پولیس سسٹم یا چوں چوں کا مربّہ
جس غریب کا اس کے ساتھ ایک گھنٹے کا بھی پالا پڑ گیا وہ اپنی نسلوں کو بھی ان سے دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔
ISLAMABAD:
میں اس ملک کی آستینوں میں چھپے سانپوں سے بہت ڈرتا ہوں، کیوں کہ وہ کفار تو نہیں لیکن منافقین ضرور ہیں، وہ جس کا کھاتے ہیں اسی کا ہی بُرا سوچتے ہیں۔ وہ جس قوم کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں وہ اس کے ساتھ نمک حلالی بھی نہیں کرتے۔ اس کا نام کوئی اور نہیں ''پولیس'' ہے جسے دنیا بھر میں امن کی علامت سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان میں اس کو ''خوف'' کا 'ڈرون' گردانا جاتا ہے۔
جس غریب کا اس کے ساتھ ایک گھنٹے کا بھی پالا پڑ گیا وہ اپنی نسلوں کو بھی ان سے دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ پولیس سے خوفزدہ رہتے ہیں اور اپنے چھوٹے موٹے چوری ڈکیتی کے مقدمات تھانے تک لے کر ہی نہیں جاتے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی حوالات سے ایک دفعہ بچ کر آ جائے تو وہ اندر کی نت نئی کہانیاں بیان کر رہا ہوتا ہے۔
برسوں بیت گئے یہ سنتے ہوئے کہ ''تھانہ کلچر'' میں انقلابی تبدیلیاں لا کر اس نظام کو بدل کر رکھ دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا کبھی نہیں اور ہو گا بھی نہیں کیونکہ اسی تھانے، پٹوار خانے اور کچہری کلچر کے بل بوتے پر تو یہ اقتدار میں آتے ہیں۔ یہ کلچر بدلنا تو دور کی بات فرسودہ نظام کو ہی آگے چلنے میں عافیت جانتے ہیں تاکہ یہ اسی نظام کی بدولت عوام کی چمڑی ادھیڑتے رہیں۔ کیوں کہ یہ سسٹم ایک چوں چوں کا مربہ بنا ہوا ہے، دو صوبوں (پنجاب اور خیبرپختونخواہ) نے پولیس آرڈر 2002 میں ترمیم کرکے پولیس کے بنیادی قانون کا حصہ بنایا ہے جس پر شاید ہی عمل کیا جا رہا ہو اور دوسرے دو صوبے سندھ اور بلوچستان، پولیس ایکٹ 1861 کا دقیانوسی قانون استعمال کررہے ہیں۔
اس نظام میں نہ تو کوئی عہدیدار مستقلاََ کسی ایریا کا ذمے دار ہوتا ہے اور نہ وہ کسی مدت میں ہونے والے کرائم کا ذمے دار ہوتا ہے کیوں کہ پولیس ایکٹ 1861میں پولیس افسروں کی تعیناتی کی مدت کے بارے میں کوئی واضح ہدایات ہی نہیں ہیں، البتہ پولیس آرڈر 2002 میں خصوصاً صوبائی پولیس افسروں (PPO) اور کیپیٹل سٹی پولیس افسروں (CCPO) کے لیے معینہ مدت کی اہمیت کو محسوس کرکے، تین سال کی مدت کا تعین کیا گیا ہے۔
لیکن دراصل جو رائج طریقہ ہے، اس میں، صوبائی پولیس چیف کی اوسط مدت صرف آٹھ مہینہ بنتی ہے (سندھ چھ مہینہ، پنجاب نو مہینہ، خیبر پختونخواہ نو مہینہ، بلوچستان نو مہینہ) اور صوبائی دارالحکومتوں کے پولیس سربراہوں کی (جہاں لا قانونیت کے مسائل بہت زیادہ گمبھیر ہیں) صرف چھ مہینہ ہے، جب کہ پچھلے تین سال کے عرصے میں کراچی میں اوسطاً ہر چار مہینے میں پولیس چیف کا تبادلہ ہوجاتا ہے اور لاہور میں ہر ساڑھے چار مہینے میں۔ پولیس اسٹیشن جو پولیس کی انتظامیہ کا سب سے اہم پرزہ ہے۔
