مولانا بھاشانی اور ولی خان کے بجائے بھٹو کا مقدر ٹھہری، جاگیرداروں و سرمایہ داروں کی پیپلزپارٹی میں موجودگی ایک طرف تو کارخانوں اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ دوسری طرف یوں ملکی سیاست میں پیپلزپارٹی کے تضاد نے گلی کوچوں میں لیفٹ اور رائٹ کی جنگ کو دھیمے انداز میں رکھا۔ اس کی شدت تعلیمی اداروں میں زیادہ محسوس کی گئی۔ ساٹھ کا عشرہ این ایس ایف کا قرار پایا تو ستر کا عشرہ جمعیت کا۔ ابھی یہ عشرہ ختم ہونے میں چار دن باقی تھے کہ بین الاقوامی سطح پر ایک زوردار دھماکا ہوگیا۔
سوویت روس کے افغانستان پر قبضے نے ایک نئی جنگ چھیڑ دی۔ یہ اسلحہ و بارود کی جنگ بھی تھی اور خیالات و نظریات کی بھی۔ امریکا کی ٹکر کا سپر پاور روس جہاں کہیں جاتا تو واپس نہ ہوتا۔ پاکستان کے پڑوس میں اس کی آمد نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ کمیونزم سے خائف مغربی دنیا نے جنرل ضیا الحق کی تنہائی دور کردی۔ دوسری طرف پاکستان کے بے یار و مددگار ترقی پسند تر و تازہ ہوگئے۔ بھاشانی کی دوری، ولی خان کی مجبوری اور بھٹو کی پھانسی نے انھیں تن تنہا کردیا تھا۔ ضیا الحق کی اسلام پسندی اور ایران میں علما کے اقتدار کے سبب پاکستانی ترقی پسند شفقت کے محتاج تھے۔
''چھینو چھینو پاکستان، جیسے چھینا افغانستان'' ایسے زہر ناک نعرے ایک طرف تھے تو دوسری طرف روسی ریچھ کو افغان سرحد سے نکال باہر کرنے کے جذبے۔ پاکستان دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا، طے ہوگیا تھا کہ آنے والے دنوں کا انحصار اس دہائی پر ہوگا جسے 80 کی دہائی کہا گیا۔ افغان جذبے، پاکستانی راہداری، سعودی سرمائے اور امریکی اسلحے نے سوویت یونین کو دریائے آمو سے دوسری طرف دھکیل دیا۔ یوں ایک عشرے بعد پاکستان کے کمیونسٹ ایک بار پھر سیاسی طور پر یتیم ہوگئے، روس کی شکست نے دو مسائل پیدا کیے ایک عالمی سطح پر اور دوسرا قومی سطح پر۔
دو غنڈے اگر محلے کے لوگوں کو تنگ کررہے ہوں تو ایک سے ڈانڈا چھیننے کی کوشش نہ کی جائے؟ اگر ایک قابو میں آجائے تو اسے اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ پھر ایک ہی غنڈے کا راج ہوگا؟ امریکا اکیلا سپر پاور بن گیا اور دنیا یونی پولر ہوگئی۔ یہ مسئلہ تب حل ہوا جب روس اور چین بھی طاقت ہوگئے، دنیا اب ملٹی پولر ہونے جارہی ہے، دنیا کا مسئلہ تو حل ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا لیکن پاکستان کے مسئلے کا حل کیا ہے؟
''لیفٹ اور رائٹ'' جیسے پروگرام اور بائیں بازو کا ایک بار پھر ابھرنا ملک کے مسئلے کا حل ہے۔ دو بیماریوں کا ایک علاج دو بیماریاں کیا ہیں؟ قومیت اور فرقہ واریت، سپر پاور سے لڑائی کے دوران پاکستان ایٹمی طاقت تو بن گیا لیکن روس کی شکست نے نظریاتی جنگ کا خاتمہ کردیا۔ اب ہم پٹھان، پنجابی، بلوچ، مہاجر اور سندھی میں بٹ چکے ہیں، یہ درد کیا کم تھا کہ فرقہ واریت بھی ہم میں داخل ہوگئی۔ وکلا کے انتخابات میں ووٹ دیتے وقت اس رجحان کو محسوس کیا گیا۔ قومیت اور فرقہ واریت کا علاج ایک نظریاتی جنگ ہے۔
