دارالحکومت میں انتخابات کے قصّے
آجکل انتخابی ہیرا پھیری کی جو نئی قسم متعارف ہوئی ہے وہ ’’نتیجہ روک لینے‘‘ والی اصطلاح ہے۔
آگ ہو پر دھواں نہ ہو کے مصداق پاکستان میں انتخابات ہوں مگر دھاندلی، بے ضابطگی، ڈاکہ، ہیرا پھیری نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ یوں تو ہماری تاریخ دھاندلی نام کے گند سے بھری پڑی ہے اس کی ایک تازہ مثال 30 نومبر کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اسلام آباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات ہیں۔
2013 میں ہونے والے انتخابات کے مقدمے ابھی تک الیکشن ٹربیونل میں چل رہے ہیں (وہی ٹریبونلز جنہوں نے فیصلہ 90 دن میں دینا تھا) ان میں سے کچھ سیٹوں پر انتخاب دوبارہ ہوا، کچھ نشستوں پر اُمیدوار نااہل ہوگئے اور کچھ پر ڈھائی سال بعد اب دوبارہ انتخاب ہورہے ہیں۔ پچھلے سال اسی مہینے کی بات ہے دھاندلی کو لے کر دارالحکومت میں دھرنا تھا، جوڈیشل کمیشن بنایا گیا، دنوں، ہفتوں اور مہینوں پر لمبی بحث ہوئی اس کا فیصلہ بھی آیا لیکن اس سب کا نتیجہ کیا نکلا؟
اس دفعہ انتخاب ٹھٹھہ، بدین یا جنوبی پنجاب کے دور دراز گاؤں میں کسی وڈیرے کی ناک تلے نہیں ہو رہا تھا بلکہ دارلحکومت کے اندر ہو رہا تھا جہاں اُمید تھی کے نتیجہ کچھ مختلف ہوگا مگر خراجِ تحسین کا حقدار ہے ہمارا الیکشن کمیشن، کہ اِس نے یہاں بھی ہمیں مایوس نہیں کیا۔ ساری دنیا میں انتخابات ہوتے ہیں مگر یہاں چونکہ جسکی لاٹھی اسکی بھینس ہے، پھر وہ دارلحکومت ہو یا دور دراز کا گاؤں اس کی ہی چلے گی جس کے ہاتھ میں سرکاری وسائل ہیں۔
''قوائد و ضوابط'' مہذب دنیا میں ان پابندیوں کو کہا جاتا ہے جن کی پیروی کرنی ہر شہری پر فرض ہوتی ہے، مگر ہمارے ہاں جن اصولوں کو اشرافیہ پاؤں تلے روندنے کی صلاحیت رکھتی ہو اُنہیں قانون کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے اِس اشتہار اور اِس میں دی گئی عبارت کو دیکھیے۔ یہ عوام کو ٹافی کے لفافے میں گولی بند کر کے دی جا رہی ہے یا اپنے ہونے اور سب کر گذرنے کی دھمکی؟ یعنی کہ حکومت ہماری، وزیر ہمارا، اور فنڈ بھی ہمارے (ٹیکس دینے والوں کا منہ چڑاتے ہوئے) اب اگر ووٹ ہمارے نہ ہوئے تو آپکے کام وہیں لٹکے رہیں گے جہاں ہیں، دیکھتے نہیں ہو عقل کے دشمنوں وزیراعظم نے کتنا برا احسان کیا ہے اس شہر پر، اس شہر کے ایم این اے کو وزیر اور سی ڈی اے کا قلمدان سونپ دیا ہے لہذا اب ووٹ ہمیں دو ورنہ بعد میں رلتے رہنا۔
شاید ایسی دھمکی کسی عام سے آدمی کو بھی دی جائے تو وہ کچھ نہ کرسکنے کے باوجود کم از کم آنکھیں تو دکھا ہی دے گا، مگر یہاں معاملہ ایسے الیکشن کمیشن اور ایسی حکومت کا ہے جس نے یہ ٹھانی ہوئی ہے کہ بول لو جتنا بول سکتے ہو، لکھ لو جتنی روشنائی ہے قلم میں، چھاپ لو جتنا کاغذ ہے اخباروں کے پاس، مجال ہے جو ہم ویسے کام کریں گے جیسے لوگ چاہتے ہیں۔
حکومت نے اسلام آباد میں ایسا زبردست ''کام'' دکھایا کہ سب کی توقع اور زمینی حالات کے برعکس بازی اپنے حق میں پلٹ دی۔ سب سے پہلے جون میں حلقہ بندیاں کی گئیں پھر ستمبر میں یہ عمل دوہرایا گیا اور یونین کونسلوں کا حساب لگا کر اچھے طریقے سے 63 فیصد شہری آبادی میں محض 14 یونین کونسلیں بنا دیں اور 38 فیصد دیہی آبادی میں 36 یونین کونسلیں بنا دیں اور یوں اسلام آباد میں تاریخ کے پہلے ''شفاف'' انتخابات کی جانب پہلا قدم اٹھایا گیا۔ پھر اِس کے بعد انتخاب اتوار کو رکھنے کی بجائے ایسے دن رکھا گیا جب لوگ معمول کے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اور پھر اُس دن سارے صوبوں کے برعکس اسلام آباد میں چھٹی نہیں کی گئی۔
