قابل تقلید

موت کے وقت امیر المومنین کے پاس صرف ایک وہی جوڑا تھا جو وہ زیب تن کیے ہوئے تھے ۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

عام طور پر جب کسی نبی و رسول یا صحابیؓ کی مثال دی جائے تو ہم بڑے حیلے اور بہانے تراشتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''بھلا وہ کہاں اور ہم کہاں؟ نیکیوں اور اچھائیوں میں ہم کہاں بھلا ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟''

لیکن جناب! حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کوئی نبی تھے نہ رسول اور نہ ہی کوئی صحابی، وہ ایک عام انسان تھے جنھوں نے اپنی حکومت کے انتہائی قلیل دورانیے میں بے حد عظیم کارہائے نمایاں سرانجام دیے جو ہمارے حکمرانوں کے لیے مشعل راہ و مینارہ نور کا درجہ رکھتے ہیں۔ حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز نے حکومتی اصلاح کرپشن اور بد عنوانی کے خاتمے نیز سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے اپنی ذات، خاندان، رشتے داروں اور حکومت کے زیر اثرگورنروں، والیوں اور حاکموں کے احتساب کے لیے جو اقدام اٹھائے وہ کسی معجزے سے کم معلوم نہیں ہوتے، بجا طور پر یہ ہمارے حکمرانوں کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔

حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز جنھیں بجا طور پر پانچواں خلیفہ راشد بھی کہاجاتا ہے آپ کا پورا نام عمر بن عبدالعزیز بن مروان تھا،آپ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، خلیفہ اسلام بننے سے پہلے بیش قیمت لباس اور عطریات کے بے حد شوقین تھے جوکپڑا ایک مرتبہ پہن لیتے دوبارہ نہیں پہنتے تھے خوشبو کے لیے مشک اور عنبر استعمال کرتے تھے جب آپ مدینہ منورہ کے گورنر بنائے گئے تھے اس وقت ان کا ذاتی سازوسامان اس قدر زیادہ تھا کہ صرف سامان سے 30 اونٹ لاد کر مدینہ منورہ بھیجے گئے۔

رجا بن حیوۃ (وزیراعظم خلیفہ ولید) بیان کرتے ہیں کہ ہماری سلطنت میں سب سے زیادہ خوش لباس، معطر اور خوش خرام شخص عمرؒ بن عبدالعزیز تھے، لیکن جس دن خلیفہ اسلام بنائے گئے آپ نے ساری جاگیریں اصل مالکوں کو واپس کردیں اور لباس و عطر سازوسامان محلات، لونڈی، غلام اور سواریاں سب بیچ دیا اور قیمت بیت المال میں جمع کرادی، خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب آپؒ کو مدینہ منورہ کا گورنر بنایا تو آپ نے فرمایا، اس شرط پرگورنری منظورکرتا ہوں کہ مجھے پہلے گورنروں کی طرح ظلم کرنے پر مجبورنہ کیا جائے۔

سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد وصیت نامہ سامنے آیا تو آپ نے عام مسلمانوں کو جمع کر کے ارشاد فرمایا: ''اے لوگو! میری خواہش اور تمہارے استصواب کے بغیر مجھے خلیفہ بنایا گیا ہے۔ میں تمہیں اپنی بیعت سے آزاد کرتا ہوں۔ تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کر لو'' مجمع سے بالاتفاق آواز آئی ''یا امیر المومنین! ہمارے خلیفہ آپ ہیں'' آپ نے فرمایا ''صرف اس وقت تک جب تک کہ میں اطاعت الٰہی کی حد سے باہر قدم نہ رکھوں'' اب آپ کے سامنے شاہی سواریاں پیش کی گئیں کہ آپ شاہی محل میں تشریف لے چلیے ۔ فرمایا، میرے لیے خچرکافی ہے اور سب سواریاں واپس کردیں۔

امیر معاویہؓ سے خلیفہ سلمان تک جتنے بھی اچھے اچھے علاقے، جاگیریں اور زمین مسلمانوں کے ہاتھ آئیں وہ سب بنو امیہ والوں کو عطا کردی گئی تھیں، امت کی دو تہائی دولت شاہی سندات کے ساتھ انہی لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو حضرت عمرؒ نے بنو امیہ والوں کو جمع کرکے فرمایا ''یہ سب اموال ان کے اصل وارثوں کو واپس کردو''، انھوں نے کہا ''ہم سب کی گردن اتاردینے کے بعد ہی یہ ممکن ہے''۔

اس پر آپ نے عام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا اور آپ اپنی تمام خاندانی جاگیروں اور عطیات کی اسناد شاہی کا تھیلا اٹھائے تشریف لائے، منشی ایک ایک سند کو ہاتھ میں لے کر پڑھتا تو آپ ارشاد فرماتے ''میں نے یہ جاگیر اصل وارثوں سے حق میں چھوڑ دی اور پھر اس وقت وہ سند ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیے تھے صبح سے لے کر ظہر تک آپ نے اپنے تمام ذاتی اور خاندان عطیات کاٹ کاٹ کر ضایع کردیے اپنے ذاتی مال و دولت کو بیت المال میں داخل کرادیا پھر گھر تشریف لائے اور اپنی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک سے فرمایا ''اپنا وہ بیش قیمت ہار جو تمہیں والد نے دیا تھا، بیت المال میں داخل کردو یا مجھ سے الگ ہوجاؤ'' وفادار بیوی نے فوراً اپنا ہار پیش کیا۔


