ایک اچانک تبدیلی
وزرائے اعظم نریندر مودی اور نواز شریف میں 160 سیکنڈ کی اتفاقیہ ملاقات سے سرد مہری کی برف پگھل گئی۔
KARACHI:
اور پھر اچانک موسم میں حدت پیدا ہو گئی۔ وزرائے اعظم نریندر مودی اور نواز شریف میں 160 سیکنڈ کی اتفاقیہ ملاقات سے سرد مہری کی برف پگھل گئی۔ گو کہ ایسا لگتا نہیں تھا۔ اس معکوس چال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختلافات میں مبالغہ آرائی کا دخل تھا۔
اصل مسئلہ انا کا لگتا ہے جس پر قابو پا لینا چاہیے۔ روس کے شہر اوفا میں ہونے والی ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا بھارت کا اصرار تھا کہ دہشت گردی کے سوا کسی اور مسئلہ پر بات نہیں ہو گی جب کہ پاکستان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا بنیادی مسئلہ ایجنڈے میں سرفہرست نہ ہوا تو بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وجہ سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہو گیا جب کہ پاکستان کا یہ اصرار بھی تھا کہ کشمیر کے حریت لیڈروں سے لازماً ملاقات کی جائے گی۔
آگرہ میں ہونے والی ملاقات کے بعد بھی انھی وجوہات پر مذاکرات ٹوٹ گئے تھے تب وفاقی وزیر سشما سوراج نے احتجاج کی آواز بلند کی تھی۔ بظاہر ان واقعات کی وجہ سے ایک ایسی رکاوٹ پیدا ہو گئی تھی جس کو توڑا جانا ضروری تھا جب کہ دونوں ملک آپس میں بہت فاصلے پر کھڑے ہوئے تھے۔ ایک دفعہ جب ان کے وزرائے اعظم کی ملاقات ہو گئی تو متحارب رویہ معدوم ہو گیا جس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان بامعنی ڈائیلاگ کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
وہ لوگ جو جامع مذاکرات پر زور دیتے ہیں ان کو اس بات کا احساس نہیں کہ جب بات کرنے کی نیت ہی نہ ہو تو لاتعداد رکاوٹیں خود بخود اٹھ کھڑی ہوتی ہیں لیکن جب تعمیری مذاکرات کی خواہش پیدا ہو جائے تو پھر منفی قسم کی رکاوٹیں خود بخود دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ دونوں وزرائے اعظم نے اپنی انا کو پس پشت ڈال دیا اور نارمل انسانوں کی طرح طرز عمل اختیار کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے تو یہاں تک کہا کہ مزید پیش رفت ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے قبل جو موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس وقت تک بات نہیں ہو گی جب تک کہ بعض شرائط پوری نہیں ہوتیں وہ موقف اب تبدیل ہو گیا ہے۔
میں برصغیر کے حالات کا چار عشروں سے زیادہ عرصے تک بڑا قریبی جائزہ لیتا رہا ہوں اور میرا ماننا یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر نہ ہونے میں بڑی وجہ عدم اعتماد کی ہے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ عدم اعتماد اپنے طور پر کوئی بیماری نہیں بلکہ بیماری کی علامت ہے۔ بیماری درحقیقت بھارت دشمن جذبات ہیں اور پاکستان بھی یہی کہہ سکتا ہے کہ بھارت میں پاکستان دشمن جذبات بداعتمادی کی وجہ ہیں۔
اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ جب تک دونوں ملک ایک دوسرے پر اعتماد پر نہ کریں اس وقت تک بات چیت بامقصد نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں میں بے شمار معاہدے ہوئے ہیں لیکن وہ صرف کاغذات پر ہی لکھے رہ گئے ہیں۔ خواہ یہ معاہدہ تاشقند میں ہوا ہو یا شملہ میں دوستی کے مقدس الفاظ کبھی بھی سچ ثابت نہیں ہوئے۔ دونوں کو ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں۔ آج بھی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ہم عملی طور پر اسی سطح پر ہیں جس پر تقسیم برصغیر کے موقع پر تھے۔ جب مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا جا رہا تھا جو کہ بالآخر پورا بھی ہو گیا۔ اصل میں عدم اعتماد بھارت اور پاکستان کی شکل میں ایک مکمل ادارے کی صورت اختیار کر گیا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بداعتمادی میں آج بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ ہم دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے خلاف اذیتوں کی داستانیں سنتے رہتے ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ بالآخر دونوں ملکوں میں بات چیت ہونا ہی ہے گو کہ بھارت اس معاملے میں تذبذب کا شکار ہے۔ اسے ڈر ہے کہ کہیں وہی دشمنی عود کر باہر نہ آ جائے۔ فریقین کو دشمنی کے پرانے باب بند کر کے نئے سرے سے تعلقات کا آغاز کرنا ہو گا۔
