بدلتے تقاضے

کسی فن پارے، سماجی سائنسوں، مذہبی یا فلسفے کی کسی کتاب کو پڑھنے کا سب سے اعلیٰ طریقہ کارکیا ہوسکتا ہے

ibhinder@yahoo.co.uk

ISLAMABAD:
کسی فن پارے، سماجی سائنسوں، مذہبی یا فلسفے کی کسی کتاب کو پڑھنے کا سب سے اعلیٰ طریقہ کارکیا ہوسکتا ہے؟ان کی روایتی انداز میں تشریح یا ان کی تخلیقی تشریح کوکیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے؟کیا ہمیں کسی ایسے اعلیٰ طریقہ کارکو دریافت کرنا چاہیے؟ اور اگر ایسا کوئی طریقہ کار دریافت کرلیا جائے جس کہ بارے میں یہ یقین ہوکہ قرأت کا اس سے بہترکوئی اور طریقہ کار نہیں ہے تو پھرکیا ہمیں اس کو اختیارکرلینا چاہیے کہ نہیں؟ یہ چند سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسی تشریح و تعبیرکہ جس میں قاری کی پہلی وآخری ترجیح کسی فن پارے، مذہبی یا فلسفے کی کسی کتاب سے ان تصورات، خیالات، معنوں اورمفاہیم کا استخراج اور تشکیل مقصود ہو،جو انتہائی باریکی سے ان متون کے اندر پیوست تو ہوں مگر کسی مختلف یا نئے تناظر میں ان کے استخراج واطلاق کی بھی ضرورت محسوس کی جارہی ہو۔ مطلب یہ کہ اس نئی تعبیروتشریح میں اگرکوئی شے غیرمتعلقہ ہوتی ہے تو وہ کسی متن کی ماضی میں کئی گئی تشریح ہوتی ہے،کسی نقاد، فلسفی یا عالم کے نکالے گئے نتائج ہوتے ہیں جوغیر متعلقہ ہوجاتے ہیں۔

بذات خود متن غیر متعلقہ نہیں ہوتا ہے، اصل نکتہ یہ ہے کہ قرأت کا عمل حال کو ماضی میں لے جانے کا عمل نہیں ہے بلکہ ماضی کو حال میں لانا مقصود ہوتا ہے۔کسی بھی متن کی تاریخ کے کسی بھی عہد میں قرأت کی جاسکتی ہے،اس متن کو بامعنی بنایا جاسکتا ہے، منحصر اس بات پر ہے کہ اس کی تشریح وتعبیر کے لیے قرأت کا کیا طریقہ کار بروئے کارلایا جارہا ہے۔ ایسا طریقہ کار اور اس سے نکالے گئے نتائج جس سے ہر قسم کی سیاسی، سماجی اور مذہبی دقیانوسیت کا انہدام عمل میں آتا ہو۔ اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مختلف علوم و فنون کی گہری تفہیم رکھنے والے ایک اعلیٰ تربیت یافتہ قاری کی ضرورت ہے جو جب کسی متن کے اندر داخل ہو توایک متن اس کے اندر بھی موجود ہو،جو اسے اس کے عہد کے سماجی، سیاسی اور فلسفیانہ ومذہبی رجحانات کا گہرا فہم عطا کررہا ہو یعنی تربیت یافتہ قاری دونوں پریکساں قدرت رکھتا ہو۔

وہ ان تصوراتی، خیالی معنویت کو دریافت کرے جن کے درمیان دونوں متون میں مماثلت دکھائی دے رہی ہو اور ان امتیازات کو بھی دیکھ لے جو نئے تقاضوں کے تحت نئی تعبیر کے لیے ضروری نہ ہوں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر متعلقہ تصورات وخیالات کی مستقبل میں کسی اورسطح پر قرأت نہیں ممکن نہیں ہوگی۔ متون کی قرأت کی اولین شرط یہ ہے کہ انھیں اپنے عہد سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ ان متون کی پرانی تشریحات سے نجات پانی ہیں۔متن کی تشریح و تعبیر سے قبل یہ تہیہ کرلیا جائے کہ ہمیں متن سے باہر نہیں جانا ہے اور جو خیالات بدلتے تقاضوں سے غیر ہم آہنگ ہیں، انھیں محض اپنی موضوعی طبع یا اس خیال کے تحت متن کی تشریح میں متعلقہ ثابت نہیں کرنا کہ ان کی تشریح وتعبیر کسی بہت عالم فاضل شخصیت نے کررکھی ہے اور وہ شخصیت کسی فرقے کے لیے سندکا درجہ رکھتی ہے۔

