اس کا جواب بھی آئے گا
کچھ آنکھیں محبت میں بھی نفرت ڈھونڈ لیتی ہیں اور کچھ ہونٹ ایسے ہوتے ہیں،
کچھ آنکھیں محبت میں بھی نفرت ڈھونڈ لیتی ہیں اور کچھ ہونٹ ایسے ہوتے ہیں، جو شر کے ماحول میں بھی امن کا پرچار کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ کبھی راس نہیں آتا کہ وہ انگاروں کی دنیا سے نکل کر پھولوں کی جنت میں گھر بسائیں۔ ایسے میں ہر وقت ایک سازش اُن پہاڑوں کے خلاف ہو رہی ہوتی ہے جو ظلم کے نظام کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔ یہاں ہر وقت سازشوں کا ایک انبار ہوتا ہے ۔کب کس جانب سے طوفان کھڑا ہو جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے ۔
ایسے میں موسم لمحوں میں بدل جاتے ہیں۔ جو دشمن ایک دوسرے کی جان کے پیاسے ہوتے ہیں ایک دوسرے پر قربان ہو جانے کے دعوے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ان کے ہاتھ میں ایک ڈگڈگی ہوتی ہے ۔ وہ ہلاتے رہتے ہیں اور ہم ناچتے رہتے ہیں ۔ وہ ہمیں کہتے ہیں رونے لگو، تو ہم آنسوؤں کی نہریں بہا دیتے ہیں۔ وہ حکم صادر کرتے ہیں کہ مسکرانے لگو تو ہم قہقہوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ مودی سے بڑا دہشت گرد کوئی بھی نہیں ہے۔
وہ اس زمانے کا سب سے بڑا ظالم ہے۔ سب لو گ ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور پھر ایک دم ڈرامے کا سین تبدیل ہو جاتا ہے ۔ مودی اور نواز شریف ایک صوفے پر نظر آتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلاتی ہے۔ تبصروں کا ماحول بدل جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ بہت اچھا ہوا کہ اب پاکستا ن اور انڈیا کے درمیان میچ ہونگے، کرکٹ کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ کچھ لوگوں نے امن کی آشا کو پنجرے سے نکال لیا۔ کچھ کے دلو ں میں کاروبار بڑھنے کے خواب آنے لگے۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ بات اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہوتی۔ جن کے اپنے کوئی قبلے نہیں ہوتے وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے سجدوں کی سمت بدلتے رہتے ہیں مگر کچھ لوگوں کا قبلہ ایک ہی رہتا ہے۔
اُس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، وہ لوگ کبھی نہیں چاہ سکتے کہ امن کی بانسری بجتی رہے اور محبت کا دیپ جلتا رہے اور ان لوگوں کے ہاتھوں یہاں سب لوگ استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اقتدار میں آنے سے پہلے بھی فرماتے رہے کہ وہ بھارت سے بہت اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ مذاکرات ہوتے رہیں۔ یہ ہی سوچ لے کر وہ جب مسند پر بیٹھے تو سرحد پر صورتحال بگڑتی گئی۔ انھوں نے مودی کی رسمِ حلف برداری میں شرکت بھی کی لیکن آگ کا پیچھا دامن سے نہیں چھڑا سکے۔ بھارت کی طرف سے جہاں سخت بیانات سامنے آئے وہیں ہم نے بھی صبر کا دامن چھوڑ دیا ۔ کئی ملاقاتیں ہوتے ہوتے رہ گئیں، کسی نے اقوام متحدہ میں ہمارے ہاتھ اُٹھانے کو کمزوری کہا تو کسی نے گزر جانے میں ہی عافیت جانی اور اب ایسے میں صوفہ ملاقات کوئی بہت بڑی تبدیلی لائے گی؟ یا پھر سازشوں کا انبار لگا دیا جائے گا۔
