آہ جمیل الدین عالی
لیجیے عالی جی بھی ہم سب کو سوگ وار اور غم زدہ چھوڑ کر ملک عدم روانہ ہوگئے۔
جن کے دم سے تھی بزم کی رونق
ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں
لیجیے عالی جی بھی ہم سب کو سوگ وار اور غم زدہ چھوڑ کر ملک عدم روانہ ہوگئے۔ خاندانی نواب مگر مزاجاً درویش اور قلندر۔ نواب زادہ جمیل الدین احمد خان المعروف جمیل الدین عالی۔ انھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ وہ ایک نہایت اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ تھے، جس کے بارے میں بے اختیار کہا جاسکتا ہے کہ ''ایں خانہ ہمہ آفتاب است''۔ سخنوری ان کی گھٹی میں شامل تھی جو انھیں اپنے پرکھوں سے ورثے میں ملی تھی۔ ان کے دادا نواب علاؤ الدین احمد خان کا شمار مرزا غالب کے نمایاں شاگردوں میں ہوتا تھا جب کہ ان کے والد بزرگوار نواب امیر الدین احمد خان فارسی میں شعر کہا کرتے تھے۔ عالی جی نے اپنے اس ورثے کو درجہ کمال تک پہنچادیا۔
عالی جی ایک پہلودار اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ہر جہت میں انھوں نے اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ اگرچہ پیشے کے لحاظ سے بینکار تھے مگر ان کا اصل میدان شاعری ہی ہے جس سے انھیں دنیا کے گوشے گوشے میں وہ قابل رشک شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کے خاندان کی طرح ان کی شاعری کا بھی ایک شجرہ نسب ہے جس میں غزلیں، نظمیں، گیت اور لازوال قومی نغمے شامل ہیں جن میں ''جیوے' جیوے پاکستان'' اور ''اے وطن کے سجیلے جوانو' میرے نغمے تمہارے لیے ہیں'' جو آج بھی وطن عزیز کے بچے بچے کی زبان پر ہیں اور جن کی گونج بیرونی ممالک میں بھی دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ یہ سدابہار نغمے نہ صرف 1965 کی پاک بھارت جنگ میں ہمارے بہادر فوجی جوانوں کے حوصلے بلند کرنے کا ذریعہ بنے بلکہ آج بھی اہل وطن کے خون کو گرما کر ہمیں حب الوطنی اور قومی یکجہتی کا درس دے رہے ہیں۔ فخر پاکستان حکیم محمد سعید شہید کی طرح جمیل الدین عالی کو بھی وطن عزیز سے اپنی جان عزیز سے بھی بڑھ کر پیار تھا۔ چناں چہ مملکت خداداد کے وجود پذیر ہوتے ہی انھوں نے رخت سفر باندھا اور اپنی جنم بھومی دلی کو چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیا جہاں زندگی کے ابتدائی ایام میں شہر قائد کراچی میں اس نواب زادے نے بڑی بڑی کٹھنائیں جھیلیں اور بالآخر اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔
جمیل الدین عالی واقعی اسم با مسمیٰ تھے۔ جو بھی ایک بار ان سے مل جاتا تھا ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ برسوں پرانی بات ہے جب ریڈیو پاکستان کراچی میں ہندی سروس کے زیر اہتمام ایک شعری نشست میں ہمیں ان کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا کوئی مشاعرہ تھا جن میں مرحوم احمد ہمیش اور رئیس فروغ کے علاوہ برادرم اسد محمد خان نے بھی ہندوستان کے سامعین کے دل اپنے کلام سے موہ لیے تھے۔ صدر مشاعرہ عالی جی نے اپنے منفرد انداز میں دوہے سنا کر سب کو سرشار کردیا۔
دوہا نگاری عالی کی شاعری کا بنیادی وصف ہے جس کی بدولت انھیں سب سے زیادہ اور نمایاں مقبولیت حاصل ہوئی مگر تکنیکی اعتبار سے ان کے دوہے ہندی شاعری کے معروف دوہا نگاروں بشمول عبدالرحیم خان خاناں، تلسی داس، بہاری، امیر خسرو اور کبیر داس سے مختلف ہیں۔ عروضی اعتبار سے بھی یہ دوہے کلاسیکی ہندی شاعروں کے دوہوں سے اپنا ایک الگ انگ، رنگ اور آہنگ رکھتے ہیں۔ نیز ان کے اوزان بھی کافی مختلف ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
