ترقی پسندادب اور مستقبل کے امکانات
اس کنونشن میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے آئے ہوئے مندوبین نے بھرپور شرکت کی۔
انجمن ترقی پسند مصنفین کاقیام 1936 میں عمل میں آیا تھا۔ اس تحریک نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کیا، ایک روشن خیال مصنفانہ سماج کے قیام کے لیے عوام میں شعور کو بیدار کرنے کے حوالے سے بھی اس کا کردار بے مثال ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین ، پاکستان کا کُل پاکستان تیسرا کنونشن کراچی میں 28 نومبر 2015 کو منعقدہ ہوا۔
اس کنونشن میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے آئے ہوئے مندوبین نے بھرپور شرکت کی۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ کنونشن میں اتفاق رائے سے جناب سلیم راز کو انجمن کا صدر اور ڈاکٹر جعفر احمد کو جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ اس موقعے پر ایک سیمینار کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں ترقی پسند ادب کے امکانات کے موضوع پر مختلف فاضل ادیبوں اور دانشوروں نے اظہار خیال کیا۔ اس حوالے سے میں نے بھی چند معروضات پیش کیں۔ میں نے جو کچھ کہا اس میں اپنے قارئین کو شریک کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔
ترقی پسند رجحانات ادب میں ہوں مصوری میں ، یا کسی بھی بات کا تخلیقی اظہار ہو رہا ہو، اس کا ایک شجرہ نسب ہے ، پندرہ سولہ ہزار برس پہلے اسپین کے التامیرا غاروں میں شکار کیے جانے والے جانوروں کے خدوخال بنانے والے گمنام مصور ہوں یا پندرہویں اور سولہویں صدی کے سستین چیپل کی مبہوت کردینے والی مصوری ہو اور آج تک اس سلسلۂ نسب سے جڑے ہوئے شاہکار ہوں۔ یہ سب ترقی پسندی کے مظاہر ہیں۔
اسی طرح ہم جب ترقی پسند ادب کی بات کرتے ہیں تو اس کا حوالہ سید سجاد ظہیر ، ملک راج آنند اور ڈاکٹر رشید جہاں کے افسانوں کے مجموعے ''انگارے '' کی اشاعت اور اس کے بعد ہونے والی انجمن ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس سے آغاز کرتے ہیں لیکن ہر آغاز کا کوئی ماضی ہوتا ہے اور ماضی سے اپنا رشتہ استوار کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ اگر ہم گہرائی میں جاکر دیکھیں تو '' انگارے '' کی اشاعت کا رشتہ ہزاروں برس پرانے ان مصریوں سے جڑتا ہے جنہوں نے پیپرس ایجاد کیا اور اس پر لکھنے اور اسے محفوظ رکھنے کا طریقہ اختیار کیا۔
اور پھر بھیڑ بکریوں اور ہرن کی کھال پر لکھے جانے کے بعد یہ سلسلہ چلتا ہوا چین پہنچا جہاں 105 عیسوی میں سائی لون نے اپنے شہنشاہ معظم کے لیے ریشم کے کیڑے سے کاغذ ایجاد کیا اور پھر اس سفر میں مختلف قومتیں رکھنے والے افراد داخل ہوتے ہیں، کوئی گوٹن برگ ہے اور کوئی جیسوئٹ مشن، پریس لے کر آتا ہے۔ پرتگیزی، اکبرکے دربار میں چھاپے خانے کا تحفہ پیش کرتے ہیں تو وہ اس تحفے کوکسی کونے میں ڈال کر بھول جاتا ہے اس لیے کہ بقول اکبر یہ تو لفظوں کو بہت بھدے انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس کے دربار کے الماس رقم اور خورشید قلم کی ہنرکاری کے سامنے لوہے کے ٹائپ میں ڈھلے ہوئے لفظ مہا بلی اکبر کو بھلا کیسے پسند آسکتے تھے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگر مہابلی اکبر نے پر تگیزیوں کے چھاپے خانے کو بھدا اور بدصورت کہہ کر رد نہ کیا ہوتا تو ''انگارے'' شایہ ایک صدی پہلے چھپ گئی ہوتی۔ شاید اس وقت ہم اردو میں ترقی پسند تحریک کی دوسری صدی منارہے ہوتے اور آج ہمارے یہاں ترقی پسند ادب بہت سی منزلیں مار چکا ہوتا۔