یہ سازشیں بھی بڑی کمال کی ہوتی ہیں۔ اس میں بظاہر نشانہ کوئی اور ہوتا ہے اور لگتا کسی اور کو ہے ۔ سیاست کے بازی گروں کا یہ ہی کمال ہوتا ہے کہ وہ جتنی جلدی ہو جائے اس بات کو سمجھ جائے کہ اصل نشانہ کون ہے۔ آیے آج سے پورے 20 سال پیچھے چل کر دیکھتے ہیں۔اس بات میں کوئی انکار نہیں ہے کہ گزشتہ ادوار میں جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، انھوں نے کسی نا کسی طرح بھارت سے بہتر تعلقا ت رکھنے کی کوشش کی۔ اس میں نوازشریف کے تینوں ادوار ہوں یا پھر بے نظیر کی حکومت یا پھر پرویز مشرف کا اقتدار۔ یہ ایک سیاسی نقطہ ضرور رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اولین ترجیح حاصل ہے، لیکن اُس کے ساتھ ساتھ کئی اور معاملات بھی چلتے رہتے ہیں۔
گزشتہ پیپلز پارٹی کے دور میں جب یہ اطلاع آئی تھی کہ بھارت کو تجارتی لحاظ سے پسندیدہ ملک قرار دیا جا سکتا ہے تو ایک طوفان کھڑا ہو گیا تھا۔ جنھیں نہیں معلوم کہ تجارتی طور پر پسندیدہ ملک سے کیا مراد ہے انھیں کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے درمیان سے تجارت کا لفظ ہٹا دیا۔ کہیں پر کچھ لوگ دفاع کے لیے نکل پڑے اور کچھ لوگوں نے جگہ جگہ جلسے کرنا شروع کر دیے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا، جب کبھی بھی بھارت کے حوالے سے کوئی بات کی جاتی ہے تو ایک دم سے کچھ قوتیں منظر پر آ جاتی ہیں۔
سیاسی طور پر چاہے وہ لوگ ایک کونسلر منتخب نا کر سکتے ہوں مگر اس حوالے سے وہ کافی طاقت رکھتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں بھی اس طرح کی کوشش کی گئی تھی کہ بھارت سے تجارتی تعلقات کو بہتر کیا جا سکے۔ اس حوالے سے 11 دسمبر 1995ء کو اُس وقت کے وفاقی وزیر تجارت احمد مختار نے اعلان کیا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا جا رہا ہے، اور بھارت کے ساتھ تجارت کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت ہمارے لیے بھارت کا انتہائی ترجیحی ملک قرار دینا لازمی ہے۔ بھارت کے ساتھ کھلی تجارت سے برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ زرمبادلہ کی بچت ہو گی اور باہمی دوری بھی ختم ہو جائے گی۔
فورا ہی ایک شدید رد عمل آنا شروع ہو گیا۔ اُس وقت جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیے بغیر بھارت سے کھلی تجارت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ابھی ان بیانات میں تیزی آ رہی تھی کہ ایک دم یہ خبر پاکستان میں گردش کرنے لگی بھارت راجستھان میں ایک ایٹمی دھماکا کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ آپ غور کیجیے گا کہ اُس وقت جب پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں یہ خبر 16 دسمبر کو یعنی وفاقی وزیر تجارت کے بیان کے 5دن بعد لگائی گئی تھی۔ اس خبر نے پاکستان کے اندر سوئے ہوئے جذبات کو ہوا دینا شروع کر دی۔ پاکستان کے سرکاری ترجمان نے کہا کہ ایٹمی دھماکے سے فوجی کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔
ماحول صرف پانچ دن میں بدل چکا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم کی حیثیت سے کہا کہ بھارت خطرناک ہتھیاروں کی کھیپ تیار کر رہا ہے، ہم دنیا کو اپنی تشویش سے آگاہ کریں گے۔بات اس پر ابھی ختم نہیں ہوئی تھی، ملی یکجہتی کونسل میدان میں اتر چکی تھی۔ مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور پھر ملی یکجہتی کونسل نے بھارت کے ساتھ تعلقات پر ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کر دیا تھا۔ نوازشریف جو اس وقت بھارت سے دوستی کی بات کر رہے ہیں، انھوں نے اس ہڑتال کی حمایت کر دی تھی۔ انھیں بھی اندازہ تھا کہ یہ سب ایک دم سرگرم کیوں ہو چکے ہیں۔ کیونکہ ملی یکجہتی کونسل وہ ہی ہے جس نے ابھی نواز شریف کے اس بیان کی مخالفت کی ہے کہ پاکستان کو ایک لبرل اور جمہوری ملک بنائیں گے۔
