چوہدری نثار علی خان کے فیصلے
بعض سیاستدانوں نے دو بار وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالا
ISLAMABAD:
فضل الرحمن مملکتِ خداداد پاکستان کے پہلے وزیر داخلہ تھے۔ آج اس حساس اور طاقتور وزارت کا قلمدان چوہدری نثار علی خان صاحب کے پاس ہے جو تجربہ کار سیاستدان بھی ہیں اور وزیراعظم جناب محمد نواز شریف کے معتمد ساتھی بھی۔ پاکستان میں اب تک تین درجن سے زائد وزرائے داخلہ اپنے اپنے انداز میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
بعض سیاستدانوں نے دو بار وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالا۔ مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو اور چوہدری شجاعت حسین۔ ویسے تو آصف زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی کے دورِ اقتدار میں رحمن ملک کو بھی نہایت ہنگامی انداز میں وزارتِ داخلہ کے فرائض نبھانا پڑے تھے کہ ٹی ٹی پی کی وحشتوں اور دہشتوں نے ملک بھر میں قیامتیں برپا کر رکھی تھیں مگر چوہدری نثار علی خان کو وزیرداخلہ بن کر کچھ زیادہ ہی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ناموافق حالات کے باوجود مگر انھوں نے کئی ایسے فیصلے اور اقدام کیے ہیں جن سے عوام الناس کو بھی براہ راست فائدہ پہنچا ہے، ملک میں قیام امن کو فروغ بھی ملا ہے اور دہشت گردوں کے راستے بھی مسدود اور محدودکیے گئے ہیں۔
پاسپورٹوں اور اسلحہ لائسنسوں کے اجرا کے بارے میں ان کے منفرد فیصلے نمایاں ہیں۔ غیر ملکی این جی اوز، جو اس سے قبل پاکستان میں بے مہار پھرتی رہی ہیں، کو قانونی دائرے میں لانے اور ان کا حساب اور احتساب کرنے کے لیے چوہدری نثار علی خان نے جس سختی، کمٹمنٹ اور جرأت کے ساتھ قدم اٹھائے ہیں، انھیں غیر معمولی کہا جانا چاہیے۔
کئی غیر ملکی طاقتور اور مشکوک این جی اوز، جنہوں نے اپنے لامحدود فنڈز اور گہرے سیاسی و سماجی اثرورسوخ کے تحت یہاں اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے، نے احتساب کے سامنے آنے پر سرکشی کا مظاہرہ تو کیا لیکن وزیرداخلہ چوہدری نثار کے تیور اور غیر لچک رویہ دیکھ کر سرکشی سے تائب ہوگئیں اور خود کو وضع کردہ نئے قوانین کی پابندی پر آمادہ اور راضی کرلیا۔ قانونی پابندی کروانے پر یقینا چوہدری نثار مبارکباد کے مستحق ہیں۔ داخلہ امور میں چوہدری صاحب کو اب تک جو کامیابیاں ملی ہیں، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سیکیورٹی فورسز کے ہمقدم رہے ہیں۔
ملکی سلامتی اور ملک میں نفاذِ قانون کے حوالے سے اگر بعض نہایت حساس مقامات پر رینجرز کی شکل میں سیکیورٹی فورسز کے قدم ان کی ہدایات سے آگے بھی بڑھے تو چوہدری صاحب سدِ راہ نہیں بنے۔ یوں فریقین تصادم اور ناراضی کے ماحول سے کامل محفوظ رہے ہیں۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار علی خان بعض اوقات اپنے قائد اور وزیراعظم نواز شریف سے ایک فاصلے پر بھی کھڑے رہے۔ ممکن ہے یہ قیافے درست ہوں لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس کے باوجود حساس قومی معاملات اور قومی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے چوہدری صاحب نے وزیراعظم صاحب کو ہمیشہ صائب اور مثبت مشورے ہی دیے ہیں۔