ساجن ہم سے ملے بھی لیکن ایسے ملے کہ ہائے
جیسے سوکھے کھیت سے بادل بن برسے اُڑ جائے
ٹھنڈی چاندنی' اجلا بستر بھیگی بھیگی رین
سب کچھ ہے پر وہ نہیں یارو جس کو ترس گئے نین
امر واقعہ یہ ہے کہ عالی نے دوہوں کے ذریعے اپنی روح کی پیاس بجھانے کا اہتمام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
دوہے گیت سنا کر عالی من کی پیاس بجھائے
من کی پیاس بجھی نہ کسی سے اسے یہ کون بتائے
ہندی دوہوں سے استفادہ کرنے کے علاوہ عالی جی نے سندھی شاعری میں بھی شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رنگ کو بھی ایک نیا آہنگ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے جسے پوری قوم نے بہت پسند کیا ہے اور بے حد سراہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
اتنے بڑے جیون ساگر میں
تُو نے پاکستان دیا
ہو اللہ' ہو اللہ
ساحل ابھرا بیچ بھنور میں
ایک نیا امکان دیا
ہو اللہ' ہو اللہ
عالی نے اپنی غزل کی طرح دیگر اصناف شاعری کو بھی فارسی لفظیات کے سانچے میں ڈھالنے کے بجائے ہندی کے تال میل سے سجانے کی خوبصورت اور کامیاب کوشش کی ہے جس نے ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیے ہیں اور مقبولیت کے بام عروج تک پہنچا دیا ہے۔
نثر میں بھی عالی نے اپنا ایک منفرد اسلوب اختیار کیا جس کا عکس بالکل واضح طور پر ان کی ہر تحریر میں دکھائی دیتا ہے۔ ان کی کالم نگاری کا عرصہ بھی نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے۔ ان کے اخباری کالم عام کالم نگاروں سے بہت مختلف ہیں جن پر ان کی شاعری اور دانش وری کی چھاپ نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ کالموں کے علاوہ ان کے سفر نامے بعنوان ''دنیا مرے آگے''، ''تماشا مرے آگے'' بھی بہت مقبول ہوئے۔ ان کے سفرناموں میں ایران، عراق، مصر، لبنان، برطانیہ، روس، جرمنی، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، اٹلی اور امریکا سمیت کئی اہم ممالک شامل ہیں۔ ان سفرناموں کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ان کے ذریعے انھوں نے اپنے قاری کو آگاہ اور Educate کرنے کی کوشش کی ہے اور ماضی کا تعلق عہد حاضر سے جوڑنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے علاوہ عالی جی کی نثرنگاری میں ان کی مختصر تحریریں بھی شامل ہیں جو انھوں نے انجمن ترقی اردو کی مطبوعات پر ''حرف چند'' کے عنوان سے سپرد قلم کی ہیں۔
اردو کی ترویج و فروغ کے حوالے سے عالی جی کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ پورے 54 برس تک انجمن ترقی اردو پاکستان کے اعزازی معتمد کے طور پر بے لوث خدمات انجام دیتے رہے اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خواب کو اردو یونیورسٹی کی صورت میں شرمندہ تعبیر کرنے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔ اس حوالے سے اگر انھیں ''مجاہد اردو'' کا خطاب دیا جائے تو یہ ان کے شایان شان ہوگا۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل بھی ان ہی کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ عالی جی انجمن ساز ہی نہیں اپنی ذات میں بھی ایک انجمن تھے۔