پہلے اس کی قیادت قاضی صاحب کر رہے تھے اور اب سراج الحق کر رہے ہیں۔ خیر 30 دسمبر کو ملک بھر میں ہڑتال ہو گئی۔ جگہ جگہ ریلیوں کا انتظام کیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ بھارت کو انتہائی ترجیحی ملک قرار دینا نظریہ پاکستان کی نفی ہے اور اس سارے گیم کے پیچھے امریکا ہے۔ جب کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایٹمی دھماکے کی خبر چلا کر امریکا نے ہی اس معاملے کو اشتعال دیا تھا۔ اس ہڑتال کے فورا بعد بے نظیر بھٹو نے بیان دیا کہ علماء سیاست کے میدان خار زار میں اپنا دامن نہ الجھائیں۔ وہ عوام کو دینی تعلیمات سے آگاہ کریں۔ محترمہ نے مزید کہا کہ تجارت کے معاملے میں ہم اپنی بین الاقوامی ذمے داریاں پوری کریں گے۔ یعنی یہ کہ اس ہڑتال کے باوجود بے نظیر بھٹو کا خیال تھا کہ وہ بھارت سے تجارتی تعلقات بہتر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
ہڑتال کے اگلے دن قاضی حسین احمد 10 دن کے دورے پر ملک سے باہر چلے گئے۔ بے نظیر سے اُن لوگوں نے بات کی جنھیں بھارت سے تعلقات پر اعتراض تھا اور پھر ایک دم خاموشی ہو گئی۔ کسی کو نہیں معلوم ہوا کہ ملی یکجہتی کونسل کی تحریک اس مسئلے پر کہاں غائب ہو گئی اور حکومت کا تجارتی معاہدہ کہاں گیا۔ ابھی تک یہ سوال ہے کہ کیا وہ تجارتی معاہدہ ایک کارڈ کے طور پر استعمال ہوا تھا یا پھر وہ ہڑتال۔ اس لیے صوفوں کی ملاقات کو بھی آسان نہ لیا جائے۔ یہ جو کونوں میں سرگوشی ہوئی ہے اُسے سننے کے لیے بہت زیادہ خاموشی کی نہیں بلکہ شور کی ضرورت ہے۔ جو عنقریب کسی نا کسی شکل میں نظر آ جائے گا۔
ایسے میں موسم لمحوں میں بدل جاتے ہیں۔ جو دشمن ایک دوسرے کی جان کے پیاسے ہوتے ہیں ایک دوسرے پر قربان ہو جانے کے دعوے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ان کے ہاتھ میں ایک ڈگڈگی ہوتی ہے ۔ وہ ہلاتے رہتے ہیں اور ہم ناچتے رہتے ہیں ۔ وہ ہمیں کہتے ہیں رونے لگو، تو ہم آنسوؤں کی نہریں بہا دیتے ہیں۔ وہ حکم صادر کرتے ہیں کہ مسکرانے لگو تو ہم قہقہوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ مودی سے بڑا دہشت گرد کوئی بھی نہیں ہے۔
وہ اس زمانے کا سب سے بڑا ظالم ہے۔ سب لو گ ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور پھر ایک دم ڈرامے کا سین تبدیل ہو جاتا ہے ۔ مودی اور نواز شریف ایک صوفے پر نظر آتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلاتی ہے۔ تبصروں کا ماحول بدل جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ بہت اچھا ہوا کہ اب پاکستا ن اور انڈیا کے درمیان میچ ہونگے، کرکٹ کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ کچھ لوگوں نے امن کی آشا کو پنجرے سے نکال لیا۔ کچھ کے دلو ں میں کاروبار بڑھنے کے خواب آنے لگے۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ بات اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہوتی۔ جن کے اپنے کوئی قبلے نہیں ہوتے وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے سجدوں کی سمت بدلتے رہتے ہیں مگر کچھ لوگوں کا قبلہ ایک ہی رہتا ہے۔
