بلدیاتی انتخابات صبرو تحمل کا امتحان
موجودہ بلدیاتی انتخابات ایک طرح سے ٹیسٹ کیس اور سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے تدبر اور صبر و تحمل کا امتحان ہیں
FAISALABAD:
کتنی درد انگیز عالمی صورتحال ہے کہ اکیسویں صدی کی سیاست و سفارت کاری کو تشدد عدم رواداری کشیدگی اور طیش کی ناقابل فہم لہر کا سامنا ہے جب کہ اس کے اثرات ترقی پزیر اور ترقی یافتہ ممالک کی داخلی سیاسی و سماجی صورتحال پر بھی پڑ رہے ہیں، حتی ٰکہ ملک میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن بھی اس کی جزوی زد میں آئے اور سیاسی جماعتوں نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر بھی تشدد آمیز حملوں سے گریز نہیں کیا۔ صحافیوں کی ہلاکتوں کے گزشتہ دو تین سال کا ریکارڈ اندوہ ناک ہے، اس تناظر میں ہفتہ اور اتوار کو کراچی میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے پرتشدد کارروائی نہ ہوتی تو بہتر تھا۔
مشتعل کارکنوں نے بلدیاتی انتخابات کی مہم کی کوریج کرنیوالی ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ کر کے اس کے شیشے توڑ دیے۔ اس سے قبل خاتون رپورٹر اور کیمرہ مین پر تشدد کیا جب کہ ضرورت رواداری صبر و تحمل اور سنجیدگی سے الیکشن مہم کو جاری رکھنے کی ہے، موجودہ بلدیاتی انتخابات ایک طرح سے ٹیسٹ کیس اور سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے تدبر اور صبر و تحمل کا امتحان ہیں ۔ کسی قسم کی تلخی کے بغیر انتخابی عمل مکمل ہوجا نا چاہیے، بلدیاتی الیکشن روزمرہ کے عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ قیادت کے چناؤ سے عبارت ہیں۔
یہی امیدوار کل کی سیاسی امید ہیں، صوبائی اور قومی اسمبلی کا زینہ طے کریں گے ، سینیٹر اسی میں سے نکلیں گے، سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما اپنے بلدیاتی منشور پر زور دیں، ثابت کریں کہ کہ وہ عوام کو ان کی دہلیز پر مسائل کے حل کے لیے موجود ہونے کے اہل ہیں ۔ سیاست کاری میڈیا کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
میڈیا کو سیاسی جماعتوں کی کوریج میں معروضیت، شفافیت ، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ کردار کی ادائیگی کے حوالہ سے کسی کو شکایت کا موقع نہیں دینا چاہیے جب کہ میڈیا بلاامتیاز ملک گیر انتخابی سرگرمیوں کی ہمہ جہت سیاسی کوریج پر مامور ہے، وہ جمہوری عمل اور بلدیاتی انتخابات کے یقینی اور منصفانہ انعقاد کی کوششوں میں اپنا کردار احسن طریقہ سے پوری ذمے داری کے ساتھ ادا کررہا ہے،اس میں کوئی دو رائے نہیں۔
کتنی درد انگیز عالمی صورتحال ہے کہ اکیسویں صدی کی سیاست و سفارت کاری کو تشدد عدم رواداری کشیدگی اور طیش کی ناقابل فہم لہر کا سامنا ہے جب کہ اس کے اثرات ترقی پزیر اور ترقی یافتہ ممالک کی داخلی سیاسی و سماجی صورتحال پر بھی پڑ رہے ہیں، حتی ٰکہ ملک میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن بھی اس کی جزوی زد میں آئے اور سیاسی جماعتوں نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر بھی تشدد آمیز حملوں سے گریز نہیں کیا۔ صحافیوں کی ہلاکتوں کے گزشتہ دو تین سال کا ریکارڈ اندوہ ناک ہے، اس تناظر میں ہفتہ اور اتوار کو کراچی میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے پرتشدد کارروائی نہ ہوتی تو بہتر تھا۔
مشتعل کارکنوں نے بلدیاتی انتخابات کی مہم کی کوریج کرنیوالی ایکسپریس نیوز کی ڈی ایس این جی وین پر حملہ کر کے اس کے شیشے توڑ دیے۔ اس سے قبل خاتون رپورٹر اور کیمرہ مین پر تشدد کیا جب کہ ضرورت رواداری صبر و تحمل اور سنجیدگی سے الیکشن مہم کو جاری رکھنے کی ہے، موجودہ بلدیاتی انتخابات ایک طرح سے ٹیسٹ کیس اور سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے تدبر اور صبر و تحمل کا امتحان ہیں ۔ کسی قسم کی تلخی کے بغیر انتخابی عمل مکمل ہوجا نا چاہیے، بلدیاتی الیکشن روزمرہ کے عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ قیادت کے چناؤ سے عبارت ہیں۔
یہی امیدوار کل کی سیاسی امید ہیں، صوبائی اور قومی اسمبلی کا زینہ طے کریں گے ، سینیٹر اسی میں سے نکلیں گے، سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما اپنے بلدیاتی منشور پر زور دیں، ثابت کریں کہ کہ وہ عوام کو ان کی دہلیز پر مسائل کے حل کے لیے موجود ہونے کے اہل ہیں ۔ سیاست کاری میڈیا کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
میڈیا کو سیاسی جماعتوں کی کوریج میں معروضیت، شفافیت ، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ کردار کی ادائیگی کے حوالہ سے کسی کو شکایت کا موقع نہیں دینا چاہیے جب کہ میڈیا بلاامتیاز ملک گیر انتخابی سرگرمیوں کی ہمہ جہت سیاسی کوریج پر مامور ہے، وہ جمہوری عمل اور بلدیاتی انتخابات کے یقینی اور منصفانہ انعقاد کی کوششوں میں اپنا کردار احسن طریقہ سے پوری ذمے داری کے ساتھ ادا کررہا ہے،اس میں کوئی دو رائے نہیں۔