ایسے آئینہ صفت لوگ کہاں سے لائیں
سلسلے ختم ہوئے انجمن آرائی کے
ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں
لیجیے عالی جی بھی ہم سب کو سوگ وار اور غم زدہ چھوڑ کر ملک عدم روانہ ہوگئے۔ خاندانی نواب مگر مزاجاً درویش اور قلندر۔ نواب زادہ جمیل الدین احمد خان المعروف جمیل الدین عالی۔ انھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ وہ ایک نہایت اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ تھے، جس کے بارے میں بے اختیار کہا جاسکتا ہے کہ ''ایں خانہ ہمہ آفتاب است''۔ سخنوری ان کی گھٹی میں شامل تھی جو انھیں اپنے پرکھوں سے ورثے میں ملی تھی۔ ان کے دادا نواب علاؤ الدین احمد خان کا شمار مرزا غالب کے نمایاں شاگردوں میں ہوتا تھا جب کہ ان کے والد بزرگوار نواب امیر الدین احمد خان فارسی میں شعر کہا کرتے تھے۔ عالی جی نے اپنے اس ورثے کو درجہ کمال تک پہنچادیا۔
عالی جی ایک پہلودار اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ہر جہت میں انھوں نے اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ اگرچہ پیشے کے لحاظ سے بینکار تھے مگر ان کا اصل میدان شاعری ہی ہے جس سے انھیں دنیا کے گوشے گوشے میں وہ قابل رشک شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کے خاندان کی طرح ان کی شاعری کا بھی ایک شجرہ نسب ہے جس میں غزلیں، نظمیں، گیت اور لازوال قومی نغمے شامل ہیں جن میں ''جیوے' جیوے پاکستان'' اور ''اے وطن کے سجیلے جوانو' میرے نغمے تمہارے لیے ہیں'' جو آج بھی وطن عزیز کے بچے بچے کی زبان پر ہیں اور جن کی گونج بیرونی ممالک میں بھی دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ یہ سدابہار نغمے نہ صرف 1965 کی پاک بھارت جنگ میں ہمارے بہادر فوجی جوانوں کے حوصلے بلند کرنے کا ذریعہ بنے بلکہ آج بھی اہل وطن کے خون کو گرما کر ہمیں حب الوطنی اور قومی یکجہتی کا درس دے رہے ہیں۔ فخر پاکستان حکیم محمد سعید شہید کی طرح جمیل الدین عالی کو بھی وطن عزیز سے اپنی جان عزیز سے بھی بڑھ کر پیار تھا۔ چناں چہ مملکت خداداد کے وجود پذیر ہوتے ہی انھوں نے رخت سفر باندھا اور اپنی جنم بھومی دلی کو چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیا جہاں زندگی کے ابتدائی ایام میں شہر قائد کراچی میں اس نواب زادے نے بڑی بڑی کٹھنائیں جھیلیں اور بالآخر اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔
جمیل الدین عالی واقعی اسم با مسمیٰ تھے۔ جو بھی ایک بار ان سے مل جاتا تھا ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ برسوں پرانی بات ہے جب ریڈیو پاکستان کراچی میں ہندی سروس کے زیر اہتمام ایک شعری نشست میں ہمیں ان کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا کوئی مشاعرہ تھا جن میں مرحوم احمد ہمیش اور رئیس فروغ کے علاوہ برادرم اسد محمد خان نے بھی ہندوستان کے سامعین کے دل اپنے کلام سے موہ لیے تھے۔ صدر مشاعرہ عالی جی نے اپنے منفرد انداز میں دوہے سنا کر سب کو سرشار کردیا۔
دوہا نگاری عالی کی شاعری کا بنیادی وصف ہے جس کی بدولت انھیں سب سے زیادہ اور نمایاں مقبولیت حاصل ہوئی مگر تکنیکی اعتبار سے ان کے دوہے ہندی شاعری کے معروف دوہا نگاروں بشمول عبدالرحیم خان خاناں، تلسی داس، بہاری، امیر خسرو اور کبیر داس سے مختلف ہیں۔ عروضی اعتبار سے بھی یہ دوہے کلاسیکی ہندی شاعروں کے دوہوں سے اپنا ایک الگ انگ، رنگ اور آہنگ رکھتے ہیں۔ نیز ان کے اوزان بھی کافی مختلف ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