اور یوں وزیرداخلہ ہونے کا حق ادا کردیا۔ مثال کے طور پر جناب نواز شریف کے دوسری بار امریکا جانے کے موقع پر فوری اور قابلِ تحسین مشورے کا دیا جانا۔ وزیراعظم نواز شریف دوسری بار (اکتوبر 2015ء کے آخری ہفتے) امریکا جانے کی تیاریاں کررہے تھے کہ مبینہ طور پر امریکا کی طرف سے تیار کردہ پاکستان کو ایک ایسا مشترکہ اعلامیہ وصول ہوا جس میں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام اور پاکستان کی افغان پالیسی کے حوالے سے بعض ایسے حساس امور کا ذکر کیا گیا تھا جو پاکستانی حکام اور پاکستانی عوام کو قطعی قبول نہ ہوسکتے تھے۔ اس مشترکہ اعلامئے کا اعلان واشنگٹن میں اس وقت کیا جانا تھا جب نواز شریف اور اوباما اکٹھے ہی اخبار نویسوں کے روبرو ہوتے۔
امریکا روانہ ہونے سے قبل یہ اعلامیہ مبینہ طور پر نواز شریف کی موجودگی میں کابینہ کے سامنے رکھا گیا تو چوہدری نثار علی خان نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ (قومی سلامتی کے منافی) اس اعلامئے پر دستخط کرنے سے بہتر ہے کہ آپ امریکا کا دورہ ہی منسوخ کردیجئے۔ بتایا جاتا ہے کہ چوہدری صاحب کے مشورے اور تجویز کی روشنی میں پاکستان کا ایک وفد واشنگٹن پہنچا تو دورے کی منسوخی کی بھنک پاکر امریکی انتظامیہ میں سراسیمگی پھیل گئی اور یوں انھوں نے اپنے تیار کردہ اعلامئے، جو دراصل بھارتی اور امریکی لابی کی شرارتوں کا شاخسانہ تھا، سے پاکستان کے لیے قطعی ناقابلِ قبول الفاظ نکال دیے۔
چوہدری نثار علی خان کی طرف سے دیے گئے ایسے بروقت مشورے کے لیے قوم ان کی شکرگزار ہے۔ چوہدری صاحب میاں نواز شریف کی کابینہ کے واحد وزیر ہیں جنہوں نے کھل کر بنگلہ دیش میں دی جانے والی بے گناہ پھانسیوں کی مذمت کی ہے۔
افغانستان اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے جو بیانات چوہدری نثار علی خان نے دیے ہیں، وہ بھی اپنی جگہ قابلِ تحسین ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے جو لہجہ اور اسلوب اختیار کیا ہے، اسے ملک بھر میں پسند کیا گیا۔ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب بھارتی انتہا پسند قوتوں نے اپنے ہاں پاکستان کے گلوکاروں، اداکاروں اور دانشوروں کو پر فارم بھی نہ کرنے دیا اور انھیں بے عزت کرنے کی قابلِ مذمت حرکتیں بھی کیں۔
مثال کے طور پر ہمارے عالمی شہرت یافتہ غزل گائیک غلام علی خان، ہمارے ڈرامہ اداکاروں اور ہمارے نامور سیاستدان جناب خورشید محمود قصوری کے خلاف بھارتی آر ایس ایس اور بی جے پی کی اجتماعی غلیظ حرکتیں؛ چنانچہ اسی پس منظر میں چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا قوم کو نہایت پسند آیا کہ اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ بھارت منہ کالا کرنے کی حرکتیں کرتا رہے، ہمارے کرکٹروں اور پی سی بی کے سینئر اہلکاروں کے خلاف آر ایس ایس نعرے لگاتی اور احتجاج کرتی رہے، ہمارے دانشوروں کو ملک کے اندر بے عزت کرنے کے اقدام ہوں اور ہم بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے رہیں۔
بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ذرا ذرا سی باتوں پر ڈی پورٹ کرنے کا سلسلہ بھی چوہدری صاحب کے تدبر کی وجہ سے رک گیا ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے بجا طور پر فیصلہ کرتے ہوئے بیرونِ ملک اپنے جملہ کاؤنٹر پارٹس کو یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ اب کسی بھی پاکستانی کو ڈی پورٹ کرنے سے قبل متعلقہ حکومتوں کی طرف سے حکومتِ پاکستان کو پوری تفصیل سے وضاحت کرنا ہوگی کہ یہ شخص پاکستانی ہے بھی یا نہیں اور یہ کہ ڈی پورٹ کیے جانے والے پاکستانی کا جرم کیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان نے بڑی جرأت کے ساتھ یہ قدم اٹھایا ہے اور ان کا یہ کہنا بھی نہایت بجا ہے کہ بغیر کسی وجہ کے کسی بھی پاکستانی کو ڈی پورٹ کرنا پاکستان کی توہین ہے۔ اس اقدام کے کئی مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
