محتسب کے ادارے کو بے توقیر ہونے سے بچا لیں

ادارے مضبوط ا ور توانا ہونے چاہیں مگر یہ کسی مکینیکل طریقے سے نہیں ہو گا۔

KARACHI:
ادارے مضبوط ا ور توانا ہونے چاہیں مگر یہ کسی مکینیکل طریقے سے نہیں ہو گا۔ یہ فریضہ افراد ہی انجام دیتے ہیں، افراد ہی ادارو ں کو مضبوط بناتے ہیں اور افراد ہی اداروں کی بربادی کا باعث بنتے ہیں ، بعض افراد کی سربراہی اداروں کو وقار اور اعتبار بحشتی ہے اور بعض کا وجود خود اداروں کی توہین کا موجب ہوتا ہے ۔

چشم ِفلک نے یہ بھی دیکھنا تھا کہ جو شخص خود کرپشن کے الزامات میں معطل ہو چکا ہے، وہ آج پورے ملک کا محتسب ہے ۔کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ ممکن نہ تھا 'ایسے معجزے پاکستان میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔

کسٹمز سروس سے تعلق رکھنے والے افسر موصوف اپنی ''مخصو ص خصوصیات " کے باعث حکمرانوں کا قر ب حا صل کرنے میں یدِطولی رکھتے ہیں ' 1997-98 میں وہ کرپشن کی بناء پر معطل ہوئے ، 1999 میں جب جنرل مشرف نے آئین توڑ کر مارشل لاء لگایا اور ہر فوجی دور کے آغاز کی طرح کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کا ڈراما رچایا (جسے بعد میں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ) تو کئی دوسرے ملزموں کی طرح موصوف بھی ملک سے باہر بھاگ گئے اور کئی سال تک امریکا میں عیش و آرام کی زندگی گزارتے رہے ۔

جب این آر او کے تحت مشرف نے کرپشن کو تحفظ فراہم کر دیا اور کرپٹ عناصر کے خلاف ہر قسم کی کارروائی ختم کر دی گئی تو وہ پاکستان واپس آ گئے اور جب کرپشن میں سب پر بھاری سیاستدان ملک کا صدر بن گیا تو اپنے سیکریٹری یعنی اپنے مشیرِ اعلیٰ کے عہدے پر تعیناتی کے لیے اس کی نظرِ انتخاب موصوف پر ہی پڑی لہذا وہ سیکریٹری ٹو پریذیڈنٹ لگا دیے گئے جہاں وہ صدر صاحب کے ہر قسم کے غیر قانونی احکامات پر عملدرآمد کرانے کا فریضہ پوری وفاداری اور تندہی سے انجام دیتے رہے مگر موصوف مستقبل پر نظر رکھنے والے دور اندیش افسر ہیں لہذا وہ جانتے تھے کہ صدارت کی مدت تو بالآخر ختم ہو جائے گی جب کہ وہ اپنی " خدمات " اور " صلاحیتوں " سے اس غریب ملک کوکبھی محروم نہیں کرنا چا ہتے لہذا انھوں نے اپنی تعیناتی وفاقی محتسب کے طور پر کروا لی۔

یعنی ایک طرف وہ محترم زرداری صاحب کے سیکریٹری کے طور پر پوری loyalty کے ساتھ ان کے مفادات کا تحفظ کرتے رہے اور دوسری طرف وفاقی محتسب جیسےQusai Judicial عہدے پر براجمان ہو گئے ' جہاں تعیناتی کی بنیادی شرط بے داغ کردار اور نیک نامی ہونی چاہیے۔ سنا ہے اُس وقت بھی صدر صاحب کے قریبی حلقوں نے انھیں مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپکو بڑی نوکری ہی چاہیے تو اس کا بندوبست ہو جائیگا مگر سب سے بڑے محتسب کے عہدے پر آپکی تعیناتی سے شور مچ جائے گا " مگر وہ اس فقرے اور دلیل میں پنا ہ لیتے رہے کہ " اگر زرداری صاحب ملک کے صدر بن سکتے ہیں تو میں محتسب ِاعلی کیوں نہیں بن سکتا " اس پر اسلام آباد کے با اختیار حلقے ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے تھے کہ "زرداری صاحب مسند ِصدارت پر ہوں تومحتسب کے عہدے پر فائز ہونا آپ ہی کو جچتا ہے" سب کا یہ خیال تھا کہ موصوف ان لوگوں میں ہونگے جو زرداری صاحب کے ساتھ ہی فارغ ہو جائینگے مگر زرداری صاحب کے چلے جانے کے بعد بھی وہ ان کی یادگار کے طور پر قائم و دائم ہیں۔ کہتے ہیں مسلم لیگی حکومت میں وضعداری کچھ زیادہ ہی ہے اور وہ مفاہمانہ پالیسی کے تحت سابق صدرکے خاص آدمیوں کو چھیڑنا یا ہلانا نہیں چاہتی لہذا بہت سے مشکوک عناصر اس پالیسی کی پناہ لیے بیٹھے ہیں۔

