عوام بے اختیار ہیں
کسی بھی ملک میں کوئی پارٹی اگر ملک کا نظام ٹھیک چلا رہی ہے
کسی بھی ملک میں کوئی پارٹی اگر ملک کا نظام ٹھیک چلا رہی ہے تو وہ اس پر نہ ''ڈفلی'' بجاتی ہے نہ ''جشن'' منعقدکرتی ہے نہ ''ریلی'' نکالتی ہے نہ ''بھنگڑے'' ڈالتی ہے۔ ان سب کے آگے سیاسی بھی آپ لکھ سکتے ہیں، پڑھ سکتے ہیں، اور سمجھ تو سکتے ہی ہیں۔
برسر اقتدار پارٹی کے فرائض میں عوام کے لیے سہولتیں فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے اور وہ ''جنگلا بس'' نہیں ہوتیں بقول چوہدری شجاعت کے برادر خورد کے جو ہنگامی امدادی سروس 1122 کے بانی ہیں جو حقیقتاً ''عوامی مفاد'' کی چیز ہے یہ الگ بات ہے کہ کون اسے کس طرح استعمال کرتا ہے خیر تو ایک برسر اقتدار پارٹی کا سب سے اہم کام ہوتا ہے ''گڈ گورننس'' یعنی عوام کے لیے بہترین خدمت کرنے والے کہ جن کے بارے میں رائے عامہ یہی ہو کہ یہ پارٹی اپنے منشور اور وعدوں کے مطابق کام کر رہی ہے اور درست کام کر رہی ہے اور عوام یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس پارٹی کو عوام کے TAXاستعمال کرنے کا حق ہے عوام کے لیے، عوام کے مفاد میں۔
اب عوام کو کیا کیا چیزیں چاہیے ہوتی ہیں۔ روزگار، تعلیم، صحت، رہائش، تحفظ۔ ظاہر ہے کہ روزگار کا تعلیم سے گہرا تعلق ہے، صحت اس کے لیے لازمی ہے اور رہائش اور تحفظ اس کے Package میں شامل ہیں۔
یہ سب کام اس وقت درست ہوسکتے ہیں ، جب ملک میں قانون پر درست، غیر جانبدارانہ عمل ہو، یعنی ٹریفک کے قانون سے لے کر ہوائی جہاز تک کے سفر کے قانون اور ان پر عملدرآمد کے لیے ذمے داران کو مکمل آزادی اور تحفظ تاکہ عوام کا تحفظ ہوسکے ان کو سکون اورآرام مل سکے اس میں صاف شفاف الیکشن تمام سطحوں پر منعقد ہونا یا کروانا بھی شامل ہے جس میں ہر فرد آزادی کے ساتھ اپنا ووٹ بلاخوف و خطر استعمال کرسکے! آئیے جائزہ لے لیتے ہیں کہ ہمارے یہاں ان اصولوں پر کتنا عمل ہوتا ہے۔ قانون یہاں ہر ایک کے لیے الگ نظر آتا ہے کیونکہ قانون کتاب میں لکھا ہوا اور اس پر عمل درآمد کتاب سے ہٹ کر ہو تو قانون الگ ہی نظر آئے گا۔
الیکشن کمیشن بھی ہر ملک میں ہوتا ہے اور اس کی ذمے داری ہے کہ چھان پھٹک کر امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت دے۔ ہمارے یہاں بلدیاتی الیکشن میں ایک ایسا امیدوار بھی ٹنڈو الٰہ یار سے حصہ لے رہا ہے جو پولیس کو مطلوب ہے اور شاید اس کی گرفتاری پر کچھ انعام بھی ہے تو وہ اس حلقے سے کامیاب ہوجائے گا کیونکہ تمام امیدواروں نے اس کے خلاف کاغذات نامزدگی واپس لے لیے ہیں۔ پولیس نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے کہ یہ شخص ہمیں مطلوب ہے لہٰذا شاید اس وجہ سے اس کا نوٹیفکیشن رک جائے کچھ عرصے کے لیے یہ بندہ پولیس کو نہ مل سکا۔ الیکشن کمیشن چلا گیا۔