دراصل ہر شے کی ایک اساس اور بنیاد ہوتی ہے۔ تخلیقی ادب خواہ کسی بھی زباں ، زماں اور مکاں کا ہو، اپنی اساس میں ترقی پسند ہی نہیں بلکہ نہایت ترقی پسند ہوتا ہے کیونکہ تخلیقی عمل کا دوسرا نام ارتقاء ہے۔ کیا کوئی تخلیقی عمل ایسا ہوسکتا ہے جو وقت کو ماضی میں لے جاسکتا ہو؟ ہر نئی ایجاد انسان کو آگے بڑھا رہی ہے، ہر نئی دریافت سماجی ارتقاء کے عمل کو تیز ترکر رہی ہے۔ ارتقاء کے عمل کو آگے بڑھانے کا نام ترقی پسندی ہے، وہ ادب جو اس جوہر سے محروم ہے وہ تخلیقی ادب کے معیار پر کس طرح پورا اتر سکتا ہے؟
ہندوستان میں ترقی پسند ادبی تحریک ان قوتوں کے ردعمل میں پیدا ہوئی جو ادب کے نام پر قدامت پرستی کو برقرار رکھنا چاہتی تھیں، جو استعماری طاقتوں کی وفادار تھیں اور ان طبقات کی حاشیہ بردار تھیں جو ایک جدید صنعت یافتہ، جمہوری ، آزاد اور خودمختار سماج کے شدید مخالف تھے۔ ترقی پسند مصنفین کی اس تحریک میں ہر رنگ ، نسل، صنف ، مذہب ، مسلک اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے تخلیقی ادیب، شاعر، دانشور، نقاد اور قلمکار شامل تھے۔ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ترقی پسند تحریک نے ہندوستان کو فرنگی استبداد سے آزادی دلانے، اسے ایک آزاد جمہوری ملک بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس تحریک نے لوگوں کو ہر طرح کی نفرت سے آزاد ہوکر ایک بہتر اور خوبصورت مستقبل کی تعمیر کے لیے متحد ہونے کا پیغام دیا اور ان کے لیے مستقل کے نئے امکانات پیدا کیے ۔
ترقی پسند ادب 20 ویں صدی سے گزر کر اب 21ویں صدی میں داخل ہوگیا ہے جس کے تقاضے 20ویں صدی سے بہت مختلف ہیں۔ یہ اس قدر زیادہ مختلف ہیں کہ اگر ہم گذشتہ صدی کے رجحانات کو اس صدی پر منطبق کرنا چاہیں گے تو ترقی پسندی کے بجائے رجعت پرستی کا مظاہرہ کریں گے۔
ٹیگور نے ترقی پسند مصنفین کے پہلے اجلاس کے موقعے پر کہا تھا کہ ''میرے شعور کا تقاضہ ہے کہ انسانیت اور سماج سے محبت کرنا چاہیے، اگر ادب انسانیت سے ہم آہنگ نہ ہوا تو وہ ناکام و نامراد رہے گا۔ یہ حقیقت میرے دل میں چراغِ حق کی طرح روشن ہے اور کوئی استدلال اسے بجھا نہیں سکتا ۔''
عصری تقاضہ یہ ہے کہ ادب کو مذہبی، نسلی اور نظریاتی تفریق اور امتیاز سے آزاد ہونا چاہیے ۔ ہمیں سماج کو ایک کُل کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ ایک ایسا کُل جس کے بہت سے جزو اور پہلو ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی ایک جزو پورے کُل پر حاوی ہوجائے۔ ادیب کا تعلق خواہ کسی نظریے ، مذہب یا عقیدے سے ہو لیکن اس کا تخلیقی عمل ان عوامل کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔ وہ ادب جو کسی عقیدے اور نظریے کو سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا وہ ادب کے زمرے سے خارج ہوجائے گا۔
دنیا میں بسنے والے سیکڑوں ملکوں کے اربوں انسان اپنی تمام ترجداگانہ شناخت رکھتے ہوئے ایک عالمی برادری تشکیل دینے کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ موجودہ عہد کا ایک اہم تقاضہ ہے کہ ترقی پسند ادب اس عمل کو تیز کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ جدا گانہ شناخت رکھنے والے لوگوں کے باہمی اختلاط سے جو نئی جمالیات اور اقدار جنم لے رہی ہیں، ان کا تخلیقی اظہار کرے اور ان ہمہ جہت سماجی، ثقافتی، جذباتی، نفسیاتی، مسائل، پیچیدگی اور کج روی کو بھی اپنا موضوع بنائے جو اس ہمہ گیر عالمی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہو رہی ہیں۔