آپ کی وفات کے بعد جب فاطمہ کا بھائی خلیفہ بنا اور وہ ہار واپس کرنا چاہا تو اس نیک بی بی نے لینے سے انکارکردیا جب اپنا دامن پاک اور صاف ہوگیا تو پھر آپ نے اپنے خاندان والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور تمام غصب شدہ جائیدادیں اور اموال اصل وارثوں کو واپس کردیے۔

کسی نے کہاکہ اپنی اولاد کے لیے کچھ چھوڑیں ارشاد فرمایا کہ ''میں انھیں اپنے اﷲ عزوجل کے سپرد کرتاہوں'' آپ نے گھر والوں کے روزینے بند کردیے جب انھوںنے فرمائش کی تو فرمایا ''میرے پاس کوئی مال نہیں ہے اور بیت المال میں تمہارا حق اس قدر ہے جس قدر عام مسلمان کا ہے جو سلطنت کے آخری کنارے پر آباد ہو، پھر میں تمہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ کس طرح دے سکتا ہوں؟ خدا کی قسم! اگر ساری دنیا تمہاری ہم خیال بن جائے تو پھر بھی میں یہ نہیں کروںگا'' آپ نے سلطنت کے تمام ظالم عہدے داروں کو عہدوں سے الگ کردیا۔

سلطنت کا دفتری عملہ شاہی احکام کے اجرا میں کاغذ، قلم، دوات اور لفافے خوب استعمال کرتا تھا، حضرت عمرؒ نے اس فضول خرچی اور نمائش کی طرف توجہ فرمائی اور احکام صادر فرمائے ''اپنے قلم باریک کرلو، سطریں قریب قریب لکھا کرو، دفتری ضروریات میں کفایت شعاری برتو، میں مسلمانوں کے خزانے میں سے ایسی رقم صرف کرنا پسند نہیں کرتا جس سے براہ راست کوئی فائدہ نہ ہو'' آپ نے بیت المال سے کبھی معمولی فائدہ اٹھانا بھی گوارا نہ کیا، رات کو جب تک خلافت کے کام انجام دیتے تھے اس وقت بیت المال کی شمع روشن رکھتے اس کے بعد گل کر کے اپنا ذاتی چراغ جلاتے تھے۔

موت کے وقت امیر المومنین کے پاس صرف ایک وہی جوڑا تھا جو وہ زیب تن کیے ہوئے تھے ۔ پھر یہ جوڑا بھی سالم نہیں تھا اس میں بھی جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ خلافت کی ذمے دریوں اور آخرت میں خوابدہی کے خوف سے ہمیشہ لرزہ براندام رہتے اور اکثر بے ہوش ہوکر گرپڑتے تھے آپ کی بیوی آپ کو تسلی دیتی تھیں مگر آپ مطمئن نہ ہوتے فرماتے ''میں اس امت کے چھوٹے بڑے اور سیاہ و سفید امور کا ذمے دار ہوں، مجھے یہ یقین ہے کہ میری سلطنت کے اندر جس قدر بھی غریب، مسکین، یتیم، مسافر اور مظلوم موجود ہیں ان سب کی ذمے داری مجھ پر ہے اﷲ ان کے متعلق مجھ سے سوال کرے گا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان سب کے متعلق مجھ پر دعویٰ کریں گے اگر میں اﷲ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے جوابدہی نہ کرسکا تو میرا انجام کیا ہوگا؟

اسی حالت میں آپؒ نے خلافت کے ڈھائی برس گزارے، رجب 101ھ میں امیہ خاندان کے بعض لوگوں نے آپ کے غلام کو ایک ہزار اشرفی دے کر آپ کو زہر دلوادیا، آپ کو علم ہوا تو غلام کو پاس بلالیا، اس سے رشوت کی اشرفیاں لے کر بیت المال میں جمع کیں اور فرمایا ''میں تمہیں اﷲ کے لیے معاف اور آزاد کرتا ہوں'' پھر آپ نے وعظ و نصیحت سے بھرپور اپنا وصیت نامہ لکھوایا، پھر اپنے بیٹوں کو پاس بلایا اور فرمایا ''اے میرے بچو! دوباتوں میں سے ایک بات تمہارے باپ کے اختیار میں تھی ایک یہ کہ تم دولت مند ہوجاؤ اور تمہارا باپ دوزخ میں جائے دوسری یہ کہ تم محتاج رہو اور تمہارا باپ جنت میں داخل ہو، میں نے دوسری بات پسند کرلی اب میں تمہیں اﷲ کے حوالے کرتاہوں، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔

ترجمہ: ''یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لیے بنایا ہے جو زمین میں سربلندی اور فساد نہیں چاہتے اور اچھا انجام پرہیزگاروں کا ہے''

اے کاش! کہ ہمیں بھی کوئی ایسا حکمران نصیب ہوجائے تو ہمارا یہ ڈوبتا بیڑا پار لگ جائے۔
Load Next Story