آجکل انتخابی ہیرا پھیری کی جو نئی قسم متعارف ہوئی ہے وہ ''نتیجہ روک لینے'' والی اصطلاح ہے، پنجاب کی مانند اسلام آباد میں بھی جہاں جہاں خطرہ محسوس ہوا وہاں کا نتیجہ روک لیا گیا اور رات گئے چپکے سے اعلان کردیا گیا۔
ان تصویری جھلکیوں کو دیکھیں تو حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور تھا۔ تحریک انصاف رات تک اکثریت میں تھی مگر رات گئے ایک ہی گھنٹے میں پہلے نتیجہ مختلف ہوا، پھر حکمران جماعت آگے گذری اور پھر تحریکِ انصاف کی نشستیں کم ہوئیں اور جی ہاں یہ سب ایک ہی گھنٹے میں ہوا اور کیسے ہوا یہ اہلِ علم جانتے ہیں۔ مخلتف جگہوں پر حکومتی وزراء اور عہدے داروں کی پولنگ کے عمل پر اثر انداز ہونے کی مبینہ خبریں بھی آئیں لیکن اس پر ہمیشہ کی طرح کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔
میں نے 2013 میں اپنے گاؤں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہاں نامزد اُمیدوار نے جو کہ گذشتہ حکومت کے وزیر تھے، پورا عرصہ تو اُنہوں نے کچھ نہ کیا مگر الیکشن سے قبل وہ کونسا کام تھا جو انہوں نے کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آج وہی صورتِ حال دارالحکومت میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہاں سے منتخب طارق فضل چودھری کو پہلے سی ڈی اے کا قلمدان دیا گیا اور پھر جیسے تیسے یہاں ڈویلپمنٹ کے پروجیکٹ بھی شروع کر دیے گئے۔
گذارش صرف اتنی ہے کہ پہلے ہی ہر معاملے میں ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے خدارا ووٹ کے معاملے پر تو پاکستانیوں پر کچھ رحم کیا جائے اور کم از کم جائز حق پر ڈاکے کو روکا جائے ورنہ ایسا ہی ہوتا رہے گا جیسا ہوتا آیا ہے۔ یہ نظام مذاق بن جائے گا لوگ انہی الفاظ میں یاد رکھیں گے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے تھے، جس میں تحریک انصاف کو واضح کامیابی مل رہی تھی پھر رات ہوئی اور ن لیگ جیت گئی۔
پسِ تحریر: جہاں امیدوار خود پرچیاں ڈالنے کی بات کریں اور کوئی ایکشن نہ ہو اس دیس میں انصاف کی توقع کس سے کی جاۓ۔
[poll id="805"]
نوٹ: یکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
2013 میں ہونے والے انتخابات کے مقدمے ابھی تک الیکشن ٹربیونل میں چل رہے ہیں (وہی ٹریبونلز جنہوں نے فیصلہ 90 دن میں دینا تھا) ان میں سے کچھ سیٹوں پر انتخاب دوبارہ ہوا، کچھ نشستوں پر اُمیدوار نااہل ہوگئے اور کچھ پر ڈھائی سال بعد اب دوبارہ انتخاب ہورہے ہیں۔ پچھلے سال اسی مہینے کی بات ہے دھاندلی کو لے کر دارالحکومت میں دھرنا تھا، جوڈیشل کمیشن بنایا گیا، دنوں، ہفتوں اور مہینوں پر لمبی بحث ہوئی اس کا فیصلہ بھی آیا لیکن اس سب کا نتیجہ کیا نکلا؟
اس دفعہ انتخاب ٹھٹھہ، بدین یا جنوبی پنجاب کے دور دراز گاؤں میں کسی وڈیرے کی ناک تلے نہیں ہو رہا تھا بلکہ دارلحکومت کے اندر ہو رہا تھا جہاں اُمید تھی کے نتیجہ کچھ مختلف ہوگا مگر خراجِ تحسین کا حقدار ہے ہمارا الیکشن کمیشن، کہ اِس نے یہاں بھی ہمیں مایوس نہیں کیا۔ ساری دنیا میں انتخابات ہوتے ہیں مگر یہاں چونکہ جسکی لاٹھی اسکی بھینس ہے، پھر وہ دارلحکومت ہو یا دور دراز کا گاؤں اس کی ہی چلے گی جس کے ہاتھ میں سرکاری وسائل ہیں۔
''قوائد و ضوابط'' مہذب دنیا میں ان پابندیوں کو کہا جاتا ہے جن کی پیروی کرنی ہر شہری پر فرض ہوتی ہے، مگر ہمارے ہاں جن اصولوں کو اشرافیہ پاؤں تلے روندنے کی صلاحیت رکھتی ہو اُنہیں قانون کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے اِس اشتہار اور اِس میں دی گئی عبارت کو دیکھیے۔ یہ عوام کو ٹافی کے لفافے میں گولی بند کر کے دی جا رہی ہے یا اپنے ہونے اور سب کر گذرنے کی دھمکی؟ یعنی کہ حکومت ہماری، وزیر ہمارا، اور فنڈ بھی ہمارے (ٹیکس دینے والوں کا منہ چڑاتے ہوئے) اب اگر ووٹ ہمارے نہ ہوئے تو آپکے کام وہیں لٹکے رہیں گے جہاں ہیں، دیکھتے نہیں ہو عقل کے دشمنوں وزیراعظم نے کتنا برا احسان کیا ہے اس شہر پر، اس شہر کے ایم این اے کو وزیر اور سی ڈی اے کا قلمدان سونپ دیا ہے لہذا اب ووٹ ہمیں دو ورنہ بعد میں رلتے رہنا۔
