شہدائے آرمی پبلک اسکول کے وکیل کہاں ہیں

شہداء کے والدین چاہتے تھے کہ وہ عمران خان کی گاڑی روک کر ان سے بات کریں

amjad.aziz@express.com.pk

KABUL/ISLAMABAD:
آج نومبر ختم ہو رہا ہے اور کل سے وہ مہینہ شروع ہونے کو ہے جس نے صوبائی دارالحکومت(پشاور) کوکئی مہینوں تک سوگوار رکھا۔بہت سے ماہ و سال آئینگے اور گذر جائینگے لیکن دسمبر کا دکھ ہمیشہ دل و دماغ پر چھایا رہے گا۔پھولوں کے شہر میں جب پھولوں جیسے لائق ترین بچوں کو نشانہ بنایا گیا تب سے اب تک ملک میں ایک طرف اتحاد و اتفاق دیکھنے کو ملا تو وہیں نیشنل ایکشن پلان نے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کی جانب حکم رانوں نے قدم بڑھائے مگر نجانے کیوں پہلے پشاور میں شہید طلباء کے والدین نے شہداء فورم بنایا پھر اس فورم کے دو حصے ہو گئے پھر تین حصے ہوئے اور اب ایک اورغازی فورم قائم ہو چکا ہے۔اس حوالے سے کچھ لکھنا کسی طور کریڈٹ لینے کی بات نہیں لیکن کسی حل کی طرف جانا اہم معاملہ ہے اور اس طرف جانے کے سارے راستے یوں لگتے ہیں کہ شاید بند ہو گئے ہیں۔ لڑاؤ اور حکومت کرو کے مصداق ایک عظیم تحریک دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔

عمران خان نے اسی سال جنوری کی 15 تاریخ کو فرمایا تھا کہ وہ وکیل بن کر شہدائے اے پی ایس کا مقدمہ نواز شریف کے سامنے لے جائینگے لیکن وہ مقدمہ کیا لے جاتے اسپیکر اسد قیصر کو فوکل پرسن بنا کر انھوں نے بھی جان چھڑائی اور بیچارے اسپیکر شہداء کا کیا مقدمہ لڑینگے وہ تو خود اپنی حکومت کا مقدمہ نہیں لڑ سکتے۔سانحہ سولہ دسمبر کے بعد شہید بچوں کے والدین نے جو بچے زخمی تھے اور اس سانحہ کے غازی بنے ان کے والدین کے ساتھ مل کر شہداء اینڈ غازی فورم بنایا۔ اس وقت یہ قطعی علم نہیں تھا کہ اس تنظیم کا بنیادی مقصد کیا ہو گا۔ کیا شہیدوں کے لواحقین کو رقم دلوائی جائے گی؟ ان کے لیے پلاٹ مختص کروائے جائینگے؟شہید پیکیج دیا جائے گا ؟ زخمی بچوں کا بیرون ملک علاج کروایا جائے گا اور ایسی بہت سی خواہشات تھیں کیا انھیں عملی جامہ پہنایا جائے گا یقینا کسی ایک بھی شہید کے والد یا والدہ کی کوئی ایسی سوچ ہی نہ تھی، سبھی صرف یہ چاہتے تھے کہ ان عظیم قربانیوں کے نتیجے میں ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ہو اور کم از کم بچوں کی اتنی بڑی تعداد میں قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔ اب ایسا کیا ہوا کہ شہیدوں کے والدین بھی مختلف گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔

بہت سی باتوں کے عینی شاہد ابراراحمد اب میرے سوالوں کے جواب دے رہے تھے وہ خاصے فعال ہوا کرتے تھے اور اس سانحہ کے حوالے سے میڈیا میں بھی رہے، وہ بتا رہے تھے کہ سانحہ کے بعد نائن الیون کی طرز پر سولہ بارہ کے نام سے تنظیم بنی اور اس کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ جن کے بچے جان سے گئے ان کے علاوہ دوسرا کوئی اپنے مقاصد کے لیے شہیدوں کا نام استعمال نہ کر سکے، جب بھی پاکستان آرمی کی جانب سے شہداء کے والدین کو بلایا جاتا تو چائے کے وقفے میں وہ اسی تنظیم کی بابت بات کرتے۔ پھر یونیورسٹی ٹاؤن میں پہلا اجلاس ہوا تب لواحقین کی صرف سے ایک خواہش تھی کہ شہید بچوں کا نام رہتی دنیا تک زندہ و تابندہ رہے۔تنظیم کا دوسرا اجلاس گلبہار میں ہوا بہت سی باتوں پر اتفاق ہو گیا ۔ابرار احمد مزید بتا رہے تھے کہ وہ بھی بغیر کسی صلہ کی پروا کیے والدین کے ساتھ تھے،تنظیم بنی فیصلہ ہوا کہ عبوری کابینہ تشکیل دی جائے۔عابد رضا بنگش صدر اور اجون خان ایڈووکیٹ سیکریٹری بن گئے، اسی دوران عمران خان کی آرمی پبلک اسکول آمد کے حوالے سے ایک ناخوش گوار واقعہ بھی پیش آیا۔