اس کی سربراہی کرنے والا ایس ایچ او لاہور میں اوسطاً صرف تین مہینے کے لیے تعینات ہوتا ہے اور کراچی میں تین مہینے سے بھی کم۔ اس کے بعد جو سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہم ان پولیس افسروں سے عہدے کی اس محدود مدت کی تعیناتی میں کسی بھی قسم کی موثر کارروائی کی امید کرنے میں حق بجانب ہیں؟ پولیس کی قیادت کا کام پالیسی سازی اور ان کا نفاذ ہے لیکن ان چند غیریقینی مہینوں کے عہدوں کی مدت میں وہ یہ سب تو نہیں کرسکتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ اس نظام کا از سر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور عوام کے درمیان خلاء کے حوالے سے کالم لکھے گئے لیکن مجال ہے اس نظام میں کہیں بہتری نظر آئی ہو۔ ہاں بہتری نظر ضرور آتی ہے لیکن صرف اور صرف میڈیا کی حد تک۔کیوں کہ جو حکومت بھی اس نظام میں بہتری کے حوالے سے کچھ کر گزرنے کے لیے کوئی چھوٹا موٹا کام کرتی ہے تو اس کی اتنی پبلسٹی کروا کر خوامخواہ کا پیسا ضایع کر دیتی ہے کہ وہ کام بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے (اس کی واضع مثال کے پی کے کا پولیس نظام ہے)۔ میرے چند ایک دوست اس ادارے سے وابستہ ہیں، میری اکثر ان سے بحث ہو جاتی ہے اور وہ میری تحریروں و تنقیدوں سے اکثر وہ نالاں رہتے ہیں۔
ان کا کہنا بھی بجا ہے کہ عوام کو جتنی پولیس سے شکایات ہیں اتنی ہی پولیس کو حکومت سے شکایات ہیں، لیکن ''ڈسپلن فورس'' ہونے کی وجہ سے احتجاج بھی نہیں کر سکتی۔ اور جو پولیس اہلکار اپنے حق کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں ان کے خلاف محکمانہ کارروائیاں عمل میں لائی جاتی ہیں، اور بسا اوقات تنخواہیں بھی روک لی جاتی ہیں۔ اس لیے پولیس کے مسائل وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں، ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ پولیس کی 24گھنٹے کی ڈیوٹیاں کرنا ہے۔
جسمانی اور ذہنی تھکان ہمارے محافظوں کو وقت سے پہلے دماغی طور پر مفلوج کر دیتی ہیں۔ جس کے بعد ہماری پولیس کی اکثریت ''کامن سینس'' جیسی خدائی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شہریوں کے جان ومال کے محافظ، ارباب اختیار کے روٹ پر دھوپ بارش میں کھلے آسمان تلے ڈیوٹیاں دینے والے پنجاب پولیس کے کانسٹیبل کو ماہانہ صرف 25، 30ہزا رروپے تنخواہ دی جاتی ہے، صوبائی حکومت بغیر چھٹی اور24گھنٹے ڈیوٹی کے باوجود سپاہی کے مورال کو ہائی دیکھنے کی خواہش مند، سپاہی سے سب انسپکٹر تک کی کم تنخواہوں نے معاشرے میں کرپشن کو رواج دیا ہے۔
پنجاب میں امن و امان کا کو ئی بھی مسئلہ ہو یہی پولیس فرنٹ لائن پر ہو تی ہے، تنخواہوں کے معیار کو دیکھا جائے اور موازنہ کیا جائے کہ جس سب انسپکٹر نے قتل کیس کی تفتیش کر نی ہے، اسے صرف ایک ہزار روپے روزانہ معاوضہ مل رہا ہے جب کہ جو سپاہی سینہ تان کر دہشت گردی یا جرائم پیشہ افراد کی گولی کو روکنے کے لیے کھڑا ہے اسے روزانہ800 روپے تنخواہ کی مد میں ملتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے۔ اگر حکومت کچھ کرنا چاہتی ہے تو اس محکمے میں بھی ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات لے کر آئے کیوں کہ اس محکمے کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور سندھ کے قائم علی شاہ حقیقی معنوں میں اس نظام کو بہتر بنا کرکوئی واقعتاََ اچھا کام کر جائیں۔ پولیس کا ایسا نظام متعارف کروا جائیں کہ لوگ تمام گلے شکوے بھول کر تاریخ میں انھیں یاد رکھیں۔