ترقی پسند ادب کے سامنے مستقبل کے امکانات بالکل واضح اور روشن ہونے چاہئیں۔ ہمیں یہ نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ تخلیقی اظہارکا کوئی زبان ، زمان یا مقام یقیناً ہوگا جس میں روایات اور ماضی کے رنگ بھی شامل ہوں گے لیکن اس کی جمالیات عالمی جمالیات سے متصادم نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ ہوں گی۔ وہ ادیب جو ایک متنوع عالمی سماج کی ابھرتی اور تشکیل پاتی جمالیات کا جتنی جلد تخلیقی ادراک کرے گا، اس کے پاس موضوع کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔
عالمی ادب، ارتقائی عمل کے باعث اس نئی عالمی جمالیات کو سمجھنے کے ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں 20 ویں صدی کے پہلے نصف کے بعد سے آج یعنی 21 ویں صدی کی دوسری دہائی تک کسی بھی ملک اور زبان میں کوئی بڑا ادیب یا شاعر پیدا نہیں ہوسکا ہے۔
عبوری دور کے نازک مرحلے میں نہ صرف ادب بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ 1950کے بعد سے ادیب اور شاعر ہی نہیں کوئی بڑا فلسفی، سیاسی رہنما یا سائنسدان بھی آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ یہ صورتحال اپنے اندر بھرپور امکانات رکھتی ہے۔ ماضی کے تجربے اور عصر حاضر کے نئے حقائق کے ادراک کے ذریعے ہم مستقبل کے شاندار امکانات یقینا تلاش کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے پیشگی شرط یہی ہے کہ :
1۔ تاریخ اور سماج کے ارتقاء کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کی جائے ۔
2۔ عالمی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والا عالمی انقلاب جو انسانوں کو اور ان کے تخلیقی مظاہر کو ایک عالمی رشتے میں پرو رہا ہے۔ اس کی مزاحمت نہ کی جائے۔
3۔ متنوع اور مختلف ثقافتوں کا احترام کیا جائے۔ اسے سیاسی ، مذہبی یا نظریاتی، غرض کسی بھی بنیاد پر ختم کرنے کی کاوش اور کوشش کی مزاحمت کی جائے ۔ خواہ اس عمل میں ہمیں اپنے ماضی کے بعض رویوں کو بھی تبدیل کیوں نہ کرنا پڑے ۔
ہمارے لیے یہ بات ناز و افتخار کا سبب ہے کہ ہم ترقی پسند ماضی کا ایک شاندار سرمایہ رکھتے ہیں اور اسے اگلی منزلوں تک لے جانا ہماری ادبی، ثقافتی اور تخلیقی ذمے داری ہے۔
اس کنونشن میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے آئے ہوئے مندوبین نے بھرپور شرکت کی۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ کنونشن میں اتفاق رائے سے جناب سلیم راز کو انجمن کا صدر اور ڈاکٹر جعفر احمد کو جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ اس موقعے پر ایک سیمینار کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں ترقی پسند ادب کے امکانات کے موضوع پر مختلف فاضل ادیبوں اور دانشوروں نے اظہار خیال کیا۔ اس حوالے سے میں نے بھی چند معروضات پیش کیں۔ میں نے جو کچھ کہا اس میں اپنے قارئین کو شریک کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔
ترقی پسند رجحانات ادب میں ہوں مصوری میں ، یا کسی بھی بات کا تخلیقی اظہار ہو رہا ہو، اس کا ایک شجرہ نسب ہے ، پندرہ سولہ ہزار برس پہلے اسپین کے التامیرا غاروں میں شکار کیے جانے والے جانوروں کے خدوخال بنانے والے گمنام مصور ہوں یا پندرہویں اور سولہویں صدی کے سستین چیپل کی مبہوت کردینے والی مصوری ہو اور آج تک اس سلسلۂ نسب سے جڑے ہوئے شاہکار ہوں۔ یہ سب ترقی پسندی کے مظاہر ہیں۔
اسی طرح ہم جب ترقی پسند ادب کی بات کرتے ہیں تو اس کا حوالہ سید سجاد ظہیر ، ملک راج آنند اور ڈاکٹر رشید جہاں کے افسانوں کے مجموعے ''انگارے '' کی اشاعت اور اس کے بعد ہونے والی انجمن ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس سے آغاز کرتے ہیں لیکن ہر آغاز کا کوئی ماضی ہوتا ہے اور ماضی سے اپنا رشتہ استوار کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ اگر ہم گہرائی میں جاکر دیکھیں تو '' انگارے '' کی اشاعت کا رشتہ ہزاروں برس پرانے ان مصریوں سے جڑتا ہے جنہوں نے پیپرس ایجاد کیا اور اس پر لکھنے اور اسے محفوظ رکھنے کا طریقہ اختیار کیا۔