اُس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، وہ لوگ کبھی نہیں چاہ سکتے کہ امن کی بانسری بجتی رہے اور محبت کا دیپ جلتا رہے اور ان لوگوں کے ہاتھوں یہاں سب لوگ استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اقتدار میں آنے سے پہلے بھی فرماتے رہے کہ وہ بھارت سے بہت اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ مذاکرات ہوتے رہیں۔ یہ ہی سوچ لے کر وہ جب مسند پر بیٹھے تو سرحد پر صورتحال بگڑتی گئی۔ انھوں نے مودی کی رسمِ حلف برداری میں شرکت بھی کی لیکن آگ کا پیچھا دامن سے نہیں چھڑا سکے۔ بھارت کی طرف سے جہاں سخت بیانات سامنے آئے وہیں ہم نے بھی صبر کا دامن چھوڑ دیا ۔ کئی ملاقاتیں ہوتے ہوتے رہ گئیں، کسی نے اقوام متحدہ میں ہمارے ہاتھ اُٹھانے کو کمزوری کہا تو کسی نے گزر جانے میں ہی عافیت جانی اور اب ایسے میں صوفہ ملاقات کوئی بہت بڑی تبدیلی لائے گی؟ یا پھر سازشوں کا انبار لگا دیا جائے گا۔
یہ سازشیں بھی بڑی کمال کی ہوتی ہیں۔ اس میں بظاہر نشانہ کوئی اور ہوتا ہے اور لگتا کسی اور کو ہے ۔ سیاست کے بازی گروں کا یہ ہی کمال ہوتا ہے کہ وہ جتنی جلدی ہو جائے اس بات کو سمجھ جائے کہ اصل نشانہ کون ہے۔ آیے آج سے پورے 20 سال پیچھے چل کر دیکھتے ہیں۔اس بات میں کوئی انکار نہیں ہے کہ گزشتہ ادوار میں جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، انھوں نے کسی نا کسی طرح بھارت سے بہتر تعلقا ت رکھنے کی کوشش کی۔ اس میں نوازشریف کے تینوں ادوار ہوں یا پھر بے نظیر کی حکومت یا پھر پرویز مشرف کا اقتدار۔ یہ ایک سیاسی نقطہ ضرور رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اولین ترجیح حاصل ہے، لیکن اُس کے ساتھ ساتھ کئی اور معاملات بھی چلتے رہتے ہیں۔
گزشتہ پیپلز پارٹی کے دور میں جب یہ اطلاع آئی تھی کہ بھارت کو تجارتی لحاظ سے پسندیدہ ملک قرار دیا جا سکتا ہے تو ایک طوفان کھڑا ہو گیا تھا۔ جنھیں نہیں معلوم کہ تجارتی طور پر پسندیدہ ملک سے کیا مراد ہے انھیں کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے درمیان سے تجارت کا لفظ ہٹا دیا۔ کہیں پر کچھ لوگ دفاع کے لیے نکل پڑے اور کچھ لوگوں نے جگہ جگہ جلسے کرنا شروع کر دیے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا، جب کبھی بھی بھارت کے حوالے سے کوئی بات کی جاتی ہے تو ایک دم سے کچھ قوتیں منظر پر آ جاتی ہیں۔
سیاسی طور پر چاہے وہ لوگ ایک کونسلر منتخب نا کر سکتے ہوں مگر اس حوالے سے وہ کافی طاقت رکھتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں بھی اس طرح کی کوشش کی گئی تھی کہ بھارت سے تجارتی تعلقات کو بہتر کیا جا سکے۔ اس حوالے سے 11 دسمبر 1995ء کو اُس وقت کے وفاقی وزیر تجارت احمد مختار نے اعلان کیا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا جا رہا ہے، اور بھارت کے ساتھ تجارت کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت ہمارے لیے بھارت کا انتہائی ترجیحی ملک قرار دینا لازمی ہے۔ بھارت کے ساتھ کھلی تجارت سے برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ زرمبادلہ کی بچت ہو گی اور باہمی دوری بھی ختم ہو جائے گی۔