رائٹ اور لیفٹ کی نظریاتی جنگ۔ وہ جنگ جو دو صدیاں قبل فرانس میں لڑی گئی تھی۔ اسمبلی میں دونوں گروہوں کو دائیں اور بائیں بٹھایا گیا۔ مذہب کے حامی دائیں جانب اور ان کے مخالف جدت پسند بائیں جانب یوں سیاست میں مذہب کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر لیفٹ اور رائٹ کا تصور قائم ہوا۔ پاکستان کو سیاسی، معاشی، اور دفاعی لحاظ سے مضبوط بنانے کے لیے لازمی ہے کہ فرقہ واریت اور قومیت سے ہٹ کر نظریے کی بنیاد پر اکٹھے ہونے والے آگے بڑھیں، اب ہم پاکستان کے کمیونسٹوں کی نفسیات اور ان کی ایک بنیادی خامی پر تجویز دے رہے ہیں۔
غریب گھرانوں کے نوجوانوں کو کالجز میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے کیا دیکھا؟برٹش انڈیا کے نوجوانوں نے پڑوس میں کمیونزم کے علم دار سوویت روس کو ابھرتے دیکھا۔ واقعتاً دیکھتی آنکھوں سے دیکھا۔ ان نوجوانوں کے سنتے کانوں نے سناکہ ان کے غریب باپ، داد پر علاقے کے سرمایہ دار و جاگیردار کس طرح ظلم روا رکھتے تھے۔ جب نظریہ یہ ہو کہ کھیت وڈیروں سے لے لو، ملیں لٹیروں سے لے لو تو اس بات میں پڑھے لکھے اور غریب طالب علموں کو بڑا رومانس نظر آیا۔ فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
کارل مارکس کی باتوں پر لینن نے روس میں عمل کرکے دکھایا۔ اس کی ہوبہو نقل پاکستان کے کمیونسٹوں نے کرنے کی کوشش کی۔ ''مذہب افیون ہے'' والے نظریے کو جوں کا توں پاکستان میں لاکر لیفٹ نے پڑھے لکھے اور عام مسلمانوں کو اپنے سے دور کرلیا۔ مذہب کتنی بڑی طاقت ہے، اس کا اندازہ نہ اصغر خان صحیح طور پر لگاسکے اور نہ پاکستان کے بائیں بازو کے لوگ۔ قائداعظم، بھٹو اور عمران خان نے مغرب میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اس کی اہمیت کو سمجھا۔ ملا کی پھبتی کسنا، اس نظریے کے پیروکار لاشعوری طور پر ایسا کرتے تھے۔ اپنے گروہ میں حسرت موہانی جیسے مذہبی اور مخلص نظریاتی شخص کی موجودگی کے باوجود لیفٹ کے دانشور اندوہناک غلطی کرگئے۔ وہ اگر مذہب پر تنقید سے بچتے ہوئے اپنے معاشی اور سیاسی خیالات کو آگے بڑھائیں تو مقبولیت کے امکانات پہلے سے زیادہ موجود ہیں۔
پاکستان میں بائیں بازو کی کامیابی ایک نظریاتی سیاست کو جنم دے گی، ساٹھ اور ستر کا عشرہ واپس لوٹ آئے گا جس میں امن و سکون و راحت تھی۔ یہ پاکستانیوں کو قومیت اور فرقہ واریت جیسے امراض سے بچانے کا علاج ہے۔ اسی لیے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اب رائٹ اور لیفٹ پاکستان سے ختم ہوگیا۔ جب مذہب ایک طاقت اور روٹی ایک ضرورت تو رائٹ اور لیفٹ کس طرح ختم ہوسکتے ہیں؟ محسوس ہوتا ہے کہ بایاں بازو اب مذہب کی اہمیت کو سمجھنے لگا ہے۔ وہ مارکس اور لینن کے نظریات ہوبہو پاکستان میں لاگو کرنے کی بات نہیں کررہا، بائیں بازو میں اپنے احیا کا جذبہ ایک بار پھر پروان چڑھ رہا ہے۔
سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی قومیت اور فرقہ واریت کے آگے بند باندھنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ یوں یہ کالم نگار چشم تصور میں ایک بار پھر لیفٹ اور رائٹ کی خوبصورت نظریاتی جنگ دیکھ رہا ہے۔ ذہنی طور پر جمود کے شکار پاکستانیوں کے آگے بڑھنے کے لیے لیفٹ اور رائٹ ایک بہتر نسخہ ہے، قومیت لوگوں کو تشویش کا مینڈک اور فرقہ واریت ملکوں کو کولہو کا بیل بنادیتی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر آنے کے لیے سرخ و سبز کی جنگ ناگزیر ہے ضروری ہے دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی کشمکش پاکستان کو مضبوط اور اعلیٰ ظرف بنانے کے لازمی ہیں، لیفٹ اور رائٹ۔
قومیت اور فرقہ واریت کی لڑائی میں لڑکپن گزار کر جوانی کے سنگم کو چھونے والے پہاڑ کی چوٹی سے ناواقف ہیں۔ وہ کیا جانیں کہ کالجز کے انتخابات میں 'ایشیا سرخ ہے اور ایشیا سبز ہے' کے نعروں میں کیا مزہ تھا۔ جامعات میں ''خون فلسطین سے ایشیا سرخ ہے اور گنبد رسولؐ سے ایشیا سبز ہے'' کے نعروں میں کیا سرور تھا۔ کالجز کے ماحول کے ذکر کے بعد ہم ملکی سیاست سے ہوتے ہوئے سوویت روس تک جائیںگے۔ برٹش انڈیا اور فرانس کے مختصر تذکرے کے بعد آخر میں لیفٹ کے دوستوں کو ایک تجویز۔
ذوالفقار علی بھٹو کے تیسرے نعرے نے ملکی سیاست میں ہلچل مچادی تھی۔ ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' کے نعرے نے ستر کے انتخابات میں مارکس اور لینن کو عوامی سطح پر متعارف کروایا، اس سے قبل ساٹھ کی دہائی میں کیفے ٹیریا میں دانشور حضرات اور تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات ان موضوعات پر گفتگو کرتے تھے۔ این ایس ایف اور اسلامی جمعیت طلبہ اس نظریاتی جنگ کے حریف ہوا کرتے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مولانا مودودی ؒ کی قیادت میں جماعت اسلامی نے رائٹ کا مورچہ سنبھالا تو لیفٹ کی نمایندگی مولانا بھاشانی اور ولی خان کے بجائے بھٹو کا مقدر ٹھہری، جاگیرداروں و سرمایہ داروں کی پیپلزپارٹی میں موجودگی ایک طرف تو کارخانوں اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ دوسری طرف یوں ملکی سیاست میں پیپلزپارٹی کے تضاد نے گلی کوچوں میں لیفٹ اور رائٹ کی جنگ کو دھیمے انداز میں رکھا۔ اس کی شدت تعلیمی اداروں میں زیادہ محسوس کی گئی۔ ساٹھ کا عشرہ این ایس ایف کا قرار پایا تو ستر کا عشرہ جمعیت کا۔ ابھی یہ عشرہ ختم ہونے میں چار دن باقی تھے کہ بین الاقوامی سطح پر ایک زوردار دھماکا ہوگیا۔
