یادوں کے الٹتے پلٹتے اوراق
انتخابات پر دھاندلی کے الزامات کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ یہ سلسلہ 1977 کے عام انتخابات سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔
اس وقت بلدیاتی انتخابات اپنے آخری مراحل میں ہیں۔ دو روز بعد سندھ اور پنجاب کے باقی ماندہ اضلاع میں تیسرا اور آخری مرحلہ بھی تکمیل پذیر ہوجائے گا۔ البتہ ان چند یونین کونسلوں کے انتخابات کی ابھی تاریخ نہیں دی گئی ہے، جہاں دوسرے مرحلے کے دوران عدالتی فیصلے کے بعد انتخابات روک دیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ وہ بھی اسی برس ہوجائیں گے ، لیکن خوش کن پہلو یہ ہے کہ شہر اقتدار میں بھی ملکی تاریخ میں پہلی بار بلدیاتی نظام کے لیے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں گو کہ مسلم لیگ (ن) کو سبقت حاصل ہوئی ، مگر یہ سبقت بہت معمولی یعنی صرف پانچ نشستوں سے ملی ہے۔ خدشہ یہی ہے کہ تحریک انصاف ایک بار پھر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے، ان انتخابات کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کرے گی۔
انتخابات پر دھاندلی کے الزامات کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ یہ سلسلہ 1977 کے عام انتخابات سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔ اس سے قبل کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کم و بیش 38 برس گزر جانے کے باوجود انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی کوئی عملی کوشش کیوں نہیں کی گئی، ماضی میں ہونے والے انتخابات پر لگنے والے دھاندلی کے بعض الزامات اور ان کے پس منظر پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ ذیل میں پیش کیے جانے والے چند واقعات سے نئی نسل کو ملکی انتخابی تاریخ کا کسی حد تک اندازہ ہوسکے گا، جب کہ پرانی نسل کے لوگوں کی یادوں کے دریچے کھل جانے کی توقع ہے۔
1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کو1978 تک اقتدار میں رہنے کا آئینی حق حاصل تھا ، لیکن بھٹو مرحوم کو ان کے بعض قریبی احباب نے مشورہ دیا کہ انتخابات ڈیڑھ برس قبل 1977کے اوائل میں کرا لیے جائیں، تو پارٹی کی خاطرخواہ کامیابی کا امکان ہے۔ چنانچہ یہ طے ہوا کہ انتخابات کے لیے فروری کا مہینہ نہایت موزوں ہے۔ اس بات کی سن گن جیسے ہی اپوزیشن کے کانوں تک پہنچی، اس نے وسیع تر اتحاد کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ بالآخر پاکستان نیشنل الائنس (PNA) وجود میں آیا ۔اس اتحاد میں نو جماعتیں شامل تھیں۔ اس اتحاد میں دائیں ، بائیں اور لبرل سوچ کی سبھی اپوزیشن جماعتیں شامل تھیں۔ اس اتحاد کا سیکریٹری جنرل جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما رفیق باجوہ کو بنایا گیا ، مگر اس اتحاد میں شامل ایک مذہبی جماعت کو جمعیت علمائے پاکستان کی بالادستی کسی طور قبول نہیں تھی۔ لہٰذا انھیں ہٹانے کے لیے اندرون خانہ ریشہ دوانیوں کا سلسلہ اتحاد کے قیام کے روز ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ اس زمانے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں دو سے تین دن کا وقفہ ہوا کرتا تھا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات 7فروری کو منعقد ہوئے اور قومی اسمبلی کے 10فروری کو۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ PNA کی تشکیل کا مقصد شروع میں مزید شہری آزادیوں کا حصول، انتقامی کارروائیوں کا خاتمہ اور جمہوری عمل کا تسلسل بیان کیا گیا تھا ، مگر مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم نے اچانک نظام مصطفیٰ کا نعرہ لگا کرPNAکی پوری تحریک کی سمت تبدیل کردی۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ پہلے سے کوئی طے شدہ منصوبہ تھا یا مولانا مرحوم کے ذہن کی کوئی فوری اختراع۔ البتہ یہ طے ہے کہ مولانا نورانی مرحوم سازشی انسان نہیں تھے، بلکہ صاف گو اور واضح خیالات کی حامل شخصیت تھے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس اتحاد میں شامل ایک مذہبی جماعت نے بعض نادیدہ قوتوں کے اشارے پر مولانا کو تحریک کی سمت تبدیل کرنے پر اکسایا حالانکہ اس تحریک میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے بعد سردار شیر باز مزاری کی قیادت میں یہ جماعت تشکیل دی گئی تھی) جیسی لبرل جماعت بھی شامل تھی، جس کا سیاسی ایجنڈا کسی بھی طورتھیوکریٹک ریاست کا قیام نہیں تھا۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ قیام پاکستان کی پہلی دہائی کے دوران تو سول بیوروکریسی اقتدار و اختیار کے تمام معاملات پر مکمل طورپر حاوی تھی، لیکن بعد میں اس کی حیثیت قدرے ثانوی ہوگئی، مگر ریاستی انتظام میں اس کی کلیدی اہمیت بہرحال برقرار رہی۔ سیاسی حکومتوں کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں اس کی اپنی مخصوص مہارت رہی ہے۔ لہٰذا نادیدہ قوتوں نے جو بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کرچکی تھیں، سول بیوروکریسی کے ذریعے بعض حلقوں میں دیدہ و دانستہ دھاندلی کرائی۔ لاڑکانہ کی نشست سے بھٹو مرحوم کو بلا مقابلہ منتخب کراکے دراصل ان کی کمر میں چھری گھونپی۔ ان واقعات کو بنیاد بناتے ہوئے PNA نے دو روز بعد ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا اور طے شدہ منصوبے کے تحت بھٹو کے خلاف تحریک شروع کردی۔ اسی دوران یہ خبر عام کی گئی کہ رفیق باجوہ مرحوم نے بھٹو مرحوم سے خفیہ ملاقات کی ہے۔ یوں انھیں طے شدہ منصوبے کے تحت PNA کے جنرل سیکریٹری کے عہدے سے ہٹوا دیا۔ ان کی جگہ جماعت اسلامی کے پروفیسر غفوراحمد مرحوم جنرل سیکریٹری بنادیے گئے۔ بالآخر بھٹو مرحوم کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے بھٹو مرحوم کی معاونت عبدالحفیظ پیرزادہ مرحوم اور مولانا کوثر نیازی مرحوم کررہے تھے ، جب کہ PNA کی ٹیم میں نوابزادہ مرحوم ، مفتی محمود مرحوم اور پروفیسر غفور مرحوم شامل تھے۔
یہ مذاکرات تقریباً کامیاب ہوگئے تھے، جس کا تذکرہ پروفیسر غفور مرحوم اور مولانا کوثر نیازی مرحوم نے اپنی کتابوں میں کیا ہے، مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، بھٹو کو ہٹانے کا فیصلہ صرف پاکستان کے اقتدار کے مراکز ہی میں نہیں ہوا تھا، بلکہ واشنگٹن بھی یہی کچھ چاہتا تھا۔ اس لیے4اور 5جولائی1977کی درمیانی شب بھٹو مرحوم کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ بھٹو مرحوم میں بہت سی خوبیاں اور خامیاں تھیں مگر ان کے کریڈٹ میں بڑے اور نمایاں کارنامے تھے۔ انھوں نے ملک کو آئین دیا، ملک کے جوہری پروگرام کی داغ بیل ڈالی اور اسٹیل مل جیسا منصوبہ سوویت یونین سے حاصل کیا۔ جہاں تک مذہبی اقدامات کا تعلق ہے، تو انھوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا اور بعض متنازع آئینی ترامیم کرکے مذہبی حلقوں کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں انھوں نے شراب پر پابندی کے علاوہ جمعے کی ہفتہ وار چھٹی کا بھی اعلان کیا، جس پر عمل درآمد جنرل ضیا نے کیا۔ اسی طرح افغانستان میں سردار داؤد کی حکومت کے خلاف افغان مولویوں کو بغاوت پر اکسانے کے لیے ان کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا، جس کا فائدہ بھی بعد میں جنرل ضیا ہی نے اٹھایا ۔ موخرالذکر تمام اقدامات مذہبی قوتوں کے حق میں جاتے ہیں، مگر ان تمام باتوں کے باوجود طے شدہ منصوبے کے تحت ان کا اقتدار سے ہٹایا جانا ٹہرگیا تھا۔