پمفلٹ لگ گئے سب کچھ ہوگیا۔ محکمہ تعلیم ریٹرننگ آفیسر ایک ایسے شخص کو لگا چکا ہے جسے اس دنیا سے رخصت ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں اب 17 نومبر 2015 کی خبر ہے کہ نابینا پروفیسر کو لیاقت آباد نمبر 4 یوسی کا پریزائیڈنگ آفیسر مقرر کردیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اس کا علم ہونے پر فہرست سے نام خارج کردیا۔ہمارے خیال میں غلط کیا کیونکہ یہاں ان کے پاس ایک جواز تھا کہ میں دیکھ نہیں سکا کیا ہوا ، مگر جو بینا ہوں گے وہاں وہ بھی تو نابینا والے کام کریں گے سرکارکے حکم پر اور الیکشن کمیشن اسی طرح تماشا دیکھے گا جیسے قومی اور صوبائی اسمبلی انتخابات کے بعد دیکھ رہا ہے۔
پاکستان کا وزیرخارجہ نہیں ہے لہٰذا وزیرداخلہ نے یہ حق استعمال کرتے ہوئے کرکٹ ٹیم کو بھارت جانے سے منع کیا، شہریار خان کہتے ہیں شاید میں بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی بات سمجھ نہیں سکا۔اس حکومت نے صرف ایک کام کیا ہے کہ کرکٹ بورڈ کے ''شرارتی بزرگوں'' کو کہا ہے کہ وہ اپنی حد میں رہیں اور بھارت حکومت کی اجازت کے بنا نہ جائیں اس کا فائدہ بھی بھارت سرکارکو ہی ہونے جا رہا ہے آخرکار وہ کہہ دیں گے کہ پاکستان کھیلنے سے مکرگیا۔
سپریم کورٹ نے زین کیس کا ازخود نوٹس لیا۔ زین کی والدہ کہتی ہیں کمزور ہوں قاتل طاقتور ہے اللہ کی رضا سمجھ کر چپ ہوں لڑ نہیں سکتی۔ کورٹ کہتی ہے سرکار آپ کا مقدمہ لڑے گی۔ کون سی سرکار جس کی ناک کے نیچے گواہوں نے بیان بدل لیے، گواہی بیچ دی۔ جو قاتل کو بچانا چاہتی ہے۔
بجلی کمپنیوں کی نج کاری کے خلاف واپڈا ملازمین کی ہڑتال، دفاتر بند، اسلام آباد میں Daily Wages ملازمین کے مستقل نہ کرنے پر احتجاجی مظاہرہ، سرکاری ملازمین حکومت کے خلاف سڑکوں پر آگئے،کئی شہروں میں ریلیاں، مظاہرے ۔
ایف بی آرکی پوری ٹیم تبدیل۔ ظاہر ہے کہ ایف بی آر نے جوکارروائیاں شروع کی ہیں، ان کی زد میں ''سرکارکے وظیفہ خوار'' آسکتے تھے تو سرکارکا ''بھرم'' ختم ہوتا۔اب مرض نہیں ''بندہ'' ختم کرنے کا رواج ہے اس سرکار میں۔ اکرم سہگل نے کہا کہ سیاستدانوں کو مجرموں کے خلاف کارروائی پسند نہیں ہے وہی تو ان کی طاقت ہیں ، منی لانڈرنگ یا مجرموں کی ضمانتیں نہیں روکی جا سکتیں۔
ملی بھگت سے باز، بٹیرکا غیر قانونی شکار عروج پر وائلڈ لائف لاہور کے افسران کی چاندی 85 شکاری ٹیمیں میدان میں، ہر ٹیم سے پچاس ہزار رشوت لی گئی۔
پنجاب میں ایک ماہ میں 103 خودکشیاں، 200 خواتین اور بچوں سے زیادتی۔ لاہور اور گرد و نواح میں ساڑھے تیرہ کروڑکی ڈکیتیاں، 2 ہزار گاڑیاں موٹرسائیکلیں چوری، سیاسی جماعتوں کے 18 کارکن قتل، ڈینگی کے مریضوں کی تعداد اکیس ہزار سے زیادہ تحریک انصاف کا وائٹ پیپر۔