اور پھر بھیڑ بکریوں اور ہرن کی کھال پر لکھے جانے کے بعد یہ سلسلہ چلتا ہوا چین پہنچا جہاں 105 عیسوی میں سائی لون نے اپنے شہنشاہ معظم کے لیے ریشم کے کیڑے سے کاغذ ایجاد کیا اور پھر اس سفر میں مختلف قومتیں رکھنے والے افراد داخل ہوتے ہیں، کوئی گوٹن برگ ہے اور کوئی جیسوئٹ مشن، پریس لے کر آتا ہے۔ پرتگیزی، اکبرکے دربار میں چھاپے خانے کا تحفہ پیش کرتے ہیں تو وہ اس تحفے کوکسی کونے میں ڈال کر بھول جاتا ہے اس لیے کہ بقول اکبر یہ تو لفظوں کو بہت بھدے انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس کے دربار کے الماس رقم اور خورشید قلم کی ہنرکاری کے سامنے لوہے کے ٹائپ میں ڈھلے ہوئے لفظ مہا بلی اکبر کو بھلا کیسے پسند آسکتے تھے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگر مہابلی اکبر نے پر تگیزیوں کے چھاپے خانے کو بھدا اور بدصورت کہہ کر رد نہ کیا ہوتا تو ''انگارے'' شایہ ایک صدی پہلے چھپ گئی ہوتی۔ شاید اس وقت ہم اردو میں ترقی پسند تحریک کی دوسری صدی منارہے ہوتے اور آج ہمارے یہاں ترقی پسند ادب بہت سی منزلیں مار چکا ہوتا۔
دراصل ہر شے کی ایک اساس اور بنیاد ہوتی ہے۔ تخلیقی ادب خواہ کسی بھی زباں ، زماں اور مکاں کا ہو، اپنی اساس میں ترقی پسند ہی نہیں بلکہ نہایت ترقی پسند ہوتا ہے کیونکہ تخلیقی عمل کا دوسرا نام ارتقاء ہے۔ کیا کوئی تخلیقی عمل ایسا ہوسکتا ہے جو وقت کو ماضی میں لے جاسکتا ہو؟ ہر نئی ایجاد انسان کو آگے بڑھا رہی ہے، ہر نئی دریافت سماجی ارتقاء کے عمل کو تیز ترکر رہی ہے۔ ارتقاء کے عمل کو آگے بڑھانے کا نام ترقی پسندی ہے، وہ ادب جو اس جوہر سے محروم ہے وہ تخلیقی ادب کے معیار پر کس طرح پورا اتر سکتا ہے؟
ہندوستان میں ترقی پسند ادبی تحریک ان قوتوں کے ردعمل میں پیدا ہوئی جو ادب کے نام پر قدامت پرستی کو برقرار رکھنا چاہتی تھیں، جو استعماری طاقتوں کی وفادار تھیں اور ان طبقات کی حاشیہ بردار تھیں جو ایک جدید صنعت یافتہ، جمہوری ، آزاد اور خودمختار سماج کے شدید مخالف تھے۔ ترقی پسند مصنفین کی اس تحریک میں ہر رنگ ، نسل، صنف ، مذہب ، مسلک اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے تخلیقی ادیب، شاعر، دانشور، نقاد اور قلمکار شامل تھے۔ ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ ترقی پسند تحریک نے ہندوستان کو فرنگی استبداد سے آزادی دلانے، اسے ایک آزاد جمہوری ملک بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس تحریک نے لوگوں کو ہر طرح کی نفرت سے آزاد ہوکر ایک بہتر اور خوبصورت مستقبل کی تعمیر کے لیے متحد ہونے کا پیغام دیا اور ان کے لیے مستقل کے نئے امکانات پیدا کیے ۔
ترقی پسند ادب 20 ویں صدی سے گزر کر اب 21ویں صدی میں داخل ہوگیا ہے جس کے تقاضے 20ویں صدی سے بہت مختلف ہیں۔ یہ اس قدر زیادہ مختلف ہیں کہ اگر ہم گذشتہ صدی کے رجحانات کو اس صدی پر منطبق کرنا چاہیں گے تو ترقی پسندی کے بجائے رجعت پرستی کا مظاہرہ کریں گے۔
ٹیگور نے ترقی پسند مصنفین کے پہلے اجلاس کے موقعے پر کہا تھا کہ ''میرے شعور کا تقاضہ ہے کہ انسانیت اور سماج سے محبت کرنا چاہیے، اگر ادب انسانیت سے ہم آہنگ نہ ہوا تو وہ ناکام و نامراد رہے گا۔ یہ حقیقت میرے دل میں چراغِ حق کی طرح روشن ہے اور کوئی استدلال اسے بجھا نہیں سکتا ۔''
