پاکستان اسٹیل مکمل افراتفری کی صورتحال سے دوچار
پاکستان اسٹیل کے مجموعی نقصانات اور واجبات کی مالیت 354ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، ذرائع
پاکستان اسٹیل کی نجکاری کھٹائی میں پڑنے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔
پاکستان اسٹیل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ انتظامیہ اپنی کمٹمنٹ پوری نہ کرنے پر اسلام آباد کے سرکاری حلقوں اور متعلقہ اداروں میں اپنا اعتبار کھوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ 25نومبر کو پاکستان اسٹیل کا دورہ کرنے والی قائمہ کمیٹی سینیٹ کے سربراہ سینیٹر تاج حیدر نے جب وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل سے فون پر رابطہ کرکے فوری گیس بحال کرنے کی سفارش کی تو شاہدخاقان عباسی نے جواب دیا کہ پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ سچ نہیں بول رہی۔
پاکستان اسٹیل کے اسٹیک ہولڈرز اور اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کے مجموعی نقصانات اور واجبات کی مالیت 354ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، گیس بندش سے ماہانہ 2ارب روپے کا پیداواری نقصان ہورہا ہے، پلانٹ کو گیس بندش سے زیادہ غیرمعیاری خام مال سے نقصان پہنچا، ناقص منصوبہ بندی کے باعث تیار مصنوعات لاگت سے کم پر فروخت کی گئیں جس سے خسارے میں اضافہ ہوا، پاکستان اسٹیل کے بورڈ کی تشکیل اور تجربہ کار مشاق سربراہ کی تعیناتی سے بحالی ممکن تھی تاہم احتساب نہ ہونے اور سیاسی مصلحتوں کی بنا پر ملک کا اہم ترین ادارہ دیوالیہ کی کیفیت کا شکار ہے۔
جس کے خود اپنے آڈیٹر نے آڈٹ سے انکار کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عوام پر 40ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں میں بھی ان خسارے میں چلنے والے اداروںکا بڑا ہاتھ ہے، اس صورتحال میں انتظامیہ کی ناقص منصوبہ بندی اور اہلیت کا فقدان پاکستان اسٹیل کو پار لگانے میں ''عمل انگیز'' کا کردار ادا کررہا ہے۔ ادھر ادارے کی انتظامیہ نے متعلقہ وزارتوں سے مایوس ہونے کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے رجوع کرتے ہوئے گیس جلد بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔
سی ای او میجر جنرل ظہیر احمد خان کی جانب سے 30نومبر کو وزیر اعظم ہاؤس کو ارسال کردہ خط نمبر 8485 میں کہا گیاکہ گیس منقطع کرنے سے بلاسٹ فرنس اور کوک اوون بیٹریوں کو نقصان پہنچا،گیس بحالی میں تاخیر سے بلاسٹ فرنس کو بڑے پیمانے پر مرمت درکار ہوگی ۔
جس کے لیے پلانٹ کو 3 سال تک بند کرنا ہو گا۔ خط میں کہا گیاکہ بلاسٹ فرنس کو گرمانے اور گیس بحالی پر پیداوار کیلیے مطلوبہ سطح تک لانے کیلیے کم از کم 2 ماہ درکار ہیں، پاکستان اسٹیل کے پاس 5 ارب روپے کا نیم تیار شدہ میٹریل موجود ہے، اس میٹریل کو تیار مصنوعات کی شکل دینے کیلیے گیس اور مل کو جون 2016 تک چلانے کیلیے فنڈز درکار ہیں جس کی سمری پہلے ہی حکومت کو ارسال کی جاچکی ہے۔
پاکستان اسٹیل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ انتظامیہ اپنی کمٹمنٹ پوری نہ کرنے پر اسلام آباد کے سرکاری حلقوں اور متعلقہ اداروں میں اپنا اعتبار کھوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ 25نومبر کو پاکستان اسٹیل کا دورہ کرنے والی قائمہ کمیٹی سینیٹ کے سربراہ سینیٹر تاج حیدر نے جب وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل سے فون پر رابطہ کرکے فوری گیس بحال کرنے کی سفارش کی تو شاہدخاقان عباسی نے جواب دیا کہ پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ سچ نہیں بول رہی۔
پاکستان اسٹیل کے اسٹیک ہولڈرز اور اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کے مجموعی نقصانات اور واجبات کی مالیت 354ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، گیس بندش سے ماہانہ 2ارب روپے کا پیداواری نقصان ہورہا ہے، پلانٹ کو گیس بندش سے زیادہ غیرمعیاری خام مال سے نقصان پہنچا، ناقص منصوبہ بندی کے باعث تیار مصنوعات لاگت سے کم پر فروخت کی گئیں جس سے خسارے میں اضافہ ہوا، پاکستان اسٹیل کے بورڈ کی تشکیل اور تجربہ کار مشاق سربراہ کی تعیناتی سے بحالی ممکن تھی تاہم احتساب نہ ہونے اور سیاسی مصلحتوں کی بنا پر ملک کا اہم ترین ادارہ دیوالیہ کی کیفیت کا شکار ہے۔
جس کے خود اپنے آڈیٹر نے آڈٹ سے انکار کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عوام پر 40ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں میں بھی ان خسارے میں چلنے والے اداروںکا بڑا ہاتھ ہے، اس صورتحال میں انتظامیہ کی ناقص منصوبہ بندی اور اہلیت کا فقدان پاکستان اسٹیل کو پار لگانے میں ''عمل انگیز'' کا کردار ادا کررہا ہے۔ ادھر ادارے کی انتظامیہ نے متعلقہ وزارتوں سے مایوس ہونے کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے رجوع کرتے ہوئے گیس جلد بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔
سی ای او میجر جنرل ظہیر احمد خان کی جانب سے 30نومبر کو وزیر اعظم ہاؤس کو ارسال کردہ خط نمبر 8485 میں کہا گیاکہ گیس منقطع کرنے سے بلاسٹ فرنس اور کوک اوون بیٹریوں کو نقصان پہنچا،گیس بحالی میں تاخیر سے بلاسٹ فرنس کو بڑے پیمانے پر مرمت درکار ہوگی ۔
جس کے لیے پلانٹ کو 3 سال تک بند کرنا ہو گا۔ خط میں کہا گیاکہ بلاسٹ فرنس کو گرمانے اور گیس بحالی پر پیداوار کیلیے مطلوبہ سطح تک لانے کیلیے کم از کم 2 ماہ درکار ہیں، پاکستان اسٹیل کے پاس 5 ارب روپے کا نیم تیار شدہ میٹریل موجود ہے، اس میٹریل کو تیار مصنوعات کی شکل دینے کیلیے گیس اور مل کو جون 2016 تک چلانے کیلیے فنڈز درکار ہیں جس کی سمری پہلے ہی حکومت کو ارسال کی جاچکی ہے۔