بہرحال یہ بڑا مشکل نظر آتا ہے تاہم اگر پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ان الفاظ کی پیروی کرے جو انھوں نے قیام پاکستان کے بعد ادا کیے تھے تو معاملات آسان ہو سکتے ہیں۔ قائد نے کہا تھا کہ اب آپ لوگ یا بھارتی ہونگے یا پاکستانی۔ اور مسلمان اور ہندو نہیں رہو گے، لیکن یہ مذہبی طور پر نہیں ہو گا بلکہ اس کا مقصد دوسرا ہے۔
لیکن پاکستان کے حالات قائداعظم کی خواہشات سے بہت بعید ہیں۔ اب یہ ایک خالصتاً اسلامی ریاست بن گیا ہے جس میں مذہبی عناصر کو اہم مقام حاصل ہے۔ پاکستان میں ہندوؤں کی تعداد 2 فیصد سے بھی کم ہے اور ان میں سے بھی زیادہ تر ہجرت کر کے بھارت چلے گئے ہیں جب کہ دوسرے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جب بابری مسجد منہدم ہوئی تو پاکستان میں ہندوؤں کے بہت سے مندر اور گوردوارے بھی تباہ کر دیے گئے۔
اس پس منظر میں کشمیر کا تنازعہ قابل فہم ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی یہ بات درست تھی جب انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس کشمیر کا جو علاقہ ہے وہ پاکستان کے پاس ہی رہے گا اور جو بھارت کے پاس ہے وہ اسی کے پاس رہے گا۔ لیکن انھوں نے آگے جو بات کہی وہ نہ تو قابل عمل ہے اور نہ ہی حقیقت پسندانہ ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کشمیر کو خالی کر دیں۔ یہ بات اچھی تھی یا بری تھی کہ جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن میں بدل دیا گیا جسے اب بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر اس کو ازسرنو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے نتیجے میں پھر وہی دشمنیاں سر اٹھا لیں گی جن کا ہم ماضی میں تجربہ کر چکے ہیں۔ یہ کشمیریوں کے لیے بے انصافی ہے جن کو تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن وہ دونوں حصوں کو دوبارہ ملانے کے لیے احتجاج نہیں کر رہے خواہ اس حوالے سے ان کے جذبات کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں۔ جنگ بندی لائن نے دونوں کو مطمئن کر دیا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل کلونت سنگھ سے' جنہوں نے کہ اس وقت فوجی آپریشن کی قیادت کی تھی' پوچھا گیا کہ وہ جنگ میں اپنی پیش قدمی کیوں جاری نہ رکھ سکے تو انھوں نے بتایا کہ انھیں حکومت کی طرف سے پیش قدمی سے روک دیا گیا تھا۔ حکومت کے سربراہ نہرو تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فوجی کارروائی کے ذریعے کشمیر کے اس حصے پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے تھے جہاں پنجابی بولی جاتی تھی۔ فاروق عبداللہ کو علم ہو گا کہ کشمیری زبان بولنے والا علاقہ بھارت کے پاس ہے۔
وادی سے پرے پنجابی بولنے والے مسلمان رہتے ہیں جن کی کشمیریات کے حوالے سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں۔ یہ درست ہے کہ سارے کشمیر کو سری نگر کے تحت ہونا چاہیے لیکن بھارت کے ساتھ الحاق کے بعد کچھ ایسے واقعات رونما ہونے لگے جن کی وجہ سے ریاست کو بغیر کسی رکاوٹ کے تقسیم کر دیا گیا۔ اب ہم اگر اس انتظام کو ختم کرنے کی کوشش کریں تو اس سے بھارت اور پاکستان دونوں کا نقصان ہو گا۔ انھوں نے دو جنگوں کے تجربات کیے ہیں۔
یہ کشمیریوں کے لیے انصاف کی بات تو نہیں لیکن انھیں یہ امر مجبوری ان حالات کو قبول کرنا پڑا ہے۔ اب اگر دونوں ملکوں میں کوئی اور جنگ ہوئی تو وہ ایٹمی جنگ ہو گی اور ایٹمی جنگ کو محدود نہیں رکھا جا سکتا اور اس کے نتیجے میں مکمل تباہی یقینی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تمام مسائل کا حل تلاش کریں۔ صرف معمول کے حالات ہی خطے کی ترقی کی ضمانت ہو سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے یورپ کی مثال موجود ہے۔ وہ سیکڑوں سال تک ایک دوسرے سے لڑتے رہے لیکن آج انھوں نے ایک اقتصادی یونین بنا رکھی ہے جو کہ یونان جیسے بیمار ملک کو بھی اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں مدد کر رہی ہے۔ بھارت اور پاکستان کو اس مثال سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