ٹانگیں کھینچنے والے ہماری نہیں ملک کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ نواز شریف۔ ٹانگیں کھینچنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ملک کی ترقی سب کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔
یہ ہیں کے اخبارکی خبریں۔کیا لگتا ہے آپ کوکس قدرگڈگورننس ہے ملک میں جس کا پرچار کروڑوں کے اشتہارات اور اپنی اور اپنے خاندان کی تصاویرکے ذریعے نہ صرف وفاق والے بلکہ صوبوں کے بھی ''چیفس'' کرتے ہیں ۔ پاکستان کے عوام ''سسک'' رہے ہیں، ترقی کے خوابوں سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا، بھوکے کو سفرکے راستے، بندرگاہیں، شاہراہیں ایک ملک سے دوسرے ملک تک نہیں دو وقت کی روٹی چاہیے، عزت کا تحفظ چاہیے۔
چاردیواری چاہیے، روزگار چاہیے، آپ نے اپنے آپ کو ملک قرار دے دیا ٹھیک کہا جو وہاں ہوتا ہے، وہی ملک ہوتا ہے چاہے وہ زرداری ہو، یا نواز شریف، یا پھر کوئی اور یہ Musical Chair کا کھیل 1950 سے چل رہا ہے اور 55 سال ہوگئے یہ رقص ختم نہیں ہو رہا اور ہر ایک آنے والا اس کے نئے قانون بناتا ہے۔ صدر ہوتا ہے تو صدر کو سارے اختیارات دے دیتا ہے، وزیر اعظم ہوتا ہے تو صدر کے اختیارات قومی اسمبلی سے کم کروا دیتا ہے خود بااختیار ہوجاتا ہے اور جو انھیں اختیار دیتے ہیں پاکستان کے عوام وہ ''بے اختیار'' ہیں کچھ نہیں کرسکتے، وہ تو اب شاید ووٹ بھی پورے طور پر نہیں ڈالتے یہ کام بھی ان سیاستدانوں نے ''عوامی خدمت'' کے طور پر خود اپنے ذمے لے لیا ہے۔ خدا پاکستان کی حفاظت کرے، عوام کی حفاظت کرے (آمین)
برسر اقتدار پارٹی کے فرائض میں عوام کے لیے سہولتیں فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے اور وہ ''جنگلا بس'' نہیں ہوتیں بقول چوہدری شجاعت کے برادر خورد کے جو ہنگامی امدادی سروس 1122 کے بانی ہیں جو حقیقتاً ''عوامی مفاد'' کی چیز ہے یہ الگ بات ہے کہ کون اسے کس طرح استعمال کرتا ہے خیر تو ایک برسر اقتدار پارٹی کا سب سے اہم کام ہوتا ہے ''گڈ گورننس'' یعنی عوام کے لیے بہترین خدمت کرنے والے کہ جن کے بارے میں رائے عامہ یہی ہو کہ یہ پارٹی اپنے منشور اور وعدوں کے مطابق کام کر رہی ہے اور درست کام کر رہی ہے اور عوام یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس پارٹی کو عوام کے TAXاستعمال کرنے کا حق ہے عوام کے لیے، عوام کے مفاد میں۔
اب عوام کو کیا کیا چیزیں چاہیے ہوتی ہیں۔ روزگار، تعلیم، صحت، رہائش، تحفظ۔ ظاہر ہے کہ روزگار کا تعلیم سے گہرا تعلق ہے، صحت اس کے لیے لازمی ہے اور رہائش اور تحفظ اس کے Package میں شامل ہیں۔