عصری تقاضہ یہ ہے کہ ادب کو مذہبی، نسلی اور نظریاتی تفریق اور امتیاز سے آزاد ہونا چاہیے ۔ ہمیں سماج کو ایک کُل کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ ایک ایسا کُل جس کے بہت سے جزو اور پہلو ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی ایک جزو پورے کُل پر حاوی ہوجائے۔ ادیب کا تعلق خواہ کسی نظریے ، مذہب یا عقیدے سے ہو لیکن اس کا تخلیقی عمل ان عوامل کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔ وہ ادب جو کسی عقیدے اور نظریے کو سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا وہ ادب کے زمرے سے خارج ہوجائے گا۔
دنیا میں بسنے والے سیکڑوں ملکوں کے اربوں انسان اپنی تمام ترجداگانہ شناخت رکھتے ہوئے ایک عالمی برادری تشکیل دینے کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ موجودہ عہد کا ایک اہم تقاضہ ہے کہ ترقی پسند ادب اس عمل کو تیز کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ جدا گانہ شناخت رکھنے والے لوگوں کے باہمی اختلاط سے جو نئی جمالیات اور اقدار جنم لے رہی ہیں، ان کا تخلیقی اظہار کرے اور ان ہمہ جہت سماجی، ثقافتی، جذباتی، نفسیاتی، مسائل، پیچیدگی اور کج روی کو بھی اپنا موضوع بنائے جو اس ہمہ گیر عالمی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہو رہی ہیں۔
ترقی پسند ادب کے سامنے مستقبل کے امکانات بالکل واضح اور روشن ہونے چاہئیں۔ ہمیں یہ نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ تخلیقی اظہارکا کوئی زبان ، زمان یا مقام یقیناً ہوگا جس میں روایات اور ماضی کے رنگ بھی شامل ہوں گے لیکن اس کی جمالیات عالمی جمالیات سے متصادم نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ ہوں گی۔ وہ ادیب جو ایک متنوع عالمی سماج کی ابھرتی اور تشکیل پاتی جمالیات کا جتنی جلد تخلیقی ادراک کرے گا، اس کے پاس موضوع کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔
عالمی ادب، ارتقائی عمل کے باعث اس نئی عالمی جمالیات کو سمجھنے کے ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں 20 ویں صدی کے پہلے نصف کے بعد سے آج یعنی 21 ویں صدی کی دوسری دہائی تک کسی بھی ملک اور زبان میں کوئی بڑا ادیب یا شاعر پیدا نہیں ہوسکا ہے۔
عبوری دور کے نازک مرحلے میں نہ صرف ادب بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ 1950کے بعد سے ادیب اور شاعر ہی نہیں کوئی بڑا فلسفی، سیاسی رہنما یا سائنسدان بھی آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ یہ صورتحال اپنے اندر بھرپور امکانات رکھتی ہے۔ ماضی کے تجربے اور عصر حاضر کے نئے حقائق کے ادراک کے ذریعے ہم مستقبل کے شاندار امکانات یقینا تلاش کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے پیشگی شرط یہی ہے کہ :
1۔ تاریخ اور سماج کے ارتقاء کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کی جائے ۔
2۔ عالمی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والا عالمی انقلاب جو انسانوں کو اور ان کے تخلیقی مظاہر کو ایک عالمی رشتے میں پرو رہا ہے۔ اس کی مزاحمت نہ کی جائے۔
3۔ متنوع اور مختلف ثقافتوں کا احترام کیا جائے۔ اسے سیاسی ، مذہبی یا نظریاتی، غرض کسی بھی بنیاد پر ختم کرنے کی کاوش اور کوشش کی مزاحمت کی جائے ۔ خواہ اس عمل میں ہمیں اپنے ماضی کے بعض رویوں کو بھی تبدیل کیوں نہ کرنا پڑے ۔
ہمارے لیے یہ بات ناز و افتخار کا سبب ہے کہ ہم ترقی پسند ماضی کا ایک شاندار سرمایہ رکھتے ہیں اور اسے اگلی منزلوں تک لے جانا ہماری ادبی، ثقافتی اور تخلیقی ذمے داری ہے۔