انشاء اللہ۔ خصوصاً پیرس پر ''داعش'' کے خونی حملے کے بعد ایسا قدم اٹھانا نہایت ناگزیر ہوگیا تھا تاکہ مغربی یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ چوہدری صاحب کے اس اقدام کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہ بے شمار بنگالی، برمی اور افغانی جو جعلی پاکستانی پاسپورٹوں پر بیرونِ ملک جانے میں کامیاب ہوچکے ہیں، اب اگر یہ لوگ اپنی بد قماشیوں اور بد اعمالیوں کے کارن غیر ممالک سے ڈی پورٹ کیے جاتے ہیں تو پاکستان صاف الفاظ میں انھیں قبول کرنے سے بھی انکار کرسکے گا اور آیندہ بھی ان کے راستے مسدود اور محدود کیے جاسکیں گے۔
چوہدری صاحب پاکستان میں تین سو سے زائد انسانی اسمگلروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عزمِ صمیم بھی رکھتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ان اسمگلروں نے وطنِ عزیز میں لاتعداد گھروں میں صفِ ماتم بچھا رکھی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ چوہدری صاحب کے عزائم کو کامیاب بھی کرے اور ان میں برکت بھی ڈالے۔ اس کے ساتھ ہی ان سے یہ بھی گزارش ہے کہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد، کو چوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں، رہزنوں سے محفوظ بنانے کے لیے بھی عملی اقدامات کریں۔ اب تو اسلام آباد بھی پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح انتہائی غیر محفوظ اور بدامنی کا گڑھ بن چکا ہے۔!!
فضل الرحمن مملکتِ خداداد پاکستان کے پہلے وزیر داخلہ تھے۔ آج اس حساس اور طاقتور وزارت کا قلمدان چوہدری نثار علی خان صاحب کے پاس ہے جو تجربہ کار سیاستدان بھی ہیں اور وزیراعظم جناب محمد نواز شریف کے معتمد ساتھی بھی۔ پاکستان میں اب تک تین درجن سے زائد وزرائے داخلہ اپنے اپنے انداز میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
بعض سیاستدانوں نے دو بار وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالا۔ مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو اور چوہدری شجاعت حسین۔ ویسے تو آصف زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی کے دورِ اقتدار میں رحمن ملک کو بھی نہایت ہنگامی انداز میں وزارتِ داخلہ کے فرائض نبھانا پڑے تھے کہ ٹی ٹی پی کی وحشتوں اور دہشتوں نے ملک بھر میں قیامتیں برپا کر رکھی تھیں مگر چوہدری نثار علی خان کو وزیرداخلہ بن کر کچھ زیادہ ہی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ناموافق حالات کے باوجود مگر انھوں نے کئی ایسے فیصلے اور اقدام کیے ہیں جن سے عوام الناس کو بھی براہ راست فائدہ پہنچا ہے، ملک میں قیام امن کو فروغ بھی ملا ہے اور دہشت گردوں کے راستے بھی مسدود اور محدودکیے گئے ہیں۔
پاسپورٹوں اور اسلحہ لائسنسوں کے اجرا کے بارے میں ان کے منفرد فیصلے نمایاں ہیں۔ غیر ملکی این جی اوز، جو اس سے قبل پاکستان میں بے مہار پھرتی رہی ہیں، کو قانونی دائرے میں لانے اور ان کا حساب اور احتساب کرنے کے لیے چوہدری نثار علی خان نے جس سختی، کمٹمنٹ اور جرأت کے ساتھ قدم اٹھائے ہیں، انھیں غیر معمولی کہا جانا چاہیے۔