میں اس ملک کی آستینوں میں چھپے سانپوں سے بہت ڈرتا ہوں، کیوں کہ وہ کفار تو نہیں لیکن منافقین ضرور ہیں، وہ جس کا کھاتے ہیں اسی کا ہی بُرا سوچتے ہیں۔ وہ جس قوم کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں وہ اس کے ساتھ نمک حلالی بھی نہیں کرتے۔ اس کا نام کوئی اور نہیں ''پولیس'' ہے جسے دنیا بھر میں امن کی علامت سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان میں اس کو ''خوف'' کا 'ڈرون' گردانا جاتا ہے۔
جس غریب کا اس کے ساتھ ایک گھنٹے کا بھی پالا پڑ گیا وہ اپنی نسلوں کو بھی ان سے دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ پولیس سے خوفزدہ رہتے ہیں اور اپنے چھوٹے موٹے چوری ڈکیتی کے مقدمات تھانے تک لے کر ہی نہیں جاتے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی حوالات سے ایک دفعہ بچ کر آ جائے تو وہ اندر کی نت نئی کہانیاں بیان کر رہا ہوتا ہے۔
برسوں بیت گئے یہ سنتے ہوئے کہ ''تھانہ کلچر'' میں انقلابی تبدیلیاں لا کر اس نظام کو بدل کر رکھ دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا کبھی نہیں اور ہو گا بھی نہیں کیونکہ اسی تھانے، پٹوار خانے اور کچہری کلچر کے بل بوتے پر تو یہ اقتدار میں آتے ہیں۔ یہ کلچر بدلنا تو دور کی بات فرسودہ نظام کو ہی آگے چلنے میں عافیت جانتے ہیں تاکہ یہ اسی نظام کی بدولت عوام کی چمڑی ادھیڑتے رہیں۔ کیوں کہ یہ سسٹم ایک چوں چوں کا مربہ بنا ہوا ہے، دو صوبوں (پنجاب اور خیبرپختونخواہ) نے پولیس آرڈر 2002 میں ترمیم کرکے پولیس کے بنیادی قانون کا حصہ بنایا ہے جس پر شاید ہی عمل کیا جا رہا ہو اور دوسرے دو صوبے سندھ اور بلوچستان، پولیس ایکٹ 1861 کا دقیانوسی قانون استعمال کررہے ہیں۔
اس نظام میں نہ تو کوئی عہدیدار مستقلاََ کسی ایریا کا ذمے دار ہوتا ہے اور نہ وہ کسی مدت میں ہونے والے کرائم کا ذمے دار ہوتا ہے کیوں کہ پولیس ایکٹ 1861میں پولیس افسروں کی تعیناتی کی مدت کے بارے میں کوئی واضح ہدایات ہی نہیں ہیں، البتہ پولیس آرڈر 2002 میں خصوصاً صوبائی پولیس افسروں (PPO) اور کیپیٹل سٹی پولیس افسروں (CCPO) کے لیے معینہ مدت کی اہمیت کو محسوس کرکے، تین سال کی مدت کا تعین کیا گیا ہے۔
لیکن دراصل جو رائج طریقہ ہے، اس میں، صوبائی پولیس چیف کی اوسط مدت صرف آٹھ مہینہ بنتی ہے (سندھ چھ مہینہ، پنجاب نو مہینہ، خیبر پختونخواہ نو مہینہ، بلوچستان نو مہینہ) اور صوبائی دارالحکومتوں کے پولیس سربراہوں کی (جہاں لا قانونیت کے مسائل بہت زیادہ گمبھیر ہیں) صرف چھ مہینہ ہے، جب کہ پچھلے تین سال کے عرصے میں کراچی میں اوسطاً ہر چار مہینے میں پولیس چیف کا تبادلہ ہوجاتا ہے اور لاہور میں ہر ساڑھے چار مہینے میں۔ پولیس اسٹیشن جو پولیس کی انتظامیہ کا سب سے اہم پرزہ ہے۔
