نوجوان نسل کو ظہیر اختر کے افسانوں کوپڑھنا چاہیے سحر انصاری
مجموعہ ’’ریگزار‘‘ کی تعارفی تقریب سے جعفر احمد، مسلم شمیم اور صبا اکرام کا خطاب
پروفیسر سحر انصاری نے کہا ہے کہ کہ نوجوان نسل کو ادب کا مطالعہ کرنے کی بے حد ضرورت ہے، ہماری نوجوان نسل ادب سے دور ہو رہی ہے، نوجوانوں کو ظہیر اختر بیدری کے افسانوں کو بھی پڑھنا چاہیے تاکہ ان کا ادب سے شغف بڑھے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے سینئر صحافی،شاعر اور افسانہ نگار ظہیر اختر بیدری کے افسانوں کے مجموعہ ''ریگزار''کی تعارفی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے کیا، تعارفی تقریب آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کے زیراہتمام منعقد کی گئی تھی، اس موقع پر اپنے خطاب میں صبا اکرام نے کہا کہ ظہیر اختر بنیادی طور پر صحافی ہیں، ان کے کالموں میں جو تلخی ملتی ہے اس سے انھوں نے افسانوں کو بچائے رکھا ہے۔
یہ وسعت نگاہ، عقائد، نظریات اور حقائق کا سامنا کرنے کی جرأت رکھتے ہیں، انھوں نے ہمیشہ افسانوں میں تفصیلات سے گریز کیا ہے، ان کے افسانوں میں جزئیات و تفصیلات اگر کہیں ملی بھی تو اس سے کہانی پھیلاؤ کاشکار نہیں ہوتی، اکثروبیشتر کیفیت اور خیالات کے باعث ان کے افسانے چبھن کا احساس بھی رکھتے ہیں، سید جعفراحمد نے کہا کہ ناقدری اور ادبی گروہوں کی سیاست کے باعث ظہیر اختر کے کام کو وہ اہمیت اور فوقیت نہیں مل سکی جس کے وہ اصل میں حقدار ہیں، ان کا افسانوی مجموعہ ان کی نظریاتی شخصیت کا عکاس ہے جن آدرشوں کے ساتھ انھوں نے زندگی کے مشکل راستوں کو طے کیا ہے وہ سب ان کی کہانیوں میں کہیں علی الاعلان تو کہیں بین السطور اپنے وجود کی گواہی دیتے ہیں۔
مسلم شمیم نے کہا کہ ان کے افسانوں میں طبقاتی شعور و جدوجہد،ظلم اور استحصال کے شکار عوام کے احوال کو بے حد منصفانہ انداز میں بیان کیا ہے، اس موقع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ظہیر اختر نے کہا کہ وہ لوگ جو ادب میں حق اور سچائی کی تلقین کرتے ہیں وہ سچ کے ساتھ ہی جیتے مرتے ہیں کیونکہ سچ بولنے والے کو ختم کرنے سے سچ ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ ہر حال میں زندہ رہتا ہے، جب تک انسان طبقاتی تقسیم کے حقائق سے آگاہ نہیں ہوگا اسے مصیبتوں اور مشکلات کے ماحول سے نجات حاصل نہیں ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے سینئر صحافی،شاعر اور افسانہ نگار ظہیر اختر بیدری کے افسانوں کے مجموعہ ''ریگزار''کی تعارفی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے کیا، تعارفی تقریب آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کے زیراہتمام منعقد کی گئی تھی، اس موقع پر اپنے خطاب میں صبا اکرام نے کہا کہ ظہیر اختر بنیادی طور پر صحافی ہیں، ان کے کالموں میں جو تلخی ملتی ہے اس سے انھوں نے افسانوں کو بچائے رکھا ہے۔
یہ وسعت نگاہ، عقائد، نظریات اور حقائق کا سامنا کرنے کی جرأت رکھتے ہیں، انھوں نے ہمیشہ افسانوں میں تفصیلات سے گریز کیا ہے، ان کے افسانوں میں جزئیات و تفصیلات اگر کہیں ملی بھی تو اس سے کہانی پھیلاؤ کاشکار نہیں ہوتی، اکثروبیشتر کیفیت اور خیالات کے باعث ان کے افسانے چبھن کا احساس بھی رکھتے ہیں، سید جعفراحمد نے کہا کہ ناقدری اور ادبی گروہوں کی سیاست کے باعث ظہیر اختر کے کام کو وہ اہمیت اور فوقیت نہیں مل سکی جس کے وہ اصل میں حقدار ہیں، ان کا افسانوی مجموعہ ان کی نظریاتی شخصیت کا عکاس ہے جن آدرشوں کے ساتھ انھوں نے زندگی کے مشکل راستوں کو طے کیا ہے وہ سب ان کی کہانیوں میں کہیں علی الاعلان تو کہیں بین السطور اپنے وجود کی گواہی دیتے ہیں۔
مسلم شمیم نے کہا کہ ان کے افسانوں میں طبقاتی شعور و جدوجہد،ظلم اور استحصال کے شکار عوام کے احوال کو بے حد منصفانہ انداز میں بیان کیا ہے، اس موقع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ظہیر اختر نے کہا کہ وہ لوگ جو ادب میں حق اور سچائی کی تلقین کرتے ہیں وہ سچ کے ساتھ ہی جیتے مرتے ہیں کیونکہ سچ بولنے والے کو ختم کرنے سے سچ ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ ہر حال میں زندہ رہتا ہے، جب تک انسان طبقاتی تقسیم کے حقائق سے آگاہ نہیں ہوگا اسے مصیبتوں اور مشکلات کے ماحول سے نجات حاصل نہیں ہوگی۔