ادھر صورتحال یہ ہے کہ کئی لوگوں نے موصوف کی تقرری کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کررکھا ہے، سپریم کورٹ میں بھی کیس چل رہا ہے اور موصوف صرف اور صرف delaying Tactics کا سہارا لیے ہوئے ہیں ۔ اب ایسے شخص کی ڈائریکشن کو سرکاری محکمے کتنی اہمیت دینگے اور کتنا سنجیدگی سے لیتے ہونگے ۔کوئی اور ہوتا تو میڈیا اسے جینے نہ دیتا لیکن چونکہ میڈیا کے کئی اہم لوگ ان کے ممنون ہیں اس لیے میڈیا خاموش ہے ۔ جس طرح کہ کئی اور زیرو کارکردگی والے محکموں کے ضمن میں بھی میڈیا نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

غالباً حکومت چاہتی تھی کہ موصوف خود ہی ادارے کی جان چھوڑ دیں اور چلے جائیں ۔ مگر وہ خود کیوں جائیں گے جب کہ وہ جانتے ہیں کہ انھیں آئینی تحفّظ حاصل ہے اور انھیں ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنا پڑے گا لہذا نہ صرف وہ خود مستعفیٰ نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے اس ادارے کو زرداری دور میں اہم عہدوں پر رہنے والے مشکوک شہرت کے ریٹائرڈ افسروں سے بھر دیا ہے ۔

شدید بحران کے دور میں جب راقم کو امیگریشن اینڈ پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کا ڈائریکٹر جنرل لگایا گیا تو چند روز میں ہی معلوم ہو گیا کہ بحران کرپشن ' بدنیتی اور نا اہلی سے پیدا ہوا ہے جس کی سب سے زیادہ ذمے داری سابق وزیر داخلہ اور سابق ڈی جی پاسپورٹ پر عائد ہوتی تھی ۔ ایک کمپنی سستے داموں لیمینیشن پیپر فراہم کر رہی تھی جب کہ وزیر صاحب مہنگے داموں فراہم کرنے والی کمپنی کو ٹھیکہ دلوانا چاہتے تھے لہذا اُنہوں نے ہر طریقے سے دباؤ ڈلوانا شروع کیا، وزیر صاحب کی پسندیدہ کمپنی کے نمایندے کے والد حکومتی پارٹی میں شامل ہو چکے تھے اور غالباً سینیٹر تھے جب دوسرے حربے کام نہ آئے تو ایک غلط کام کروانے کے لیے محتسب جیسے قابلِ احترام محکمے کو استعمال کرنے کی سازش کی گئی۔

محکمہ پاسپورٹ کے افسروں کو ہدایات ملیں کہ وہ ریکارڈ لے کر وفاقی محتسب صاحب کے گھر حاضر ہو جائیں ۔ وہ تو خیر راقم نے بدبو سونگھ کر ایسی ہدایات کی پرواہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور افسروں کو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے علاوہ کہیں بھی جانے سے منع کر دیا ورنہ موصوف اپنے ادارے کی چھتری تلے اپنا کام دکھانے پر تُلے ہوئے تھے۔


بہت سے حلقوں کو تحفظّات ہیں کہ اس پس منظر میں اور ایسے سربراہ کی موجودگی میں کیا صدر مملکت کااس ادارے کی تقریب میں جانا موزوں تھا؟ صدر صاحب تو پھر بھی سیاسی رہے ہیں اور کراچی کے حوالے سے افسر موصوف کے ان کے ساتھ سماجی تعلقات ہونگے مگر چیف جسٹس آف پاکستان کا ایسے ادارے کی تقریب میں شامل ہونا کسی صورت بھی موزوں نہ تھا۔ جب کہ عدالت ِ عظمیٰ میں موصوف کی تقرری کا کیس چل رہا ہے ۔

ایڈمنسٹرٹیو اسٹاف کالج کے سربراہ کا کیس بھی سپریم کورٹ میں پینڈنگ ہے۔ہر سال زیِر تربیت افسران چیف جسٹس سے ملاقات کے لیے سپریم کورٹ آتے ہیں مگر ادارے کے سربراہ کو اس میٹنگ پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ مشکوک شہرت کے افسر کا مہمان بننے سے صدر مملکت اور چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدوں کے وقار میں اضافہ نہیں کمی ہوئی ہے۔