اور پھر اچانک موسم میں حدت پیدا ہو گئی۔ وزرائے اعظم نریندر مودی اور نواز شریف میں 160 سیکنڈ کی اتفاقیہ ملاقات سے سرد مہری کی برف پگھل گئی۔ گو کہ ایسا لگتا نہیں تھا۔ اس معکوس چال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختلافات میں مبالغہ آرائی کا دخل تھا۔
اصل مسئلہ انا کا لگتا ہے جس پر قابو پا لینا چاہیے۔ روس کے شہر اوفا میں ہونے والی ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا بھارت کا اصرار تھا کہ دہشت گردی کے سوا کسی اور مسئلہ پر بات نہیں ہو گی جب کہ پاکستان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا بنیادی مسئلہ ایجنڈے میں سرفہرست نہ ہوا تو بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وجہ سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہو گیا جب کہ پاکستان کا یہ اصرار بھی تھا کہ کشمیر کے حریت لیڈروں سے لازماً ملاقات کی جائے گی۔
آگرہ میں ہونے والی ملاقات کے بعد بھی انھی وجوہات پر مذاکرات ٹوٹ گئے تھے تب وفاقی وزیر سشما سوراج نے احتجاج کی آواز بلند کی تھی۔ بظاہر ان واقعات کی وجہ سے ایک ایسی رکاوٹ پیدا ہو گئی تھی جس کو توڑا جانا ضروری تھا جب کہ دونوں ملک آپس میں بہت فاصلے پر کھڑے ہوئے تھے۔ ایک دفعہ جب ان کے وزرائے اعظم کی ملاقات ہو گئی تو متحارب رویہ معدوم ہو گیا جس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان بامعنی ڈائیلاگ کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
وہ لوگ جو جامع مذاکرات پر زور دیتے ہیں ان کو اس بات کا احساس نہیں کہ جب بات کرنے کی نیت ہی نہ ہو تو لاتعداد رکاوٹیں خود بخود اٹھ کھڑی ہوتی ہیں لیکن جب تعمیری مذاکرات کی خواہش پیدا ہو جائے تو پھر منفی قسم کی رکاوٹیں خود بخود دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ دونوں وزرائے اعظم نے اپنی انا کو پس پشت ڈال دیا اور نارمل انسانوں کی طرح طرز عمل اختیار کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے تو یہاں تک کہا کہ مزید پیش رفت ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے قبل جو موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس وقت تک بات نہیں ہو گی جب تک کہ بعض شرائط پوری نہیں ہوتیں وہ موقف اب تبدیل ہو گیا ہے۔
میں برصغیر کے حالات کا چار عشروں سے زیادہ عرصے تک بڑا قریبی جائزہ لیتا رہا ہوں اور میرا ماننا یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر نہ ہونے میں بڑی وجہ عدم اعتماد کی ہے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ عدم اعتماد اپنے طور پر کوئی بیماری نہیں بلکہ بیماری کی علامت ہے۔ بیماری درحقیقت بھارت دشمن جذبات ہیں اور پاکستان بھی یہی کہہ سکتا ہے کہ بھارت میں پاکستان دشمن جذبات بداعتمادی کی وجہ ہیں۔
اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ جب تک دونوں ملک ایک دوسرے پر اعتماد پر نہ کریں اس وقت تک بات چیت بامقصد نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں میں بے شمار معاہدے ہوئے ہیں لیکن وہ صرف کاغذات پر ہی لکھے رہ گئے ہیں۔ خواہ یہ معاہدہ تاشقند میں ہوا ہو یا شملہ میں دوستی کے مقدس الفاظ کبھی بھی سچ ثابت نہیں ہوئے۔ دونوں کو ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں۔ آج بھی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ہم عملی طور پر اسی سطح پر ہیں جس پر تقسیم برصغیر کے موقع پر تھے۔ جب مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا جا رہا تھا جو کہ بالآخر پورا بھی ہو گیا۔ اصل میں عدم اعتماد بھارت اور پاکستان کی شکل میں ایک مکمل ادارے کی صورت اختیار کر گیا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بداعتمادی میں آج بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ ہم دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے خلاف اذیتوں کی داستانیں سنتے رہتے ہیں۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ بالآخر دونوں ملکوں میں بات چیت ہونا ہی ہے گو کہ بھارت اس معاملے میں تذبذب کا شکار ہے۔ اسے ڈر ہے کہ کہیں وہی دشمنی عود کر باہر نہ آ جائے۔ فریقین کو دشمنی کے پرانے باب بند کر کے نئے سرے سے تعلقات کا آغاز کرنا ہو گا۔