ساجن ہم سے ملے بھی لیکن ایسے ملے کہ ہائے
جیسے سوکھے کھیت سے بادل بن برسے اُڑ جائے
ٹھنڈی چاندنی' اجلا بستر بھیگی بھیگی رین
سب کچھ ہے پر وہ نہیں یارو جس کو ترس گئے نین
امر واقعہ یہ ہے کہ عالی نے دوہوں کے ذریعے اپنی روح کی پیاس بجھانے کا اہتمام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
دوہے گیت سنا کر عالی من کی پیاس بجھائے
من کی پیاس بجھی نہ کسی سے اسے یہ کون بتائے
ہندی دوہوں سے استفادہ کرنے کے علاوہ عالی جی نے سندھی شاعری میں بھی شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رنگ کو بھی ایک نیا آہنگ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے جسے پوری قوم نے بہت پسند کیا ہے اور بے حد سراہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
اتنے بڑے جیون ساگر میں
تُو نے پاکستان دیا
ہو اللہ' ہو اللہ
ساحل ابھرا بیچ بھنور میں
ایک نیا امکان دیا
ہو اللہ' ہو اللہ
عالی نے اپنی غزل کی طرح دیگر اصناف شاعری کو بھی فارسی لفظیات کے سانچے میں ڈھالنے کے بجائے ہندی کے تال میل سے سجانے کی خوبصورت اور کامیاب کوشش کی ہے جس نے ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیے ہیں اور مقبولیت کے بام عروج تک پہنچا دیا ہے۔
نثر میں بھی عالی نے اپنا ایک منفرد اسلوب اختیار کیا جس کا عکس بالکل واضح طور پر ان کی ہر تحریر میں دکھائی دیتا ہے۔ ان کی کالم نگاری کا عرصہ بھی نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے۔ ان کے اخباری کالم عام کالم نگاروں سے بہت مختلف ہیں جن پر ان کی شاعری اور دانش وری کی چھاپ نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ کالموں کے علاوہ ان کے سفر نامے بعنوان ''دنیا مرے آگے''، ''تماشا مرے آگے'' بھی بہت مقبول ہوئے۔ ان کے سفرناموں میں ایران، عراق، مصر، لبنان، برطانیہ، روس، جرمنی، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، اٹلی اور امریکا سمیت کئی اہم ممالک شامل ہیں۔ ان سفرناموں کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ان کے ذریعے انھوں نے اپنے قاری کو آگاہ اور Educate کرنے کی کوشش کی ہے اور ماضی کا تعلق عہد حاضر سے جوڑنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے علاوہ عالی جی کی نثرنگاری میں ان کی مختصر تحریریں بھی شامل ہیں جو انھوں نے انجمن ترقی اردو کی مطبوعات پر ''حرف چند'' کے عنوان سے سپرد قلم کی ہیں۔
اردو کی ترویج و فروغ کے حوالے سے عالی جی کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ پورے 54 برس تک انجمن ترقی اردو پاکستان کے اعزازی معتمد کے طور پر بے لوث خدمات انجام دیتے رہے اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خواب کو اردو یونیورسٹی کی صورت میں شرمندہ تعبیر کرنے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔ اس حوالے سے اگر انھیں ''مجاہد اردو'' کا خطاب دیا جائے تو یہ ان کے شایان شان ہوگا۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل بھی ان ہی کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ عالی جی انجمن ساز ہی نہیں اپنی ذات میں بھی ایک انجمن تھے۔
ایسے آئینہ صفت لوگ کہاں سے لائیں
سلسلے ختم ہوئے انجمن آرائی کے