سوویت روس کے افغانستان پر قبضے نے ایک نئی جنگ چھیڑ دی۔ یہ اسلحہ و بارود کی جنگ بھی تھی اور خیالات و نظریات کی بھی۔ امریکا کی ٹکر کا سپر پاور روس جہاں کہیں جاتا تو واپس نہ ہوتا۔ پاکستان کے پڑوس میں اس کی آمد نے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ کمیونزم سے خائف مغربی دنیا نے جنرل ضیا الحق کی تنہائی دور کردی۔ دوسری طرف پاکستان کے بے یار و مددگار ترقی پسند تر و تازہ ہوگئے۔ بھاشانی کی دوری، ولی خان کی مجبوری اور بھٹو کی پھانسی نے انھیں تن تنہا کردیا تھا۔ ضیا الحق کی اسلام پسندی اور ایران میں علما کے اقتدار کے سبب پاکستانی ترقی پسند شفقت کے محتاج تھے۔
''چھینو چھینو پاکستان، جیسے چھینا افغانستان'' ایسے زہر ناک نعرے ایک طرف تھے تو دوسری طرف روسی ریچھ کو افغان سرحد سے نکال باہر کرنے کے جذبے۔ پاکستان دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا، طے ہوگیا تھا کہ آنے والے دنوں کا انحصار اس دہائی پر ہوگا جسے 80 کی دہائی کہا گیا۔ افغان جذبے، پاکستانی راہداری، سعودی سرمائے اور امریکی اسلحے نے سوویت یونین کو دریائے آمو سے دوسری طرف دھکیل دیا۔ یوں ایک عشرے بعد پاکستان کے کمیونسٹ ایک بار پھر سیاسی طور پر یتیم ہوگئے، روس کی شکست نے دو مسائل پیدا کیے ایک عالمی سطح پر اور دوسرا قومی سطح پر۔
دو غنڈے اگر محلے کے لوگوں کو تنگ کررہے ہوں تو ایک سے ڈانڈا چھیننے کی کوشش نہ کی جائے؟ اگر ایک قابو میں آجائے تو اسے اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ پھر ایک ہی غنڈے کا راج ہوگا؟ امریکا اکیلا سپر پاور بن گیا اور دنیا یونی پولر ہوگئی۔ یہ مسئلہ تب حل ہوا جب روس اور چین بھی طاقت ہوگئے، دنیا اب ملٹی پولر ہونے جارہی ہے، دنیا کا مسئلہ تو حل ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا لیکن پاکستان کے مسئلے کا حل کیا ہے؟
''لیفٹ اور رائٹ'' جیسے پروگرام اور بائیں بازو کا ایک بار پھر ابھرنا ملک کے مسئلے کا حل ہے۔ دو بیماریوں کا ایک علاج دو بیماریاں کیا ہیں؟ قومیت اور فرقہ واریت، سپر پاور سے لڑائی کے دوران پاکستان ایٹمی طاقت تو بن گیا لیکن روس کی شکست نے نظریاتی جنگ کا خاتمہ کردیا۔ اب ہم پٹھان، پنجابی، بلوچ، مہاجر اور سندھی میں بٹ چکے ہیں، یہ درد کیا کم تھا کہ فرقہ واریت بھی ہم میں داخل ہوگئی۔ وکلا کے انتخابات میں ووٹ دیتے وقت اس رجحان کو محسوس کیا گیا۔ قومیت اور فرقہ واریت کا علاج ایک نظریاتی جنگ ہے۔
رائٹ اور لیفٹ کی نظریاتی جنگ۔ وہ جنگ جو دو صدیاں قبل فرانس میں لڑی گئی تھی۔ اسمبلی میں دونوں گروہوں کو دائیں اور بائیں بٹھایا گیا۔ مذہب کے حامی دائیں جانب اور ان کے مخالف جدت پسند بائیں جانب یوں سیاست میں مذہب کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر لیفٹ اور رائٹ کا تصور قائم ہوا۔ پاکستان کو سیاسی، معاشی، اور دفاعی لحاظ سے مضبوط بنانے کے لیے لازمی ہے کہ فرقہ واریت اور قومیت سے ہٹ کر نظریے کی بنیاد پر اکٹھے ہونے والے آگے بڑھیں، اب ہم پاکستان کے کمیونسٹوں کی نفسیات اور ان کی ایک بنیادی خامی پر تجویز دے رہے ہیں۔