اس کی سربراہی کرنے والا ایس ایچ او لاہور میں اوسطاً صرف تین مہینے کے لیے تعینات ہوتا ہے اور کراچی میں تین مہینے سے بھی کم۔ اس کے بعد جو سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہم ان پولیس افسروں سے عہدے کی اس محدود مدت کی تعیناتی میں کسی بھی قسم کی موثر کارروائی کی امید کرنے میں حق بجانب ہیں؟ پولیس کی قیادت کا کام پالیسی سازی اور ان کا نفاذ ہے لیکن ان چند غیریقینی مہینوں کے عہدوں کی مدت میں وہ یہ سب تو نہیں کرسکتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ اس نظام کا از سر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور عوام کے درمیان خلاء کے حوالے سے کالم لکھے گئے لیکن مجال ہے اس نظام میں کہیں بہتری نظر آئی ہو۔ ہاں بہتری نظر ضرور آتی ہے لیکن صرف اور صرف میڈیا کی حد تک۔کیوں کہ جو حکومت بھی اس نظام میں بہتری کے حوالے سے کچھ کر گزرنے کے لیے کوئی چھوٹا موٹا کام کرتی ہے تو اس کی اتنی پبلسٹی کروا کر خوامخواہ کا پیسا ضایع کر دیتی ہے کہ وہ کام بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے (اس کی واضع مثال کے پی کے کا پولیس نظام ہے)۔ میرے چند ایک دوست اس ادارے سے وابستہ ہیں، میری اکثر ان سے بحث ہو جاتی ہے اور وہ میری تحریروں و تنقیدوں سے اکثر وہ نالاں رہتے ہیں۔
ان کا کہنا بھی بجا ہے کہ عوام کو جتنی پولیس سے شکایات ہیں اتنی ہی پولیس کو حکومت سے شکایات ہیں، لیکن ''ڈسپلن فورس'' ہونے کی وجہ سے احتجاج بھی نہیں کر سکتی۔ اور جو پولیس اہلکار اپنے حق کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں ان کے خلاف محکمانہ کارروائیاں عمل میں لائی جاتی ہیں، اور بسا اوقات تنخواہیں بھی روک لی جاتی ہیں۔ اس لیے پولیس کے مسائل وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں، ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ پولیس کی 24گھنٹے کی ڈیوٹیاں کرنا ہے۔
جسمانی اور ذہنی تھکان ہمارے محافظوں کو وقت سے پہلے دماغی طور پر مفلوج کر دیتی ہیں۔ جس کے بعد ہماری پولیس کی اکثریت ''کامن سینس'' جیسی خدائی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شہریوں کے جان ومال کے محافظ، ارباب اختیار کے روٹ پر دھوپ بارش میں کھلے آسمان تلے ڈیوٹیاں دینے والے پنجاب پولیس کے کانسٹیبل کو ماہانہ صرف 25، 30ہزا رروپے تنخواہ دی جاتی ہے، صوبائی حکومت بغیر چھٹی اور24گھنٹے ڈیوٹی کے باوجود سپاہی کے مورال کو ہائی دیکھنے کی خواہش مند، سپاہی سے سب انسپکٹر تک کی کم تنخواہوں نے معاشرے میں کرپشن کو رواج دیا ہے۔
پنجاب میں امن و امان کا کو ئی بھی مسئلہ ہو یہی پولیس فرنٹ لائن پر ہو تی ہے، تنخواہوں کے معیار کو دیکھا جائے اور موازنہ کیا جائے کہ جس سب انسپکٹر نے قتل کیس کی تفتیش کر نی ہے، اسے صرف ایک ہزار روپے روزانہ معاوضہ مل رہا ہے جب کہ جو سپاہی سینہ تان کر دہشت گردی یا جرائم پیشہ افراد کی گولی کو روکنے کے لیے کھڑا ہے اسے روزانہ800 روپے تنخواہ کی مد میں ملتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے۔ اگر حکومت کچھ کرنا چاہتی ہے تو اس محکمے میں بھی ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات لے کر آئے کیوں کہ اس محکمے کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور سندھ کے قائم علی شاہ حقیقی معنوں میں اس نظام کو بہتر بنا کرکوئی واقعتاََ اچھا کام کر جائیں۔ پولیس کا ایسا نظام متعارف کروا جائیں کہ لوگ تمام گلے شکوے بھول کر تاریخ میں انھیں یاد رکھیں۔