اس کے بعد 1984میں ہونے والا مضحکہ خیز ریفرنڈم بھی انتخابی دھاندلیوں کی ایک نادر مثال کے طورپر سامنے آتا ہے۔ پھر 1988میں پیپلز پارٹی کی نشستیں کم کرنے اور اسے اسٹبلشمنٹ کا دست نگر بنانے کی سازش میں انتخابی دھاندلیوں کا کلیدی کردار تھا۔1990کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو دانستہ شکست سے دوچار کیا گیا، اس مقصد کے لیے انتخابی عمل میںPreاور Postدھاندلیاں کی گئیں۔ 1993میں گو کہ پیپلز پارٹی کو کامیابی میسر آئی، مگر یہ بھی نادیدہ قوتوں کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھی۔ پھر1997میں مسلم لیگ (ن) کے بھاری مینڈیٹ کے پیچھے بھی ان گنت کہانیاں ہیں۔2002،2008 اور 2013کے انتخابات کے بارے میں بھی اسی نوعیت کے قصے مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ2002 میں خیبر پختونخوا میں MMAکی کامیابی کے پیچھے بھی نادیدہ قوتوں کی حکمت عملیوں کا ہاتھ تھا۔ چنانچہ اگر ہم صرف اپنے ہی تجربات بیان کرنے بیٹھ جائیں، تو1977 سے تادم تحریر جو کچھ دیکھا اور مشاہدہ کیا ، اس پر کم از کم ایک کتاب ضرور مکمل ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں 45 برسوں کے دوران10عام اور 7بلدیاتی انتخابات منعقد ہوچکے ہیں۔1970کے پہلے عام انتخابات کو چھوڑ کر باقی کوئی ایسا الیکشن نہیں ہے، جس میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کے الزامات عائد نہ ہوئے ہوں ، لیکن ریاست کے مقتدر حلقے(سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) انتخابی اصلاحات پر توجہ دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ انتخابی نظام جس میں بیشمار اسقام پائے جاتے ہیں، ملک کے سیاسی اور غیر سیاسی مقتدر اشرافیہ کے لیے سود مند ہے۔ چنانچہ کوئی بھی حلقہ اس بات کے حق میں نہیں کہ انتخابی عمل میں اصلاحات لائی جائیں، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے اور اسے انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت دی جائے۔ خود دھاندلی کا واویلا مچانے والی تحریک انصاف بھی صرف شور مچاتی ہے، مگر اتخابی اصلاحات کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کرنے اور اصلاحات کمیشن کے اجلاسوں کے انعقاد کے لیے دباؤ ڈالنے سے گریز کرتی ہے۔
کہنے کو بہت کچھ ہے، لیکن اپنی گفتگو اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ اگر ملک کو واقعی جمہوری بنانا ہے تو دواقدامات نہایت اہم ہیں۔اول، ریاست کے ساتھ معاشرے کو بھی جمہوریانہ(Democratise)ضروری ہے کیونکہ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جہاں ریاست جمہوری بھی ہے اور سیکولر بھی مگر عوام ابھی تک نہ جمہوری ہوسکے ہیں اور نہ سیکولر۔دوئم، شفاف اور غیر متنازع انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو، اس کی انتظامی اور مالیاتی با اختیاریت اور انتخابی عمل میں کلیدی نوعیت کی اصلاحات نہایت ضروری ہوچکی ہیں۔ اس کے بغیر تمام شور شرابہ بے معنی ہے۔
انتخابات پر دھاندلی کے الزامات کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ یہ سلسلہ 1977 کے عام انتخابات سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔ اس سے قبل کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کم و بیش 38 برس گزر جانے کے باوجود انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی کوئی عملی کوشش کیوں نہیں کی گئی، ماضی میں ہونے والے انتخابات پر لگنے والے دھاندلی کے بعض الزامات اور ان کے پس منظر پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ ذیل میں پیش کیے جانے والے چند واقعات سے نئی نسل کو ملکی انتخابی تاریخ کا کسی حد تک اندازہ ہوسکے گا، جب کہ پرانی نسل کے لوگوں کی یادوں کے دریچے کھل جانے کی توقع ہے۔
1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کو1978 تک اقتدار میں رہنے کا آئینی حق حاصل تھا ، لیکن بھٹو مرحوم کو ان کے بعض قریبی احباب نے مشورہ دیا کہ انتخابات ڈیڑھ برس قبل 1977کے اوائل میں کرا لیے جائیں، تو پارٹی کی خاطرخواہ کامیابی کا امکان ہے۔ چنانچہ یہ طے ہوا کہ انتخابات کے لیے فروری کا مہینہ نہایت موزوں ہے۔ اس بات کی سن گن جیسے ہی اپوزیشن کے کانوں تک پہنچی، اس نے وسیع تر اتحاد کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ بالآخر پاکستان نیشنل الائنس (PNA) وجود میں آیا ۔