غریب گھرانوں کے نوجوانوں کو کالجز میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے کیا دیکھا؟برٹش انڈیا کے نوجوانوں نے پڑوس میں کمیونزم کے علم دار سوویت روس کو ابھرتے دیکھا۔ واقعتاً دیکھتی آنکھوں سے دیکھا۔ ان نوجوانوں کے سنتے کانوں نے سناکہ ان کے غریب باپ، داد پر علاقے کے سرمایہ دار و جاگیردار کس طرح ظلم روا رکھتے تھے۔ جب نظریہ یہ ہو کہ کھیت وڈیروں سے لے لو، ملیں لٹیروں سے لے لو تو اس بات میں پڑھے لکھے اور غریب طالب علموں کو بڑا رومانس نظر آیا۔ فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
کارل مارکس کی باتوں پر لینن نے روس میں عمل کرکے دکھایا۔ اس کی ہوبہو نقل پاکستان کے کمیونسٹوں نے کرنے کی کوشش کی۔ ''مذہب افیون ہے'' والے نظریے کو جوں کا توں پاکستان میں لاکر لیفٹ نے پڑھے لکھے اور عام مسلمانوں کو اپنے سے دور کرلیا۔ مذہب کتنی بڑی طاقت ہے، اس کا اندازہ نہ اصغر خان صحیح طور پر لگاسکے اور نہ پاکستان کے بائیں بازو کے لوگ۔ قائداعظم، بھٹو اور عمران خان نے مغرب میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اس کی اہمیت کو سمجھا۔ ملا کی پھبتی کسنا، اس نظریے کے پیروکار لاشعوری طور پر ایسا کرتے تھے۔ اپنے گروہ میں حسرت موہانی جیسے مذہبی اور مخلص نظریاتی شخص کی موجودگی کے باوجود لیفٹ کے دانشور اندوہناک غلطی کرگئے۔ وہ اگر مذہب پر تنقید سے بچتے ہوئے اپنے معاشی اور سیاسی خیالات کو آگے بڑھائیں تو مقبولیت کے امکانات پہلے سے زیادہ موجود ہیں۔
پاکستان میں بائیں بازو کی کامیابی ایک نظریاتی سیاست کو جنم دے گی، ساٹھ اور ستر کا عشرہ واپس لوٹ آئے گا جس میں امن و سکون و راحت تھی۔ یہ پاکستانیوں کو قومیت اور فرقہ واریت جیسے امراض سے بچانے کا علاج ہے۔ اسی لیے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اب رائٹ اور لیفٹ پاکستان سے ختم ہوگیا۔ جب مذہب ایک طاقت اور روٹی ایک ضرورت تو رائٹ اور لیفٹ کس طرح ختم ہوسکتے ہیں؟ محسوس ہوتا ہے کہ بایاں بازو اب مذہب کی اہمیت کو سمجھنے لگا ہے۔ وہ مارکس اور لینن کے نظریات ہوبہو پاکستان میں لاگو کرنے کی بات نہیں کررہا، بائیں بازو میں اپنے احیا کا جذبہ ایک بار پھر پروان چڑھ رہا ہے۔
سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی قومیت اور فرقہ واریت کے آگے بند باندھنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ یوں یہ کالم نگار چشم تصور میں ایک بار پھر لیفٹ اور رائٹ کی خوبصورت نظریاتی جنگ دیکھ رہا ہے۔ ذہنی طور پر جمود کے شکار پاکستانیوں کے آگے بڑھنے کے لیے لیفٹ اور رائٹ ایک بہتر نسخہ ہے، قومیت لوگوں کو تشویش کا مینڈک اور فرقہ واریت ملکوں کو کولہو کا بیل بنادیتی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر آنے کے لیے سرخ و سبز کی جنگ ناگزیر ہے ضروری ہے دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی کشمکش پاکستان کو مضبوط اور اعلیٰ ظرف بنانے کے لازمی ہیں، لیفٹ اور رائٹ۔