شہداء کے والدین چاہتے تھے کہ وہ عمران خان کی گاڑی روک کر ان سے بات کریں اور ان سے پوچھیں کہ اس صوبے کے عوام نے انھیں مینڈیٹ دیا ہے پھر وہ کیوں تعزیت کے لیے نہ آ سکے آخر انھوں نے والدین سے رابطہ کر کے ان کا غم کم کرنے کی کوشش کیوں نہ کی ؟ ابرارکو شاید یہ پتہ نہیں تھا کہ عمران دل کے بہت اچھے مگر نجانے کیوں ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں وہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن کر نہیں پاتے وہ اعلان کرتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد میں دیر ہوجاتی ہے، بہرطور میں ابراراحمد کو سن رہا تھا وہ واقعہ یاد کروا رہے تھے جب یہ خبر سامنے آئی کہ پرویز خٹک اور اسد قیصر نے گاڑی روکنے پر انھیں برا بھلا کہہ دیا تھا حالانکہ وہ تو عمران خان سے بات کرنا چاہتے تھے مگر عمران کی گاڑی سے پہلے پرویز خٹک اور اسد قیصر کی گاڑی آ گئی جو غلط فہمی میں شہداء کے لواحقین نے روک لی، عمران سے ان کی ملاقات نہ ہو سکی اور جب عمران خان نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میںپریس کانفرنس کی تو ان کا فوکس قومی اسمبلی کا حلقہ122 رہا انھوں نے جوش خطابت میں یہ بھی فرما دیا کہ انھیں احتجاج کی سمجھ نہیں آئی چنانچہ جواب میں شہداء اور غازی فورم کے صدر نے پریس کانفرنس کر کے اپنے احتجاج کی وجہ بیان کی اور سوال کیا کہ شہیدوں کے لواحقین حکمران جماعت کے سربراہ سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کس نے کیوں مارا؟

عمران خان نے اس سوال کا جواب تو نہیں دیا اور نہ ہی اس سوال کا جواب انھیں کبھی مل سکے گا مگر شہداء اور غازی فورم کے درمیان اختلافات شروع ہو گئے اور فورم دو حصوں میں بٹ گیا ایک گروپ کا مؤقف تھا کہ بعض والدین شہیدوں کا خون بیچنا چاہتے ہیں دیگر سمجھتے تھے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جب دونوں گروپس نے ایک دوسرے کی نہ سنی تو آرمی پبلک اسکول شہداء فورم تشکیل دیدیا گیا گویا بدقسمتی نے شہیدوں کے لواحقین کا گھر دیکھ لیا ۔یہیں پر بات ختم نہیں ہوئی اب ایک غازی فورم بھی بن چکا ہے جس کے قیام کا مقصد زخمی بچوں کے علاج و معالجے کے لیے کوششیں کرنا اور ان کی زندگیاں بچانا ہے۔سانحہ اے پی ایس میں طالبعلم اسامہ ظفر نے بھی اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور اب ان کے والد ظفر اقبال عجیب مخمصے میں ہیں، بیٹا ملک کی بقا ء اور سالمیت پر قربان ہو گیا اور وہ ابھی تک ایف آئی آر سے ہی باہر نہیں نکل پا رہے، بظاہر یہ بات کہ سانحہ کی ایف آئی آر ان کی مدعیت میں درج کی جائے شاید کوئی معنی نہ رکھتی لیکن جس کا جگر گوشہ چھن جائے اس کومطمئن تو کسی طور کرنا چاہیے۔

یہ ایف آئی آر کس نے کہاں درج کی اور اس میں کیا لکھا گیا ہے اس کا ذکر اگلے کالم میں ہو گا البتہ ظفر اقبال نے صوبائی حکومت کی جانب سے ملنے والا بیس لاکھ روپے کا چیک امانتاً اپنے پاس رکھا ہوا ہے وہ کہتے ہیں کہ شہیدوں کے خون پر کسی قسم کی سودا بازی نہیں ہونے دینگے مگر ایک شہری ہونے کے ناطے انھیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی ایف آئی آر درج کروائیں آپ یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ شہیدوں کے لواحقین کو ان کے خون کی کتنی قیمت ملی، جان لیجیے صوبائی حکومت نے بیس لاکھ روپے دیے اور جن کے لیے تمغہ شجاعت کا اعلان ہوا انھیں مزید چھ چھ لاکھ روپے ملے اب وزیر اعظم نے شہداء اساتذہ اور عملے کے لیے اسی اسی لاکھ روپے کے پیکیج کی منظوری دی ہے تو اسی لیے شہیدوں کے لواحقین پوچھ رہے ہیں کہ ان کے بچوں کے خون کی قیمت آخر اتنی کم کیوں لگائی گئی؟
Load Next Story