اس اتحاد میں نو جماعتیں شامل تھیں۔ اس اتحاد میں دائیں ، بائیں اور لبرل سوچ کی سبھی اپوزیشن جماعتیں شامل تھیں۔ اس اتحاد کا سیکریٹری جنرل جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما رفیق باجوہ کو بنایا گیا ، مگر اس اتحاد میں شامل ایک مذہبی جماعت کو جمعیت علمائے پاکستان کی بالادستی کسی طور قبول نہیں تھی۔ لہٰذا انھیں ہٹانے کے لیے اندرون خانہ ریشہ دوانیوں کا سلسلہ اتحاد کے قیام کے روز ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ اس زمانے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں دو سے تین دن کا وقفہ ہوا کرتا تھا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات 7فروری کو منعقد ہوئے اور قومی اسمبلی کے 10فروری کو۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ PNA کی تشکیل کا مقصد شروع میں مزید شہری آزادیوں کا حصول، انتقامی کارروائیوں کا خاتمہ اور جمہوری عمل کا تسلسل بیان کیا گیا تھا ، مگر مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم نے اچانک نظام مصطفیٰ کا نعرہ لگا کرPNAکی پوری تحریک کی سمت تبدیل کردی۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ پہلے سے کوئی طے شدہ منصوبہ تھا یا مولانا مرحوم کے ذہن کی کوئی فوری اختراع۔ البتہ یہ طے ہے کہ مولانا نورانی مرحوم سازشی انسان نہیں تھے، بلکہ صاف گو اور واضح خیالات کی حامل شخصیت تھے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس اتحاد میں شامل ایک مذہبی جماعت نے بعض نادیدہ قوتوں کے اشارے پر مولانا کو تحریک کی سمت تبدیل کرنے پر اکسایا حالانکہ اس تحریک میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے بعد سردار شیر باز مزاری کی قیادت میں یہ جماعت تشکیل دی گئی تھی) جیسی لبرل جماعت بھی شامل تھی، جس کا سیاسی ایجنڈا کسی بھی طورتھیوکریٹک ریاست کا قیام نہیں تھا۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ قیام پاکستان کی پہلی دہائی کے دوران تو سول بیوروکریسی اقتدار و اختیار کے تمام معاملات پر مکمل طورپر حاوی تھی، لیکن بعد میں اس کی حیثیت قدرے ثانوی ہوگئی، مگر ریاستی انتظام میں اس کی کلیدی اہمیت بہرحال برقرار رہی۔ سیاسی حکومتوں کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں اس کی اپنی مخصوص مہارت رہی ہے۔ لہٰذا نادیدہ قوتوں نے جو بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کرچکی تھیں، سول بیوروکریسی کے ذریعے بعض حلقوں میں دیدہ و دانستہ دھاندلی کرائی۔ لاڑکانہ کی نشست سے بھٹو مرحوم کو بلا مقابلہ منتخب کراکے دراصل ان کی کمر میں چھری گھونپی۔ ان واقعات کو بنیاد بناتے ہوئے PNA نے دو روز بعد ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا اور طے شدہ منصوبے کے تحت بھٹو کے خلاف تحریک شروع کردی۔ اسی دوران یہ خبر عام کی گئی کہ رفیق باجوہ مرحوم نے بھٹو مرحوم سے خفیہ ملاقات کی ہے۔ یوں انھیں طے شدہ منصوبے کے تحت PNA کے جنرل سیکریٹری کے عہدے سے ہٹوا دیا۔ ان کی جگہ جماعت اسلامی کے پروفیسر غفوراحمد مرحوم جنرل سیکریٹری بنادیے گئے۔ بالآخر بھٹو مرحوم کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے بھٹو مرحوم کی معاونت عبدالحفیظ پیرزادہ مرحوم اور مولانا کوثر نیازی مرحوم کررہے تھے ، جب کہ PNA کی ٹیم میں نوابزادہ مرحوم ، مفتی محمود مرحوم اور پروفیسر غفور مرحوم شامل تھے۔