کئی غیر ملکی طاقتور اور مشکوک این جی اوز، جنہوں نے اپنے لامحدود فنڈز اور گہرے سیاسی و سماجی اثرورسوخ کے تحت یہاں اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے، نے احتساب کے سامنے آنے پر سرکشی کا مظاہرہ تو کیا لیکن وزیرداخلہ چوہدری نثار کے تیور اور غیر لچک رویہ دیکھ کر سرکشی سے تائب ہوگئیں اور خود کو وضع کردہ نئے قوانین کی پابندی پر آمادہ اور راضی کرلیا۔ قانونی پابندی کروانے پر یقینا چوہدری نثار مبارکباد کے مستحق ہیں۔ داخلہ امور میں چوہدری صاحب کو اب تک جو کامیابیاں ملی ہیں، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سیکیورٹی فورسز کے ہمقدم رہے ہیں۔
ملکی سلامتی اور ملک میں نفاذِ قانون کے حوالے سے اگر بعض نہایت حساس مقامات پر رینجرز کی شکل میں سیکیورٹی فورسز کے قدم ان کی ہدایات سے آگے بھی بڑھے تو چوہدری صاحب سدِ راہ نہیں بنے۔ یوں فریقین تصادم اور ناراضی کے ماحول سے کامل محفوظ رہے ہیں۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار علی خان بعض اوقات اپنے قائد اور وزیراعظم نواز شریف سے ایک فاصلے پر بھی کھڑے رہے۔ ممکن ہے یہ قیافے درست ہوں لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس کے باوجود حساس قومی معاملات اور قومی سلامتی کے تحفظ کے حوالے سے چوہدری صاحب نے وزیراعظم صاحب کو ہمیشہ صائب اور مثبت مشورے ہی دیے ہیں۔
اور یوں وزیرداخلہ ہونے کا حق ادا کردیا۔ مثال کے طور پر جناب نواز شریف کے دوسری بار امریکا جانے کے موقع پر فوری اور قابلِ تحسین مشورے کا دیا جانا۔ وزیراعظم نواز شریف دوسری بار (اکتوبر 2015ء کے آخری ہفتے) امریکا جانے کی تیاریاں کررہے تھے کہ مبینہ طور پر امریکا کی طرف سے تیار کردہ پاکستان کو ایک ایسا مشترکہ اعلامیہ وصول ہوا جس میں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام اور پاکستان کی افغان پالیسی کے حوالے سے بعض ایسے حساس امور کا ذکر کیا گیا تھا جو پاکستانی حکام اور پاکستانی عوام کو قطعی قبول نہ ہوسکتے تھے۔ اس مشترکہ اعلامئے کا اعلان واشنگٹن میں اس وقت کیا جانا تھا جب نواز شریف اور اوباما اکٹھے ہی اخبار نویسوں کے روبرو ہوتے۔
امریکا روانہ ہونے سے قبل یہ اعلامیہ مبینہ طور پر نواز شریف کی موجودگی میں کابینہ کے سامنے رکھا گیا تو چوہدری نثار علی خان نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ (قومی سلامتی کے منافی) اس اعلامئے پر دستخط کرنے سے بہتر ہے کہ آپ امریکا کا دورہ ہی منسوخ کردیجئے۔ بتایا جاتا ہے کہ چوہدری صاحب کے مشورے اور تجویز کی روشنی میں پاکستان کا ایک وفد واشنگٹن پہنچا تو دورے کی منسوخی کی بھنک پاکر امریکی انتظامیہ میں سراسیمگی پھیل گئی اور یوں انھوں نے اپنے تیار کردہ اعلامئے، جو دراصل بھارتی اور امریکی لابی کی شرارتوں کا شاخسانہ تھا، سے پاکستان کے لیے قطعی ناقابلِ قبول الفاظ نکال دیے۔
چوہدری نثار علی خان کی طرف سے دیے گئے ایسے بروقت مشورے کے لیے قوم ان کی شکرگزار ہے۔ چوہدری صاحب میاں نواز شریف کی کابینہ کے واحد وزیر ہیں جنہوں نے کھل کر بنگلہ دیش میں دی جانے والی بے گناہ پھانسیوں کی مذمت کی ہے۔
افغانستان اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے جو بیانات چوہدری نثار علی خان نے دیے ہیں، وہ بھی اپنی جگہ قابلِ تحسین ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے جو لہجہ اور اسلوب اختیار کیا ہے، اسے ملک بھر میں پسند کیا گیا۔ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب بھارتی انتہا پسند قوتوں نے اپنے ہاں پاکستان کے گلوکاروں، اداکاروں اور دانشوروں کو پر فارم بھی نہ کرنے دیا اور انھیں بے عزت کرنے کی قابلِ مذمت حرکتیں بھی کیں۔