بہرحال یہ بڑا مشکل نظر آتا ہے تاہم اگر پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ان الفاظ کی پیروی کرے جو انھوں نے قیام پاکستان کے بعد ادا کیے تھے تو معاملات آسان ہو سکتے ہیں۔ قائد نے کہا تھا کہ اب آپ لوگ یا بھارتی ہونگے یا پاکستانی۔ اور مسلمان اور ہندو نہیں رہو گے، لیکن یہ مذہبی طور پر نہیں ہو گا بلکہ اس کا مقصد دوسرا ہے۔
لیکن پاکستان کے حالات قائداعظم کی خواہشات سے بہت بعید ہیں۔ اب یہ ایک خالصتاً اسلامی ریاست بن گیا ہے جس میں مذہبی عناصر کو اہم مقام حاصل ہے۔ پاکستان میں ہندوؤں کی تعداد 2 فیصد سے بھی کم ہے اور ان میں سے بھی زیادہ تر ہجرت کر کے بھارت چلے گئے ہیں جب کہ دوسرے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جب بابری مسجد منہدم ہوئی تو پاکستان میں ہندوؤں کے بہت سے مندر اور گوردوارے بھی تباہ کر دیے گئے۔
اس پس منظر میں کشمیر کا تنازعہ قابل فہم ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی یہ بات درست تھی جب انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس کشمیر کا جو علاقہ ہے وہ پاکستان کے پاس ہی رہے گا اور جو بھارت کے پاس ہے وہ اسی کے پاس رہے گا۔ لیکن انھوں نے آگے جو بات کہی وہ نہ تو قابل عمل ہے اور نہ ہی حقیقت پسندانہ ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کشمیر کو خالی کر دیں۔ یہ بات اچھی تھی یا بری تھی کہ جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن میں بدل دیا گیا جسے اب بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر اس کو ازسرنو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے نتیجے میں پھر وہی دشمنیاں سر اٹھا لیں گی جن کا ہم ماضی میں تجربہ کر چکے ہیں۔ یہ کشمیریوں کے لیے بے انصافی ہے جن کو تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن وہ دونوں حصوں کو دوبارہ ملانے کے لیے احتجاج نہیں کر رہے خواہ اس حوالے سے ان کے جذبات کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں۔ جنگ بندی لائن نے دونوں کو مطمئن کر دیا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل کلونت سنگھ سے' جنہوں نے کہ اس وقت فوجی آپریشن کی قیادت کی تھی' پوچھا گیا کہ وہ جنگ میں اپنی پیش قدمی کیوں جاری نہ رکھ سکے تو انھوں نے بتایا کہ انھیں حکومت کی طرف سے پیش قدمی سے روک دیا گیا تھا۔ حکومت کے سربراہ نہرو تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فوجی کارروائی کے ذریعے کشمیر کے اس حصے پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے تھے جہاں پنجابی بولی جاتی تھی۔ فاروق عبداللہ کو علم ہو گا کہ کشمیری زبان بولنے والا علاقہ بھارت کے پاس ہے۔
وادی سے پرے پنجابی بولنے والے مسلمان رہتے ہیں جن کی کشمیریات کے حوالے سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں۔ یہ درست ہے کہ سارے کشمیر کو سری نگر کے تحت ہونا چاہیے لیکن بھارت کے ساتھ الحاق کے بعد کچھ ایسے واقعات رونما ہونے لگے جن کی وجہ سے ریاست کو بغیر کسی رکاوٹ کے تقسیم کر دیا گیا۔ اب ہم اگر اس انتظام کو ختم کرنے کی کوشش کریں تو اس سے بھارت اور پاکستان دونوں کا نقصان ہو گا۔ انھوں نے دو جنگوں کے تجربات کیے ہیں۔
یہ کشمیریوں کے لیے انصاف کی بات تو نہیں لیکن انھیں یہ امر مجبوری ان حالات کو قبول کرنا پڑا ہے۔ اب اگر دونوں ملکوں میں کوئی اور جنگ ہوئی تو وہ ایٹمی جنگ ہو گی اور ایٹمی جنگ کو محدود نہیں رکھا جا سکتا اور اس کے نتیجے میں مکمل تباہی یقینی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تمام مسائل کا حل تلاش کریں۔ صرف معمول کے حالات ہی خطے کی ترقی کی ضمانت ہو سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے یورپ کی مثال موجود ہے۔ وہ سیکڑوں سال تک ایک دوسرے سے لڑتے رہے لیکن آج انھوں نے ایک اقتصادی یونین بنا رکھی ہے جو کہ یونان جیسے بیمار ملک کو بھی اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں مدد کر رہی ہے۔ بھارت اور پاکستان کو اس مثال سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)