فورا ہی ایک شدید رد عمل آنا شروع ہو گیا۔ اُس وقت جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیے بغیر بھارت سے کھلی تجارت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ابھی ان بیانات میں تیزی آ رہی تھی کہ ایک دم یہ خبر پاکستان میں گردش کرنے لگی بھارت راجستھان میں ایک ایٹمی دھماکا کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ آپ غور کیجیے گا کہ اُس وقت جب پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں یہ خبر 16 دسمبر کو یعنی وفاقی وزیر تجارت کے بیان کے 5دن بعد لگائی گئی تھی۔ اس خبر نے پاکستان کے اندر سوئے ہوئے جذبات کو ہوا دینا شروع کر دی۔ پاکستان کے سرکاری ترجمان نے کہا کہ ایٹمی دھماکے سے فوجی کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔
ماحول صرف پانچ دن میں بدل چکا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم کی حیثیت سے کہا کہ بھارت خطرناک ہتھیاروں کی کھیپ تیار کر رہا ہے، ہم دنیا کو اپنی تشویش سے آگاہ کریں گے۔بات اس پر ابھی ختم نہیں ہوئی تھی، ملی یکجہتی کونسل میدان میں اتر چکی تھی۔ مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور پھر ملی یکجہتی کونسل نے بھارت کے ساتھ تعلقات پر ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کر دیا تھا۔ نوازشریف جو اس وقت بھارت سے دوستی کی بات کر رہے ہیں، انھوں نے اس ہڑتال کی حمایت کر دی تھی۔ انھیں بھی اندازہ تھا کہ یہ سب ایک دم سرگرم کیوں ہو چکے ہیں۔ کیونکہ ملی یکجہتی کونسل وہ ہی ہے جس نے ابھی نواز شریف کے اس بیان کی مخالفت کی ہے کہ پاکستان کو ایک لبرل اور جمہوری ملک بنائیں گے۔
پہلے اس کی قیادت قاضی صاحب کر رہے تھے اور اب سراج الحق کر رہے ہیں۔ خیر 30 دسمبر کو ملک بھر میں ہڑتال ہو گئی۔ جگہ جگہ ریلیوں کا انتظام کیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ بھارت کو انتہائی ترجیحی ملک قرار دینا نظریہ پاکستان کی نفی ہے اور اس سارے گیم کے پیچھے امریکا ہے۔ جب کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایٹمی دھماکے کی خبر چلا کر امریکا نے ہی اس معاملے کو اشتعال دیا تھا۔ اس ہڑتال کے فورا بعد بے نظیر بھٹو نے بیان دیا کہ علماء سیاست کے میدان خار زار میں اپنا دامن نہ الجھائیں۔ وہ عوام کو دینی تعلیمات سے آگاہ کریں۔ محترمہ نے مزید کہا کہ تجارت کے معاملے میں ہم اپنی بین الاقوامی ذمے داریاں پوری کریں گے۔ یعنی یہ کہ اس ہڑتال کے باوجود بے نظیر بھٹو کا خیال تھا کہ وہ بھارت سے تجارتی تعلقات بہتر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
ہڑتال کے اگلے دن قاضی حسین احمد 10 دن کے دورے پر ملک سے باہر چلے گئے۔ بے نظیر سے اُن لوگوں نے بات کی جنھیں بھارت سے تعلقات پر اعتراض تھا اور پھر ایک دم خاموشی ہو گئی۔ کسی کو نہیں معلوم ہوا کہ ملی یکجہتی کونسل کی تحریک اس مسئلے پر کہاں غائب ہو گئی اور حکومت کا تجارتی معاہدہ کہاں گیا۔ ابھی تک یہ سوال ہے کہ کیا وہ تجارتی معاہدہ ایک کارڈ کے طور پر استعمال ہوا تھا یا پھر وہ ہڑتال۔ اس لیے صوفوں کی ملاقات کو بھی آسان نہ لیا جائے۔ یہ جو کونوں میں سرگوشی ہوئی ہے اُسے سننے کے لیے بہت زیادہ خاموشی کی نہیں بلکہ شور کی ضرورت ہے۔ جو عنقریب کسی نا کسی شکل میں نظر آ جائے گا۔