مثال کے طور پر ہمارے عالمی شہرت یافتہ غزل گائیک غلام علی خان، ہمارے ڈرامہ اداکاروں اور ہمارے نامور سیاستدان جناب خورشید محمود قصوری کے خلاف بھارتی آر ایس ایس اور بی جے پی کی اجتماعی غلیظ حرکتیں؛ چنانچہ اسی پس منظر میں چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا قوم کو نہایت پسند آیا کہ اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ بھارت منہ کالا کرنے کی حرکتیں کرتا رہے، ہمارے کرکٹروں اور پی سی بی کے سینئر اہلکاروں کے خلاف آر ایس ایس نعرے لگاتی اور احتجاج کرتی رہے، ہمارے دانشوروں کو ملک کے اندر بے عزت کرنے کے اقدام ہوں اور ہم بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے رہیں۔
بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ذرا ذرا سی باتوں پر ڈی پورٹ کرنے کا سلسلہ بھی چوہدری صاحب کے تدبر کی وجہ سے رک گیا ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے بجا طور پر فیصلہ کرتے ہوئے بیرونِ ملک اپنے جملہ کاؤنٹر پارٹس کو یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ اب کسی بھی پاکستانی کو ڈی پورٹ کرنے سے قبل متعلقہ حکومتوں کی طرف سے حکومتِ پاکستان کو پوری تفصیل سے وضاحت کرنا ہوگی کہ یہ شخص پاکستانی ہے بھی یا نہیں اور یہ کہ ڈی پورٹ کیے جانے والے پاکستانی کا جرم کیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان نے بڑی جرأت کے ساتھ یہ قدم اٹھایا ہے اور ان کا یہ کہنا بھی نہایت بجا ہے کہ بغیر کسی وجہ کے کسی بھی پاکستانی کو ڈی پورٹ کرنا پاکستان کی توہین ہے۔ اس اقدام کے کئی مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
انشاء اللہ۔ خصوصاً پیرس پر ''داعش'' کے خونی حملے کے بعد ایسا قدم اٹھانا نہایت ناگزیر ہوگیا تھا تاکہ مغربی یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ چوہدری صاحب کے اس اقدام کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہ بے شمار بنگالی، برمی اور افغانی جو جعلی پاکستانی پاسپورٹوں پر بیرونِ ملک جانے میں کامیاب ہوچکے ہیں، اب اگر یہ لوگ اپنی بد قماشیوں اور بد اعمالیوں کے کارن غیر ممالک سے ڈی پورٹ کیے جاتے ہیں تو پاکستان صاف الفاظ میں انھیں قبول کرنے سے بھی انکار کرسکے گا اور آیندہ بھی ان کے راستے مسدود اور محدود کیے جاسکیں گے۔
چوہدری صاحب پاکستان میں تین سو سے زائد انسانی اسمگلروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عزمِ صمیم بھی رکھتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ان اسمگلروں نے وطنِ عزیز میں لاتعداد گھروں میں صفِ ماتم بچھا رکھی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ چوہدری صاحب کے عزائم کو کامیاب بھی کرے اور ان میں برکت بھی ڈالے۔ اس کے ساتھ ہی ان سے یہ بھی گزارش ہے کہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد، کو چوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں، رہزنوں سے محفوظ بنانے کے لیے بھی عملی اقدامات کریں۔ اب تو اسلام آباد بھی پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح انتہائی غیر محفوظ اور بدامنی کا گڑھ بن چکا ہے۔!!