یہ سب کام اس وقت درست ہوسکتے ہیں ، جب ملک میں قانون پر درست، غیر جانبدارانہ عمل ہو، یعنی ٹریفک کے قانون سے لے کر ہوائی جہاز تک کے سفر کے قانون اور ان پر عملدرآمد کے لیے ذمے داران کو مکمل آزادی اور تحفظ تاکہ عوام کا تحفظ ہوسکے ان کو سکون اورآرام مل سکے اس میں صاف شفاف الیکشن تمام سطحوں پر منعقد ہونا یا کروانا بھی شامل ہے جس میں ہر فرد آزادی کے ساتھ اپنا ووٹ بلاخوف و خطر استعمال کرسکے! آئیے جائزہ لے لیتے ہیں کہ ہمارے یہاں ان اصولوں پر کتنا عمل ہوتا ہے۔ قانون یہاں ہر ایک کے لیے الگ نظر آتا ہے کیونکہ قانون کتاب میں لکھا ہوا اور اس پر عمل درآمد کتاب سے ہٹ کر ہو تو قانون الگ ہی نظر آئے گا۔
الیکشن کمیشن بھی ہر ملک میں ہوتا ہے اور اس کی ذمے داری ہے کہ چھان پھٹک کر امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت دے۔ ہمارے یہاں بلدیاتی الیکشن میں ایک ایسا امیدوار بھی ٹنڈو الٰہ یار سے حصہ لے رہا ہے جو پولیس کو مطلوب ہے اور شاید اس کی گرفتاری پر کچھ انعام بھی ہے تو وہ اس حلقے سے کامیاب ہوجائے گا کیونکہ تمام امیدواروں نے اس کے خلاف کاغذات نامزدگی واپس لے لیے ہیں۔ پولیس نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے کہ یہ شخص ہمیں مطلوب ہے لہٰذا شاید اس وجہ سے اس کا نوٹیفکیشن رک جائے کچھ عرصے کے لیے یہ بندہ پولیس کو نہ مل سکا۔ الیکشن کمیشن چلا گیا۔
پمفلٹ لگ گئے سب کچھ ہوگیا۔ محکمہ تعلیم ریٹرننگ آفیسر ایک ایسے شخص کو لگا چکا ہے جسے اس دنیا سے رخصت ہوئے کئی سال ہوچکے ہیں اب 17 نومبر 2015 کی خبر ہے کہ نابینا پروفیسر کو لیاقت آباد نمبر 4 یوسی کا پریزائیڈنگ آفیسر مقرر کردیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اس کا علم ہونے پر فہرست سے نام خارج کردیا۔ہمارے خیال میں غلط کیا کیونکہ یہاں ان کے پاس ایک جواز تھا کہ میں دیکھ نہیں سکا کیا ہوا ، مگر جو بینا ہوں گے وہاں وہ بھی تو نابینا والے کام کریں گے سرکارکے حکم پر اور الیکشن کمیشن اسی طرح تماشا دیکھے گا جیسے قومی اور صوبائی اسمبلی انتخابات کے بعد دیکھ رہا ہے۔
پاکستان کا وزیرخارجہ نہیں ہے لہٰذا وزیرداخلہ نے یہ حق استعمال کرتے ہوئے کرکٹ ٹیم کو بھارت جانے سے منع کیا، شہریار خان کہتے ہیں شاید میں بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی بات سمجھ نہیں سکا۔اس حکومت نے صرف ایک کام کیا ہے کہ کرکٹ بورڈ کے ''شرارتی بزرگوں'' کو کہا ہے کہ وہ اپنی حد میں رہیں اور بھارت حکومت کی اجازت کے بنا نہ جائیں اس کا فائدہ بھی بھارت سرکارکو ہی ہونے جا رہا ہے آخرکار وہ کہہ دیں گے کہ پاکستان کھیلنے سے مکرگیا۔
سپریم کورٹ نے زین کیس کا ازخود نوٹس لیا۔ زین کی والدہ کہتی ہیں کمزور ہوں قاتل طاقتور ہے اللہ کی رضا سمجھ کر چپ ہوں لڑ نہیں سکتی۔ کورٹ کہتی ہے سرکار آپ کا مقدمہ لڑے گی۔ کون سی سرکار جس کی ناک کے نیچے گواہوں نے بیان بدل لیے، گواہی بیچ دی۔ جو قاتل کو بچانا چاہتی ہے۔