شخصیات کی تقدیس کا پہلو غیر متعلقہ ہے! تشریح وتعبیر اصل متن کی مقصود ہے، اس دوران اگر ماضی میں کی گئی تشریح بدلتے تقاضوں کے تحت اپنی ہی ضد میں بدل گئی ہے تو اسے اپنے حال سے ہم آہنگ ہونے کے لیے مستردکردینا ہی بہتر ہے۔ سچی قرأت کا یہی تقاضا ہے۔ فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے یہ نہایت اہم نتیجہ نکالا تھا کہ'' متن سے باہرکچھ نہیں ہے۔''اس نتیجے کا مطلب یہ نہیں کہ متن کے اندر، اس کی تشکیل یا پیداوارکے عمل کے دوران خارج سے کوئی مواد اس کے اندر موجود نہیں ہوتا، یا متن میں داخل ہونے سے پہلے قاری کا ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے۔ متن کی تشکیل یا پیداوارکا عمل داخلی وخارجی عناصر کے ارتباط کا نتیجہ ہوتا ہے ، اگر وہ محض داخلی عناصر پر مشتمل ہو تو سماجی وثقافتی سطح پر اس کی تعبیرممکن نہیں ہے،کیونکہ ایسی تخلیق صرف ایک فوق تجربی التباس کو جنم دیتی ہے، جس کی جڑیں اس کے ''خالق'' کے باطل افکار میں گہری پیوست ہوتی ہیں۔


اس طرح اس التباس کی تعبیرکسی اور التباس کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔لہذا کسی بھی متن کو سماجی وثقافتی سطح پر قابل فہم بنانے کے لیے اس قسم کے باطل مفروضوں سے نجات پانا ضروری ہوتا ہے۔ اس کلیے کا اطلاق مذہبی، فلسفیانہ، فنی و ادبی متون پر یکساں ہوتا ہے، مذہبی، فلسفیانہ، فنی وادبی متون سے مخلص رہنے کے لیے ضروری ہے کہ قرأت کے عمل کے دوران اس متن کے اندر سے ہی معنی و مفاہیم کے استخراج کے عمل کا تعین کیا جائے۔ فرض کریں کہ اکیسویں صدی کا اعلیٰ تربیت یافتہ قاری کسی مذہبی کتاب کو پڑھنا چاہتا ہے، تو لازم ہے ایک باشعور اورلاتشکیلی اور جدلیاتی حوالوں سے تربیت یافتہ قاری اس کتاب کو انتہائی باریکی،گہرائی اور قریب سے اس کی قرأت کے بعد کسی نتیجے پر پہنچے۔ اتنے قریب سے کہ پہلے سے رائج تمام تشریحات کے دیگر پہلو واضح ہونے لگیں۔

وہ قاری مذہبی کتاب کی باریک قرأت سے پہلے سے ماخوذ نتائج کو مسترد کر دیگا، یہ ایسا خیال ہے جو کسی مذہبی کتاب کی بنیادی تعلیمات سے متصادم نہیں ہے، تاہم رجعتی سوچ ابھی اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔تاہم باشعور قاری جان بوجھ کرجھوٹ کی اشاعت پر کمر بستہ نہیں رہنا چاہتا۔ان رائج تشریحات سے نجات پانا چاہتا ہے،جودہشت گردی کے احیا اورجہالت کے فروغ کا باعث بن رہی ہیں۔یہاں ایک بات واضح رہے کہ ہر وہ تشریح وتعبیر جو بدلتے تقاضوں سے تضاد میں آجاتی ہے، وہ ماضی کا حصہ ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی اورعہد میں وہ صحیح ثابت ہوچکی ہو، نئے عہد کی باریک،گہری اور قریب سے کی گئی تعبیر اس لیے سچی ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد سے ہم آہنگ ہے۔ پرانی تعبیر تو غلط ہوسکتی ہے مگر نئے عہد کوغلط سمجھنا اور اسے گھسیٹ کر پرانے عہد میں لے جانے کی خواہش کرنا محض ایک موضوعی خواہش اور نفسیاتی خبط کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ہمیں بعض معاملات کے بارے میں انتہائی سچائی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔

مذہبی وغیر مذہبی متون کی تعبیرکا معاملہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ اگر کسی کی تشریح کو پہلے ہی سے حتمی تصورکرلینا ہے، تو ایسے میں ایک اعلیٰ تربیت یافتہ قاری کی ضرورت ہی نہیں ہے، وہی پرانا طریقہ کار ہی کافی ہے جس کا اصل مقصد متن کو کسی نئے تناظر میں تخلیقی اعتبار سے نہیں پڑھنا بلکہ تاریخی اورسماجی تناظر میں پہلے سے قائم آئیڈیولاجیکل غلبے کو برقرار رکھنا ہے ۔یہ رجحان انتہائی مہلک ثابت ہوا ہے۔ اس نے انتہاپسندی کو فروغ دیا ہے ۔ اگر ترجیحات آج بھی وہی پرانی ہیں تو نئی تشریح خواہ کتنی ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو، متن کے گہرے معنی تک رسائی حاصل کرنے میں کتنی ہی معاون کیوں نہ ہو، بے شک وہ معنی مفاہیم کی توسیع کا باعث ہی کیوں نہ بنتی ہو اور الٰہیاتی معنی کو زیادہ وسعت آشنا ہی کیوں نہ کرتی ہو، خواہ وہ شعور کی سطح کو بلند کرنے کا باعث ہی کیوں نہ ہو، وہ قدامت پسند شخص کی ترجیح کبھی نہیں بن سکتی۔ وجہ اس کی یہ نہیں کہ مذہبی متن کی نئی تشریح غلط ہے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ نئی تشریح نے پرانی تشریح کو غیر متعلقہ ثابت کر کے نئی تشریح کے تحت متن کو دوبارہ مرکز میں لاکھڑا کیا ہے۔ اب جو اعلیٰ تربیت یافتہ قاری کسی الٰہیاتی متن کی تشریح کرتا ہے، وہ گزشتہ تشریحات کا ابطال کرتی ہے۔

اس پرکسی بھی قدامت پسند شخص کی اجارہ داری قائم نہیں کی جاسکتی، وجہ اس کی یہ کہ نئی تشریح اس پرانی تشریح کی نہ صرف تمام روایت ہی کو مسمار کردیتی ہے، بلکہ نئی تشریح کا ایک ایسا طریقہ کار متعارف کراتی ہے جسے جامد و ساکت شعور کے حامل افراد کبھی قبول نہیں کرسکتے،کیونکہ کسی اورعہد میں تشریح کی ساری روایت کی ازسرِ نو تشکیل کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔اعلیٰ تشریحی طریقہ کار اس اعتبار سے بھی اذہان کی تربیت کرتا ہے کہ انھیں کسی بھی تشریح کو حتمی تسلیم کرنے سے روکتا ہے جب کہ قدامت پسند شخص طے شدہ تشریح سے متصادم ہر تشریح کو ہی ناقص سمجھتے ہیں۔ قدامت پسند شخص تمام تخلیقی تشریحات جوکہ عہد جدید کی ضرورت ہیں،ان کو محض اس لیے باطل نہیں سمجھتے کہ ان کا اپنا طریقہ کار زیادہ تخلیقی یا اصل متن کے قریب ہے۔

یا ان کی فکری سطح بہت بلند ہے، بلکہ صرف اس لیے کہ ان کی باطل تشریحات سے ان کے وجود کے اثبات کا قضیہ جڑا ہوا ہے۔ تخلیقی تشریح محض ایک تشریح کا ہی ابطال نہیں کرتی، اس وجود کو بھی باطل ٹھہراتی ہے جو کسی باطل تشریح کی بنیاد میں اپنے وجود کا اثبات تلاش کررہا ہوتا ہے۔انسان کی تفکری تاریخ حقیقت میں مختلف متون کی قرأت ہی کی تاریخ ہے۔ ہمیں بھی قرأت کے عمل سے گزرنا چاہیے، جو اس دارِ فانی سے کوچ کرچکے ہیں، جو ہمارے عہد کے تقاضوں سے نابلد ہیں، مگر ان کی تشریحات کو ہم مستند سمجھتے ہیں،نئی تشریحات کے لیے ضروری ہے کہ قرأت کے اعلیٰ طریقہ کارکے تحت، فنی، ادبی، مذہبی اور فلسفیانہ متون کی تشریح کے عمل کو نہ صرف اختیارکیا جائے، بلکہ مستقبل کے لیے انھی طریقہ کارکو قبول کیا جائے۔
Load Next Story