شاید ایسی دھمکی کسی عام سے آدمی کو بھی دی جائے تو وہ کچھ نہ کرسکنے کے باوجود کم از کم آنکھیں تو دکھا ہی دے گا، مگر یہاں معاملہ ایسے الیکشن کمیشن اور ایسی حکومت کا ہے جس نے یہ ٹھانی ہوئی ہے کہ بول لو جتنا بول سکتے ہو، لکھ لو جتنی روشنائی ہے قلم میں، چھاپ لو جتنا کاغذ ہے اخباروں کے پاس، مجال ہے جو ہم ویسے کام کریں گے جیسے لوگ چاہتے ہیں۔
حکومت نے اسلام آباد میں ایسا زبردست ''کام'' دکھایا کہ سب کی توقع اور زمینی حالات کے برعکس بازی اپنے حق میں پلٹ دی۔ سب سے پہلے جون میں حلقہ بندیاں کی گئیں پھر ستمبر میں یہ عمل دوہرایا گیا اور یونین کونسلوں کا حساب لگا کر اچھے طریقے سے 63 فیصد شہری آبادی میں محض 14 یونین کونسلیں بنا دیں اور 38 فیصد دیہی آبادی میں 36 یونین کونسلیں بنا دیں اور یوں اسلام آباد میں تاریخ کے پہلے ''شفاف'' انتخابات کی جانب پہلا قدم اٹھایا گیا۔ پھر اِس کے بعد انتخاب اتوار کو رکھنے کی بجائے ایسے دن رکھا گیا جب لوگ معمول کے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اور پھر اُس دن سارے صوبوں کے برعکس اسلام آباد میں چھٹی نہیں کی گئی۔
آجکل انتخابی ہیرا پھیری کی جو نئی قسم متعارف ہوئی ہے وہ ''نتیجہ روک لینے'' والی اصطلاح ہے، پنجاب کی مانند اسلام آباد میں بھی جہاں جہاں خطرہ محسوس ہوا وہاں کا نتیجہ روک لیا گیا اور رات گئے چپکے سے اعلان کردیا گیا۔
ان تصویری جھلکیوں کو دیکھیں تو حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور تھا۔ تحریک انصاف رات تک اکثریت میں تھی مگر رات گئے ایک ہی گھنٹے میں پہلے نتیجہ مختلف ہوا، پھر حکمران جماعت آگے گذری اور پھر تحریکِ انصاف کی نشستیں کم ہوئیں اور جی ہاں یہ سب ایک ہی گھنٹے میں ہوا اور کیسے ہوا یہ اہلِ علم جانتے ہیں۔ مخلتف جگہوں پر حکومتی وزراء اور عہدے داروں کی پولنگ کے عمل پر اثر انداز ہونے کی مبینہ خبریں بھی آئیں لیکن اس پر ہمیشہ کی طرح کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔
میں نے 2013 میں اپنے گاؤں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہاں نامزد اُمیدوار نے جو کہ گذشتہ حکومت کے وزیر تھے، پورا عرصہ تو اُنہوں نے کچھ نہ کیا مگر الیکشن سے قبل وہ کونسا کام تھا جو انہوں نے کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آج وہی صورتِ حال دارالحکومت میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہاں سے منتخب طارق فضل چودھری کو پہلے سی ڈی اے کا قلمدان دیا گیا اور پھر جیسے تیسے یہاں ڈویلپمنٹ کے پروجیکٹ بھی شروع کر دیے گئے۔
گذارش صرف اتنی ہے کہ پہلے ہی ہر معاملے میں ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے خدارا ووٹ کے معاملے پر تو پاکستانیوں پر کچھ رحم کیا جائے اور کم از کم جائز حق پر ڈاکے کو روکا جائے ورنہ ایسا ہی ہوتا رہے گا جیسا ہوتا آیا ہے۔ یہ نظام مذاق بن جائے گا لوگ انہی الفاظ میں یاد رکھیں گے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے تھے، جس میں تحریک انصاف کو واضح کامیابی مل رہی تھی پھر رات ہوئی اور ن لیگ جیت گئی۔
پسِ تحریر: جہاں امیدوار خود پرچیاں ڈالنے کی بات کریں اور کوئی ایکشن نہ ہو اس دیس میں انصاف کی توقع کس سے کی جاۓ۔
[poll id="805"]
نوٹ: یکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