یہ مذاکرات تقریباً کامیاب ہوگئے تھے، جس کا تذکرہ پروفیسر غفور مرحوم اور مولانا کوثر نیازی مرحوم نے اپنی کتابوں میں کیا ہے، مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے، بھٹو کو ہٹانے کا فیصلہ صرف پاکستان کے اقتدار کے مراکز ہی میں نہیں ہوا تھا، بلکہ واشنگٹن بھی یہی کچھ چاہتا تھا۔ اس لیے4اور 5جولائی1977کی درمیانی شب بھٹو مرحوم کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ بھٹو مرحوم میں بہت سی خوبیاں اور خامیاں تھیں مگر ان کے کریڈٹ میں بڑے اور نمایاں کارنامے تھے۔ انھوں نے ملک کو آئین دیا، ملک کے جوہری پروگرام کی داغ بیل ڈالی اور اسٹیل مل جیسا منصوبہ سوویت یونین سے حاصل کیا۔ جہاں تک مذہبی اقدامات کا تعلق ہے، تو انھوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا اور بعض متنازع آئینی ترامیم کرکے مذہبی حلقوں کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں انھوں نے شراب پر پابندی کے علاوہ جمعے کی ہفتہ وار چھٹی کا بھی اعلان کیا، جس پر عمل درآمد جنرل ضیا نے کیا۔ اسی طرح افغانستان میں سردار داؤد کی حکومت کے خلاف افغان مولویوں کو بغاوت پر اکسانے کے لیے ان کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا، جس کا فائدہ بھی بعد میں جنرل ضیا ہی نے اٹھایا ۔ موخرالذکر تمام اقدامات مذہبی قوتوں کے حق میں جاتے ہیں، مگر ان تمام باتوں کے باوجود طے شدہ منصوبے کے تحت ان کا اقتدار سے ہٹایا جانا ٹہرگیا تھا۔
اس کے بعد 1984میں ہونے والا مضحکہ خیز ریفرنڈم بھی انتخابی دھاندلیوں کی ایک نادر مثال کے طورپر سامنے آتا ہے۔ پھر 1988میں پیپلز پارٹی کی نشستیں کم کرنے اور اسے اسٹبلشمنٹ کا دست نگر بنانے کی سازش میں انتخابی دھاندلیوں کا کلیدی کردار تھا۔1990کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو دانستہ شکست سے دوچار کیا گیا، اس مقصد کے لیے انتخابی عمل میںPreاور Postدھاندلیاں کی گئیں۔ 1993میں گو کہ پیپلز پارٹی کو کامیابی میسر آئی، مگر یہ بھی نادیدہ قوتوں کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھی۔ پھر1997میں مسلم لیگ (ن) کے بھاری مینڈیٹ کے پیچھے بھی ان گنت کہانیاں ہیں۔2002،2008 اور 2013کے انتخابات کے بارے میں بھی اسی نوعیت کے قصے مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ2002 میں خیبر پختونخوا میں MMAکی کامیابی کے پیچھے بھی نادیدہ قوتوں کی حکمت عملیوں کا ہاتھ تھا۔ چنانچہ اگر ہم صرف اپنے ہی تجربات بیان کرنے بیٹھ جائیں، تو1977 سے تادم تحریر جو کچھ دیکھا اور مشاہدہ کیا ، اس پر کم از کم ایک کتاب ضرور مکمل ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں 45 برسوں کے دوران10عام اور 7بلدیاتی انتخابات منعقد ہوچکے ہیں۔1970کے پہلے عام انتخابات کو چھوڑ کر باقی کوئی ایسا الیکشن نہیں ہے، جس میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کے الزامات عائد نہ ہوئے ہوں ، لیکن ریاست کے مقتدر حلقے(سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) انتخابی اصلاحات پر توجہ دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ انتخابی نظام جس میں بیشمار اسقام پائے جاتے ہیں، ملک کے سیاسی اور غیر سیاسی مقتدر اشرافیہ کے لیے سود مند ہے۔ چنانچہ کوئی بھی حلقہ اس بات کے حق میں نہیں کہ انتخابی عمل میں اصلاحات لائی جائیں، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے اور اسے انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت دی جائے۔ خود دھاندلی کا واویلا مچانے والی تحریک انصاف بھی صرف شور مچاتی ہے، مگر اتخابی اصلاحات کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کرنے اور اصلاحات کمیشن کے اجلاسوں کے انعقاد کے لیے دباؤ ڈالنے سے گریز کرتی ہے۔
کہنے کو بہت کچھ ہے، لیکن اپنی گفتگو اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ اگر ملک کو واقعی جمہوری بنانا ہے تو دواقدامات نہایت اہم ہیں۔اول، ریاست کے ساتھ معاشرے کو بھی جمہوریانہ(Democratise)ضروری ہے کیونکہ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جہاں ریاست جمہوری بھی ہے اور سیکولر بھی مگر عوام ابھی تک نہ جمہوری ہوسکے ہیں اور نہ سیکولر۔دوئم، شفاف اور غیر متنازع انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو، اس کی انتظامی اور مالیاتی با اختیاریت اور انتخابی عمل میں کلیدی نوعیت کی اصلاحات نہایت ضروری ہوچکی ہیں۔ اس کے بغیر تمام شور شرابہ بے معنی ہے۔