بجلی کمپنیوں کی نج کاری کے خلاف واپڈا ملازمین کی ہڑتال، دفاتر بند، اسلام آباد میں Daily Wages ملازمین کے مستقل نہ کرنے پر احتجاجی مظاہرہ، سرکاری ملازمین حکومت کے خلاف سڑکوں پر آگئے،کئی شہروں میں ریلیاں، مظاہرے ۔
ایف بی آرکی پوری ٹیم تبدیل۔ ظاہر ہے کہ ایف بی آر نے جوکارروائیاں شروع کی ہیں، ان کی زد میں ''سرکارکے وظیفہ خوار'' آسکتے تھے تو سرکارکا ''بھرم'' ختم ہوتا۔اب مرض نہیں ''بندہ'' ختم کرنے کا رواج ہے اس سرکار میں۔ اکرم سہگل نے کہا کہ سیاستدانوں کو مجرموں کے خلاف کارروائی پسند نہیں ہے وہی تو ان کی طاقت ہیں ، منی لانڈرنگ یا مجرموں کی ضمانتیں نہیں روکی جا سکتیں۔
ملی بھگت سے باز، بٹیرکا غیر قانونی شکار عروج پر وائلڈ لائف لاہور کے افسران کی چاندی 85 شکاری ٹیمیں میدان میں، ہر ٹیم سے پچاس ہزار رشوت لی گئی۔
پنجاب میں ایک ماہ میں 103 خودکشیاں، 200 خواتین اور بچوں سے زیادتی۔ لاہور اور گرد و نواح میں ساڑھے تیرہ کروڑکی ڈکیتیاں، 2 ہزار گاڑیاں موٹرسائیکلیں چوری، سیاسی جماعتوں کے 18 کارکن قتل، ڈینگی کے مریضوں کی تعداد اکیس ہزار سے زیادہ تحریک انصاف کا وائٹ پیپر۔
ٹانگیں کھینچنے والے ہماری نہیں ملک کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ نواز شریف۔ ٹانگیں کھینچنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ملک کی ترقی سب کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔
یہ ہیں کے اخبارکی خبریں۔کیا لگتا ہے آپ کوکس قدرگڈگورننس ہے ملک میں جس کا پرچار کروڑوں کے اشتہارات اور اپنی اور اپنے خاندان کی تصاویرکے ذریعے نہ صرف وفاق والے بلکہ صوبوں کے بھی ''چیفس'' کرتے ہیں ۔ پاکستان کے عوام ''سسک'' رہے ہیں، ترقی کے خوابوں سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا، بھوکے کو سفرکے راستے، بندرگاہیں، شاہراہیں ایک ملک سے دوسرے ملک تک نہیں دو وقت کی روٹی چاہیے، عزت کا تحفظ چاہیے۔
چاردیواری چاہیے، روزگار چاہیے، آپ نے اپنے آپ کو ملک قرار دے دیا ٹھیک کہا جو وہاں ہوتا ہے، وہی ملک ہوتا ہے چاہے وہ زرداری ہو، یا نواز شریف، یا پھر کوئی اور یہ Musical Chair کا کھیل 1950 سے چل رہا ہے اور 55 سال ہوگئے یہ رقص ختم نہیں ہو رہا اور ہر ایک آنے والا اس کے نئے قانون بناتا ہے۔ صدر ہوتا ہے تو صدر کو سارے اختیارات دے دیتا ہے، وزیر اعظم ہوتا ہے تو صدر کے اختیارات قومی اسمبلی سے کم کروا دیتا ہے خود بااختیار ہوجاتا ہے اور جو انھیں اختیار دیتے ہیں پاکستان کے عوام وہ ''بے اختیار'' ہیں کچھ نہیں کرسکتے، وہ تو اب شاید ووٹ بھی پورے طور پر نہیں ڈالتے یہ کام بھی ان سیاستدانوں نے ''عوامی خدمت'' کے طور پر خود اپنے ذمے لے لیا ہے۔ خدا پاکستان کی حفاظت کرے، عوام کی حفاظت کرے (آمین)