اگرافسر موصو ف محتسب جیسے ادارے کے وقار میں اضافے کے لیے کچھ کرناچاہتے ہیں تو اُنکے کرنے کا ایک ہی کام ہے اگر وہ کر جائیں تو اُنہیں یاد رکھا جائے گا ۔ اس عہدے سے فوری طور پر سبکدوش ہو جائیں کیونکہ وہ اس منصب کے اہل نہیں ہیں ۔

عمران خان صاحب! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟

محترم عمران خان صاحب ! آپ نے کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ " ایسا ہی پاکستان بننا تھا تو اس سے بہتر تھا نہ بنتا " کیا اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کا نظریّہ چھوڑ کر آپ ابوالکلام آزاد اور پشِین گوئیاں کرنے والے دوسرے کانگریسی لیڈروں کے ہمنوا بن گئے ہیں؟ اگر ہم پاکستان کو اقبال ؒ اور قائدؒ کے وژن کے مطابق نہیں ڈھال سکے تو اس میں ہم خود قصور وار ہیں، ہماری آزادی یا ہمارا پاکستان نہیں!!میں، آپ اور پوری قوم اپنا کردار صیحح طور پر ادا نہیں کر سکی۔

خدانخواستہ خاکم بدہن پاکستان نہ بنتا تو ہندوستان میں ہر روز چالیس کروڑ غلام مسلمانوں کی عزتیں نیلام ہوتیں۔ آپ کو ساری شہرت اور عزّت پاکستان کے طفیل ہی ملی ہے اگرآپ وزارت ِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں تو یہ بھی پاکستان ہی کی بدولت ہے ۔یہ نہ ہوتا تو آپ نے کرکٹ کی کوئی اکیڈیمی کھولی ہوتی یا فلموں میں کوئی رول تلاش کر رہے ہوتے مگر ہندو غنڈے آپ کے گھر پر ہر روز دھاوہ بولتے ،آپ بھارت میں رہنے والے خانوں کی طرح ہر روز انتہا پسندوں کوخوش کرنے کے لیے اپنے دین اور اقدار سے لا تعلقی کے اعلان کرتے مگر وہ ہر روز آپ کو آستین کا سانپ قرار دیتے۔

میڈیا میں آپ کے سب سے مخلص دوست اور خیر خواہ محترم ہارون الرشید نے آپکے بیان کی وجہ صحبت ِ بد قرار دیا ہے۔ وہ ایسا کہنے کا حق رکھتے ہیں مگر میں پورے احترام سے صرف یہ کہونگا کہ خان صاحب آپ ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے سربراہ اور اپوزیشن کے سب سے بڑے لیڈر ہیں، آپ کا فرض قوم کو اور خصو صاً نوجوانوں کو اُمید دلانا ہے، اُ نہیں ملک سے بد ظن کر نا نہیں ! قومیں اپنے خوابوں کی تعبیر اور اہداف کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی رہتی ہیں مگرراہنما اپنی آزادی کی اہمیّت اور قدر و قیمت سے انکارنہیں کرتے۔ بڑے لیڈروں کو انتخاب میں کامیابی نہ بھی ملے تو بھی وہ تلخی میں کبھی یہ نہیں کہتے کہ " اس سے بہتر تھا امریکا آزاد نہ ہوتا" یا" بھارت غلام ہی رہتا تو بہتر تھا"۔

آپ نے جن راہنماؤں کی تعریف کی ہے بلاشبہ وہ لیڈر تھے مگر وہ سب ہماری آزادی کے مخالف تھے اور اُنہوں نے پاکستان کے قیام کی سر توڑ مخالفت کی۔ پاکستانی قوم انھیں اسی پس منظر میں دیکھے گی۔ پاکسانی قوم اپنی آزادی کے دشمنوں کے گن گانے کے بجائے اپنے ان مُحسنوں کے لیے دعائیں کرتی ہے اور اُنہی کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے اسے ہندو برھمن جیسے تنگ نظر اور کینہ پرور مسلم دشمن کی غلامی سے بچایا ہے اور آزادی جیسی بے مثال نعمت سے فیضیاب کیا ہے۔

محترم خان صاحب ! آپ کنفیوزڈ ذہنوں اور احساسِ کمتری میں مبتلا لوگوں کی مشاورت سے پرہیز کریں اور نظریاتی یکسوئی پیدا کریں ، آپ اپنی اہمیت کا ادراک کریں اور بولنے سے پہلے اپنے الفاظ کے اثرات اور نتائج کا ضرور اندازہ کر لیا کریں۔
Load Next Story